جگر کو صحت مند کیسے رکھیں
پانچ سو سے زیادہ اہم افعال کے مرکز جگر کی خرابی کو عموماً ہاضمے کی خرابی سمجھ لیاجاتاہے
لاہور:
دورِحاضر میں بہت سے ایسے امراض ہیںکہ مریض انھیں ہاضمے کی خرابی جان کر نظر انداز کردیتے ہیں،تاہم رفتہ رفتہ تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے، پھر پتہ چلتا ہے کہ مرض ہاضمے کا نہیں تھا بلکہ جگر کا تھا۔
امراضِ جگرپر معلومات سے قبل اسکے مقام و افعال پر نگاہ ڈالنا مناسب ہے۔ جگر جسمِ انسانی کا سب سے بڑا عضواور غدہ ہے، دائیں پسلیوں کی نچلی طرف واقع ہے،عموماً وزن تین پونڈ ہوتا ہے اور رنگ سرخی مائل نسواری۔ یہ پانچ سو سے زیادہ اہم افعال کا مرکز ہے۔ اس کا کچھ حصہ بائیں جانب بھی موجود ہے۔ یہ استحالہ کاخاص مرکز ہے یعنی غذا، دوا الغرضیکہ جو کچھ بھی انسان کھاتا پیتا ہے، جگر اپنی طبعی حرارت سے اسے پکاتا اور منظم کرتا ہے۔
جس طرح شریان دل سے اُگتی ہیں ، اسی طرح وریدیں جگر سے اُگتی ہیں۔ یہیں سے خون دل کے دائیں اذن(ایٹ ریّم) میں پہنچتا ہے۔ اسیاعضائے ہضم کا حاکم بھی کہاجاسکتا ہے۔ اس کے ذمہ اخلاط کی افزائش بھی ہے۔ جب معدے سے باب الکبد کے ذریعے غذا جگر تک پہنچتی ہے تو جگر اسے چھانتا ہے۔ غذا کے کسی جزو کو ایسی حرارت مل جاتی ہے کہ وہ جل جاتا ہے، اسے 'سوداء' کہتے ہیں۔ یہ اسے تلی تک اپنے عروق کے ذریعے پہنچاتا ہے تو غذاکو ایسی حرارت مل جاتی ہے کہ بخارات جیسی ہئیت ہوجاتی ہے یعنی ' صفراء ۔ جگر اسے پتّہ میں جمع کرتا ہے۔ غذا کا کوئی جزوپکنے سے رہ جائے تو اس پر جگر کی حرارت ٹھیک طور پر اثر انداز نہیں ہوتی، اسے خون کے ساتھ بہا دیتا ہے اسے بلغم کہاجاتا ہے یعنی کم پکا ہوا خون۔کبھی غذاء کے کچھ اجزاء کو ٹھیک حرارت پہنچا کر اپنے ہم رنگ کر دیتا ہے جو سر خ رنگ کا خون کہلاتا ہے، اس میں سرخی غالب ہوتی ہے مگرباقی اخلاط بھی پائے جاتے ہیں۔
غذا میں بھی کچھ صلاحیت پائی جاتی ہے، مثلاَ ٹھنڈی تاثیر والی اغذیہ کو اس قدر حرارت کی ضرورت ہوتی ہے کہ بعض لوگوںکا جگر وہ مہیا کرنے میں ناکام رہتا ہے، مگر بعض لوگوںکو یہی غذاء مفید ہوتی ہے کہ ان کا جگر وہ حرارت مہیا کر دیتا ہے ۔ اکثر لوگوںکا مزاج سُست ہوتا ہے ان کے ہاضمے اس لیے خراب رہتے ہیںکہ جگر غذاء کو مطلوبہ حرارت مہیا نہیںکرتا۔ ان کے بر عکس چُست لوگوں کا ہاضمہ درست ہوتا ہے مگر ان میں جگر کی حرارت بڑھ جانے سے غذاء کا کافی حصّہ بخارات جیسا ہوجاتا ہے یاجل جاتا ہے،دوسرے الفاظ میں صفراء یا سوداء بڑھ جاتا ہے۔ ان لوگوں کو بھی تیزابیت جیسی کیفیات سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر اکثر لوگ ہر حالت میں صرف معدے کی ادویہ ہی استعما ل کرتے رہتے ہیں یوں انھیں صرف وقتی آرام ہی حاصل ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں جگر کے ذمہ حیاتین(وٹامنز)کو محفوظ کرنا، خامرات کے افراز کو قابو میں رکھنا ، خون کو بہنے اور منجمد کرنے والے اجزاء کو قابو میں رکھنا ، دوا کے زہریلے اثرات کو دور کرنا بھی شامل ہیں نیز جگر ایک خاص ہارمون ''اینجی ٹین سینوجن''بناتا ہے جو بلڈپریشر بڑھاتا ہے،خون کی عروق کو پتلا کرتا ہے۔ جسم بھر میں جو حرارت پائی جاتی ہے وہ جگر کے ہی مرہونِ منت ہے۔
جگر کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض کی طرف دھیان دیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے جگر پیدائشی طور پر کمزور (کم حرارت والے) ہوتے ہیں، ان لوگوں کی جلد نرم، سفیدی مائل ہوتی ہے،یہ لوگ سُست ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو قبض اور ریح کی شکایت زیادہ رہتی ہے، کیونکہ حرارت کی کمی کے سبب ان کی غذاء سے بلغم کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ کبھی یہ کیفیت پیدائشی نہیں بلکہ بعض وجوہات سے ہوتی ہے مثلاََ زیادہ تیل والی غذاء کا استعمال، زیادہ پریشانی کے سبب بھی جگر کی طبعی حرارت کم ہوجاتی ہے، ان کا پیٹ بڑھا ہوتا ہے۔ اکثر ذیابیطس کے مریضوںکا جگر کمزور ہوجاتا ہے۔
بعض لوگوں میں پیدائشی طور پر یا بعض دیگر وجوہات کی بنا پرجگر باافراط حرارت پیداکر دیتا ہے، ان لوگوں کے جسم دبلے ہوتے ہیں اور انھیں تیزابیت معدہ، بول وبراز میں پیلاہٹ اور پیاس کی شدت جیسے مسائل کا سامنا ہوتاہے۔ نیز پیاس کی شدت برق پاشیدوں(الیکٹرولائیٹ) کے غیر منظم ہونے سے بھی ہوتی ہے۔ جن لوگوںکے جگر زیادہ گرم ہوتے ہیں ، انہیں جنون کی حد تک غصہ آجاتا ہے اوردیر تک رہتا ہے۔
بعض لوگوںکا جگر اس حد تک گرم ہوتا ہے کہ وہ غذا کے اکثر اجزا کو جلا دیتاہے۔ یہ راکھ نما اجزا سوداء (کالی خلط)کی شکل میں عروق کے ذریعے تلی میں پہنچتے ہیں۔ یہ لوگ وہم ،قبض، موٹاپا، نیند اور بھوک کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ چاہے پیدائشی طور پر ہوںیا دیگر وجوہات کی بنا پر، بہرحال مناسب تدابیر کے ذریعے جگر کی حرارت کوکم یا بڑھایا جا سکتا ہے مثلاََ کم غذا کے استعمال کے ساتھ ورزش کا اہتمام کر کے بلغمی مزاج کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اسی طرح زیادہ مائع دار اغذیہ استعمال کرکے محض پیدل چلنے کی ورزش سے زیادہگرم مزاج کے حامل افراد جگر کی اصلاح کرسکتے ہیں۔
اب جگر کے لئے مفید اور مضر اغذیہ اور ادویہ پرنگاہ ڈالی جائے تو تیل والی غذائیںجگر میں چربی پیدا کرنے کے علاوہ اس کی حرارت کو بجھاتی ہیں۔ انڈے کا بہ کثرت استعمال جگر پر چربی چڑھاتاہے۔ زیادہ چینی کا استعمال ترشی پیدا کرتا ہے جبکہ دہی کا زیادہ استعمال جگر، معدہ اور جسم میں ٹھنڈک لاحق کردیتا ہے۔ حیاتین(وٹامنز)کا بے جا استعمال صفراء کی زیادہ پیدائش کر کے تیزابیت، اسہال اور بعض لوگوں کو قبض اور معدے میں خراش کے مسئلہ کا شکار کردیتی ہے۔ کافی اور چائے کا بکثرت استعمال معدے کی غشائے مخاطی پر بُرے اثرات مرتب کرنے کے علاوہ جگر کوگرم کردیتا ہے۔
سفید رنگ کی غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بلغم زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ نیز سرخ رنگ کی غذاؤں مثلاََ سٹرابیری، سرخ انگور، چقندر، آڑو،انار، ٹماٹر پکے ہوئے اور سبز رنگ کی غذاؤں جسم اور جگر دونوں کے لیے بہتر ہیں۔ یادرہے کہ جگر کی زیادہ حرارت جگر کو متورم کردیتی ہے اور خون کے قوام کو رقیق کرتی ہے جس سے یرقان، نکسیر، جلد پر دھبے اور بالوں کا رنگ تبدیل ہوسکتا ہے۔ جگر کو زیادہ ٹھنڈک پہنچنے سے بلغم کی پیدائش کے علاوہ خون کا جمنا، موٹاپا، دائمی قبض، ذیابیطس (یہ اکثر پہلے ہوتی ہے اور جگر کو نقصان دیتی ہے)، دل کے عوارض، بالوں کا رنگ سفید ہونا، پیشاب کی زیادتی، بدن میں حرارت کی کمی پیدا ہوتی ہے، کبھی اس نالی میں جمع ہوجاتا ہے جو صفراء کو چھوٹی آنت میں پہنچاتی ہے، اس سے پتّہ کی پتھری بن جاتی ہے۔
ذیل میں جگر اور بدن کی حرارت کو معتدل کرنے کا نسخہ لکھا جارہاہے جو موٹاپے اور ریح کے مبتلا لوگوں کے لیے مفید ہے:
برگ ِپودینہ، دارچینی، سیاہ زیرہ، قنطور یون، مازریون، اجوائن دیسی، برنجاسف، انیسون رومی ہموزن کا قہوہ یا سفوف استعمال کرنا ہوتو برگ ِکاسنی کا اضافہ کر لیں۔
تیزابیت کے مبتلا اشخاص کیلیے:تخم کرفس، مصطگی رومی،کندر،زعفران، سفید زیرہ،بسفائج،ہموزن کا قہوہ یا سفوف موزوں ہے۔
جگر کو صحت مند رکھنے والی غذائیں: جو کا دلیہ ، کھجور، لہسن،سبز چائے، چقندر، انجیر،میوہ جات، مچھلی، زیتون کا پھل، سیب ، آلوبخارا، پکی ہوئی غذاؤں میں پرندوں کے گوشت کی یخنی، بکرے کے گوشت کی یخنی، مونگ مسور کی دال،کالے چنے کا پانی، کدو ، ان اجزاء میں جینیاتی تبدیلی بھی نہیں ہے اور اینٹی آکسی ڈینٹ ہونے کے ناتے جگر کو محفوظ ومامون رکھتے ہیں۔
دورِحاضر میں بہت سے ایسے امراض ہیںکہ مریض انھیں ہاضمے کی خرابی جان کر نظر انداز کردیتے ہیں،تاہم رفتہ رفتہ تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے، پھر پتہ چلتا ہے کہ مرض ہاضمے کا نہیں تھا بلکہ جگر کا تھا۔
امراضِ جگرپر معلومات سے قبل اسکے مقام و افعال پر نگاہ ڈالنا مناسب ہے۔ جگر جسمِ انسانی کا سب سے بڑا عضواور غدہ ہے، دائیں پسلیوں کی نچلی طرف واقع ہے،عموماً وزن تین پونڈ ہوتا ہے اور رنگ سرخی مائل نسواری۔ یہ پانچ سو سے زیادہ اہم افعال کا مرکز ہے۔ اس کا کچھ حصہ بائیں جانب بھی موجود ہے۔ یہ استحالہ کاخاص مرکز ہے یعنی غذا، دوا الغرضیکہ جو کچھ بھی انسان کھاتا پیتا ہے، جگر اپنی طبعی حرارت سے اسے پکاتا اور منظم کرتا ہے۔
جس طرح شریان دل سے اُگتی ہیں ، اسی طرح وریدیں جگر سے اُگتی ہیں۔ یہیں سے خون دل کے دائیں اذن(ایٹ ریّم) میں پہنچتا ہے۔ اسیاعضائے ہضم کا حاکم بھی کہاجاسکتا ہے۔ اس کے ذمہ اخلاط کی افزائش بھی ہے۔ جب معدے سے باب الکبد کے ذریعے غذا جگر تک پہنچتی ہے تو جگر اسے چھانتا ہے۔ غذا کے کسی جزو کو ایسی حرارت مل جاتی ہے کہ وہ جل جاتا ہے، اسے 'سوداء' کہتے ہیں۔ یہ اسے تلی تک اپنے عروق کے ذریعے پہنچاتا ہے تو غذاکو ایسی حرارت مل جاتی ہے کہ بخارات جیسی ہئیت ہوجاتی ہے یعنی ' صفراء ۔ جگر اسے پتّہ میں جمع کرتا ہے۔ غذا کا کوئی جزوپکنے سے رہ جائے تو اس پر جگر کی حرارت ٹھیک طور پر اثر انداز نہیں ہوتی، اسے خون کے ساتھ بہا دیتا ہے اسے بلغم کہاجاتا ہے یعنی کم پکا ہوا خون۔کبھی غذاء کے کچھ اجزاء کو ٹھیک حرارت پہنچا کر اپنے ہم رنگ کر دیتا ہے جو سر خ رنگ کا خون کہلاتا ہے، اس میں سرخی غالب ہوتی ہے مگرباقی اخلاط بھی پائے جاتے ہیں۔
غذا میں بھی کچھ صلاحیت پائی جاتی ہے، مثلاَ ٹھنڈی تاثیر والی اغذیہ کو اس قدر حرارت کی ضرورت ہوتی ہے کہ بعض لوگوںکا جگر وہ مہیا کرنے میں ناکام رہتا ہے، مگر بعض لوگوںکو یہی غذاء مفید ہوتی ہے کہ ان کا جگر وہ حرارت مہیا کر دیتا ہے ۔ اکثر لوگوںکا مزاج سُست ہوتا ہے ان کے ہاضمے اس لیے خراب رہتے ہیںکہ جگر غذاء کو مطلوبہ حرارت مہیا نہیںکرتا۔ ان کے بر عکس چُست لوگوں کا ہاضمہ درست ہوتا ہے مگر ان میں جگر کی حرارت بڑھ جانے سے غذاء کا کافی حصّہ بخارات جیسا ہوجاتا ہے یاجل جاتا ہے،دوسرے الفاظ میں صفراء یا سوداء بڑھ جاتا ہے۔ ان لوگوں کو بھی تیزابیت جیسی کیفیات سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر اکثر لوگ ہر حالت میں صرف معدے کی ادویہ ہی استعما ل کرتے رہتے ہیں یوں انھیں صرف وقتی آرام ہی حاصل ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں جگر کے ذمہ حیاتین(وٹامنز)کو محفوظ کرنا، خامرات کے افراز کو قابو میں رکھنا ، خون کو بہنے اور منجمد کرنے والے اجزاء کو قابو میں رکھنا ، دوا کے زہریلے اثرات کو دور کرنا بھی شامل ہیں نیز جگر ایک خاص ہارمون ''اینجی ٹین سینوجن''بناتا ہے جو بلڈپریشر بڑھاتا ہے،خون کی عروق کو پتلا کرتا ہے۔ جسم بھر میں جو حرارت پائی جاتی ہے وہ جگر کے ہی مرہونِ منت ہے۔
جگر کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض کی طرف دھیان دیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے جگر پیدائشی طور پر کمزور (کم حرارت والے) ہوتے ہیں، ان لوگوں کی جلد نرم، سفیدی مائل ہوتی ہے،یہ لوگ سُست ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو قبض اور ریح کی شکایت زیادہ رہتی ہے، کیونکہ حرارت کی کمی کے سبب ان کی غذاء سے بلغم کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ کبھی یہ کیفیت پیدائشی نہیں بلکہ بعض وجوہات سے ہوتی ہے مثلاََ زیادہ تیل والی غذاء کا استعمال، زیادہ پریشانی کے سبب بھی جگر کی طبعی حرارت کم ہوجاتی ہے، ان کا پیٹ بڑھا ہوتا ہے۔ اکثر ذیابیطس کے مریضوںکا جگر کمزور ہوجاتا ہے۔
بعض لوگوں میں پیدائشی طور پر یا بعض دیگر وجوہات کی بنا پرجگر باافراط حرارت پیداکر دیتا ہے، ان لوگوں کے جسم دبلے ہوتے ہیں اور انھیں تیزابیت معدہ، بول وبراز میں پیلاہٹ اور پیاس کی شدت جیسے مسائل کا سامنا ہوتاہے۔ نیز پیاس کی شدت برق پاشیدوں(الیکٹرولائیٹ) کے غیر منظم ہونے سے بھی ہوتی ہے۔ جن لوگوںکے جگر زیادہ گرم ہوتے ہیں ، انہیں جنون کی حد تک غصہ آجاتا ہے اوردیر تک رہتا ہے۔
بعض لوگوںکا جگر اس حد تک گرم ہوتا ہے کہ وہ غذا کے اکثر اجزا کو جلا دیتاہے۔ یہ راکھ نما اجزا سوداء (کالی خلط)کی شکل میں عروق کے ذریعے تلی میں پہنچتے ہیں۔ یہ لوگ وہم ،قبض، موٹاپا، نیند اور بھوک کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ چاہے پیدائشی طور پر ہوںیا دیگر وجوہات کی بنا پر، بہرحال مناسب تدابیر کے ذریعے جگر کی حرارت کوکم یا بڑھایا جا سکتا ہے مثلاََ کم غذا کے استعمال کے ساتھ ورزش کا اہتمام کر کے بلغمی مزاج کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اسی طرح زیادہ مائع دار اغذیہ استعمال کرکے محض پیدل چلنے کی ورزش سے زیادہگرم مزاج کے حامل افراد جگر کی اصلاح کرسکتے ہیں۔
اب جگر کے لئے مفید اور مضر اغذیہ اور ادویہ پرنگاہ ڈالی جائے تو تیل والی غذائیںجگر میں چربی پیدا کرنے کے علاوہ اس کی حرارت کو بجھاتی ہیں۔ انڈے کا بہ کثرت استعمال جگر پر چربی چڑھاتاہے۔ زیادہ چینی کا استعمال ترشی پیدا کرتا ہے جبکہ دہی کا زیادہ استعمال جگر، معدہ اور جسم میں ٹھنڈک لاحق کردیتا ہے۔ حیاتین(وٹامنز)کا بے جا استعمال صفراء کی زیادہ پیدائش کر کے تیزابیت، اسہال اور بعض لوگوں کو قبض اور معدے میں خراش کے مسئلہ کا شکار کردیتی ہے۔ کافی اور چائے کا بکثرت استعمال معدے کی غشائے مخاطی پر بُرے اثرات مرتب کرنے کے علاوہ جگر کوگرم کردیتا ہے۔
سفید رنگ کی غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بلغم زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ نیز سرخ رنگ کی غذاؤں مثلاََ سٹرابیری، سرخ انگور، چقندر، آڑو،انار، ٹماٹر پکے ہوئے اور سبز رنگ کی غذاؤں جسم اور جگر دونوں کے لیے بہتر ہیں۔ یادرہے کہ جگر کی زیادہ حرارت جگر کو متورم کردیتی ہے اور خون کے قوام کو رقیق کرتی ہے جس سے یرقان، نکسیر، جلد پر دھبے اور بالوں کا رنگ تبدیل ہوسکتا ہے۔ جگر کو زیادہ ٹھنڈک پہنچنے سے بلغم کی پیدائش کے علاوہ خون کا جمنا، موٹاپا، دائمی قبض، ذیابیطس (یہ اکثر پہلے ہوتی ہے اور جگر کو نقصان دیتی ہے)، دل کے عوارض، بالوں کا رنگ سفید ہونا، پیشاب کی زیادتی، بدن میں حرارت کی کمی پیدا ہوتی ہے، کبھی اس نالی میں جمع ہوجاتا ہے جو صفراء کو چھوٹی آنت میں پہنچاتی ہے، اس سے پتّہ کی پتھری بن جاتی ہے۔
ذیل میں جگر اور بدن کی حرارت کو معتدل کرنے کا نسخہ لکھا جارہاہے جو موٹاپے اور ریح کے مبتلا لوگوں کے لیے مفید ہے:
برگ ِپودینہ، دارچینی، سیاہ زیرہ، قنطور یون، مازریون، اجوائن دیسی، برنجاسف، انیسون رومی ہموزن کا قہوہ یا سفوف استعمال کرنا ہوتو برگ ِکاسنی کا اضافہ کر لیں۔
تیزابیت کے مبتلا اشخاص کیلیے:تخم کرفس، مصطگی رومی،کندر،زعفران، سفید زیرہ،بسفائج،ہموزن کا قہوہ یا سفوف موزوں ہے۔
جگر کو صحت مند رکھنے والی غذائیں: جو کا دلیہ ، کھجور، لہسن،سبز چائے، چقندر، انجیر،میوہ جات، مچھلی، زیتون کا پھل، سیب ، آلوبخارا، پکی ہوئی غذاؤں میں پرندوں کے گوشت کی یخنی، بکرے کے گوشت کی یخنی، مونگ مسور کی دال،کالے چنے کا پانی، کدو ، ان اجزاء میں جینیاتی تبدیلی بھی نہیں ہے اور اینٹی آکسی ڈینٹ ہونے کے ناتے جگر کو محفوظ ومامون رکھتے ہیں۔