اپنی معالج خود نہ بنیں
مستند طبیب ہی ہمارے عوارض کی بہتر تشخیص کرسکتا ہے۔
تعلیم یافتہ خاتون باشعور ہونے کے ناتے وہ بہت سے معاملات میں خود سے فیصلہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
زندگی کے دیگر معاملات میں تو ظاہر ہے اس امر میں اتنا مسئلہ نہیں، لیکن جب صحت کا معاملہ آجائے تو پھر یقیناً اس چیز کو دیکھنا چاہیے کہ وہ محض اپنے قیاس پر کوئی فیصلہ کس طرح کر رہی ہیں۔ عام طور پر صحت سے متعلق خود تشخیصی اور دوا تجویز کرنے کا رویہ متوسط اور اس سے اونچے طبقے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ چوں کہ غریب طبقے کی خواتین تو کم ہی تعلیم یافتہ ہوتی ہیں، لہٰذا وہ زیادہ تر ڈاکٹر کے مشورے پر ہی چلتی ہیں۔
خواتین کی اس عادت کی وجہ اول تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مصروفیات کے آگے صحت کو نظر انداز کرتی ہیں اور ڈاکٹر کے ہاں جانے کی زحمت سے بچنے کے لیے وہ خود سے فیصلہ کر لیتی ہیں کہ اس تکلیف کی وجہ یہ ہے، چناں چہ یہ ٹوٹکا یا یہ دوا آزما لی جائے۔ یہی نہیں بہت سی خواتین وزن گھٹانے اور بڑھانے سے لے کر خوب صورت نظر آنے تک بہت سی ادویات بنا کسی معالج کے مشورے کے استعمال کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ وٹامنز اور دیگر ضروری غذائی اجزا پر مشتمل ٹکیاں صبح شام کھانا تو کوئی بات ہی نہیں۔ اسی طرح بہت سے طریقہ ہائے علاج کو آسان سمجھا جاتا ہے کہ اس مرض میں فلاں دوا اور اس مرض میں فلاں گولی اکسیر ہے، حالاں کہ طریقہ علاج کوئی بھی ہو، یہ طریقہ کار کسی بھی طرح مناسب نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں بہت سے منفی اثرات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اس ضمن میں مختلف طبقہ ہائے عمر کی خواتین مختلف قسم کے خبط میں مبتلا ہوتی ہیں اور پھر اسی سوچ کو لے کر وہ سنی سنائی ادویات پر انحصار کرتے ہوئے بنا کسی معالج کے مشورے کے کوئی بھی دوا یا گولیوں کی شکل میں آنے والے غذائی نسخے استعمال کرنے لگتی ہیں۔ جیسے کسی کو رنگ گورا کرنے کا حل کسی دوا میں دکھائی دیتا ہے، تو کوئی گرتے اور سفید ہوتے بالوں کے لیے کوئی ایسی ہی دوا چن لیتا ہے، موٹا اور دبلا ہونے کے لیے خود سے استعمال کی جانے والی دوائوں کا چلن تو سب سے زیادہ عام نظر آتا ہے۔ یہاں تک کے قد بڑھانے کے لیے بھی بہت سی لڑکیاں غیر مناسب طریقے سے خود سے ایسی دوائیں استعمال کرنے لگتی ہیں، جو براہ راست ان کو دیگر عوارض میں دھکیل دیتے ہیں۔ اگر ان کا قد بڑھ بھی جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات کسی دوسری صورت میں سامنے آتے ہیں اور پھر پچھتانا پڑتا ہے۔
یاد رکھیں قدرتی چیزوں کا نعم البدل کبھی بھی مصنوعی چیزوں میں نہیں مل سکتا، میڈیکل اسٹوروں پر دست یاب قدرتی اجزا پر مشتمل نسخے سراسر طبی نقطہ نگاہ سے مریضوں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں اور انہیں کسی بھی مستند ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال کرنا خود کو نقصان پہچانے سے کسی طرح کم خطرناک نہیں۔ اگر آپ کسی بھی طبی عارضے کا شکار ہیں تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ ڈاکٹر کے مشورے سے کوئی نسخہ لیں اور پھر کوشش کریں کہ اپنی اس جسمانی کمی کو قدرتی اجزا سے پورا کریں۔
دفتروں میں کام کرنے والی خواتین بھی اب اس وبا کا شکار ہیں کہ بھوک کو مٹانے کے لیے سوپ، جوس، فروٹ کے بہ جائے وٹامنز کی گولیاں، ٹیبلیٹ، سیرپ استعمال کرتی ہیں، جب کہ بہت سی خواتین صحت مند رہنے اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ڈاکٹری نسخوں کے بغیر ہی وٹامنز اور منرل استعمال کرتی رہتی ہیں۔ یہ خواتین اکثر بے خبری میں ایسے وٹامنز بھی استعمال کرتے ہیں جو دیگر پیچیدگیوں کا باعث بن جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بہت سی عام بیماریوں کے حوالے سے بھی اکثر خواتین ڈاکٹر کے مشوروں کو اہمیت دینے کے بہ جائے خود سے چند ایک گولیاں مخصوص کر لیتی ہیں کہ اگر یہ طبیعت خراب ہونا ہے تو یہ دوا لینا ہے، جب کہ طبی نقطہ نگاہ سے ایک ہی مرض میں ہر مرتبہ ایک ہی دوا کارگر نہیں ہو سکتی۔ مرض کی وجوہات دراصل دوا کے کارگر ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرتی ہیں۔
یہ خواتین تو نزلے زکام سے لے کر الرجی تک اور جلداور بالوں کی، ناخنوں کی خوب صورتی کے لیے بھی وٹامن سی کا استعمال کرتی ہیں، بلکہ اپنی بچیوں اور بچوں کو بھی استعمال کرواتی ہیں۔ یورپی، امریکی، جرمنی اور پاکستانی سب ماہرین خوراک طب کا یہی ماننا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ کوئی دوا پرہیز واحتیاط کا نعم البدل نہیں اور کوئی وٹامنز، منرل صحت مند تازہ خوراک کا متبادل نہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وٹامنز اور اینٹی بایوٹکس دیگر دوائوں کی طرح ڈاکٹر کے لکھے گئے نسخوں پر استعمال کر لی جائیں، مگر از خود اور قبل از وقت حفظ ماتقدم کے طور پر وٹامنز اور اینٹی بایوٹکس کا استعمال صحت مندی کے بہ جائے بیماریوں کو حملہ آور ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ غیر ضروری طور پر زاید مقدار میں وٹامنز لینے والوں میں خواتین نمایان ہیں اور بعض اوقات ان کے اس رجحان کا خمیازہ پورے خاندان کو بھگتنا پڑتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اس شوق کا عادی اپنے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف کے لوگوں، ملنے جلنے والیوں کو بھی بنا دیتی ہیں۔ نتیجتاً ان جیسا بننے کی خواہش مند مزید خواتین بے دریغ وٹامنز کا استعمال کرنے والوں میں شامل ہو جاتی ہیں، جب کہ اس بارے میں وہ زیادہ معلومات بھی نہیں رکھتیں۔
یہی نہیں ایسی دوائوں کا مستقل استعمال آپ کو طویل مدت کے بعد بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا صنف نازک کو ضرور اپنی نازکی کا خیال رکھتے ہوئے اس خود تشخیصی ملٹی وٹامنز کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ خوب صورتی کو قائم ودائم رکھنے کے لیے سلم واسمارٹ نظر آنے کے لیے اور قبل از وقت بیمار ہونے سے بچنے کے لیے وٹامنز اور اینٹی بایوٹکس کے استعمال سے قبل از وقت اجتناب برتنا چاہیے۔
تعلیم یافتہ اور متمول طبقے کی خواتین کے ساتھ عام خواتین بھی اس سے مبرا نہیں۔ نزلہ، کھانسی، بخار اور سر درد کے لیے بھی اکثر خواتین نے خود سے کچھ ادویات مخصوص کر رکھی ہیں، جو اگرچے اتنی نقصان دہ نہیں، لیکن بعض اوقات یہ بھی کسی چھوٹی تکلیف کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے اس موقع پر بھی خود سے تشخیص کرکے دوا لینے سے گریز کریں۔
کسی بھی دوا، گولی، سیرپ اور انجکشن وغیرہ کو ڈاکٹری نسخے کے بغیر قطعی استعمال نہ کریں، بہ صورت دیگر آپ کسی دائمی اورمہلک بیماری کا شکار ہو سکتی ہیں اور آپ کی صحت ہمیشہ کے لیے دائو پر لگ سکتی ہے۔ اس لیے دوائوں کے بہ جائے تازہ اور متوازن خوراک پر توجہ دیں۔
زندگی کے دیگر معاملات میں تو ظاہر ہے اس امر میں اتنا مسئلہ نہیں، لیکن جب صحت کا معاملہ آجائے تو پھر یقیناً اس چیز کو دیکھنا چاہیے کہ وہ محض اپنے قیاس پر کوئی فیصلہ کس طرح کر رہی ہیں۔ عام طور پر صحت سے متعلق خود تشخیصی اور دوا تجویز کرنے کا رویہ متوسط اور اس سے اونچے طبقے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ چوں کہ غریب طبقے کی خواتین تو کم ہی تعلیم یافتہ ہوتی ہیں، لہٰذا وہ زیادہ تر ڈاکٹر کے مشورے پر ہی چلتی ہیں۔
خواتین کی اس عادت کی وجہ اول تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مصروفیات کے آگے صحت کو نظر انداز کرتی ہیں اور ڈاکٹر کے ہاں جانے کی زحمت سے بچنے کے لیے وہ خود سے فیصلہ کر لیتی ہیں کہ اس تکلیف کی وجہ یہ ہے، چناں چہ یہ ٹوٹکا یا یہ دوا آزما لی جائے۔ یہی نہیں بہت سی خواتین وزن گھٹانے اور بڑھانے سے لے کر خوب صورت نظر آنے تک بہت سی ادویات بنا کسی معالج کے مشورے کے استعمال کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ وٹامنز اور دیگر ضروری غذائی اجزا پر مشتمل ٹکیاں صبح شام کھانا تو کوئی بات ہی نہیں۔ اسی طرح بہت سے طریقہ ہائے علاج کو آسان سمجھا جاتا ہے کہ اس مرض میں فلاں دوا اور اس مرض میں فلاں گولی اکسیر ہے، حالاں کہ طریقہ علاج کوئی بھی ہو، یہ طریقہ کار کسی بھی طرح مناسب نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں بہت سے منفی اثرات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اس ضمن میں مختلف طبقہ ہائے عمر کی خواتین مختلف قسم کے خبط میں مبتلا ہوتی ہیں اور پھر اسی سوچ کو لے کر وہ سنی سنائی ادویات پر انحصار کرتے ہوئے بنا کسی معالج کے مشورے کے کوئی بھی دوا یا گولیوں کی شکل میں آنے والے غذائی نسخے استعمال کرنے لگتی ہیں۔ جیسے کسی کو رنگ گورا کرنے کا حل کسی دوا میں دکھائی دیتا ہے، تو کوئی گرتے اور سفید ہوتے بالوں کے لیے کوئی ایسی ہی دوا چن لیتا ہے، موٹا اور دبلا ہونے کے لیے خود سے استعمال کی جانے والی دوائوں کا چلن تو سب سے زیادہ عام نظر آتا ہے۔ یہاں تک کے قد بڑھانے کے لیے بھی بہت سی لڑکیاں غیر مناسب طریقے سے خود سے ایسی دوائیں استعمال کرنے لگتی ہیں، جو براہ راست ان کو دیگر عوارض میں دھکیل دیتے ہیں۔ اگر ان کا قد بڑھ بھی جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات کسی دوسری صورت میں سامنے آتے ہیں اور پھر پچھتانا پڑتا ہے۔
یاد رکھیں قدرتی چیزوں کا نعم البدل کبھی بھی مصنوعی چیزوں میں نہیں مل سکتا، میڈیکل اسٹوروں پر دست یاب قدرتی اجزا پر مشتمل نسخے سراسر طبی نقطہ نگاہ سے مریضوں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں اور انہیں کسی بھی مستند ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال کرنا خود کو نقصان پہچانے سے کسی طرح کم خطرناک نہیں۔ اگر آپ کسی بھی طبی عارضے کا شکار ہیں تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ ڈاکٹر کے مشورے سے کوئی نسخہ لیں اور پھر کوشش کریں کہ اپنی اس جسمانی کمی کو قدرتی اجزا سے پورا کریں۔
دفتروں میں کام کرنے والی خواتین بھی اب اس وبا کا شکار ہیں کہ بھوک کو مٹانے کے لیے سوپ، جوس، فروٹ کے بہ جائے وٹامنز کی گولیاں، ٹیبلیٹ، سیرپ استعمال کرتی ہیں، جب کہ بہت سی خواتین صحت مند رہنے اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ڈاکٹری نسخوں کے بغیر ہی وٹامنز اور منرل استعمال کرتی رہتی ہیں۔ یہ خواتین اکثر بے خبری میں ایسے وٹامنز بھی استعمال کرتے ہیں جو دیگر پیچیدگیوں کا باعث بن جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بہت سی عام بیماریوں کے حوالے سے بھی اکثر خواتین ڈاکٹر کے مشوروں کو اہمیت دینے کے بہ جائے خود سے چند ایک گولیاں مخصوص کر لیتی ہیں کہ اگر یہ طبیعت خراب ہونا ہے تو یہ دوا لینا ہے، جب کہ طبی نقطہ نگاہ سے ایک ہی مرض میں ہر مرتبہ ایک ہی دوا کارگر نہیں ہو سکتی۔ مرض کی وجوہات دراصل دوا کے کارگر ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرتی ہیں۔
یہ خواتین تو نزلے زکام سے لے کر الرجی تک اور جلداور بالوں کی، ناخنوں کی خوب صورتی کے لیے بھی وٹامن سی کا استعمال کرتی ہیں، بلکہ اپنی بچیوں اور بچوں کو بھی استعمال کرواتی ہیں۔ یورپی، امریکی، جرمنی اور پاکستانی سب ماہرین خوراک طب کا یہی ماننا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ کوئی دوا پرہیز واحتیاط کا نعم البدل نہیں اور کوئی وٹامنز، منرل صحت مند تازہ خوراک کا متبادل نہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وٹامنز اور اینٹی بایوٹکس دیگر دوائوں کی طرح ڈاکٹر کے لکھے گئے نسخوں پر استعمال کر لی جائیں، مگر از خود اور قبل از وقت حفظ ماتقدم کے طور پر وٹامنز اور اینٹی بایوٹکس کا استعمال صحت مندی کے بہ جائے بیماریوں کو حملہ آور ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ غیر ضروری طور پر زاید مقدار میں وٹامنز لینے والوں میں خواتین نمایان ہیں اور بعض اوقات ان کے اس رجحان کا خمیازہ پورے خاندان کو بھگتنا پڑتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اس شوق کا عادی اپنے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف کے لوگوں، ملنے جلنے والیوں کو بھی بنا دیتی ہیں۔ نتیجتاً ان جیسا بننے کی خواہش مند مزید خواتین بے دریغ وٹامنز کا استعمال کرنے والوں میں شامل ہو جاتی ہیں، جب کہ اس بارے میں وہ زیادہ معلومات بھی نہیں رکھتیں۔
یہی نہیں ایسی دوائوں کا مستقل استعمال آپ کو طویل مدت کے بعد بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا صنف نازک کو ضرور اپنی نازکی کا خیال رکھتے ہوئے اس خود تشخیصی ملٹی وٹامنز کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ خوب صورتی کو قائم ودائم رکھنے کے لیے سلم واسمارٹ نظر آنے کے لیے اور قبل از وقت بیمار ہونے سے بچنے کے لیے وٹامنز اور اینٹی بایوٹکس کے استعمال سے قبل از وقت اجتناب برتنا چاہیے۔
تعلیم یافتہ اور متمول طبقے کی خواتین کے ساتھ عام خواتین بھی اس سے مبرا نہیں۔ نزلہ، کھانسی، بخار اور سر درد کے لیے بھی اکثر خواتین نے خود سے کچھ ادویات مخصوص کر رکھی ہیں، جو اگرچے اتنی نقصان دہ نہیں، لیکن بعض اوقات یہ بھی کسی چھوٹی تکلیف کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے اس موقع پر بھی خود سے تشخیص کرکے دوا لینے سے گریز کریں۔
کسی بھی دوا، گولی، سیرپ اور انجکشن وغیرہ کو ڈاکٹری نسخے کے بغیر قطعی استعمال نہ کریں، بہ صورت دیگر آپ کسی دائمی اورمہلک بیماری کا شکار ہو سکتی ہیں اور آپ کی صحت ہمیشہ کے لیے دائو پر لگ سکتی ہے۔ اس لیے دوائوں کے بہ جائے تازہ اور متوازن خوراک پر توجہ دیں۔