پولیس اصلاحات کی ضرورت

پولیس میں بھرتی ہونے والے ہر فرد سے قرآن پر حلف لیا جائے کہ وہ رشوت نہیں لے گا۔

mohsin014@hotmail.com

پاکستان میں موٹر وے پولیس کا محکمہ اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے نبھا رہا ہے، یہ ٹریفک کے قوانین اور ٹریفک سیفٹی پرکوئی رعایت نہیں برتتا اور نہ ہی اس محکمہ کے اہلکارکسی سفارش اور دباؤکو خاطر میں لاتے ہیں۔ تیزرفتاری یا کسی بھی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر چالان اور جرم کردیتے ہیں جن میں بااثر شخصیات سمیت وزرا اور بیوروکریٹس کی گاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔

راقم الحروف کا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں ہر صوبے کی پولیس اسی ٖ طرح کی دیانت دار اور فرض شناس ہو جائے تو یہ ملک بدعنوانی اورکرپشن سے پاک ہوسکتا ہے۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ جب ہر صوبے کا آئی جی با اختیار ہو۔ پولیس اہلکاروں کی کارکردگی، نگرانی ، صلاحیت اور ان کی ترقی و تنزلی سے لے کر ہر جزا وسزا کا اختیار صوبے کے آئی جی کے پاس ہو اور آئی جی صوبے کے وزیر اعلیٰ ، وزیر اعظم اور محکمہ داخلہ کو جواب دہ ہو۔ کسی بھی شخصیت کا آئی جی سے نیچے کے عہدیدار سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہو۔ تو یہ محمکہ بھی موٹر وے پولیس کے طرح صاف اور شفاف ہو جائے گا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت ، پولیس کو ایک سویلین فورس کے طور پر تسلیم کرے اور ایک سپاہی سے لے کر آئی جی تک کی تنخواہوں میں 30 فیصد تک کا اضافہ کیا جائے۔ پولیس کے تمام عملہ کو حکومت سرکاری رہائش یا تین ماہ کی تنخواہ بطور مکان کرایہ دی جائے ان کو راشن میں 20 فیصد رعایت دی جائے اور ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے تنخواہ کا 20 فی صد دیا جائے اور جن اہلکاروں کی ڈیوٹی تھانوں میں ہو ، انھیں اسی تھانے کے حدود میں سرکاری گھر فراہم کیا جائے ۔ جب پولیس کو اتنی سہولتیں دیں گے تو وہ خفیہ اور اعلانیہ رشوت نہیں لیں گے۔

پولیس میں بھرتی ہونے والے ہر فرد سے قرآن پر حلف لیا جائے کہ وہ رشوت نہیں لے گا، کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ رشوت پولیس کے محکمے میں لی جاتی ہے اور بہت سے لوگ جو رشوت دینے کو گناہ سمجھتے ہیں ( الراشی و المرتشی کل فی النار) وہ بھی مجبورا اس گناہ میں شریک ہیں۔ جس ریاست میں رشوت ، بدعنوانی، زنا، چوری، ڈکیتی عام ہو جائے اس پر خدا کا کرم رک جاتا ہے اور جزوی عذاب نازل ہوتا ہے۔ اس لیے پہلا قدم یہ ہے کہ ہر ارباب اختیار پر قانون کی پاسداری عام لوگوں سے زیادہ ہونی چاہیے، پولیس کی تربیت میں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے مامور ہیں۔ ان کا کا م غیر قانونی کام کرنے والوں کو بمعہ ثبوت کے پکڑنے کا ہے ۔ ہر تھانہ میں ایف آئی آر درج کرنے کے لیے آئی ٹی نظام ہو اور ایف آئی آر لکھنے والا مجاز افسر کم سے کم ایل ایل بی ہو۔ اور جس کی ایف آئی آر لکھی جائے، اسے کاپی فورا فراہم کی جائے اور پولیس کے تمام تھانے صاف ستھرے رکھے جائیں ۔

لاک اپ جہاں ملزم کو قید میں رکھتے ہیں۔ وہاں ایک حمام بھی ہو ، فرش گدے اور پولیس کے آئی جی صاحب ایک پولیس کا خفیہ شعبہ بنائیں جو پولیس کی بد عنوانی اور رشوت پرکڑی نظر رکھے۔ تمام تھانوں میں کمرے میں خفیہ کیمرے لگے ہوں اور تمام تھانوں کو ایک ایسے کنٹرول روم سے منسلک کیا جائے، جہاں ان کیمروں کی مدد سے سب حرکات اور سکنات دیکھی جاسکیں ۔

یہ کنٹرول روم آئی جی آفس میں ہونا چاہیے ۔ پولیس کی جتنی گاڑیاں اور موبائلز ہیں، ان میں ٹریکر لگایا جائے تاکہ ان کی نگرانی ہو اور پولیس کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ مخیر حضرات، صعنتکاروں اور تاجروں سے محکمے کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈز بطور عطیہ وصول کریں اور ان کا شفاف ریکارڈ رکھا جائے۔ تفتیش کے دوران ملزم کو زدوکوب کرنا ، تشدد ،کرنٹ لگانا، الٹا ٹانگنا، چیرا لگانا سب یہ غیر انسانی سلوک ہے، جس کی اجازت اسلام میں بھی نہیں ہے ۔ فی زمانہ سائنٹیفک طریقے سے ہر بات معلوم کی جاسکتی ہے جس طرح نیب آج کل اپنے ملزموں سے بغیر تشدد کے سب کچھ پتہ لگا رہی ہے۔


یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ تھانوں میں معمولی معمولی بات پر لڑکوں کو پکڑکر لایا جاتا ہے، پھر ان پر تشدد کیا جاتا ہے، انھیں خوفزدہ کر کے رشوت لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ سارا سلسلہ ختم ہونا چاہیے ۔ تھانے عقوبت خانے نہ بنیں بلکہ ایسا ماحول ہو کہ ہر متاثرہ فرد بلا خوف وخطر اپنی شکایت درج کروا سکے اور اگرکسی ملزم کوگرفتارکرنا ہو تو اس کے لیے علاقہ مجسٹریٹ سے اجازت لینا ضروری ہو۔ پولیس کے عملے کا ڈوپ ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے کیونکہ اکثر پولیس اہلکار شراب پینے کے عادی ہیں ،جس کی وجہ سے پولیس کا محکمہ بد نام ہوتا ہے۔

یہ سارا کام صوبے کے آئی جی کا ہے۔ ہو سکے تو آئی جی کا عہدہ کمشنر پولیس میں بدل دیں، تاکہ ساری پولیس فورس کا وہ ہیڈ کہلائے کسی بھی طور پر ایسے شخص کو بھرتی نہ کیا جائے جس کا تحریری ، زبانی اور فزیکل ٹیسٹ نہ ہوا ہو۔ پولیس کے محکمے میں جو خواتین کام کر رہی ہیں، ان کی ڈیوٹی تھانوں تک محدود رکھی جائے کیونکہ جو خواتین شکایت لے کر آئیں ان کی شکایت وومن پولیس خود درج کرے ۔ تھانہ کا ایس ایچ اوکم سے کم ڈی ایس پی کے عہدے کا ہو۔ ہر تھانے میں اہل محلہ کے کچھ معزز صاحبان کی پنچایت بنائی جائے تاکہ جو معاملات اور شکایات گھریلو معاملات کی ہوں انھیں افہام وتفہیم سے وہیں حل کر دیا جائے۔ ایف آئی آرکمپیوٹر پر تیار ہو۔ اس کی ہرکاپی آئی جی پولیس کو بھی دی جائے ۔

جب سے عمران خان صاحب وزیر اعظم بنے ہیں ، عوام کو ان سے بڑی امید ہے کہ وہ پولیس کو سیاست گردی سے پاک کریں گے۔ مگر آج ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی ایک بھی ایسا محکمہ نظر نہیں آتا جہاں کوئی عوامی مفاد کی اصلاحات ہوئی ہوں، جب حکومت ریاست مدینہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے تو انھیں انسانی حقوق پر بہت توجہ دینی ہوگی۔ اس میں سب سے پہلے ظلم وتشدد کا سدباب کرنا ہوگا۔ جو پولیس کے محکمے میں بہت زیادہ ہے۔ انھیں ملزم اور مجرم کا فرق رکھنا ہوگا۔ پاکستان کی جیلوں میں جو قیدی ہیں ان میں زیادہ تر ملزم ہیں اور باقی مجرم مگر جیل میں سلوک ملزموں کے ساتھ بھی مجرموں جیسا ہوتا ہے اور سب سے پریشان کن شکایت یہ ہے کہ اگر جیل میں قیدیوں کی گنجائش 4 ہزارکی ہے تو وہاںسات ہزار سے زیادہ قیدی ہیں جو پشت سے پشت ملاکر سوتے ہیں۔

نہ جانے کتنے قیدی نفسیاتی اور دوسری بیماریوں میں مبتلا ہیں اگر وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہو۔ عوام کی تکلیف میں کمی واقع ہو تو ان قیدیوں میں جو سزا یا فتہ بزرگ ہیں جن کی عمریں 70 سال سے 80 سال تک ہے انھیں حلف نامہ لے کر رہا کر دیا جائے اور جو ملزم ہیں جن کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جنھیں سال یا دو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے ۔ کئی پیشیاں بھگت چکے ہیں انھیں ضمانت کا حق دیں ان پر کوئی الزام بھی ہو۔

پاکستان کے اٹارنی جنرل اے ٹی سی میں چلنے والے ان مقدمات کو عدالتوں میں بھیجیں جن کے جرم چار دیواری میں ہوئے۔ کیونکہ ہر جرم دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا، اس پر سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان آصف کھوسہ نے اپنی تقریر میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے ۔ جیل میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے پولیس اہلکاروں کو اسی جیل میں رہائش دی جائے ۔ رات کی ڈیوٹی کرنے والوں کو خصوصی الاونس دیا جائے اور ہر پانچ سال تک جیل میں ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکاروں خاص طور پر جو چھوٹے گریڈ میں ہیں۔ انھیں پانچ سال مکمل ہونے پر ترقی دی جائے۔ یہی وہ طریقہ ہیں جس سے پولیس کا محکمہ آزادی سے کا م کرے گا۔ جس طرح رینجرز اپنے ڈی جی کے ماتحت کام کررہا ہے، ان کے معاملات میں کوئی بیرونی مداخلت نہیں۔

سندھ میں رینجرز نے امن قائم کیا ہے۔ مافیا سے لوگوں کو محفوظ بنایا ہے، اگر شہر کے اہم مقامات پر رینجرزکی چوکیاں بنا دی جائیں ،خاص طور پر صوبائی سرحدوںپر جرائم اور اسلحے کی نقل وحمل اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کم ہوسکتی ہیں۔
Load Next Story