لوہڑی قدیم روایتی تہوار
ہمارے یہاں اب بہت کم لوگ لوہڑی کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ بہت سے نوجوان تو اس تہوار سے واقف ہی نہیں
لوہڑی پنجاب کا ایک قدیم تہوار ہے۔ سرحد پار یہ تہوار دیگر علاقوں میں بھی منایا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں میں اس کا نام بھی مختلف ہے جیسا کہ پونگل، سنکرانتی، کھچڑی، ہاڈاگا، اگاڈی، ماگھ بیہو، اونم وغیرہ۔ لوہڑی کے تہوار سے بہت سے واقعات منسوب ہیں۔ بعض اسے ہندو مذہب کے ساتھ مخصوص بھی کرتے ہیں۔ ہندو مذہب میں یہ تہوار سورج دیوتا سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن پنجاب میں یہ زیادہ تر بطور موسمی تہوار منایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل متحدہ پنجاب میں یہ تہوار ہندو و مسلم سبھی مناتے تھے۔ لوہڑی بدلتے موسم کا سندیس ہے۔ پنجاب میں یہ تہوار عموماً دیسی مہینے پوہ کے آخری دن یا گنے کی فصل کی کٹائی کے موسم میں منایا جاتا ہے۔
اس تہوار کے ساتھ ایک لوک داستان بھی جڑی ہے، جو دلا بھٹی نامی ایک جانباز کے گرد گھومتی ہے۔ دلا بھٹی کا اصل نام رائے عبداللہ خاں تھا اور ان کا تعلق پنڈی بھٹیاں سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مغل شہنشاہ جہانگیر کے رضاعی بھائی تھے۔ مگر جب دلا بھٹی کو معلوم ہوا کہ مغل ان کے آبائواجداد کے قاتل ہیں تو انہوں نے مغل حکومت کے خلاف جدوجہد شروع کردی۔
ایشور دیال گور کے بقول ''یہ مقامی بغاوت اس قدر شدید تھی کہ اکبر کو دو دہائیوں کےلیے اپنا دارالحکومت دہلی سے لاہور منتقل کرنا پڑا تاکہ حالات قابو میں رہیں۔''
دلا بھٹی سے منسلک کہانی کے مطابق ایک مرتبہ سندری اور مندری نامی دو ہندو برہمن لڑکیوں کو قرض کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث ایک زمیندار نے اغوا کرلیا۔ جب یہ بات دلا بھٹی کو معلوم ہوئی تو اس نے ان لڑکیوں کو زمیندار کے قبضے سے چھڑوایا اور اپنے ساتھ جنگل میں لے گیا۔ یہاں ان دونوں ہندو بہنوں کی شادیاں بھی کروائیں۔ خود ہی لکڑیاں اکٹھی کیں، آگ جلائی اور پاس موجود شکر اور تل دونوں کی جھولی میں ڈال کر رسم ادا کی۔ پھیروں کے موقع پر منتر کی جگہ جو اشعار پڑھے گئے وہ بھی ایک لوک گیت کی حیثیت سے زندہ ہیں۔ یہ اشعار درج ذیل ہیں:
سندر مندریے
تیرا کون وچھارا ہو
دلا بھٹی والا ہو
دُلّے دی دھی ویاہی ہو
شیر شکّر پائی ہو
کڑی دا لال پٹاخہ ہو
کڑی دا سالو پاٹہ ہو
سالو کون سمیٹے
چاچے چوری کُٹی
زمیندارا لُٹی
زمیندار سُدھائے
بڑے بھولے آئے
اک بھولا رہ گیا
سپاہی پھر کے لے گیا
سپاہی نے ماری اٹ
سانوں دے دے لوڑی
تے تیری جیوے جوڑی
بھانویں رو تے بھانویں پٹ
سندر مندریے
(یہ اشعار بعض جگہ ترمیم و بعض جگہ اضافہ کے ساتھ ملتے ہیں)
اس قصے کے علاوہ بتایا جاتا ہے کہ دلا بھٹی کو آخرکار مغل سرکار کے خلاف مزاحمت کرنے پر سزا دی گئی تھی۔ اس ضمن میں یونس ادیب ''میرا شہر لاہور'' میں لکھتے ہیں ''بعض تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دلا بھٹی شاہ حسین کا مرید تھا اور اکبر کے خلاف بغاوت میں چھوٹے طبقے کے لوگ شاہ حسین کی تعلیمات کے اثر میں شریک ہوئے تھے... کہتے ہیں کہ جب دلا بھٹی کو میانی صاحب لاہور میں پھانسی دی گئی تو شاہ حسین لاہور کی کوتوالی میں زیر حراست تھے۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ جس جگہ دلا بھٹی کو پھانسی دی گئی شاہ حسین وہاں بھی موجود تھے۔''
کہا جاتا ہے کہ شاہ حسین نے ہی دلا بھٹی کی لاش حکومت سے وصول کی اور نماز جنازہ بھاٹی چوک میں پڑھانے کے بعد میانی صاحب میں ایک اونچے ٹیلے پر دفن کردیا۔ میانی صاحب قبرستان میں میجر شبیر شریف کے احاطے کے قریب دلا بھٹی سے منسوب ایک قبر تو موجود ہے، مگر یہ کسی طور قدیم نہیں لگتی۔ یہ تو بعد میں بنائی گئی ہے۔ اب ماضی میں یہاں کوئی قبر تھی یا نہیں، اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان بھر میں جہاں لوہڑی کا تہوار جوش و خروش سے منایا جاتا تھا، وہاں تقسیم سے قبل لاہور کا بھی یہ ایک اہم تہوار تھا۔ منیر صاحب کی کتاب میں مستری محمد شریف کا انٹرویو شامل ہے۔ اس انٹرویو میں وہ لوہڑی سے جڑی اپنی یادوں کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ''لوہڑی کے موقع پر چوکوں میں آگ جلاتے تھے۔ بھاٹی چوک، لوہاری چوک، شاہ عالمی، ڈبی بازار، کشمیری بازار، سوہے بازار، ہر چوک میں آگ جلتی تھی۔ شام کے وقت پہلے ٹائم، مطلب رات کے آٹھ نو بجے سے پہلے پہلے، پانچ پانچ، سات سات، دس دس سال کی لڑکیاں گاتی تھیں
مومائی دے کے جا
داڑھی پھل پوا کے جا
ساری رات آگ جلتی رہتی تھی۔''
اے حمید لاہور میں لوہڑی کے تہوار کے متعلق لکھتے ہیں ''لاہور میں جب سردیوں کا موسم اپنے عروج پر ہوتا تھا تو ہندو، سکھ لوہڑی کا تہوار مناتے تھے۔ اس تہوار کے موقع پر ہندو سکھ حلوائی خاص طور پر مٹھائیاں اور چڑوے ریوڑیاں اور بتاشے تیار کرتے تھے۔ لوہڑی کے تہوار پر ہندو سکھ ایک دوسرے کے گھروں میں خاص طور پر چڑوے ریوڑیاں تحفے کے طور پر بھیجتے تھے۔ گلی گلی آگ کے چھوٹے چھوٹے الاؤ روشن ہوجاتے تھے اور لڑکے کاٹھے یعنی پتلے گنے لے کر ان کی جڑوں کو آگ میں ڈال کر گرم کرتے اور پھر زور سے زمین پر مارتے، جس سے وہ پٹاخ سے پھٹتا تھا۔ چھوٹے بچے دکان دکان پر جاکر لوہڑی کے چڑوے ریوڑیوں کےلیے چندہ مانگتے تھے۔ ساتھ ساتھ ایک لوک گیت بھی گیت گاتے تھے۔
ہٹی والیا ویرا
سِر سونے دا چیرا
سانوں موہ مائی دے
تیری جیوے مجھی گائیں
دکانوں سے ہمیں جو پیسے ملتے ہم ان کی ریوڑیاں اور چڑوے خرید کر کھاتے تھے۔''
لوہڑی کے تہوار سے بہت سی رسمیں منسلک تھیں، جیسے لوہڑی ویاؤن جس میں لڑکے دوسرے علاقے یا گاؤں کے لوہڑی کے الاؤ سے لکڑی اٹھا کر لاتے تھے۔ اسی طرح بچوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر چیزیں بھی مانگا کرتی تھیں۔ بچے گھروں کے باہر جاکر اونچی آواز میں مل کر کہتے:
ڈبہ بھریا لیراں دا تے ایہو گھر امیراں دا
ایڈی میکلیگن لکھتے ہیں ''(بچے کی) پیدائش کے بعد آنے والا لوہڑی کا تہوار خصوصی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ تانبے کے سکے اور کوڑیاں غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔''
پہلے یہ تہوار سرحد کے دونوں جانب مقبول تھا، مگر اب یہ فقط بھارتی پنجاب میں سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اب بہت کم لوگ لوہڑی کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ بہت سے نوجوان تو اس تہوار سے واقف ہی نہیں۔ پہلے ایسے تہوار جو موسم کے ساتھ جڑے تھے اس میں خاص مذہبی تفریق شامل نہیں تھی۔ مگر اب لوہڑی کو غیر اسلامی تہوار جان کر ہم نے ملک بدر کردیا ہے۔ تہوار تو ہمیں جوڑتے ہیں، نفرتوں کو کم کرتے ہیں۔ آئیے! ان نفرت کے پجاریوں کو شکست دیں اور تہوار جو کہ ہمیں اکٹھا کرنے کی سازش ہیں، سبھی مل کر اس سازش میں شریک ہوں۔ دلے بھٹی سے جڑے اس تہوار سے اپنے بچوں کو متعارف کروائیں۔ ان کو بھی معلوم ہو کہ سبھی جانباز عرب نہ تھے، کوئی ان کی دھرتی کا بھی تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس تہوار کے ساتھ ایک لوک داستان بھی جڑی ہے، جو دلا بھٹی نامی ایک جانباز کے گرد گھومتی ہے۔ دلا بھٹی کا اصل نام رائے عبداللہ خاں تھا اور ان کا تعلق پنڈی بھٹیاں سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مغل شہنشاہ جہانگیر کے رضاعی بھائی تھے۔ مگر جب دلا بھٹی کو معلوم ہوا کہ مغل ان کے آبائواجداد کے قاتل ہیں تو انہوں نے مغل حکومت کے خلاف جدوجہد شروع کردی۔
ایشور دیال گور کے بقول ''یہ مقامی بغاوت اس قدر شدید تھی کہ اکبر کو دو دہائیوں کےلیے اپنا دارالحکومت دہلی سے لاہور منتقل کرنا پڑا تاکہ حالات قابو میں رہیں۔''
دلا بھٹی سے منسلک کہانی کے مطابق ایک مرتبہ سندری اور مندری نامی دو ہندو برہمن لڑکیوں کو قرض کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث ایک زمیندار نے اغوا کرلیا۔ جب یہ بات دلا بھٹی کو معلوم ہوئی تو اس نے ان لڑکیوں کو زمیندار کے قبضے سے چھڑوایا اور اپنے ساتھ جنگل میں لے گیا۔ یہاں ان دونوں ہندو بہنوں کی شادیاں بھی کروائیں۔ خود ہی لکڑیاں اکٹھی کیں، آگ جلائی اور پاس موجود شکر اور تل دونوں کی جھولی میں ڈال کر رسم ادا کی۔ پھیروں کے موقع پر منتر کی جگہ جو اشعار پڑھے گئے وہ بھی ایک لوک گیت کی حیثیت سے زندہ ہیں۔ یہ اشعار درج ذیل ہیں:
سندر مندریے
تیرا کون وچھارا ہو
دلا بھٹی والا ہو
دُلّے دی دھی ویاہی ہو
شیر شکّر پائی ہو
کڑی دا لال پٹاخہ ہو
کڑی دا سالو پاٹہ ہو
سالو کون سمیٹے
چاچے چوری کُٹی
زمیندارا لُٹی
زمیندار سُدھائے
بڑے بھولے آئے
اک بھولا رہ گیا
سپاہی پھر کے لے گیا
سپاہی نے ماری اٹ
سانوں دے دے لوڑی
تے تیری جیوے جوڑی
بھانویں رو تے بھانویں پٹ
سندر مندریے
(یہ اشعار بعض جگہ ترمیم و بعض جگہ اضافہ کے ساتھ ملتے ہیں)
اس قصے کے علاوہ بتایا جاتا ہے کہ دلا بھٹی کو آخرکار مغل سرکار کے خلاف مزاحمت کرنے پر سزا دی گئی تھی۔ اس ضمن میں یونس ادیب ''میرا شہر لاہور'' میں لکھتے ہیں ''بعض تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دلا بھٹی شاہ حسین کا مرید تھا اور اکبر کے خلاف بغاوت میں چھوٹے طبقے کے لوگ شاہ حسین کی تعلیمات کے اثر میں شریک ہوئے تھے... کہتے ہیں کہ جب دلا بھٹی کو میانی صاحب لاہور میں پھانسی دی گئی تو شاہ حسین لاہور کی کوتوالی میں زیر حراست تھے۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ جس جگہ دلا بھٹی کو پھانسی دی گئی شاہ حسین وہاں بھی موجود تھے۔''
کہا جاتا ہے کہ شاہ حسین نے ہی دلا بھٹی کی لاش حکومت سے وصول کی اور نماز جنازہ بھاٹی چوک میں پڑھانے کے بعد میانی صاحب میں ایک اونچے ٹیلے پر دفن کردیا۔ میانی صاحب قبرستان میں میجر شبیر شریف کے احاطے کے قریب دلا بھٹی سے منسوب ایک قبر تو موجود ہے، مگر یہ کسی طور قدیم نہیں لگتی۔ یہ تو بعد میں بنائی گئی ہے۔ اب ماضی میں یہاں کوئی قبر تھی یا نہیں، اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان بھر میں جہاں لوہڑی کا تہوار جوش و خروش سے منایا جاتا تھا، وہاں تقسیم سے قبل لاہور کا بھی یہ ایک اہم تہوار تھا۔ منیر صاحب کی کتاب میں مستری محمد شریف کا انٹرویو شامل ہے۔ اس انٹرویو میں وہ لوہڑی سے جڑی اپنی یادوں کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ''لوہڑی کے موقع پر چوکوں میں آگ جلاتے تھے۔ بھاٹی چوک، لوہاری چوک، شاہ عالمی، ڈبی بازار، کشمیری بازار، سوہے بازار، ہر چوک میں آگ جلتی تھی۔ شام کے وقت پہلے ٹائم، مطلب رات کے آٹھ نو بجے سے پہلے پہلے، پانچ پانچ، سات سات، دس دس سال کی لڑکیاں گاتی تھیں
مومائی دے کے جا
داڑھی پھل پوا کے جا
ساری رات آگ جلتی رہتی تھی۔''
اے حمید لاہور میں لوہڑی کے تہوار کے متعلق لکھتے ہیں ''لاہور میں جب سردیوں کا موسم اپنے عروج پر ہوتا تھا تو ہندو، سکھ لوہڑی کا تہوار مناتے تھے۔ اس تہوار کے موقع پر ہندو سکھ حلوائی خاص طور پر مٹھائیاں اور چڑوے ریوڑیاں اور بتاشے تیار کرتے تھے۔ لوہڑی کے تہوار پر ہندو سکھ ایک دوسرے کے گھروں میں خاص طور پر چڑوے ریوڑیاں تحفے کے طور پر بھیجتے تھے۔ گلی گلی آگ کے چھوٹے چھوٹے الاؤ روشن ہوجاتے تھے اور لڑکے کاٹھے یعنی پتلے گنے لے کر ان کی جڑوں کو آگ میں ڈال کر گرم کرتے اور پھر زور سے زمین پر مارتے، جس سے وہ پٹاخ سے پھٹتا تھا۔ چھوٹے بچے دکان دکان پر جاکر لوہڑی کے چڑوے ریوڑیوں کےلیے چندہ مانگتے تھے۔ ساتھ ساتھ ایک لوک گیت بھی گیت گاتے تھے۔
ہٹی والیا ویرا
سِر سونے دا چیرا
سانوں موہ مائی دے
تیری جیوے مجھی گائیں
دکانوں سے ہمیں جو پیسے ملتے ہم ان کی ریوڑیاں اور چڑوے خرید کر کھاتے تھے۔''
لوہڑی کے تہوار سے بہت سی رسمیں منسلک تھیں، جیسے لوہڑی ویاؤن جس میں لڑکے دوسرے علاقے یا گاؤں کے لوہڑی کے الاؤ سے لکڑی اٹھا کر لاتے تھے۔ اسی طرح بچوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر چیزیں بھی مانگا کرتی تھیں۔ بچے گھروں کے باہر جاکر اونچی آواز میں مل کر کہتے:
ڈبہ بھریا لیراں دا تے ایہو گھر امیراں دا
ایڈی میکلیگن لکھتے ہیں ''(بچے کی) پیدائش کے بعد آنے والا لوہڑی کا تہوار خصوصی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ تانبے کے سکے اور کوڑیاں غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔''
پہلے یہ تہوار سرحد کے دونوں جانب مقبول تھا، مگر اب یہ فقط بھارتی پنجاب میں سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اب بہت کم لوگ لوہڑی کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ بہت سے نوجوان تو اس تہوار سے واقف ہی نہیں۔ پہلے ایسے تہوار جو موسم کے ساتھ جڑے تھے اس میں خاص مذہبی تفریق شامل نہیں تھی۔ مگر اب لوہڑی کو غیر اسلامی تہوار جان کر ہم نے ملک بدر کردیا ہے۔ تہوار تو ہمیں جوڑتے ہیں، نفرتوں کو کم کرتے ہیں۔ آئیے! ان نفرت کے پجاریوں کو شکست دیں اور تہوار جو کہ ہمیں اکٹھا کرنے کی سازش ہیں، سبھی مل کر اس سازش میں شریک ہوں۔ دلے بھٹی سے جڑے اس تہوار سے اپنے بچوں کو متعارف کروائیں۔ ان کو بھی معلوم ہو کہ سبھی جانباز عرب نہ تھے، کوئی ان کی دھرتی کا بھی تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔