کب سے ہوں کیا بتاؤں‘ جہاں خراب میں

کہتے ہیں حادثات اچانک جنم نہیں لیتے اور یوں بھی فیض کے اس شعر کی طرح ’’یہ سخن جو ہم نے رقم کیے ، سب ورق ہیں...

Jvqazi@gmail.com

کہتے ہیں حادثات اچانک جنم نہیں لیتے اور یوں بھی فیض کے اس شعر کی طرح ''یہ سخن جو ہم نے رقم کیے ، سب ورق ہیں تیری یاد کے '' ہم جسے ماضی کہتے ہیں وہ دراصل ہمارا آئینہ بھی ہوتا ہے۔ جتنا صاف اور شفاف آئینہ ہوگا اتنی ہی ہمیں اپنے بارے میں جان کاری ملے گی۔ قوموں کی تاریخ ان کا آئینہ ہوتی ہے جتنی واضح صاف اور شفاف انداز میں وہ رکھی جائے گی اتنی ہی وہ ہماری آیندہ کی نسلوں کی رہنمائی کرے گی۔ یہی بات اگلے روز قومی اسمبلی کے فلور پر جناب محمود اچکزئی نے کہی تھی۔

جب ''شہید'' کے معنی پر تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ آج جو کچھ ہورہا ہے اس کی جڑیں ہماری تاریخ سے جڑی ہیں اور ہمیں تاریخ میں اس کی درستگی کی خاطر واپس جانا پڑے گا۔ کون شہید ہے اور کون نہیں اس ڈور کو تو ہم آخر میں سلجھانے کی کوشش کریں گے مگر یہ معاملہ بھی اس بیانیہ Narrative کا تسلسل ہے جس کی جڑیں ہماری تاریخ میں پیوست ہیں۔ ہمیں خود تاریخ کے معنی کو بھی سمجھنا پڑے گا۔ تاریخ بادشاہوں کے درباروں میں لکھی ہوئی قصیدہ خوانی کا نام نہیں اور نہ ہی افسانوں و کہانیوں کو تاریخ کہا جاتا ہے۔ تاریخ خود ٹرائل (Trial) ہے۔ سچ تک شواہدات کے ذریعے پہنچنے کا طریقہ۔

جب عدالتیں غلط فیصلے سناتی ہیں تو ان کے غلط فیصلے بھی تاریخ کے کٹہرے میں سنے جاتے ہیں۔ تاریخ ایک سائنس ہے اور تمام سائنسوں میں ایک اہم سائنس۔ کارل کوپر (Karl Kooper) جسے Historicism کہتے ہیں یورپی نقاد کارل مارکس کی ساری باتیں مانیں نہ مانیں مگر تاریخ کی تشریح کے خدوخال جو اس نے ''تاریخی مادیت'' (Historical Materialism) کی بنائی ہوئی اصطلاح میں وضع کیے تھے اس کو سب مانتے ہیں۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ تاریخ کو تاریخ ہی رہنے دیں اسے افسانہ نہ بنائیں، اسے قصیدہ نہ بنائیں اور سنیں اس سچ کو جو کتنا ہی خود آپ کی گردن تک نہ پہنچے۔ ورنہ پھر کبھی اس موضوعیت (Subjectivism) کا شکار نہ ہوجائیں جس کو شاعر اس انداز میں بیان کرتا ہے ''انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند''. تاریخ کی غلط تشریح خود آپ سے غلط فیصلے کروائے گی اور آپ کو دلدل میں پھنسا دے گی جس طرح آج ہم بحیثیت ملک و قوم پھنسے ہوئے ہیں۔

میں نے کمیونسٹ مفکر طارق علی سے پوچھا تھا کیا خیال ہے کارل مارکس نے ''پرولتاری آمریت'' (Proletariate Dictatorship) کا چناؤ کرکے یعنیٰ لفظ ''ٰ آمریت'' لفظ کو ڈال کر خود گنجائش نہیں چھوڑی تھی تاکہ کوئی بھی آمر آ کے اس میں اپنے آپ کو شامل کرکے بزعم خود یہ دعویٰ کرسکے کہ یہ ہے جو دراصل کارل مارکس نے کہا تھا۔ طارق علی میری بات سے متفق تھے۔ مارکس جو کہنا چاہتے تھے وہ یہ تھا کہ مزدور فطری طور پر جمہوریت پرست ہوتا ہے۔ لہٰذا مزدوروں کی پارٹیاں انتخاب لڑیں گی نہ کہ بورژوا پارٹیاں جب کہیں جاکر ریاست میں سوشلسٹ نظام آئے گا۔ مگر اسٹالن، لینن کے جلدی جانے کے بعد وہ حال کیا اپنے مخالفوں کا بس کچھ نہ پوچھئے۔ اتنی تفصیل میں خیر اس مضمون کے معمولی فریم میں نہیں جاؤں گا لیکن کچھ Narratives ان ہزاروں و لاکھوں جملوں میں بندھے ہوئے کسی مفروضے کی طرح ہمارے ذہنوں میں بھرے ہوئے ہیں، جن کا ذکر ضرور کروں گا تاکہ شاید دکھا سکوں کہ ہم نے اپنے آئینے کو کس طرح مسخ کیا، تاریخ کے اصولوں سے کیسے رو گردانی کی۔

یہ اسی زمانے کا واقعہ ہے جب لیاقت علی خان نے جو اس وقت وزیر اعظم تھے، پنجاب اسمبلی کے فلور پر کہا کہ مسلم لیگ کو ووٹ نہ دینا پاکستان کو ووٹ نہ دینے کے برابر ہوگا۔ انھوں نے ایک جھٹکے سے One Party Rule نافذ کردیا اور یہ بھی صادر فرمایا کہ جو ووٹ نہ دے گا وہ اس ملک کے خلاف مانا جائے گا۔ لیکن ایسی بات نہرو نے تو ہندوستان میں نہیں کہی۔ اور پھر یوں ہوا کہ جو ان کو ناپسند تھے وہ مسلم لیگ کے لیے ناپسند ہوئے اور جو مسلم لیگ کے لیے ناپسند ہوئے وہ ملک ہی کے لیے ناپسند ٹھہرائے گئے۔

ایک اور صورتحالNarrative کا بھی ذکر کروں جب ذوالفقار علی بھٹو نے فرمایا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ کیا برا تھا اگر یہ کہہ دیتے کہ گھاس بھی نہیں کھائیں گے اور ایٹم بم بھی ضرور بنائیں گے۔ ضیاء الحق نے تو اس سے بھی آگے کی بات کی وہ کہتے تھے کہ ہمارا کام صرف جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا بھی ہے۔

تو پھر لیجیے یہ ہے آج کا پاکستان، دور تک ہمیں منزل دکھائی نہیں دیتی کہ ہمارا اصل مقصد کیا ہے، ریاست آج کے لیے بین الاقوامی تناظر میں کیا ہوتی ہے۔ خود آج کے اس دور میں خود مختاری اپنی مقداری کیفیت میں ماہیت تبدیل کرچکی ہے ۔ دراصل ہماری ساری تاریخ مغلوں کے بنائے ہوئے ''نمک حرام'' مفروضے سے مماثلت رکھتی ہے جس کے تحت جو غلامی کرے وہ وفادار، جو چمچہ گیری کرے، ہاں میں ہاں ملائے، قصیدے کہے، واہ واہ کرے تو ٹھیک اور اگر نہ کرے تو نمک حرام۔اب مگر اس گھسی پٹے افسانوی حکایت Narrative میں تضاد آنا شروع ہوا ہے، میں نے پچھلے مضمون میں بھی کہا تھا کہ ہمارے ریاستی اداروں نے پالیسی تبدیل کردی ہے۔ لیکن وہ کہاں جائیں جن کا اوڑھنا بچھونا، کھانا پینا اسی Narrative پر ہے۔جب انھوں نے کہا کہ یہ ہماری جنگ نہیں، تو اس کے برعکس وہ آواز بھاری ہوتی گئی کہ نہیں جی! یہ ہماری اپنی جنگ ہے، کیوں کہ وہ ہماری فوج کے جوانوں کو مار رہے ہیں، معصوم لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں۔


یوں انھوں نے جب ایک ایسے شخص کو شہید قرار دے دیا، جو ہزاروں بے گناہ پاکستان کے شہریوں کے قتل کا مرتکب ہے۔ تو شور برپا ہوا کہ وہ کیسے ''شہید'' ہوسکتا ہے؟ محض اس لیے کہ وہ ایک غیر قانونی ڈرون حملے میں مارا گیا ہو۔ کسی مجرم کو اگر کسی مجرم نے مارا ہو تو ٹھیک ہے اس مجرم کی مذمت کی جاسکتی ہے کیونکہ اس نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا، مگر اس سے کہیں سفاک قاتل جو مارا گیا ہو وہ شہید کیسے ہوسکتا ہے؟ اور اگر وہ شہید تھاتو خود اس کے حکم سے ہزاروں پاکستانی مسلمان جو مارے گئے تو کیا وہ شہید نہیں تھے؟ مولانا فضل الرحمن تو بہت دور تک چلے گئے اور غصے میں آگئے یہ تک کہہ گئے کہ امریکا اگر کسی کتے کو بھی مارے گا تو وہ بھی شہید ہوگا۔ جانور بے چارے جانور ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ مذاہب تو اشرف المخلوقات کے لیے ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ کون شہید ہے ؟ وہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ یہ ان کی Original Jurisdiction ہے۔ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ہزاروں معصوم شہریوں کا قاتل، ہمارے ملک کو ٹھیس پہنچانے والے، اللہ کی نظر میں صحیح ہیں؟

بلاشبہ ہم اب یہ حق کسی کو بھی نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے آپ کو اتھارٹی سمجھے کہ واقعات اور چیزوں کی تشریح کرنے کا حق صرف ان کے پاس ہے اور اس طرح وہ جو چاہے کہہ دیں ، وہ قانون ٹھہرا اور جو ملک کا قانون ہے وہ گیا ردی کی ٹوکری میں۔

فلم ''انصاف اور قانون'' میں مہدی حسن کا گایا ہوا وہ گانا میرے کانوں میں گونج اٹھا ہے ''آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل'' یہ اس ماضی کی، اس آئینے کی، اس تاریخ کی Manifestationاظہاریت ہے جو مملکت خداداد اپنی ڈگر سے ہٹ چکا ہے۔

ہم نے تاریخ کو مسخ کیا، غیر حقیقی، اشتعال انگیز باتوں اور نفرتوں کو اپنے تدریسی عمل کا حصہ بناتے ہیں ، اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ان کے کچے ذہن بھی اب غلط باتوں کو سچ سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ سچ ہمیں جھوٹ لگنے لگتا ہے۔ ہم آنکھیں ہوتے ہوئے بھی بھٹکے ہوئے آہو کی طرح پھرتے ہیں۔ لہٰذا یہ درستگی کا عمل صرف ایک دھارے پر نہیں ہے۔ اس کے کئی دھارے ہیں تاکہ ہر جگہ درستگی اور احساس زیاںکا عمل شروع کرسکیں، پھر ہم تاریخ کی ٹھوس حقیقت میں اپنے ماضی میں کی ہوئی غلطیوں کا اعتراف کریں اور آج کے اندھیروں سے نکلتے ہوئے اپنا کل سنوار سکیں۔

آئیے کہ خواب بنیں کل کے واسطے
ورنہ یہ رات آج کے سنگیں دور کی
ڈس لے گی جاں و دل کچھ اس طرح
کہ جاں و دل تا عمر پھر
نہ حسیں خواب بن سکیں
Load Next Story