ٹرمپ مواخذہ Impeachment
جنگ کا اعلان کرنے یا جنگ کی منظوری دینے کے علاوہ جو سب سے بڑا اختیار ہے وہ یہی صدر کے مواخذے کا اختیار ہے۔
پچھلے دو تین ہفتوں میں امریکی صدر ٹرمپ اور امریکی ایوانِ نمائندگان )امریکی کانگریس(کے درمیان رسہ کشی عروج پر رہی۔ 18دسمبر2019کو ایوانِ نمائندگان نے اسپیکر نینسی پلوسی کی لیڈر شپ میں دو آرٹیکلز پر ووٹنگ کروا کے صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی قرارداد منظور کی۔
پچھلی جمعرات کو ایوانِ نمائندگان نے ایک اور قرار داد کے ذریعے صدر ٹرمپ کے ایران کے ساتھ جنگ کرنے کے اختیارات کو محدود کر دیا۔ ایوانِ نمائندگان امریکی عوام کے براہِ راست منتخب اراکین پر مشتمل ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں اور اس کے ایران سے جنگ کرنے کے اختیار کو محدود کر دیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے خلاف منظور ہونے والی ان قراردادوں سے صدر امریکا پریشان ضرور ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس حوالے سے مطمئن ہیں کہ ان قراردادوں کی منظوری سے ان کے مخالفین کو کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ یہ قرار دادیں شاید اگلے مرحلے میں ناکام ہو جائیں گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایوانِ نمائندگان میں منظوری تو ہو گئی ہے لیکن ابھی تک ان قراردادوں کو امریکن سینیٹ میں کیوں نہیں بھیجا گیا اور یہ معاملہ کتنا طول پکڑے گا اور یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا۔
مواخذے کی قرار داد دسمبر کے تیسرے ہفتے میں منظور ہوئی تو اس کے فوراً بعد کرسمس کی چھٹیاں سر پر آ گئیں۔ نیوایئر تقریبات کا آغاز ہو گیا۔ تین جنوری سے امریکا اور ایران کے درمیان غیر اعلانیہ لیکن اب تک کی سب سے سخت جنگ جیسی صورتحال رہی۔ پہلے ایرانی ہیرو جنرل قاسم سلیمانی کو ایک امریکی ڈرون نے نشانہ بنا کر مار دیا۔ ایران نے اس قتل کے بھر پور انتقام کا اعلان کیا تو سب سہم گئے۔
چھ جنوری کو سلیمانی دفن ہوئے اور اگلی ہی رات ایران نے عراق میں دو امریکی فوجی اڈوں پر بیس میزائل فائر کیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا نے سوئٹزرلینڈ کے سفارت خانے کے ذریعے ایران سے رابطہ کر کے پیغام دیا کہ اگر سلیمانی کے قتل کا جواب زیادہ سخت نہ ہو تو وہ بھی ڈی اسکیلیٹ کرنے پر تیار ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اسی رات جب طلوعِ صبح ہو رہی تھی تو یوکرین کا ایک مسافر طیارہ تہران کے ہوائی اڈے سے اڑان بھرتے ہی ایرانی میزائل کا نشانہ بن گیا۔
ایران نے جنگ کے خطرے کے پیشِ نظر روسی ساختہ ڈیفنس میزائل سسٹم کو ایکٹی ویٹ کر رکھا تھا۔ یہ جدید سسٹم جب فعال ہوتا ہے تو اپنا ٹارگٹ خود تلاش کرتا، چنتا اور اسے نشانے پر لیتا ہے۔ چونکہ ایران حالتِ جنگ میں تھا اس لیے سارا سسٹم ہائی الرٹ تھا۔ میزائل سسٹم کو بھی آٹو میٹک رکھا گیا ہو گا۔ احتمال یہ ہے کہ جب فنی خرابی کی وجہ سے یوکرینی ہوائی جہاز نے پرواز کے فوراً بعد مڑنا چاہا اور اس کا رُوٹ تبدیل ہوا تو آٹو میٹک سسٹم نے شاید اس کو ہدف جانا اور مار گرایا۔ یہ انتہائی غیر معمولی حالات تھے۔ ایسے میں ہر کوئی خائف تھا کہ اب کچھ ہوا کہ اب کچھ ہوا۔ اس لیے دیکھنا ہو گا کہ ان Distractions کے بعد امریکی ایوانِ نمائندگان کے اندر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے مزید کیا اقدامات ہوتے ہیں ۔
امریکی ایوانِ نمائندگان نے جن دو آرٹیکلز کی منظوری دی ہے ۔ ایوانِ نمائندگان میں ٹرائل کے دو مرحلے منظوری سے متعلق ہیں۔کئی ہفتوں کی کمیٹی سماعتوں hearings کے بعد کانگریس کے اراکین نے اوپر دئے گئے دو آرٹیکلز پر ووٹنگ میں حصہ لیا اور ایک سو بانوے کے مقابلے میں دو سو چوبیس کی اکثریت سے منظور کر لیا۔ اب ایک تیسرا مرحلہ درپیش ہے۔ اراکین کو ابھی اُن منیجرز managers کا انتخاب کرنا ہے جو ان آرٹیکلز کو سینیٹ میں پیش کریں گے۔
یہی منیجرز سینیٹ میں پراسیکیوٹر کے فرائض بھی انجام دیں گے۔ تو یہ تیسرا مرحلہ ابھی باقی ہے اور ایوانِ نمائندگان کو منیجرز منتخب کرنے ہیں۔ اسپیکر نینسی پلوسی نے یہ کام اس لیے روکا ہوا ہے کیونکہ وہ یہ یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ سینیٹ میں ٹرائل بہت منصفانہ fair ہو۔ ڈیموکریٹس چیزوں کو آہستہ کر رہے ہیں جب کہ ری پبلکن یہ چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس معاملے کو نبٹا دیں تاکہ صدر ٹرمپ کے خلاف کیس سینیٹ میں ختم ہو جائے یہ اس لیے ضروری ہے کہ 2020 صدارتی انتخابات کا سال ہے اور صدر ٹرمپ ری پبلکن امیدوار بن سکتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسپیکر نینسی پلوسی نے یہ کیوں سوچا کہ سینیٹ میں ٹرائل شاید منصفانہ نہ ہو۔ نینسی نے یہ اس لیے سوچا کیونکہ بہت سے سینیٹرز اور خاص کر سینیٹ میں اکثریتی ری پبلکن لیڈر مِچ میکونیل نے برملا کہا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں غیر جانبدار منصف کا کردار ادا نہیں کر پائیں گے۔ لیکن کیا سینیٹرز کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے جب کہ آخر کار یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں سینیٹرز کا بالکل غیر جانبدار منصف بننا امریکی آئین کے مطابق ضروری ہے۔ امریکی آئین تمام اراکین سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ مواخذے کے ٹرائل کے لیے بیٹھنے سے پہلے ان کو یہ اوتھ یعنی قسم اٹھانی ہو گی۔
I solemnly swear that in all things pertaining to the trial of impeachment of .... now pending,I will do impartial justice according to the Constituition and law.So help me God.
نینسی پلوسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر کے مواخذے کے لیے دونوں آرٹیکلز رواں ہفتے امریکن سینیٹ کو ارسال کر دیں گی۔ ادھر سینیٹ میں اکثریتی لیڈر مچ نے کہا ہے کہ نینسی پلوسی کو سینیٹ کے اوپر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ مِچ میکونیل نے میسوری سے اپنی ہی پارٹی کے سینیٹر کی چند دن پہلے ایک تجویز پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ہاؤس اسپیکر ایک مہینے کے اندر اندر آرٹیکلز سینیٹ کو ارسال نہیں کرتیں تو سینیٹ کے قوانین اور قوائد و ضوابط تبدیل کر کے مواخذے کی تحریک کو سینیٹ میں ختم کر دیا جائے۔
میکونیل نے تجویز پر دستخط تو کر دئے ہیں مگر وہ سینیٹ کے قوائد و ضوابط تبدیل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیںرکھتے اور نہ ہی وہ ایسا کریں گے۔ اس تجویز کے تحت ہونے والے عمل کو عام زبان میں نیوکلر آپشن کہا جاتا ہے اور میکونیل یہ آپشن کبھی استعمال نہیں کرنا چاہیں گے۔ آخری خبریں آنے تک یہ سننے میںآ رہا تھا کہ نینسی پلوسی نے سینیٹر آدم کو منیجر نامزد کر دیا ہے۔
سینیٹ میں سب سے ٹاپ ڈیموکریٹ سینیٹر چک شومر نے اس بات کا بھی تقاضا کیا ہے کہ سینیٹ میں ٹرائل کے دوران انھیں اجازت ہونی چاہیے کہ وہ چار گواہ پیش کر سکیں۔ میکونیل چاہتے ہیں کہ گواہوں کو پیش ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔
ایوانِ نمائندگان کے پاس جنگ کا اعلان کرنے یا جنگ کی منظوری دینے کے علاوہ جو سب سے بڑا اختیار ہے وہ یہی صدر کے مواخذے کا اختیار ہے۔ ایوانِ نمائندگان نے کمیٹی hearings کے بعد اپنا یہ حق استعمال کیا ہے۔ اب اگلا ٹرائل سینیٹ میں ہو گا۔ اسی دوران ، جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے ایک یک وقتی قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں صدر ٹرمپ کے ایران کے خلاف جنگ کے فیصلہ کرنے کے اختیار پر قدغن لگائی گئی ہے۔ یہ قرار داد بھی اب سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش ہونی ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
پچھلی جمعرات کو ایوانِ نمائندگان نے ایک اور قرار داد کے ذریعے صدر ٹرمپ کے ایران کے ساتھ جنگ کرنے کے اختیارات کو محدود کر دیا۔ ایوانِ نمائندگان امریکی عوام کے براہِ راست منتخب اراکین پر مشتمل ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں اور اس کے ایران سے جنگ کرنے کے اختیار کو محدود کر دیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے خلاف منظور ہونے والی ان قراردادوں سے صدر امریکا پریشان ضرور ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس حوالے سے مطمئن ہیں کہ ان قراردادوں کی منظوری سے ان کے مخالفین کو کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ یہ قرار دادیں شاید اگلے مرحلے میں ناکام ہو جائیں گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایوانِ نمائندگان میں منظوری تو ہو گئی ہے لیکن ابھی تک ان قراردادوں کو امریکن سینیٹ میں کیوں نہیں بھیجا گیا اور یہ معاملہ کتنا طول پکڑے گا اور یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا۔
مواخذے کی قرار داد دسمبر کے تیسرے ہفتے میں منظور ہوئی تو اس کے فوراً بعد کرسمس کی چھٹیاں سر پر آ گئیں۔ نیوایئر تقریبات کا آغاز ہو گیا۔ تین جنوری سے امریکا اور ایران کے درمیان غیر اعلانیہ لیکن اب تک کی سب سے سخت جنگ جیسی صورتحال رہی۔ پہلے ایرانی ہیرو جنرل قاسم سلیمانی کو ایک امریکی ڈرون نے نشانہ بنا کر مار دیا۔ ایران نے اس قتل کے بھر پور انتقام کا اعلان کیا تو سب سہم گئے۔
چھ جنوری کو سلیمانی دفن ہوئے اور اگلی ہی رات ایران نے عراق میں دو امریکی فوجی اڈوں پر بیس میزائل فائر کیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا نے سوئٹزرلینڈ کے سفارت خانے کے ذریعے ایران سے رابطہ کر کے پیغام دیا کہ اگر سلیمانی کے قتل کا جواب زیادہ سخت نہ ہو تو وہ بھی ڈی اسکیلیٹ کرنے پر تیار ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اسی رات جب طلوعِ صبح ہو رہی تھی تو یوکرین کا ایک مسافر طیارہ تہران کے ہوائی اڈے سے اڑان بھرتے ہی ایرانی میزائل کا نشانہ بن گیا۔
ایران نے جنگ کے خطرے کے پیشِ نظر روسی ساختہ ڈیفنس میزائل سسٹم کو ایکٹی ویٹ کر رکھا تھا۔ یہ جدید سسٹم جب فعال ہوتا ہے تو اپنا ٹارگٹ خود تلاش کرتا، چنتا اور اسے نشانے پر لیتا ہے۔ چونکہ ایران حالتِ جنگ میں تھا اس لیے سارا سسٹم ہائی الرٹ تھا۔ میزائل سسٹم کو بھی آٹو میٹک رکھا گیا ہو گا۔ احتمال یہ ہے کہ جب فنی خرابی کی وجہ سے یوکرینی ہوائی جہاز نے پرواز کے فوراً بعد مڑنا چاہا اور اس کا رُوٹ تبدیل ہوا تو آٹو میٹک سسٹم نے شاید اس کو ہدف جانا اور مار گرایا۔ یہ انتہائی غیر معمولی حالات تھے۔ ایسے میں ہر کوئی خائف تھا کہ اب کچھ ہوا کہ اب کچھ ہوا۔ اس لیے دیکھنا ہو گا کہ ان Distractions کے بعد امریکی ایوانِ نمائندگان کے اندر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے مزید کیا اقدامات ہوتے ہیں ۔
امریکی ایوانِ نمائندگان نے جن دو آرٹیکلز کی منظوری دی ہے ۔ ایوانِ نمائندگان میں ٹرائل کے دو مرحلے منظوری سے متعلق ہیں۔کئی ہفتوں کی کمیٹی سماعتوں hearings کے بعد کانگریس کے اراکین نے اوپر دئے گئے دو آرٹیکلز پر ووٹنگ میں حصہ لیا اور ایک سو بانوے کے مقابلے میں دو سو چوبیس کی اکثریت سے منظور کر لیا۔ اب ایک تیسرا مرحلہ درپیش ہے۔ اراکین کو ابھی اُن منیجرز managers کا انتخاب کرنا ہے جو ان آرٹیکلز کو سینیٹ میں پیش کریں گے۔
یہی منیجرز سینیٹ میں پراسیکیوٹر کے فرائض بھی انجام دیں گے۔ تو یہ تیسرا مرحلہ ابھی باقی ہے اور ایوانِ نمائندگان کو منیجرز منتخب کرنے ہیں۔ اسپیکر نینسی پلوسی نے یہ کام اس لیے روکا ہوا ہے کیونکہ وہ یہ یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ سینیٹ میں ٹرائل بہت منصفانہ fair ہو۔ ڈیموکریٹس چیزوں کو آہستہ کر رہے ہیں جب کہ ری پبلکن یہ چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس معاملے کو نبٹا دیں تاکہ صدر ٹرمپ کے خلاف کیس سینیٹ میں ختم ہو جائے یہ اس لیے ضروری ہے کہ 2020 صدارتی انتخابات کا سال ہے اور صدر ٹرمپ ری پبلکن امیدوار بن سکتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسپیکر نینسی پلوسی نے یہ کیوں سوچا کہ سینیٹ میں ٹرائل شاید منصفانہ نہ ہو۔ نینسی نے یہ اس لیے سوچا کیونکہ بہت سے سینیٹرز اور خاص کر سینیٹ میں اکثریتی ری پبلکن لیڈر مِچ میکونیل نے برملا کہا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں غیر جانبدار منصف کا کردار ادا نہیں کر پائیں گے۔ لیکن کیا سینیٹرز کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے جب کہ آخر کار یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں سینیٹرز کا بالکل غیر جانبدار منصف بننا امریکی آئین کے مطابق ضروری ہے۔ امریکی آئین تمام اراکین سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ مواخذے کے ٹرائل کے لیے بیٹھنے سے پہلے ان کو یہ اوتھ یعنی قسم اٹھانی ہو گی۔
I solemnly swear that in all things pertaining to the trial of impeachment of .... now pending,I will do impartial justice according to the Constituition and law.So help me God.
نینسی پلوسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر کے مواخذے کے لیے دونوں آرٹیکلز رواں ہفتے امریکن سینیٹ کو ارسال کر دیں گی۔ ادھر سینیٹ میں اکثریتی لیڈر مچ نے کہا ہے کہ نینسی پلوسی کو سینیٹ کے اوپر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ مِچ میکونیل نے میسوری سے اپنی ہی پارٹی کے سینیٹر کی چند دن پہلے ایک تجویز پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ہاؤس اسپیکر ایک مہینے کے اندر اندر آرٹیکلز سینیٹ کو ارسال نہیں کرتیں تو سینیٹ کے قوانین اور قوائد و ضوابط تبدیل کر کے مواخذے کی تحریک کو سینیٹ میں ختم کر دیا جائے۔
میکونیل نے تجویز پر دستخط تو کر دئے ہیں مگر وہ سینیٹ کے قوائد و ضوابط تبدیل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیںرکھتے اور نہ ہی وہ ایسا کریں گے۔ اس تجویز کے تحت ہونے والے عمل کو عام زبان میں نیوکلر آپشن کہا جاتا ہے اور میکونیل یہ آپشن کبھی استعمال نہیں کرنا چاہیں گے۔ آخری خبریں آنے تک یہ سننے میںآ رہا تھا کہ نینسی پلوسی نے سینیٹر آدم کو منیجر نامزد کر دیا ہے۔
سینیٹ میں سب سے ٹاپ ڈیموکریٹ سینیٹر چک شومر نے اس بات کا بھی تقاضا کیا ہے کہ سینیٹ میں ٹرائل کے دوران انھیں اجازت ہونی چاہیے کہ وہ چار گواہ پیش کر سکیں۔ میکونیل چاہتے ہیں کہ گواہوں کو پیش ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔
ایوانِ نمائندگان کے پاس جنگ کا اعلان کرنے یا جنگ کی منظوری دینے کے علاوہ جو سب سے بڑا اختیار ہے وہ یہی صدر کے مواخذے کا اختیار ہے۔ ایوانِ نمائندگان نے کمیٹی hearings کے بعد اپنا یہ حق استعمال کیا ہے۔ اب اگلا ٹرائل سینیٹ میں ہو گا۔ اسی دوران ، جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے ایک یک وقتی قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں صدر ٹرمپ کے ایران کے خلاف جنگ کے فیصلہ کرنے کے اختیار پر قدغن لگائی گئی ہے۔ یہ قرار داد بھی اب سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش ہونی ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔