انسان اور حیوان جمع مونچھ اور پونچھ
مونچھوں پر نہ صرف تاؤ دیاجاتا ہے بلکہ اونچی نیچی بھی ہوتی ہیں یا کی جاتی ہیں یا کرائی جاتی ہیں۔
بہت دن ہوئے ہم نے آپ کو بتایا تو تھا کہ ''ہمارے گاؤں'' میں جو ''ایک گاؤں بنے نیارا'' کی مثال ہے، یہاںکچھ ایسے جانور پائے جاتے ہیں جو ہوبہو انسان کی طرح لگتے ہیں لیکن ہوتے نہیں۔
اوت اتنے زایدہ لگتے ہیں کہ اگر کوئی انسان ان کے یعنی حیوانوں کے سامنے کھڑا ہو جائے تو وہ یہی سمجھے گا کہ آئینہ دیکھ رہا ہے صرف تھوڑا سا ''الٹے سیدھے'' کا فرق ہو گا، باقی سب کچھ سیم ٹو سیم۔ اور یہی ''الٹا سیدھا'' ہی ان کو انسان کے زمرے سے نکال کر حیوانوں کے زمرے میں داخل کرتا ہے کیونکہ انسانوں کا جو سیدھا ہے وہ ان کا الٹا ہے اور جو الٹا ہے ان کا سیدھا ہوتا ہے یا دایاں بایاں اور بایاں دایاں ہوتا ہے۔
ایک کا رخ مشرق اور دوسرے کا مغرب کی طرف ہوتا ہے اور یہی ''مشرق'' اور ''مغرب'' کا فرق ہی دنیا کا سب سے بڑا فرق مانا جاتا ہے، تو پھر ایک کیسے ہوئے۔ جانور جانور ہی رہے گا اور انسان انسان، چاہے کتنے ہی ایک جیسے کیوں نہ ہوں۔ لیکن یہ جانور بیوقوف ، احمق اور نالائق بھی ہوتے ہیں کہ ظاہری مشابہت دیکھ کر خودکو انسان سمجھ لیتے ہیں، جانور کہیں کے۔ ان کی ایسی کی تیسی۔ بلکہ ایسی ہی رہے جیسی ہے۔ چنانچہ وہ کماتے ہیں اور ''انسان'' کھاتے ہیں کیونکہ یہ بھی وہ سمجھ چکے ہیں کہ ہمارا کام ہی یہی ہے۔ کمانا اور ''انسانوں'' کو کھلانا۔ اور انسان کا کام ہے۔
صرف کھانا، کھانا اور پھر کھانا۔ کچھ اور نہ ملے تو خود ان کمانے والوں ہی کو کھانا۔ البتہ ایک خاص نشانی جوان دونوں کو یعنی انسانوں کو۔ اور ان جانوروں کو جو انسان جیسے لگتے ہیں مگر نہیں ہیں، الگ کرتی ہے وہ ''دُم'' ہے کہ انسانوں کی دم نہیں ہوتی اور ان کی ہوتی ہے جو جانور ہیں اور صرف انسانوں ''جیسے'' لگتے ہیں۔ لیکن ان کی وہ ''دم'' ہوتی تو ہے لیکن دکھائی نہیں دیتی کیونکہ وہ ان کے اندر چلی گئی ہے۔ لیکن ان کی حرکات و سکنات سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی ''دم'' اب بھی ہے جو یہ موقع کی مناسبت سے ''ہلاتے'' بھی ہیں اور ''دبا کر'' بھاگتے بھی ہیں۔ جیسے انسانوں کی مونچھ ہوتی ہے جو غیر موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے ہونے کا ثبوت دیتی ہیں کہ ان کو تاؤ بھی دیا جاتا ہے چاہے ہونٹ پر ہوں یا نہ ہو۔ یہاں تک کہ عورتیں بھی ان مونچھوں کو تاؤ دیتی رہتی ہیں جو نہ جانے کب؟ کہاں؟ کس جہاں اور زمانے میں کھو چکی ہیں یا تیاگ چکی ہیں یا مردوں پر قربان کر چکی ہیں۔
ان مونچھوں پر نہ صرف تاؤ دیاجاتا ہے بلکہ اونچی نیچی بھی ہوتی ہیں یا کی جاتی ہیں یا کرائی جاتی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ دونوں میں فرق صرف پونچھ اور مونچھ کا ہوتا ہے۔ جو نہ ہوتے ہوئے بھی ہوتی ہیں۔ انسان کی پہچان مونچھ اور ان حیوانوں کی پہچان پونچھ ہی ان کا تعارف بھی ہے، پہچان بھی۔ اور کل کائنات بھی۔ ان حیوانوں کی جو ہمارے گاؤں ''جوایک گاؤں بنایا گیا ہے نیارا'' کی مثال ہے، ان کے بارے میں ایک مشہور عالم اور فاضل نے ایک بہت ہی تفصیلی کتاب لکھی ہے۔ خود اس مصنف نے اپنا نام بھی حسب حال رکھا ہوا ہے ''دمدار بے دمومی'' اور اس کی کتاب کا نام ''دم دم ڈیگا ڈیگا''۔ علامہ ڈاکٹر پروفیسر عامل کامل اور عالم فاضل نے ان ''پونچھ'' والوں اور ان کی پونچھ پر بڑی زبردست تحقیق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ''پونچھ'' ان پونچھی لوگوں کی کل پونچی ہوتی ہے۔ یہ ان کی زبان بھی ہے بیان بھی عیان بھی اور جہان بھی۔ یہ جب خوش ہوتے ہیں تو بڑے آرام و سرور بلکہ ایک طرح سے باقاعدہ ردھم اور راگ میں اپنی پونچھ دائیں سے بائیں گھماتے ہیں اور جب ناخوش و بیزار اور ناراض ہوتے ہیں توبے دم ہو کر نہایت بے دمی سے اپنی دم بائیں کو دائیں سے ہلاتے ہیں جیسے بیگار کر رہے ہوں۔ جب کچھ بھی نہ ہو یعنی نارمل حالت میں ہوتے ہیں تو پونچھ کو ایک طرف ڈال کر پڑے رہتے ہیں کسی پر غصہ ہوں یا حملہ آور اور آمادہ جنگ ہوں تو اپنی پونچھ کو پیچھے سے گھما کر عین اپنے اوپر کھڑی رکھتے ہیں اور اگر خود ہی ڈر یا بھاگ رہے ہوں تو اپنی دم کو ٹانگوں کے درمیان دباکر تقریباً چھپا کر رکھ لیتے ہیں جیسے یہ ہی ان کی متاع عزیز ہو اور ڈر میں اسی کو بچانا مقصود ہو باقی سب کچھ چلا جائے لیکن دم محفوظ رہے۔
چاہے مری جان جائے چاہے مرا دل جائے۔ یا جان جائے پر ''پونچھ'' نہ جائے۔ یہیں پر یہ بالکل انسانوں یعنی ''مونچھ'' والوں جیسے ہو جاتے ہیں کہ سب کچھ ہو لیکن مونچھ نیچی نہ ہو۔ ایک لطیفہ پونچھ ہلا رہا ہے، پونچھ والوں کی اجازت ہو تو سنائیں بلکہ اگر مونچھ اور پونچھ دونوں کی اجازت ہو۔ استاد خلیل پشاور کے بہت بڑے سینئر اداکار تھے جو آغا حشر اور پرتھوی راج کپور جیسے لوگوں کے ساتھ ڈراموں میں کام کر چکے تھے، ہمیں اکثر پرانے واقعات سناتے تھے۔
جن میں ایک یہ بھی تھا کہ جب پاکستان بننے کے بعد میں پشاور آیا تو ان دنوں میں نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھی جن پر ہروقت تیل اور تاؤ دیتا رہتا تھا۔ مونچھوں کی نوکیں یا پونچھیں اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں، ان دنوں پشاور میں ایک بہت بڑے ۔پہلی مرتبہ جب استاد خلیل خان یہ واقعہ سنا رہے تھے تو ''تھلے کر مچھاں'' پر ٹھہر کر اور آنکھیں بڑی بڑی کر کے خوب سسپنس پیدا کرتے۔ اس نے مجھے کہا، ''تھلے کر مچھاں'' میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ پھر ادھر ادھر دیکھا۔
(وقفہ) اور پھر کہا ''یہ لے''اور میں نے مونچھیں تھلے کر لیں۔ دیکھا جائے تو یہ ساری دنیا اور اس کا سارا تام جھام مونچھ اور پونچھ کے گرد گھومتا ہے بلکہ سب کچھ مونچھ اور پونچھ ہی۔ جہاں سے مونچھ کی سرحد ہوتی ہے وہاں سے پونچھ کی حد شروع ہوتی۔ اور دونوں کے درمیاں حد یہی اونچ نیچ ہے۔ بہرحال ہم نے پہچان آپ کو بتا دی کہ انسان کی نشانی کیا ہے اور اس جانور کی نشانی کیا ہے جو ہو بہو انسانوں کی طرح ہوتے ہیں لیکن انسان نہیں ہوتے یا ابھی تک انسان تسلیم نہیں کیے گئے ہیں، اس لیے آپ اسے چاہیں تو کالانسان کہیں اور چاہے تو کالانعام۔ فرق نہ مونچھوں کو پڑتا ہے نہ پونچھوں کو۔
اوت اتنے زایدہ لگتے ہیں کہ اگر کوئی انسان ان کے یعنی حیوانوں کے سامنے کھڑا ہو جائے تو وہ یہی سمجھے گا کہ آئینہ دیکھ رہا ہے صرف تھوڑا سا ''الٹے سیدھے'' کا فرق ہو گا، باقی سب کچھ سیم ٹو سیم۔ اور یہی ''الٹا سیدھا'' ہی ان کو انسان کے زمرے سے نکال کر حیوانوں کے زمرے میں داخل کرتا ہے کیونکہ انسانوں کا جو سیدھا ہے وہ ان کا الٹا ہے اور جو الٹا ہے ان کا سیدھا ہوتا ہے یا دایاں بایاں اور بایاں دایاں ہوتا ہے۔
ایک کا رخ مشرق اور دوسرے کا مغرب کی طرف ہوتا ہے اور یہی ''مشرق'' اور ''مغرب'' کا فرق ہی دنیا کا سب سے بڑا فرق مانا جاتا ہے، تو پھر ایک کیسے ہوئے۔ جانور جانور ہی رہے گا اور انسان انسان، چاہے کتنے ہی ایک جیسے کیوں نہ ہوں۔ لیکن یہ جانور بیوقوف ، احمق اور نالائق بھی ہوتے ہیں کہ ظاہری مشابہت دیکھ کر خودکو انسان سمجھ لیتے ہیں، جانور کہیں کے۔ ان کی ایسی کی تیسی۔ بلکہ ایسی ہی رہے جیسی ہے۔ چنانچہ وہ کماتے ہیں اور ''انسان'' کھاتے ہیں کیونکہ یہ بھی وہ سمجھ چکے ہیں کہ ہمارا کام ہی یہی ہے۔ کمانا اور ''انسانوں'' کو کھلانا۔ اور انسان کا کام ہے۔
صرف کھانا، کھانا اور پھر کھانا۔ کچھ اور نہ ملے تو خود ان کمانے والوں ہی کو کھانا۔ البتہ ایک خاص نشانی جوان دونوں کو یعنی انسانوں کو۔ اور ان جانوروں کو جو انسان جیسے لگتے ہیں مگر نہیں ہیں، الگ کرتی ہے وہ ''دُم'' ہے کہ انسانوں کی دم نہیں ہوتی اور ان کی ہوتی ہے جو جانور ہیں اور صرف انسانوں ''جیسے'' لگتے ہیں۔ لیکن ان کی وہ ''دم'' ہوتی تو ہے لیکن دکھائی نہیں دیتی کیونکہ وہ ان کے اندر چلی گئی ہے۔ لیکن ان کی حرکات و سکنات سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی ''دم'' اب بھی ہے جو یہ موقع کی مناسبت سے ''ہلاتے'' بھی ہیں اور ''دبا کر'' بھاگتے بھی ہیں۔ جیسے انسانوں کی مونچھ ہوتی ہے جو غیر موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے ہونے کا ثبوت دیتی ہیں کہ ان کو تاؤ بھی دیا جاتا ہے چاہے ہونٹ پر ہوں یا نہ ہو۔ یہاں تک کہ عورتیں بھی ان مونچھوں کو تاؤ دیتی رہتی ہیں جو نہ جانے کب؟ کہاں؟ کس جہاں اور زمانے میں کھو چکی ہیں یا تیاگ چکی ہیں یا مردوں پر قربان کر چکی ہیں۔
ان مونچھوں پر نہ صرف تاؤ دیاجاتا ہے بلکہ اونچی نیچی بھی ہوتی ہیں یا کی جاتی ہیں یا کرائی جاتی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ دونوں میں فرق صرف پونچھ اور مونچھ کا ہوتا ہے۔ جو نہ ہوتے ہوئے بھی ہوتی ہیں۔ انسان کی پہچان مونچھ اور ان حیوانوں کی پہچان پونچھ ہی ان کا تعارف بھی ہے، پہچان بھی۔ اور کل کائنات بھی۔ ان حیوانوں کی جو ہمارے گاؤں ''جوایک گاؤں بنایا گیا ہے نیارا'' کی مثال ہے، ان کے بارے میں ایک مشہور عالم اور فاضل نے ایک بہت ہی تفصیلی کتاب لکھی ہے۔ خود اس مصنف نے اپنا نام بھی حسب حال رکھا ہوا ہے ''دمدار بے دمومی'' اور اس کی کتاب کا نام ''دم دم ڈیگا ڈیگا''۔ علامہ ڈاکٹر پروفیسر عامل کامل اور عالم فاضل نے ان ''پونچھ'' والوں اور ان کی پونچھ پر بڑی زبردست تحقیق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ''پونچھ'' ان پونچھی لوگوں کی کل پونچی ہوتی ہے۔ یہ ان کی زبان بھی ہے بیان بھی عیان بھی اور جہان بھی۔ یہ جب خوش ہوتے ہیں تو بڑے آرام و سرور بلکہ ایک طرح سے باقاعدہ ردھم اور راگ میں اپنی پونچھ دائیں سے بائیں گھماتے ہیں اور جب ناخوش و بیزار اور ناراض ہوتے ہیں توبے دم ہو کر نہایت بے دمی سے اپنی دم بائیں کو دائیں سے ہلاتے ہیں جیسے بیگار کر رہے ہوں۔ جب کچھ بھی نہ ہو یعنی نارمل حالت میں ہوتے ہیں تو پونچھ کو ایک طرف ڈال کر پڑے رہتے ہیں کسی پر غصہ ہوں یا حملہ آور اور آمادہ جنگ ہوں تو اپنی پونچھ کو پیچھے سے گھما کر عین اپنے اوپر کھڑی رکھتے ہیں اور اگر خود ہی ڈر یا بھاگ رہے ہوں تو اپنی دم کو ٹانگوں کے درمیان دباکر تقریباً چھپا کر رکھ لیتے ہیں جیسے یہ ہی ان کی متاع عزیز ہو اور ڈر میں اسی کو بچانا مقصود ہو باقی سب کچھ چلا جائے لیکن دم محفوظ رہے۔
چاہے مری جان جائے چاہے مرا دل جائے۔ یا جان جائے پر ''پونچھ'' نہ جائے۔ یہیں پر یہ بالکل انسانوں یعنی ''مونچھ'' والوں جیسے ہو جاتے ہیں کہ سب کچھ ہو لیکن مونچھ نیچی نہ ہو۔ ایک لطیفہ پونچھ ہلا رہا ہے، پونچھ والوں کی اجازت ہو تو سنائیں بلکہ اگر مونچھ اور پونچھ دونوں کی اجازت ہو۔ استاد خلیل پشاور کے بہت بڑے سینئر اداکار تھے جو آغا حشر اور پرتھوی راج کپور جیسے لوگوں کے ساتھ ڈراموں میں کام کر چکے تھے، ہمیں اکثر پرانے واقعات سناتے تھے۔
جن میں ایک یہ بھی تھا کہ جب پاکستان بننے کے بعد میں پشاور آیا تو ان دنوں میں نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھی جن پر ہروقت تیل اور تاؤ دیتا رہتا تھا۔ مونچھوں کی نوکیں یا پونچھیں اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں، ان دنوں پشاور میں ایک بہت بڑے ۔پہلی مرتبہ جب استاد خلیل خان یہ واقعہ سنا رہے تھے تو ''تھلے کر مچھاں'' پر ٹھہر کر اور آنکھیں بڑی بڑی کر کے خوب سسپنس پیدا کرتے۔ اس نے مجھے کہا، ''تھلے کر مچھاں'' میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ پھر ادھر ادھر دیکھا۔
(وقفہ) اور پھر کہا ''یہ لے''اور میں نے مونچھیں تھلے کر لیں۔ دیکھا جائے تو یہ ساری دنیا اور اس کا سارا تام جھام مونچھ اور پونچھ کے گرد گھومتا ہے بلکہ سب کچھ مونچھ اور پونچھ ہی۔ جہاں سے مونچھ کی سرحد ہوتی ہے وہاں سے پونچھ کی حد شروع ہوتی۔ اور دونوں کے درمیاں حد یہی اونچ نیچ ہے۔ بہرحال ہم نے پہچان آپ کو بتا دی کہ انسان کی نشانی کیا ہے اور اس جانور کی نشانی کیا ہے جو ہو بہو انسانوں کی طرح ہوتے ہیں لیکن انسان نہیں ہوتے یا ابھی تک انسان تسلیم نہیں کیے گئے ہیں، اس لیے آپ اسے چاہیں تو کالانسان کہیں اور چاہے تو کالانعام۔ فرق نہ مونچھوں کو پڑتا ہے نہ پونچھوں کو۔