کسی سے کم تر نہیں ہیں یہ۔۔۔

پیدایشی معذور بچوں کی پرورش سے غفلت سنگین امر ہے۔

پیدایشی معذور بچوں کی پرورش سے غفلت سنگین امر ہے۔ فوٹو: فائل

ہر نومولود اپنے والدین کی خصوصی توجہ اور محبت کا طالب ہوتا ہے، جس کے ذریعے ہی وہ اپنے گردوپیش کو سمجھتا اور سیکھنے کے عمل کو شروع کرتا ہے۔

اپنی حسوں کے ذریعے ماحول کو سمجھ کر شعور کی جانب سفر شروع کرتا ہے۔ یہ سب وہ اپنی ماں اور پھر اس کے ساتھ باپ اور پھر اپنے قریبی رشتے داروں کی مدد سے کرتا ہے، لیکن اگر خدانخواستہ نومولود بچہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہو تو پھر صورت حال یک سر مختلف ہو جاتی ہے اور ایسے بچوں کے والدین پہلے مرحلے میں تو شدید پریشانی اور تفکرات میں گھِر جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کسی کو بھی جب یہ پتا چلے کہ اس کے جگر گوشے میں یہ معذوری ہے تو یہ بھی کوئی چھوٹا غم تو نہیں ہوتا، لیکن اصل مرحلہ اس کے بعد کا ہوتا ہے۔ اب یہ سراسر والدین کا دوش ہوتا ہے کہ وہ اپنے آنگن کی اس ننھی کلی کی آب یاری کس طرح کرتے ہیں اور اسے اس کی معذوری کے باوجود کس طرح ایک مکمل انسان بناتے ہیں۔ بعض والدین اس مرحلے پر بد دل ہوکر اپنے بچے کی پرورش اس نہج پر نہیں کرتے، جس کی کہ اسے ضرورت ہوتی ہے، یا بعض اوقات نادانستگی میں ان سے یہ غفلت سر زد ہوجاتی ہے اور وہ بہ جائے اسے اضافی توجہ اور وقت دینے کے، الٹا اس کے برعکس رویہ اختیار کرتے ہیں۔ والدین کے اس طرز عمل کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

بچوں کی معذوری کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اول ذہنی معذوری اور دوم جسمانی معذوری۔ پہلی قسم کے حامل بچوں کے معاملات علیحدہ قسم کی پیچیدگیوں کے حامل ہوتے ہیں، جب کہ دوسری قسم کے بچوں کے مسائل اس سے بالکل جدا ہوتے ہیں۔ اگر بچے میں ذہنی طور پر کوئی مسئلہ ہے تو پھر یقیناً اسے بعد کی عمر تک یا شاید ہمیشہ دوسروں کی مدد اور موجودگی کی ضرورت رہے گی، لیکن دوسری طرف اگر بچے کا ذہن صحت مند ہے اور معذوری کا تعلق اس کے جسم سے ہے تو پھر اسے ابتداً احساس کم تری کے احساس سے نکال دیا جائے تو یہ ان کی زندگی کی بہت بڑی کام یابی ہوتی ہے اور پھر وہ مستقبل میں کسی طرح بھی ایک مکمل فرد سے کم نہیں رہتے۔ اس کے لیے ان کے والدین کو پہلے تو خود کو ذہنی طور پر مضبوط اور مستحکم کرتے ہوئے اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے اور پھر اسی صورت حال میں بہتر سے بہتر تربیت کی سعی کرنا چاہیے۔ پہلے وہ خود کو مکمل طور پر یقین دلا دیں کہ ہاں ان کے بچے میں اگر کوئی کمی ہے تو کیا ہوا وہ کوشش کر کے اسے اس کی ہمت اور قابلیت کے ذریعے اس مشکل سے نبردآزما ہونا سکھا دیں گے۔ اس کے بعد وہ بچے کی اس معذوری کے حوالے سے ماہرین سے ضرور مشورہ کریں اور اس کے لحاظ سے مناسب تعلیم وتربیت کا بندوبست کریں تاکہ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تمام مادی اور نفسیاتی پہلوئوں کو بھی مدنظر رکھا جا سکے اور زیادہ بہتر طریقے سے اس کے حوصلے کو بلند تر رکھا جا سکے۔



پیدایشی طور پر کسی جسمانی معذوری کے حامل بچوں کو جوں جوں شعور آتا جاتا ہے، وہ یہ جاننے لگتے ہیں کہ وہ دوسرے بچوں سے کس طرح مختلف ہیں اور ان میں فلاں جسمانی کمی موجود ہے۔ والدین کو چاہیے کہ عمر کے جس لمحے بھی وہ یہ محسوس کریں کہ بچے نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ اس میں یہ کمی ہے، فوراً اس کا حوصلہ بڑھائیں اور اس کی کام یابیوں کا ذکر کر کے اسے بتائیں کہ وہ ان سے کتنا بہتر ہے کہ اس کمی کے باوجود ان سے اچھا کام کر سکتا ہے۔ اسے یہ یقین دلائیں کہ دنیا میں ویسے بھی کوئی انسان مکمل نہیں ہوتا، کسی کے پاس کوئی صلاحیت اچھی ہوتی ہے تو کسی کے پاس کوئی قابلیت زیادہ ہوتی ہے، چناں چہ وہ کبھی اس جانب دیکھے بھی نہیں کہ وہ اس نعمت سے محروم ہے، بلکہ یہ دیکھے کہ قدرت نے اگر اسے یہ نعمت نہیں دی تو اس کے بدلے اسے دیگر کتنی بڑھیا صلاحیتیں دی ہیں۔


بچوں میں احساس کم تری کا پہلا احساس گھر کی ہم جولیوں کے درمیان ہی ہو جاتا ہے، جسے گھر کے افراد بہ آسانی سنبھال لیتے ہیں، لیکن اس کے بعد جب بچہ گھر سے باہر نکلتا ہے، تو پھر اس سے کہیں زیادہ بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچے شرارت میں اس کا مذاق بناتے ہیں تو کچھ بڑے بچے بھی احساس نہیں کرتے کہ ان کے اس عمل سے کسی کا دل کتنا دکھ رہا ہے۔ یہ ایسے بچوں کے والدین کے لیے اچھا خاصا کڑا وقت بن جاتاہے، کیوں کہ اگر وہ بچے کے اعصاب کو ٹوٹنے سے نہ بچا سکے تو بہت ممکن ہے کہ وہ زندگی کی آیندہ راہوں پر ایک اچھا سفر نہ کر سکے اور تھک کر بیٹھ جائے۔ یہ امر اس بچے کی زندگی کے لیے نہایت مہیب ثابت ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی والدین کسی قیمت پر اپنے کسی بھی بچے کی زندگی متاثر نہیں ہونے دینا چاہتے، لیکن نادانستگی میں وہ اس موقع پر اتنا متحرک نہیں ہو پاتے یا دیگر بچوں یا مصروفیات کی بنا پر غفلت کا مظاہرہ کر جاتے ہیں اور پھر بچے کا حوصلہ پست ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ یہ طے کر بیٹھتا ہے کہ اس نے معاشرے میں ایک عضو معطل ہی بن کر رہنا ہے اور اس کی محنت کرنے اور لکھنے پڑھنے سے بھی اسے معاشرے کی باتیں ہی سننا ہے۔



شعور کی منازل طے کرتے ہوئے جب بچہ دل برداشتہ ہونے لگے اور والدین کی بھر پور توجہ کے باوجود وہ اپنی شکستہ کیفیت سے نہ نکل پائے تو ایسے میں والدین کو چاہیے کہ وہ اسے فوراً سے پیش تر بچوں کے کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں۔ اسے معاشرے اور دنیا کے ایسے کام یاب ترین افراد کے بارے میں بتائیں، جو اس جیسی معذوری کے باوجود بھر پور زندگی گزار رہے ہیں، انہوں نے بھی ابتدا میں لوگوں کی جانب سے دل آزاری کا سامنا کیا، لیکن ہمت نہیں ہاری، آخر کار آج دنیا اور ان کے اردگرد کے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔ ہر قسم کی معذوری کے شکار لوگوں کی جدوجہد بہ آسانی ہمارے سامنے ہے۔

اگر بچہ اپنے ہم جماعتوں اور اپنے حلقے میں شامل بچوں کے خراب رویے کا شکار بن رہا ہے، تو ایسے میں یقیناً ایک یا دو بچے ایسے ضرور ہوں گے جو کہ اس کے قریب ہوں گے یا کم سے کم اس کا مذاق اڑانے والوں میں شامل نہیں ہوتے ہوں گے۔ اگر والدین ان کی مدد سے اس بچے کے حوصلے کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں تو یہ بہت کار آمد نسخہ ہو گا اور ظاہر ہے والدین ہر موقع پر تو بچے کے ساتھ نہیں ہوتے لہٰذا ایسی کسی بھی صورت حال میں وہ بچے کے لیے ڈھال کی طرح بن کر سامنے رہیں گے اور بچہ خود کو تنہا بھی نہیں سمجھے گا۔

بچے میں پیدایشی طور پر معذوری ہونا ایک طرف، لیکن مستقبل میں اس کی کام یاب اور فعال زندگی کا دارومدار سراسر اس کے والدین کی جانب سے کی جانے والی تربیت اور ان کی بھرپور دل چسپی سے نتھی ہے۔بعض اوقات والدین کی غفلت اور عدم توجہی اس کی معذوری سے زیادہ اسے عضو معطل بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
Load Next Story