آسان ذریعہ معاش مگر۔۔۔
اسکولوں کے ٹیوشن سینٹر سے خواتین ٹیوٹر مسائل کا شکار ہیں۔
اپنے معاش کی مجبوریوں کو حل کرنے کے لیے کسی بھی گھریلو لڑکی یا خاتون کو سب سے آسان کام یہ لگتا ہے کہ وہ ٹیوشن پڑھانا شروع کر دے۔
اپنی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے وہ اسکول اور کالج یا پھر اس سے بھی اگلے زمروں کے بچوں کو گھر پر ہی بہ آسانی پڑھا کر اتنے پیسے کما سکتی ہے، جس سے اس کے گھر کے معاشی مسائل کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں، یوں وہ گھر سے باہر جانے کی زحمت اٹھائے بغیر کسی بھی نوکری کے مساوی فائدے حاصل کر سکتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں ایک سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ ٹیوشن یا کوچنگ ہونی ہی نہیں چاہیے، کیوں کہ بچے کی تمام تعلیمی ضروریات اسکول میں ہی پوری کر دینی چاہیے۔ اگر کسی بچے کو ٹیوشن کی ضرورت ہو تو یہ دراصل اسکول کے اساتذہ کی ناکامی کا ثبوت ہوتاہے۔ اسی بنا پر بہت سے اسکولوں نے اپنے طلبہ کے ٹیوشن لینے پر قدغن لگا رکھی ہے۔ جوں ہی انہیں یہ اطلاع ملے کہ فلاں طالب علم یا طالبہ ٹیوشن لے رہا ہے وہ اسے نوٹس جاری کر دیتے ہیں اور والدین کی پیشی ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف قابل ذکر امر یہ ہے کہ ایسے ہی بہت سے اسکولوں کے اساتذہ مبینہ طور پر اسکول انتظامیہ کی ملی بھگت سے ان ہی بچوں کو ''ایکسٹرا کلاسز'' کے نام پر اپنے کوچنگ بلا کر پڑھا رہے ہوتے ہیں، بلکہ سرکاری کالجوں کے اساتذہ کی طرح وہ اپنے ٹیوشن والے بچوں پر خصوصی نظر کرم بھی رکھتے ہیں، انہیں اضافی توجہ بھی ملتی ہے اور امتحان میں اعلا نمبر بھی۔ یہی نہیں وہ اسکول کی کلاس میں اکثر چیزیں شام کو ٹیوشن کے لیے بھی رکھ چھوڑتے ہیں کہ اگر سب کچھ اسکول میں ہی پڑھا دیا تو ٹیوشن میں کیا کریں گے۔ اس تمام پس منظر میں سب سے زیادہ ایسی خواتین متاثر ہو رہی ہیں، جو بہ آسانی اپنے ہی گھر میں ٹیوشن پڑھا کر دو پیسے کما لیا کرتی تھیں۔
اب اگر وہ اس کی کوشش کرتی ہیں تو یہاں بھی اسکول کے اساتذہ براجمان نظر آتے ہیں اور یوں براہ راست معاشی مسائل کا شکار ایسی خواتین کا حق مارا جا رہا ہے، جو گھر بیٹھ کر روزگار حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری طرف اسکول میں ملازمت کرنے والے اساتذہ تو گھر سے نکل کر نوکری کر ہی رہے ہیں، اگر وہ اپنی آمدنی میں اضافہ چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ فرصت کے وقت میں کوئی دوسری ملازمت کرلیں، لیکن اس طرح غیر مناسب طریقے نہ اپنائیں، جس سے ہمارے معاشرے کی مسائل زدہ خواتین مزید مسائل سے دوچار ہو رہی ہیں۔ وہ اپنے گھریلو مسائل یا مصروفیات کی بنا پر گھر سے نہیں نکل سکتیں یا زیادہ دیر گھر سے دور نہیں رہ سکتیں۔ ٹیوشن کی صورت میں وہ بہ یک وقت گھر اور ٹیوشن میں موجود رہتی ہیں اور انہیں سہولت رہتی ہے۔ اس میں کافی تعداد ایسی خواتین کی بھی ہے جو ماضی میں مختلف اسکولوں میں پڑھاتی رہی ہیں، مگر اب شادی اور بچوں کے بعد کی مصروفیات اب ان کے گھر سے باہر نکلنے میں مانع ہیں۔
ٹیوشن پڑھانا فرصت کے وقت کا بھی ایک اہم مصرف ہے، جس سے کچھ آج کل کی منہ زور منہگائی میں آمدنی بھی ہو جاتی ہے اور بعض بچوں کو واقعتاً اسکول کے بعد اضافی کلاسوں کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر پوری کلاس میں ان کے اپنے نصاب کے بہت سے تصورات واضح نہیں ہو پاتے۔ اس لیے انہیں اضافی اور انفرادی توجہ کے حصول کے لیے ٹیوشن کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ اس لیے طلبہ کے لیے بھی اسے مکمل طور پر رد کرنا مناسب امر نہیں، دوسری طرف دیگر جگہوں سے ٹیوشن لینے پر پابندی کرنا تو اس سے بھی زیادہ غلط ہے۔ اس سے نہ صرف گھر بیٹھے کمانے والی خواتین مسائل کا شکار ہو رہی ہیں، بلکہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایک ٹیچر اسکول میں اپنی بات نہیں سمجھا پا رہا تو کیا ضروری ہے کہ وہ ٹیوشن میں اس میں کام یاب ہو جائے۔
دراصل ہمارے مادیت پرست معاشرے میں لوگوں میں کسی کی مدد کا احساس تک ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسکولوں میں بھی پیسے کمانے کا ذریعہ ہیں۔ اب اگر ان کے کسی اقدام سے کسی مجبور خاتون کے گھر پر اثر پڑتا ہے تو ان کی بلا سے۔۔۔ انہوں نے تو صرف اپنا مفاد ہی سوچنا ہے۔ حالاں کہ ایسے اسکولوں میں کہا بھی گیا کہ آپ اپنی اس حکمت عملی کو بدلیں تاکہ ایسی خواتین کے گھروں کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ دوسری طرف افسوس ناک پہلو یہ کہ اس جانب شاید کسی کی بھی توجہ نہیں کہ کم سے کم اس کے خلاف آواز ہی اٹھائے کہ گھر بیٹھی خواتین کو ان کے حق آمدنی سے محروم تو نہ کرو۔
اپنی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے وہ اسکول اور کالج یا پھر اس سے بھی اگلے زمروں کے بچوں کو گھر پر ہی بہ آسانی پڑھا کر اتنے پیسے کما سکتی ہے، جس سے اس کے گھر کے معاشی مسائل کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں، یوں وہ گھر سے باہر جانے کی زحمت اٹھائے بغیر کسی بھی نوکری کے مساوی فائدے حاصل کر سکتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں ایک سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ ٹیوشن یا کوچنگ ہونی ہی نہیں چاہیے، کیوں کہ بچے کی تمام تعلیمی ضروریات اسکول میں ہی پوری کر دینی چاہیے۔ اگر کسی بچے کو ٹیوشن کی ضرورت ہو تو یہ دراصل اسکول کے اساتذہ کی ناکامی کا ثبوت ہوتاہے۔ اسی بنا پر بہت سے اسکولوں نے اپنے طلبہ کے ٹیوشن لینے پر قدغن لگا رکھی ہے۔ جوں ہی انہیں یہ اطلاع ملے کہ فلاں طالب علم یا طالبہ ٹیوشن لے رہا ہے وہ اسے نوٹس جاری کر دیتے ہیں اور والدین کی پیشی ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف قابل ذکر امر یہ ہے کہ ایسے ہی بہت سے اسکولوں کے اساتذہ مبینہ طور پر اسکول انتظامیہ کی ملی بھگت سے ان ہی بچوں کو ''ایکسٹرا کلاسز'' کے نام پر اپنے کوچنگ بلا کر پڑھا رہے ہوتے ہیں، بلکہ سرکاری کالجوں کے اساتذہ کی طرح وہ اپنے ٹیوشن والے بچوں پر خصوصی نظر کرم بھی رکھتے ہیں، انہیں اضافی توجہ بھی ملتی ہے اور امتحان میں اعلا نمبر بھی۔ یہی نہیں وہ اسکول کی کلاس میں اکثر چیزیں شام کو ٹیوشن کے لیے بھی رکھ چھوڑتے ہیں کہ اگر سب کچھ اسکول میں ہی پڑھا دیا تو ٹیوشن میں کیا کریں گے۔ اس تمام پس منظر میں سب سے زیادہ ایسی خواتین متاثر ہو رہی ہیں، جو بہ آسانی اپنے ہی گھر میں ٹیوشن پڑھا کر دو پیسے کما لیا کرتی تھیں۔
اب اگر وہ اس کی کوشش کرتی ہیں تو یہاں بھی اسکول کے اساتذہ براجمان نظر آتے ہیں اور یوں براہ راست معاشی مسائل کا شکار ایسی خواتین کا حق مارا جا رہا ہے، جو گھر بیٹھ کر روزگار حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری طرف اسکول میں ملازمت کرنے والے اساتذہ تو گھر سے نکل کر نوکری کر ہی رہے ہیں، اگر وہ اپنی آمدنی میں اضافہ چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ فرصت کے وقت میں کوئی دوسری ملازمت کرلیں، لیکن اس طرح غیر مناسب طریقے نہ اپنائیں، جس سے ہمارے معاشرے کی مسائل زدہ خواتین مزید مسائل سے دوچار ہو رہی ہیں۔ وہ اپنے گھریلو مسائل یا مصروفیات کی بنا پر گھر سے نہیں نکل سکتیں یا زیادہ دیر گھر سے دور نہیں رہ سکتیں۔ ٹیوشن کی صورت میں وہ بہ یک وقت گھر اور ٹیوشن میں موجود رہتی ہیں اور انہیں سہولت رہتی ہے۔ اس میں کافی تعداد ایسی خواتین کی بھی ہے جو ماضی میں مختلف اسکولوں میں پڑھاتی رہی ہیں، مگر اب شادی اور بچوں کے بعد کی مصروفیات اب ان کے گھر سے باہر نکلنے میں مانع ہیں۔
ٹیوشن پڑھانا فرصت کے وقت کا بھی ایک اہم مصرف ہے، جس سے کچھ آج کل کی منہ زور منہگائی میں آمدنی بھی ہو جاتی ہے اور بعض بچوں کو واقعتاً اسکول کے بعد اضافی کلاسوں کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر پوری کلاس میں ان کے اپنے نصاب کے بہت سے تصورات واضح نہیں ہو پاتے۔ اس لیے انہیں اضافی اور انفرادی توجہ کے حصول کے لیے ٹیوشن کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ اس لیے طلبہ کے لیے بھی اسے مکمل طور پر رد کرنا مناسب امر نہیں، دوسری طرف دیگر جگہوں سے ٹیوشن لینے پر پابندی کرنا تو اس سے بھی زیادہ غلط ہے۔ اس سے نہ صرف گھر بیٹھے کمانے والی خواتین مسائل کا شکار ہو رہی ہیں، بلکہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایک ٹیچر اسکول میں اپنی بات نہیں سمجھا پا رہا تو کیا ضروری ہے کہ وہ ٹیوشن میں اس میں کام یاب ہو جائے۔
دراصل ہمارے مادیت پرست معاشرے میں لوگوں میں کسی کی مدد کا احساس تک ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسکولوں میں بھی پیسے کمانے کا ذریعہ ہیں۔ اب اگر ان کے کسی اقدام سے کسی مجبور خاتون کے گھر پر اثر پڑتا ہے تو ان کی بلا سے۔۔۔ انہوں نے تو صرف اپنا مفاد ہی سوچنا ہے۔ حالاں کہ ایسے اسکولوں میں کہا بھی گیا کہ آپ اپنی اس حکمت عملی کو بدلیں تاکہ ایسی خواتین کے گھروں کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ دوسری طرف افسوس ناک پہلو یہ کہ اس جانب شاید کسی کی بھی توجہ نہیں کہ کم سے کم اس کے خلاف آواز ہی اٹھائے کہ گھر بیٹھی خواتین کو ان کے حق آمدنی سے محروم تو نہ کرو۔