میاں محمد بخشؒ کی یاد میں دوسرا اور آخری حصہ
میاں محمد بخش رحمۃاللہ علیہ روحانیت کے انتہائی بلند درجے پر فائز ایک نابغہ روزگار صوفی شاعر تھے۔
PESHAWAR:
سن 1298 میں اپنے بڑے بھائی کے وصال کے بعد آپ نے سجادہ نشینی سنبھالی اور اپنی روحانی اور صوفیانہ شاعری کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ نے لاکھوں مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی اور غیر مسلموں خصوصاً ہندوؤں کو مشرف بہ اسلام کیا۔
ایک روز بعد نماز عصر آپ جب وظائف میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر فالج کا جان لیوا دورہ پڑا جس کے بعد آپ ایک دن اور ایک رات بے ہوشی کی حالت میں رہنے کے بعد 7ذی الحج 1324بمطابق جنوری 1907 اس جہان فانی سے رخصت ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ہر سال جب ماہ جنوری کی آمد ہوتی ہے حضرت میاں محمد بخش رحمۃاللہ علیہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
میاں محمد بخش رحمۃاللہ علیہ روحانیت کے انتہائی بلند درجے پر فائز ایک نابغہ روزگار صوفی شاعر تھے جنھوں نے پنجابی زبان کو اپنا ذریعہ اظہار بنا کر اسلام کا آفاقی پیغام عوام الناس تک انتہائی موثر انداز میں پہنچایا اور دین اسلام کی پورے خلوص کے ساتھ ناقابل فراموش خدمت انجام دی ہے۔ شاعری آپ کا اصل ذریعہ اظہار تھی حتیٰ کہ آپ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو خط بھی شاعری میں ہی لکھا کرتے تھے۔ آپ کے کلام میں دریا کی سی روانی اور معنی کا ایک سمندر موجزن ہوتا تھا۔ آپ صاحب کشف وکرامات تھے اور آپ سے بہت سی کرامات منسوب ہیں۔ آپ نے کسی سائل کو اپنے در سے کبھی خالی نہیں بھیجا۔
پنجابی کے علاوہ آپ اردو اور فارسی پر بھی بے پناہ عبور رکھتے تھے۔ آپ کے اشعار گوہر آبدار کی طرح درخشاں و تاباں ہوتے تھے۔ جب سیف الملوک کی تصنیف ہوئی اس وقت میاں محمد بخش کی عمر 33 سال تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے جو کچھ بھی اس قصہ سیف الملوک میں تحریر کیا ہے اس پر خوب دھیان دینا اور غور کرنا۔ اگر کوئی انسان خود اچھا ہے تو وہ دوسروں کو بھی اچھا ہی سمجھتا ہے اور اچھے لوگوں کا کام دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرنا ہے نہ کہ اچھالنا۔ فقرا کا کام تو فرمان رسولؐ پر عمل کرنا ہے کہ ''دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالو کیونکہ یہی بات اللہ تعالیٰ عزوجل کو پسند ہے۔'' عاشق کو تو صرف اور صرف اپنے محبوب میں اچھائیاں ہی اچھائیاں نظر آتی ہیں۔ اگر سچے خدا نے میرے کلام کو روشنی بخشی تو میرا کلام ہمیشہ کے لیے یادگار بن جائے گا۔
قصہ سیف الملوک رمضان المبارک کے موسم بہار میں تالیف ہوا ہے اور اس وقت میری عمر 33 برس ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پڑھنے اور سننے والوں کو ذوق و شوق عطا کرے اور وہ میرے حق میں دعائے خیر ضرور کریں کیونکہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے مستجاب الدعوات لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے کسی نیک بندے کی دعا قبول فرما دیں۔ وہ کہتے ہیں:
انس اولاد تاڈی بھائی پڑھسن بیٹھ قبر تے
اٹھویں روز دیون گے گلی جے کچھ گھروچہ ورتے
مینوں ہور نہیں کوئی پاسا آسا کس دے گھرتے
جاسی روح محمد میرا پیر سچے دے در تے
ترجمہ: میرا نہ تو کوئی گھر نہ ٹھکانہ ہے اور نہ ہی مجھے کسی کے گھر کی آس مراد ہے۔ اے محمد بخش! میں نے اور کہاں جانا ہے کیونکہ میری روح تو میرے پیر و مرشد کے در پر جائے گی۔ مراد یہ کہ میرا روحانی گھر اور ٹھکانہ تو میرے پیر و مرشد کا در ہی ہے۔
میاں محمد بخش فرماتے ہیں کہ:
ظاہر دل بکلائی کارن قصہ عشق مجازوں
اندر خانے خبراں دیسی فقرا نواں دے رازوں
رمزاں نال پروتا سارا چائیے سمجھن ہارے
ہمت اگے مشکل آساں ہمت مرد نہ ہارے
ترجمہ: میں نے یہ قصہ بظاہر دل لبھانے کے لیے عشق مجازی میں بیان کیا ہے مگر یہ اندر سے فقرا کے خفیہ رازوں کی خبر دے گا۔ یہ سارا قصہ اسرار و رموز میں پرویا ہوا ہے۔ صرف سمجھنے والوں کی ضرورت ہے اور اس کا لب لباب یہ ہے کہ ہمت کے آگے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ بشرطیکہ انسان ہمت نہ ہارے۔
سن 1298 میں اپنے بڑے بھائی کے وصال کے بعد آپ نے سجادہ نشینی سنبھالی اور اپنی روحانی اور صوفیانہ شاعری کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ نے لاکھوں مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی اور غیر مسلموں خصوصاً ہندوؤں کو مشرف بہ اسلام کیا۔
ایک روز بعد نماز عصر آپ جب وظائف میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر فالج کا جان لیوا دورہ پڑا جس کے بعد آپ ایک دن اور ایک رات بے ہوشی کی حالت میں رہنے کے بعد 7ذی الحج 1324بمطابق جنوری 1907 اس جہان فانی سے رخصت ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ہر سال جب ماہ جنوری کی آمد ہوتی ہے حضرت میاں محمد بخش رحمۃاللہ علیہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
میاں محمد بخش رحمۃاللہ علیہ روحانیت کے انتہائی بلند درجے پر فائز ایک نابغہ روزگار صوفی شاعر تھے جنھوں نے پنجابی زبان کو اپنا ذریعہ اظہار بنا کر اسلام کا آفاقی پیغام عوام الناس تک انتہائی موثر انداز میں پہنچایا اور دین اسلام کی پورے خلوص کے ساتھ ناقابل فراموش خدمت انجام دی ہے۔ شاعری آپ کا اصل ذریعہ اظہار تھی حتیٰ کہ آپ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو خط بھی شاعری میں ہی لکھا کرتے تھے۔ آپ کے کلام میں دریا کی سی روانی اور معنی کا ایک سمندر موجزن ہوتا تھا۔ آپ صاحب کشف وکرامات تھے اور آپ سے بہت سی کرامات منسوب ہیں۔ آپ نے کسی سائل کو اپنے در سے کبھی خالی نہیں بھیجا۔
پنجابی کے علاوہ آپ اردو اور فارسی پر بھی بے پناہ عبور رکھتے تھے۔ آپ کے اشعار گوہر آبدار کی طرح درخشاں و تاباں ہوتے تھے۔ جب سیف الملوک کی تصنیف ہوئی اس وقت میاں محمد بخش کی عمر 33 سال تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے جو کچھ بھی اس قصہ سیف الملوک میں تحریر کیا ہے اس پر خوب دھیان دینا اور غور کرنا۔ اگر کوئی انسان خود اچھا ہے تو وہ دوسروں کو بھی اچھا ہی سمجھتا ہے اور اچھے لوگوں کا کام دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرنا ہے نہ کہ اچھالنا۔ فقرا کا کام تو فرمان رسولؐ پر عمل کرنا ہے کہ ''دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالو کیونکہ یہی بات اللہ تعالیٰ عزوجل کو پسند ہے۔'' عاشق کو تو صرف اور صرف اپنے محبوب میں اچھائیاں ہی اچھائیاں نظر آتی ہیں۔ اگر سچے خدا نے میرے کلام کو روشنی بخشی تو میرا کلام ہمیشہ کے لیے یادگار بن جائے گا۔
قصہ سیف الملوک رمضان المبارک کے موسم بہار میں تالیف ہوا ہے اور اس وقت میری عمر 33 برس ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پڑھنے اور سننے والوں کو ذوق و شوق عطا کرے اور وہ میرے حق میں دعائے خیر ضرور کریں کیونکہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے مستجاب الدعوات لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے کسی نیک بندے کی دعا قبول فرما دیں۔ وہ کہتے ہیں:
انس اولاد تاڈی بھائی پڑھسن بیٹھ قبر تے
اٹھویں روز دیون گے گلی جے کچھ گھروچہ ورتے
مینوں ہور نہیں کوئی پاسا آسا کس دے گھرتے
جاسی روح محمد میرا پیر سچے دے در تے
ترجمہ: میرا نہ تو کوئی گھر نہ ٹھکانہ ہے اور نہ ہی مجھے کسی کے گھر کی آس مراد ہے۔ اے محمد بخش! میں نے اور کہاں جانا ہے کیونکہ میری روح تو میرے پیر و مرشد کے در پر جائے گی۔ مراد یہ کہ میرا روحانی گھر اور ٹھکانہ تو میرے پیر و مرشد کا در ہی ہے۔
میاں محمد بخش فرماتے ہیں کہ:
ظاہر دل بکلائی کارن قصہ عشق مجازوں
اندر خانے خبراں دیسی فقرا نواں دے رازوں
رمزاں نال پروتا سارا چائیے سمجھن ہارے
ہمت اگے مشکل آساں ہمت مرد نہ ہارے
ترجمہ: میں نے یہ قصہ بظاہر دل لبھانے کے لیے عشق مجازی میں بیان کیا ہے مگر یہ اندر سے فقرا کے خفیہ رازوں کی خبر دے گا۔ یہ سارا قصہ اسرار و رموز میں پرویا ہوا ہے۔ صرف سمجھنے والوں کی ضرورت ہے اور اس کا لب لباب یہ ہے کہ ہمت کے آگے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ بشرطیکہ انسان ہمت نہ ہارے۔