ذکر حسینؓ نعرۂ حق ہے

فنکار برادری کے ہاں مجالس کا سلسلہ پورا ماہ جاری رہے گا۔

شہداء کربلا نے جس طرح سے دین اسلام کو بچانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، اداکار۔ فوٹو: فائل

اسلامی تاریخ ایثاروقربانی کے واقعات سے بھری پڑی ہے، لیکن ' کربلا 'جیسا عظیم واقعہ رہتی دنیا تک باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی انوکھی مثال بن کرہم سب کوحق کی راہ پرچلنے کا سبق دیتا رہے گا۔

شہداء کربلا نے جس طرح سے دین اسلام کو بچانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ اوران کے ساتھیوں نے جس طرح سے یزید کی بیعت سے ملنے والی مراعات کوٹھکرا کرعزت کی موت کو ترجیح دی' وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھرکے حریت پسند انسانوں کے لئے مشعل راہ بن گئی۔ ان کے ساتھیوں نے بھی بھوک، پیاس برداشت کرتے ہوئے گلے کٹوا لئے مگر باطل کا ساتھ نہ دیا۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان ماہ محرم بڑے عقیدت واحترام کے ساتھ گزارتے ہیں ۔ علماء کرام اپنے خطابات میں شہداء کربلا کے ساتھ ہونیوالے مظالم اوراس واقعہ سے ملنے والے سبق کی روشنی میں اہم دینی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ کربلا کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے جگہ جگہ پانی اورمشروب کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔



زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی طرح شوبز سے وابستہ فنکاربرادری بھی محرم الحرام میں اپنی تمام فنی سرگرمیاں بند کردیتی ہے۔ فنکاربرادری سیاہ لباس زیب تن کرنے کے ساتھ سوزوسلام کی محافل اور نیاز کا بھی اہتمام کرتی ہے ۔ بلکہ محرم الحرام سے قبل ہی فنکاروں کی رہائشگاہوں پرمجالس کا شیڈول ترتیب دیدیاجاتا ہے جس میں فنکاروں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بھی شریک ہوتے ہیں۔ 2محرم کواداکارہ نادیہ علی، موسیقار طافو اور گلوکارہ ترنم ناز 4محرم ، 5محرم کو اداکارہ شین، زریں، حامد علی خان ، 6محرم کو گلوکارہ سائرہ نسیم، حمیرا چنا اورمہرالنساء، 7 محرم کو گلوکارہ حمیراچنا، ریحانہ اختر 8 محرم کو یاسمین شوکت، جراررضوی ، ظل ہما ، 9محرم کو اداکارہ دردانہ رحمان کے ہاں مجلس عزا اور نیاز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 12محرم کوگلوکارہ شاہدہ منی کی رہائشگاہ جوہر ٹاؤن میں سالانہ مجلس جبکہ 14محرم کو ڈریس ڈیزائنر نجیبہ بی جی کی رہائشگاہ گلبرگ میں مجلس عزاء اور نیاز تقسیم کی جاتی ہے۔


محرم الحرام میں مجالس کے انعقاد کے حوالے سے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکارہ شاہدہ منی ، خوشبو' مدیحہ شاہ، صائمہ خان' دیدار، ماہ نور، ندا چودھری' نادیہ علی ، آفرین، شین، حمیراچنا، سائرہ نسیم ' دردانہ رحمان ' ترنم ناز ' افشاں، کومل ناز، عذراجہاں، صائمہ جہاں، آشاچوہدری، عابدہ بیگ، ثوبیہ خان، سارہ رضا، ماہم رحمان،ریحانہ اختر، ہنی شہزادی، نیہا بلوچ، افتخارٹھاکر، نگاہ حسین، پروڈیوسرعلی رضا، ارشد چوہدری، چنگیزاعوان اور ارباز خان سمیت دیگر نے کہاکہ یزید نے اقتدارسنبھالتے ہی دین حق کی اجتماعی قدروں کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ۔ اس کا یہ اخلاق سے گرا عیاشانہ طرز عمل اسلام کی حقیقی روح کے منافی تھا ۔ حضرت امام حسینؓ نے کربلا کے میدان میں بھوکے پیاسے رہنے کے باوجود یزید کی بیعت نہ کی۔ اگروہ چاہتے توسمجھوتہ کرسکتے تھے ، لیکن دین اسلام کی بقاء کیلئے انہوں نے ایسا نہ کیا۔ دین کی بقاء کیلئے قربانی کی اتنی بڑی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ ہم تمام لوگوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ واقعہ کربلا ہمیں لازوال قربانی کا درس دیتا ہے ۔ قیامت تک اس سے بڑی قربانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ حضرت امام حسینؓ نے جس طرح حق اورباطل کی لڑائی میں یزیدیت کومات دی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں کیلئے امام حسینؓ کی شہادت مشعل راہ ہے۔



اگرواقعہ کربلا سے ملنے والے سبق پرغورکیا جائے توانسان کو درست سمت مل جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کربلا کا ذکر آتے ہی آنکھیں خودبخود آبدیدہ ہوجاتی ہیں۔ اس سے بڑی قربانی اور کیا ہوسکتی ہے کہ احضرت امام حسینؓ نے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ یزیدی لشکر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے سامنے پیاروں کوشہید ہوتے دیکھتے رہے لیکن انہوں نے یزید کی حمایت نہ کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چاہے جتنی بڑی آفت کیوں نہ آجائے ہمیں حق اورسچ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ ویسے تو حق کاساتھ دینا بہت مشکل کام ہے اورآج کل کے حالات کو دیکھ کرخوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مگربطورمسلمان واقعہ کربلا کے شہداء کی قربانیوں نے اسلام کی بقاء میں اہم کردارادا کیا۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ موجود تمام لوگوں نے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کر کے دین اسلام کوبچالیا ۔ اس لئے جب تک ہم اس واقعہ سے ملنے والے سبق کواپنی زندگی کا حصہ نہیں بنا لیتے ، اس وقت تک معاشرے میں بہتری کی بات کرنا درست نہیں ۔ آج کے دور میں جس طرح سے لوگ ایک دوسرے کا حق ماررہے ہیں ، اگرسب لوگ واقعہ کربلا کے فلسفے کوسمجھ لیں توہماراملک انصاف کا گہوارہ بن جائے۔

انہوں نے کہا کہ باشعور مسلمانوں نے ایک بدفطرت انسان کے ہاتھوں اسلام کی محنت خاک میں ملتے دیکھی تو فکر مند ہوگئے کہ امت کے مستقبل کی بقاء کیلئے اعلان جنگ کون کریگا؟ اس موقع پرحضرت امام حسینؓ نے دین کو بچانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اصولوں کی اس جنگ میں طاقت کا نہیں ، حق کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ سحضرت امام حسینؓ نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کلمہ حق بلند کیا تاکہ اسلام میں فاسق وفاجر اورجابر حکمران کی بدعملیوں کومقدر سمجھ کر قبول کرلینے کی روایت نہ پڑ جائے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا خون رنگ لائے گا اورآنیوالی نسلیں یزید کوقابل نفرت اور یزیدیت کولعنت سمجھیں گی۔ انہو ں نے باطل کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے اپنے خاندان اور ساتھیوں کی زندگیاں قربان کرکے کربلا کو حق کی درسگاہ بنادیا ۔ ہر دور کے مسلمان امام حسینؓ کے احسان کے زیر بار رہے اور رہیں گے کیونکہ اگر یزید اپنی سوچ کا زہر اسلام کی رگوں میں اتارنے میں کامیاب ہوجاتا تو مذہب کا کیا رنگ ہوتا اس کے تصور سے ہی دل کانپ جاتا ہے۔ یہی بے مثال قربانی ہے جس کی یادیں ہم ہر سال تازہ کرکے باطل کیخلاف علم بغاوت بلند کرنے کا جذبہ زندہ کرتے ہیں۔ حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں پر ظلم وستم کے جو پہاڑ توڑے گئے ان کی یادیں اس قدرغمناک ہیں کہ محرم کا عشرہ شروع ہوتے ہی فضاء میں ایک افسردگی چھائی نظر آتی ہے ۔ سوگواری کے اس ماحول میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی طرح فنون لطیفہ سے وابستہ فنکاربھی سوگوارہوجاتے ہیں۔ فنی مصروفیات ترک کرکے مجالس کاانعقاد کیاجاتاہے اورنیازتقسیم کی جاتی ہے۔

فنکاربرادری کواس مرتبہ مجالس کے انعقاد کے ساتھ یہ عہد بھی کرنا ہوگا کہ وہ معاشرے میں سدھاراورلوگوںتک حق اورباطل کے پیغام کو آسان انداز سے پہنچانے کیلئے ہرممکن کوشش کرینگے۔ کیونکہ معاشرے میں بہتری لانے کیلئے جو کام فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کے ذریعے لیا جاسکتا ہے وہ کسی بھی دوسرے شعبے کے مقابلے میں زیادہ مناسب ہے اوراس کے ذریعے پیغام آسانی کے ساتھ سب تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے حقوق کیلئے کھڑے ہوں۔ دہشتگردی، بے روزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ سمیت دیگرمسائل کے خاتمہ کیلئے اب ہمیں خود ہی میدان میں اترنا ہوگا۔ اگر ہم نے اس موقع پربھی ایسا نہ کیا توپھرہم ہمیشہ کیلئے یزیدیت کے رحم وکرم پررہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ واقعہ کربلا سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے اوراب اس پرعمل کر کے ہی ہم بہتراندازسے زندگی بسرکرسکیں گے۔
Load Next Story