12دسمبر1949ء جنرل افتخارکی فضائی حادثے میں شہادت
پاکستان کی تاریخ میں پہلے ہائی پروفائل کیس کی حیثیت رکھنے والے حادثے کا ڈرامائی احوال
امریکا اور ایران کا حالیہ ٹکراؤ دراصل تاریخ میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔اور پاکستان بھی اس سے جڑا دکھائی دیتا ہے۔
اس کا آغاز 1948ء میں ہوا جب ایران میں تیل کمپنی،اینگلو پرشین آئل کمپنی کو قومیا لینے کی آوازیں بلند ہوئیں۔اس برطانوی کمپنی میں امریکی ارب پتیوں نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔مارچ 1951ء میں ایرانی پارلیمان نے بذریعہ قرارداد کمپنی اپنے قبضے میں کرلی۔برطانیہ اور امریکا کو ایک اسلامی ملک کی یہ جرات پسند نہ آئی اورفوراً ایران کے خلاف محاذ بنا لیا۔بعض مورخین کا دعوی ہے،تب دونوں ممالک نے پاکستانی وزیراعظم،لیاقت علی خان سے مطالبہ کیا کہ ایران کے خلاف کارروائیوںکے لیے اڈے دئیے جائیں مگر انھوں نے انکار کر دیا۔عالمی قوتوں کا مہرہ نہ بننے کے ''جرم'' میںوزیراعظم پاکستان چند ماہ بعد شہید کر دیے گئے۔یہی نہیں،کچھ مورخین کے نزدیک ''سانحہ جنگ شاہی''بھی مقامی گریٹ گیم کا نتیجہ تھا جب پاکستان اپنے قابل فوجی افسروں سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔
حال ہی میں 13 دسمبر 2019ء کی تاریخ خاموشی سے گزرگئی حالانکہ اسی دن وہ دلخراش واقعہ پیش آیا جو پاکستان خصوصاً پاک فوج کی تاریخ میں اہم باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن میجر جنرل محمد افتخار خان کی سترہویں برسی تھی۔ٹھیک ستر سال قبل12 دسمبر 1949ء کی شب ان کا ہوائی جہازجنگ شاہی (سندھ) کے نزدیک واقع کاروجبل نامی پہاڑی سلسلے سے ٹکرا گیا تھا۔ اسی حادثے میں بیالیس سالہ میجر جنرل شہید ہوگئے۔
تحریک آزادی کے ممتاز رہنما،قاضی عیسیٰ کے بھائی،قاضی موسی اور بریگیڈیئر شیر خان بھی شہدا میں شامل تھے۔ شہید افتخار خان کو عنقریب پاک فوج کے مقامی کمانڈر انچیف بننے کا اعزاز ملنے والا تھا مگر بظاہر پائلٹ کی کوتاہی سے یہ خوفناک حادثہ پیش آگیا۔ستم ظریفی یہ کہ پاکستان اور پاک افواج کے دشمنوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اس المناک حادثے کو بھی اپنا ہتھیار بنالیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ حادثہ دراصل ایک سازش تھی۔ یہ الزام اسی لیے سامنے لایا گیا تاکہ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرکے اسے بدنام کیا جاسکے۔ اس قسم کی شرانگیز مہم تاحال جاری ہے۔ لہٰذا ضروری ہوچکا کہ حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں اوریوں جعلی خبروں یا ''فیک نیوز''کی مہم کا سدباب ہوسکے۔
افسروں کی شدید کمی
اٹھارہویں صدی میں انگریزوں نے مسلم حکمرانوں سے اقتدار چھینا تھا اسی لیے وہ مسلمانوں پر اعتماد نہ کرتے تھے۔ انہوں نے انتظامیہ اور فوج میں مسلمانوں کو ملازمتیں تو دیں لیکن کبھی اعلیٰ عہدوں پر فائزنہ کیا۔ البتہ برطانوی ہند کی فوج میں ہندو فوجیوں کو بتدریج اعلیٰ عہدے دیئے ۔ فوج میں مسلمان بہ حیثیت عام فوجی ہی بھرتی کیے جاتے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریز حاکموں کو احساس ہوا کہ ہندوستانی فوج میں مسلم افسر بھی ہونے چاہیں۔ تبھی کیڈٹ کالجوں میں مسلمان طلبہ کو بھی داخلہ دیا گیا۔شہید محمد افتخار کے بڑے بھائی، محمد اکبر خان کو ہندوستان میں کمیشن حاصل کرنے والے پہلے مسلم فوجی افسر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے ڈیلے کیڈٹ کالج،اندور میں تعلیم پاکر1 دسمبر 1919ء کو ہندوستانی شاہی فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ دیگر ابتدائی مسلمان فوجی افسروں میں اسکندر مرزا، فیض محمد خان، اشفاق المجید، فضل الرحمن کلّو، محمد افضل جنجوعہ، احمد جان، محمد ایوب خان اور نثار علی خان شامل ہیں۔
1997ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ ابھی ہندوستانی شاہی فوج میں مسلم افسروں کی شمولیت کو محض انیس سال گزرے تھے۔ ان میں سے بہت کم نے میدان جنگ میں حقیقی لڑائیاں لڑی تھیں۔ بیشتر انتظامی نوعیت کے کام کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے، جب ہندوستانی شاہی فوج کی تقسیم عمل میں آئی اور پاک فوج نے جنم لیا تو اس میں افسروں کی شدید کمی تھی۔ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سینئر ترین مسلم فوجی افسر محض بریگیڈئیر تھے اور وہ بھی صرف تین یعنی محمد اکبر خان، این اے ایم (نواب زادہ آغا محمد) رضا اور محمد ایوب خان(ایکٹنگ)۔ ان تینوں کو بھی بریگیڈئیر بنے ایک دو سال ہی ہوئے تھے۔
یہی وجہ ہے، 1947ء میں پاک فوج کے تمام اعلیٰ عہدوں پر مجبوراً انگریز افسر تعینات کرنا پڑے۔ افسوس کہ انگریز آقاؤں نے پاکستانی حکومت کی اس مجبوری و بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔اکتوبر 1947ء میں بھارتی حکومت نے اپنی فوج ریاست جموں و کشمیر میں اتاری اور اس پر قبضہ کرنا چاہا ۔ قائداعظم نے انگریز کمانڈر انچیف پاک فوج، جنرل میسروی کو حکم دیا کہ ریاست میں فوج بھجوا کر سری نگر، بارمولا اور درہ بانہال قبضے میں کرو مگر موصوف نے انکار کردیا۔ جنرل میسروی کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ پاک فوج میں افسر بہت کم ہیں، اسی لیے وہ کشمیر میںدشمن سے نہیں لڑسکتی۔ بھارتی فوج میں افسر بھرے پڑے تھے اور اسلحے سمیت تمام وسائل کی کمی نہ تھی۔ پاکستان میں تو افواج کو نئے سرے سے ابھی کھڑا کیا جارہا تھا کہ جنگ نے آن دبوچا۔افواج پاکستان یقینا مادی وسائل اور افرادی قوت کی شدید کمی کا شکار تھیں، مگر جوانوں میں عزم و ہمت کا سمندر موجزن تھا۔ اگر انہیں موقع ملتا تو ممکن تھا،وہ اپنے زبردست جذبے سے بھارتی فوج کو شکست دے دیتے۔
ایک طرف جنگ چھڑگئی تو دوسری جانب حکومت پاکستان کو اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پاک فوج کے پانچ ڈویژن تشکیل دینے پڑے۔ وہ یہ ہیں: 7 ڈویژن (کمانڈر میجر جنرل فریڈرک جوزف)، 8 ڈویژن (میجر جنرل محمد اکبر خان)، 9 ڈویژن (میجر جنرل نذیر احمد ملک)، 10 ڈویژن (میجر جنرل محمد افتخار خان)، 14 ڈویژن (میجر جنرل محمد ایوب خان)۔ ان ڈویژنوں میں افسروں کی شدید کمی تھی، اسی لیے ہر بٹالین میں افسروں کی روایتی تعداد بارہ سے کم کرکے آٹھ کی گئی۔افسروں، جوانوں، اسلحے اورجنگی تجربے کی زبردست کمی کے باوجود دشمن سے پہلی جنگ لڑتے ہوئے افواج پاکستان نے دلیری و شجاعت کے فقید المثال کارنامے انجام دیئے اور کئی لڑائیوں میں بھارتیوں کے دانت کھٹے کردیئے۔ بھارتی فوج تمام تر برتری اور قوت کے باوجود پوری ریاست جموں و کشمیر ہڑپ نہ کرسکی۔ افواج پاکستان نے کشمیری مجاہدین کے بھرپور تعاون کی بدولت بڑا حصہ آزاد کرالیا۔
یہ پہلی جنگ ایک سال ڈھائی ماہ جاری رہی۔ دشمن آخر زخم چاٹتے معاہدہ جنگ بندی کرنے پر مجبور ہوا۔جیسا کہ بتایا گیا، افواج پاکستان (بری، فضائیہ اور بحریہ) میں افسروں کی شدید کمی تھی، اسی لیے جونئیرافسروں کو تیزی سے ترقیاں دی گئیں تاکہ خالی عہدے پُر ہو سکیں۔ افسر ایک دو سال ہی میں کیپٹن یا میجر سے ترقی کرکے کرنل یا بریگیڈئیر بن گئے جبکہ بعض خوش قسمت میجر جنرل تک بننے میں کامیاب رہے۔ انہی میں محمد افتخار خان بھی شامل تھے۔ اگست 1947ء میں وہ بطور میجر جبکہ قبل ازیں وہ مقامی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر تھے۔ وہ ہندوستانی شاہی فوج کا حصہ تھے۔ جنوری 1948ء میں ایکٹنگ میجر جنرل بن کر لاہور پہنچ گئے تاکہ 10 ڈویژن کی کمان کرسکیں۔
واضح رہے کہ دنیا کی سبھی افواج کے مانند افواج پاکستان میں ترقی یا پروموشن دینے کا نظام کئی پہلوؤں اور امور پر استوار ہے۔ ایک افسر کو ترقی دیتے ہوئے کئی معاملات دیکھے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا وہ میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوا؟ فنون حرب میں کتنی مہارت رکھتا ہے؟ جسمانی طور پر کتنا چست و چالاک ہے؟ ذہنی صلاحیتیں کتنی تیز ہیں؟انتظامی کام کیونکر انجام دیتا ہے؟ وہ کتنا سینئر ہے اور ساتھی و جونیئر اس کے متعلق کیسی رائے رکھتے ہیں؟گویا محض سنیارٹی یا سینئر ہونا پروموشن کا واحد یا بنیادی معیار نہیں۔اکتوبر 1947ء میں آزادی کے صرف دو ماہ بعد افواج پاکستان طاقتور دشمن سے نبرد آزما ہوگئیں۔
تب ایسے مسلمان فوجی افسروں کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی جو جنگی تجربہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تب ان کئی جونیئر افسروں کو پروموشن دیتے ہوئے سینئرز پر ترجیح دی گئی جو میدان جنگ میں لڑنے کا تجربہ اور مہارت رکھتے تھے۔ انہی میں محمد افتخار خان بھی شامل تھے۔ وہ برما اور جاپان میں جنگیں لڑکر گرم و سرد تجربات کی بھٹی سے گزر چکے تھے۔ پھر سرگرم، محنتی، ذہین و فطین اور چست و چالاک فوجی افسر تھے۔ اسی لیے انہیں ترقی دے کر 10 ڈویژن کا کمانڈر بنایا گیا۔ پاکستان دشمن مورخین نے یہ درفطنی چھوڑ دی کہ انہیں بڑے بھائی کی وجہ سے ترقیاں ملتی رہیں۔ افواج پاکستان میں پروموشن کا کڑے نظام دیکھتے ہوئے یہ الزام بے بنیاد لگتا ہے۔ تعلقات اپنی جگہ لیکن افواج پاکستان میں ترقی کے عمل پر وہ شاید ہی اثر انداز ہوتے ہوں۔
انتخاب کا کڑا مرحلہ
جنوری 1949ء میں پہلی پاک بھارت جنگ اختتام کو پہنچی۔ اس دوران اہم عسکری عہدوں پر مقامی افسر تعینات ہوچکے تھے لیکن پاک فوج کی قیادت جنرل میسروی کے بعد ایک اور انگریز جنرل گریسی نے سنبھال لی۔ دوران جنگ انگریز چیفس نے پاکستان نہیں تاج برطانیہ سے وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ درحقیقت ان کی کوتاہی سے بھی ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا حصّہ نہ بن سکی۔ اسی لیے پاک فوج میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ کسی مقامی افسر کو بطور کمانڈر انچیف تعینات کیا جائے۔پاک فوج میں بہ لحاظ سنیارٹی افسروں کو ایک سروس نمبر ملتا ہے جو پی اے نمبر (پاک آرمی) کہلاتا ہے۔
ستر سال قبل سنیارٹی کا پہلو آج کے مقابلے میں زیادہ نمایاں تھا۔ اسی لیے مقامی کمانڈر انچیف کا تعین کرتے ہوئے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کو یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا پڑا۔ تاہم اصل مقابلہ محمد اکبر خان (پی اے1)، این اے ایم رضا (پی اے7)، محمد ایوب خان (پی اے10)، محمد افتخار خان (پی اے 14) اور نذیر احمد ملک (پی اے 15) کے مابین تھا۔ واضح رہے شہید فوجی افسروں، محمد افتخار خان اور شیر خان کو کوئی پی اے نمبر الاٹ نہیں ہوا تھا۔ تاہم محمد افتخار کے کمیشن کی تاریخ (29 اگست 1929ء) کے مطابق ان کا پی اے نمبر 14 بنتا تھا اور نذیر احمد کا پی اے15۔ ویسے آخر الذکر کو پی اے 14 الاٹ ہوا تھا۔
محمد اکبر خان نے کمانڈر انچیف بننے سے معذرت کرلی۔ ان کا استدلال تھا کہ وہ اس عہدے سے وابستہ فرائض کی بجا آوری کے لیے مطلوبہ صلاحیتیں نہیں رکھتے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا کہ انہوں نے اپنی کمی کا اعتراف کیا۔ میجر جنرل نذیر احمد کو گورنر جنرل بھارت، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کمانڈر انچیف بنوانا چاہتے تھے۔ انہوں نے 7 مئی 1947ء کو قائداعظم کے نام خط میں موصوف کی سفارش کی تھی۔ لیکن اس سفارش نے قائداعظم اور وزیراعظم کی نگاہوں میں نذیر احمد کا مرتبہ مشکوک بنا دیا۔ لہٰذا ان کا نام فہرست سے نکل گیا۔ این اے ایم رضا پاک فوج کے پہلے ایڈ جونٹ جنرل تھے۔ تاہم وہ میدان جنگ میں لڑنے یا ڈویژن کی کمان کرنے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے۔
انہوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر حصہ انتظامی نوعیت کے کام کرتے گزارا تھا۔ اسی لیے وہ بھی مقابلے کی دوڑ میں نہیں رہے۔ اب محمد ایوب یا محمد افتخار میں سے کسی ایک کو پہلے مقامی کمانڈر انچیف بننے کا اعزاز ملنا تھا۔ اسی موقع پر ایک دلچسپ تکنیکی نکتہ سامنے آیا۔محمد ایوب تاریخ کمیشن (2 فروری 1928ء) کے لحاظ سے انیس ماہ سینئر تھے۔ لیکن وہ 9 جنوری 1948ء کو ایکٹنگ میجر جنرل بنے جبکہ محمد افتخار کو بتاریخ 1جنوری 1948ء ایکٹنگ میجر جنرل کا عہدہ ملا تھا۔ گویا تازہ پروموشن کے معاملے میں محمد افتخار اپنے ساتھی سے زیادہ سینئر بن گئے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس سنیارٹی نے بھی انہیں کمانڈر انچیف بنانے میںکردار ادا کیا۔
مزید براں محمد ایوب کا 14 ڈویژن مشرقی پاکستان میں تعینات تھا جہاں پہلی پاک بھارت جنگ کے شعلے کم ہی پہنچ سکے۔ لاہور میں واقع محمد افتخار کے 10 ڈویژن کو چوبیس گھنٹے محتاط رہنا پڑا تھا۔ بھارتیوں کے حملے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ۔ لہٰذا جنگ و جدل کے زیادہ تجربے نے بھی کام دکھایا۔یہ مصدقہ حقیقت ہے کہ محمد افتخار خان کو کمانڈر انچیف بنانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ میجر جنرل شیرعلی خان پٹودی (پی اے24)، میجر جنرل شاہد حامد (پی اے27) اور میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا (پی اے649) کو شہید افسر کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔محمد افتخار ہی نہیں محمد ایوب کی پیشہ وارانہ اور نجی زندگی کے متعلق بہت سی باتیں درج بالا جرنیلوں نے اپنی کتب میں بیان کی ہیں۔ یہ پاک فوج کی ابتدائی تاریخ کا اہم ماخذ بھی ہیں۔
شیر علی خان پٹودی ڈیرہ دون کے رائل انڈین ملٹری کالج میں محمد افتخار شہید کے ساتھ زیر تعلیم رہے۔ اوائل 1948ء میں 10 ڈویژن کے پیرابریگیڈ کا کمانڈر بنائے گئے۔ وہ کنوارے تھے، اسی لیے انہوں نے ڈویژن کمانڈر (محمد افتخار) کے گھر قیام کیا۔ دونوں کے مابین قریبی تعلق رہا۔ اکتوبر 1947ء میں پٹودی پاکستان آئے تو محمد ایوب خان کے بریگیڈ میں تعینات رہے۔
وہیں ان کے ایوب خان سے بھی تعلقات ہوگئے۔ پٹودی نے ان حیران کن دنوں کا تذکرہ اپنی انگریزی کتاب''The Story of Soldering and Politics in India and Pakistan'' میں کیا ہے۔شاہد حامد ہندوستانی شاہی فوج کے دستے، 3 کیولری رجمنٹ میں محمد افتخار کے ساتھ رہے۔ وہ ایوب خان سے بھی قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ ایوب خان دور میں ایڈجونٹ جنرل رہے۔ ان کی انگریزی کتاب ''Early Years of Pakistan'' گئے دنوں کا سراغ دیتی ہے۔ عثمان مٹھا نے جونیئر افسر کے طور پر محمد افتخار اور محمد ایوب کے ادوار دیکھے۔ مرحوم کی انگریزی کتاب''Unlikely Beginnings: A Soldier's Life'' ان ادوار کی قیمتی معلومات فراہم کرتی ہے۔ یاد رہے، آپ پاک فوج کے مشہور زمانہ دستے، ایس ایس جی کے بانی کمانڈر ہیں۔ ان کا نعرہ تھا ''اپنی غربت پر ناز کرو۔''
درج بالا کتب کے مطابق میجر جنرل محمد افتخار سرتاپا فوجی تھے۔ خوش مزاج تھے مگر کام کے معاملے میں نہایت سخت۔ عثمان مٹھا نے ازراہ مزاح لکھا ہے کہ وہ ناشتے میں روزانہ بریگیڈیئر یا لیفٹیننٹ کرنل کچا کھا جاتے تھے۔ لیکن فوج میں نظم و ضبط اسی سختی سے بھی جنم لیتا ہے۔ محمد افتخار نے ایک پارسی لڑکی کو مسلمان کرکے شادی کی تھی۔ہندوستانی شاہی فوج میں رہنے کے باعث وہ کسی حد تک مغربی تہذیب میں ڈھل گئے ۔ اسی لیے شاہد حامد نے شکایتاً لکھا کہ وہ مقامی افسروں سے کم ہی ملتے ۔ مگر پٹودی لکھتے ہیں کہ محمد افتخار کم آمیز اور شرمیلے تھے۔
اسی لیے وہ جلد غیروں سے بے تکلف نہ ہوتے۔ اجنبی اس پر انہیں مغرور سمجھ لیتے۔ ایوب خان انہیں عمدہ فوجی افسر مگر مشکل آدمی اور جلد غصے میں آجانے والا سمجھتے تھے۔ پٹودی اور شاہد حامد، دونوں تصدیق کرتے ہیں کہ محمد افتخار خان کو کمانڈر انچیف بنانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ پٹودی لکھتے ہیں، شہید نے انہیں خود بتایا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ان سے رابطہ کرکے یہ اطلاع دی ۔
پٹوڈی مزید بتاتے ہیں کہ ایوب خان نے ان سے رابطہ کرکے شہید سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ وہ نئے کمانڈر انچیف کو اچھی طرح جان سکیں۔ تاہم یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ شاہد حامد نے لکھا ہے کہ یہ کھلا راز تھا، محمد افتخار ہی نئے کمانڈر انچیف ہوں گے اور محمد ایوب ان کے بارے میں جاننے کو متجسس رہتے۔ ایوب خان نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ایک بار وزیراعظم لیاقت علی خان نے سرکٹ ہائوس میں سینئر فوجی افسروں کا اجلاس بلایا۔ اس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک جونیئر افسر بھی کمانڈر انچیف بن سکتا ہے۔ وہ پھر سینئر افسروں سے اس بابت رائے لیتے رہے۔ یہ واقعہ بھی اس حقیقت کا غماز ہے کہ شہید محمد افتخار کو سی اینڈ سی بنانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ لیکن ابھی سرکاری نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا تھا کہ وہ حادثے میں شہید ہوگئے۔
شیر علی پٹودی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ محمد افتخار سیاست دانوں کی اقتدار پانے کے لیے سازشوں اور جوڑ توڑ پر مبنی چالوں کو ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے پھر یہ خیال ظاہر کیا کہ اگر وہ کمانڈر انچیف بنتے تو فوج کو سیاست سے دور رکھتے اور اپنے عہدے کو اقتدار پانے کا ذریعہ نہ بناتے۔ تاہم شاہد حامد نے اپنی کتاب میں یہ لکھا کہ سیاست دانوں کی باہمی لڑائیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ اسی لیے محمد افتخار بھی وہی راہ اختیار کرتے جو بعدازاں محمد ایوب خان کو اپنانا پڑی۔یہ عیاں ہے کہ دونوں افسروں نے محض اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
یہ صرف ایک خیال تھا مگر افواج پاکستان کے دشمن اسے لے اڑے۔ وہ اپنی کتب میں پروپیگنڈا کرنے لگے کہ پاک فوج کے جرنیل ابتدا ہی سے حکومت پر قابض ہونا چاہتے تھے اور جب ایک جرنیل (محمد افتخار) راہ میں رکاوٹ بنے تو انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ گویا طیارے کا تباہ ہونا حادثہ نہیں سازش تھی جو بعض جرنیلوں نے تیارکی۔ یہ سارا افسانہ ہے جس کا سچ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سارے پروپیگنڈے کا مقصد اہل پاکستان میں پاک فوج کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا مگر دشمن اپنی عیارانہ مہم میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
عائشہ جلال کی درفطنی
2014ء میں پاکستانی نژاد امریکی محققہ، عائشہ جلال کی انگریزی کتاب'' The Struggle for Pakistan'' شائع ہوئی۔ اس میں انہوں نے یہ نئی درفطنی چھوڑ دی کہ برطانوی و امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے محمد افتخار کا طیارہ تباہ کیا تاکہ وہ اپنے پسندیدہ جرنیل، ایوب خان کو کمانڈر انچیف بنواسکیں۔ ان محققہ صاحبہ کے تحقیقی معیار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے بریگیڈیئر شیر خان کا لقب ''جنرل طارق'' لکھا ہے۔ حالانکہ یہ بریگیڈیئر اکبر خان (پی اے25) کا لقب تھا جو محاذ کشمیر پر بہت متحرک رہے تھے اور بعدازاں راولپنڈی سازش کیس والے گروہ کے قائد قرار پائے۔
عائشہ جلال اپنا نرالا دعویٰ کرتے ہوئے بھول گئیں کہ محمد افتخار کے تمام باعتماد ساتھیوں نے لکھا ہے کہ ان کے برطانوی فوجی افسروں سے قریبی تعلقات تھے۔ انہوں نے جون 1949ء میں سیکرٹری دفاع، اسکندر مرزا کے ساتھ امریکا کا دورہ کیا تھا۔12 دسمبر 1949ء کو وہ امپرئیل ڈیفنس کالج برطانیہ جارہے تھے تاکہ ایک سالہ جدید عسکری کورس میں شرکت کرسکیں۔ دراصل شہید محمد افتخار کی پوری توجہ اس امر پر مرکوز تھی کہ نوزائیدہ پاک فوج کو پیشہ ورانہ لحاظ سے بہترین اور کامل آرمی میں ڈھال دیا جائے۔
قومی اور بین الاقوامی امور پر وہ کم ہی توجہ دیتے۔ لہٰذا برطانیہ یا امریکا کے مفادات کو ان سے کیا خطرہ ہوسکتا تھا؟ پاک فوج میں شامل انگریز افسر انہیں ہی بطور کمانڈر انچیف دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ ایک باصلاحیت رہنما تھے۔
یہ بھی مگرحقیقت ہے کہ 1949ء تک برطانوی اور امریکی حکمران طبقے اسلامی ممالک میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر متحرک ہوچکے تھے۔ دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا و برطانیہ اور سویت یونین کے مابین سرد جنگ شروع ہوگئی۔ دونوں گروہ مختلف ممالک میں اپنا اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرنے لگے۔ اس صورت حال میں خصوصاً اسلامی ملک کا کوئی حکمران برطانوی و امریکی ہدایات قبول کرنے سے انکار کرتا یا اپنی آزادانہ پالیسی اختیار کرلیتا تو اسے راستے سے ہٹانے کی خاطر منصوبے بنائے جاتے۔چناں چہ برطانوی و امریکی خفیہ ایجنسیاں 1947ء سے اسلامی ممالک میں سرگرم تھیں۔
1949ء میں اسلامی ملک، البانیہ میں وہ اپنا حکمران لانے کی سعی کرتی رہیں۔ اسی سال شام میں انہوں نے آزادی پسند صدر، شکوری قوتلی کا تختہ الٹ دیا۔ 1951ء میں پاکستانی وزیراعظم، لیاقت علی خان آزادانہ پالیسی بنانے پر شہید کردیئے گئے۔ 1953ء میں سی آئی اے نے ایرانی وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت ختم کرادی۔ یہ حقائق دیکھتے ہوئے یہ تصور جنم لیتا ہے کہ شاید دسمبر 1949ء کے حادثے میں برطانوی و امریکی حکمران طبقے ملوث تھے۔ اگر یہ نظریہ درست ہے تو ان عالمی قوتوں کا نشانہ محمد افتخار نہیں بریگیڈیئر شیر خان ہوں گے۔
شہید شیر خان کو پاک فوج کے پہلے ڈائریکٹر آف ملٹری انٹیلی جنس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ چھ ماہ بعد آپ ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز بنادیئے گئے۔ ان دونوں حیثیتوں سے شہید نے جہاد کشمیر میں سرگرم حصہ لیا جہاں دشمن کے خلاف جنگ جاری تھی۔ اپریل 1948ء سے وہاں بریگیڈیئر اکبر خان کی زیرقیادت انڈپینڈنٹ انفنٹری بریگیڈ 101 متحرک تھا۔ انہی دنوں اسلامی مجاہد اعظم، طارق بن زیاد کے نام پر اکبر خان کو ''جنرل طارق'' کا لقب ملا۔ وہ ایک دلیر اور پُرجوش فوجی افسر تھے۔ شیر خان اور اکبر خان، دونوں کو ایک ہی یونٹ میں کمیشن ملا تھا اور وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔
اواخر 1949ء میں بریگیڈیئر شیر خان کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کمانڈر 7 ڈویژن بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس زمانے میں7 ڈویژن راولپنڈی میں تعینات تھا۔ تب یہ پاک فوج کا اہم ترین ڈویژن تھا کیونکہ اسی نے کشمیر میں بھارتی فوج سے دو دو ہاتھ کیے تھے۔ یہ یقینی ہے کہ اسی تعیناتی نے برطانوی و امریکی حکمران طبقے کے کان کھڑے کردیئے۔ یہ طبقے پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں مزید مہم جوئی سے باز رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا واضح مقصد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مفادات کو تحفظ دینا تھا۔ شیر خان مگر پاکستانی فوجی افسروں کے اس گروہ میں شامل تھے جو مقبوضہ کشمیر میں دشمن کے خلاف عسکری کارروائیاں جاری رکھنے کا خواہش مند تھا۔ یہ فوجی افسر سمجھتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کو صرف بزور ہی آزاد کرانا ممکن ہے۔ لہٰذا شیرخان کمانڈر 7 ڈویژن بنتے تو فوجی افسروں کے اس گروہ کو بہت تقویت مل جاتی۔ برطانوی و امریکی لیکن اس گروہ کو طاقتور بنتا نہیں دیکھ سکتے تھے، اسی لیے شاید شیر خان کو شہید کرنے کی سازش تیار کرلی گئی۔
درج بالا معاملہ مگر محض حالات سے جنم لینے والا تصّور ہے جو غلط ہوسکتا ہے اور درست بھی۔ حادثے کی سرکاری توجیہہ یہ ہے کہ ہوائی جہاز کا پائلٹ کاروجبل سلسلے کی بلندی کا درست اندازہ نہیں لگاسکا، اسی لیے جہاز پہاڑ سے ٹکرا گیا۔ یہ پرانا ڈی سی 3 ڈکوٹا جہاز تھا جو دوسری جنگ عظیم میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوا تھا۔ ہوائی کمپنی، پاک ایئر کی ملکیت تھا۔ اسی کمپنی کا ایک ڈی سی 3 محض سولہ دن قبل وہاڑی کے نزدیک گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ اس حادثے میں اکیس افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 13 دسمبر کے حادثے میں چھبیس لوگ شہید ہوئے۔
ان میں محمد افتخار کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔تصویر کا دوسرا رخ یہ کہ میجر جنرل (ر) سید علی حامد، میجر جنرل شاہد حامد کے فرزند ہیں۔ وہ شہید شیرخان کے ایک قریبی عزیز، بریگیڈیئر زاہد زماں کے دوست ہیں۔ ایک بار زاہد زماں نے سید علی حامد کو بتایا کہ حادثے کے مقام سے کچھ دور پہلے تفتیشی پارٹی کو شہید شیر خان کی فائلیں ملی تھیں۔ اس سے ظاہر ہے، شہید کو احساس ہوگیا تھا کہ طیارہ گرنے والا ہے۔ لہٰذا انہوں نے پہلے ہی اہم سرکاری فائلیں نیچے گرادیں۔ گویا جہاز پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ نہیں ہوا بلکہ وہ پہلے ہی کسی آفت میں مبتلا ہوچکا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہاز میں پھلوں کا ایک برطانوی تاجر بھی سوار تھا۔ ممکن ہے کہ اس نے جہاز میں پھلوں کی پیٹیاں رکھوائی ہوں اورانہی میں بڑی ہوشیاری سے کوئی بم، آتش گیر مادہ یا زہریلی گیس رکھ دی گئی جس نے آخر کار ڈی سی 3 کو تباہ کر ڈالا۔بات مگر یہی کہ یہ محض قیاس ہے۔ممکن ہے پڑوسی ایران میں جاری برطانوی و امریکی سازشوں نے بھی اپنا کردارادا کیا۔
پہلے کمانڈر پر الزمات کی بھرمار
اس پورے حیرت انگیز اور ڈرامائی واقعے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسے مشکوک بناتے ہوئے پاکستان دشمن مورخین نے اگلے کمانڈر انچیف،ایوب خان کے بارے میں بے سروپااور بے بنیاد باتیں گھڑ لیں۔مدعا یہی تھا کہ مرحوم کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو بھی بدنام کیا جا سکے۔مثلاً یہ دعوی کیا گیا کہ سیکرٹری دفاع،اسکندر مرزا کی سفارش وکوششوں سے ایوب خان کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔مگر حقائق یہ دعوی جھٹلا دیتے ہیں۔شہید محمد افتخار کی شہادت کے بعد حکومت دوبارہ موزوں امیدوار تلاش کرنے لگی۔تبھی چار امیدوار سامنے آئے:میجر جنرل اشفاق المجید(پی اے 3)،میجر جنرل این اے ایم رضا،میجر جنرل ایوب خان اور میجر جنرل نثار علی خان(پی اے 11)۔اشفاق المجید آسام سے تعلق رکھنے والے قابل جرنیل تھے اور انگریزوں کے سخت مخالف۔اسی لیے انگریز انھیں ناپسند کرتے۔تاہم آزادی کے بعد بادل نخواستہ انھیں اشفاق المجید کو ترقی دینا پڑی۔نثار علی خان ڈپٹی کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔بعد ازاں پہلے چیف آف جنرل سٹاف بنائے گئے۔
ان امیدواروں میں ایوب خان کو یہ فوقیت حاصل تھی کہ وہ جنوری 1948ء سے ایک ڈویژن کی کمانڈ کر رہے تھے۔بقیہ تینوں امیدوار قیام پاکستان کے بعد بیشتر عرصہ انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔حقیقتاً ایوب خان جنگوں کا زیادہ عسکری تجربہ ومہارت رکھتے تھے۔اسی خوبی نے انھیں نیا کمانڈر انچیف بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔انھوں نے اگلے سال جنوری میں اپنا عہدہ سنبھالا۔یاد رہے، میجر جنرل این ایم رضا لاہور کے مشہور قزلباش خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔یہ خاندان پنجاب میں سیاسی اثرورسوخ کا حامل تھا۔اسی لیے جنرل کے والد مسلم لیگی رہنما اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے قریبی دوست تھے۔اگر تعلقات کی بنا پہ کمانڈر انچیف کا انتخاب ہونا ہوتا تو نواب زادہ آغا محمد رضا کی کامیابی یقینی تھی۔لیکن اس انتخاب میں تجربے،مہارت اور صلاحیتیوں کو ترجیح اول حاصل تھی۔
جنرل ایوب خان کے خلاف یہ پروپیگنڈا بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران بزدلی دکھائی۔یہ معاملہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف ہے۔قصّہ یہ ہے کہ 1944ء میں میجر ایوب خان 19ڈویژن کی ایک بٹالین ،فرسٹ آسام سے منسلک تھے۔اسی سال یہ ڈویژن جاپان سے لڑنے برما پہنچا۔ وہاں انگریز بٹالین کمانڈر لڑائی میں مارا گیا۔ڈویژن کمانڈر،میجر جنرل تھامس ونفورڈ نے ایوب خان کو نیا بٹالین کمانڈر بنا دیا۔تبھی ایوب خان نے رپورٹ دی کہ بٹالین لڑنے کے قابل نہیں۔وہ وافر اسلحے اور افرادی قوت سے محروم تھی۔مگر ڈویژن کمانڈر نے اپنے ماتحت کی رپورٹ کو بزدلی سے تعبیر کیا اور اس کے خلاف ریمارکس لکھ ڈالے۔لہذا ایوب خان کو کمان سے ہٹا دیا گیا۔یہ عیاں ہے،ان کا اصل جرم بٹالین کی حالت زار اجاگر کرنا تھا،بزدلی دکھانا نہیں۔اور اسی شکایت سے انگریز کمانڈر تائو کھا گیا۔
پاک فوج کے دشمنوں نے بھی اس واقعے سے توتے مینا کی کہانیاں بناڈالیں۔بدقسمت ایوب خان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ قائداعظم انھیں ناپسند کرتے تھے۔جب وطن آزاد ہوا تو ایوب خان ایک بریگیڈ کی کمان کرتے وزیرستان میں تھے۔تب صوبہ سرحد سے انگریز فوج کا انخلا جاری تھا۔وہ اسی کے معاملات دیکھ رہے تھے۔انھوں نے اگلے چار ماہ اپنا کام جاری رکھا۔پھر جنوری 1948میں انھیں ایکٹنگ میجر جنرل بنا کر مشرقی پاکستان بھجوایا گیا۔اس زمانے میں قائداعظم ہی بطور گورنر جنرل تمام سول و عسکری امور دیکھتے تھے۔اگر وہ ایوب خان کو ناپسند کرتے تو میجر جنرل جیسے اہم عہدے پر ان کی تقرری نہ فرماتے۔یہی نہیں،جب قائداعظم دورے پر ڈھاکہ گئے تو ایوب خان نے ان کا استقبال کیا تھا۔دراصل بعد میں سیاست دانوں کی باہمی لڑائیوں سے تنگ آ کر ایوب خان نے حکومت سنبھالی تو ان کے دشمنوں نے یہ ہوائی اڑا دی کہ قائد انھیں ناپسند کرتے تھے۔اس دعوی کا مصدقہ ثبوت موجود نہیں۔
اسی طرح یہ دعوی بھی کیا گیا کہ اپنے تعلقات کی بل پہ ایوب خان چند برس میں کمانڈر انچیف بن گئے۔بھارت کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف،فیلڈ مارشل کے ایم کریاپا سے ایوب خان کا موازانہ اس دعوی کا پول بھی کھولتا ہے۔کریاپا بھی آزادی کے وقت ایکٹنگ بریگیڈیئر تھے۔تاہم صرف ایک سال پانچ ماہ بعد انھیں فل جنرل بنا کر جنوری 1949ء میں سی اینڈ سی بنا دیا گیا۔وجہ یہی کہ جب انگریز افسر واپس گئے تو بھارتی فوج میں بھی مقامی افسروں کو تیزی سے ترقیاں ملیں۔بھارت کا دوسرا کمانڈر انچیف،جنرل جدیجا بھی1947ء میں ایکٹنگ بریگیڈیئر تھا۔لیکن اگلے ہی سال وہ لیفٹیننٹ جنرل بن چکا تھا۔جنوری 1953ء میں اگلا سی اینڈ سی بنا۔غرض تیزرفتار ترقیوں کا معاملہ افواج پاکستان تک محدود نہ تھا،اس عمل نے بھارت اور سری لنکا میں بھی جنم لیا ۔امید ہے،درج بالا حقائق سے اہل پاکستان کو اپنی پشتی بان افواج کے خلاف جاری شرانگیز پروپیگنڈے کی حقیقت سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اس کا آغاز 1948ء میں ہوا جب ایران میں تیل کمپنی،اینگلو پرشین آئل کمپنی کو قومیا لینے کی آوازیں بلند ہوئیں۔اس برطانوی کمپنی میں امریکی ارب پتیوں نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔مارچ 1951ء میں ایرانی پارلیمان نے بذریعہ قرارداد کمپنی اپنے قبضے میں کرلی۔برطانیہ اور امریکا کو ایک اسلامی ملک کی یہ جرات پسند نہ آئی اورفوراً ایران کے خلاف محاذ بنا لیا۔بعض مورخین کا دعوی ہے،تب دونوں ممالک نے پاکستانی وزیراعظم،لیاقت علی خان سے مطالبہ کیا کہ ایران کے خلاف کارروائیوںکے لیے اڈے دئیے جائیں مگر انھوں نے انکار کر دیا۔عالمی قوتوں کا مہرہ نہ بننے کے ''جرم'' میںوزیراعظم پاکستان چند ماہ بعد شہید کر دیے گئے۔یہی نہیں،کچھ مورخین کے نزدیک ''سانحہ جنگ شاہی''بھی مقامی گریٹ گیم کا نتیجہ تھا جب پاکستان اپنے قابل فوجی افسروں سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔
حال ہی میں 13 دسمبر 2019ء کی تاریخ خاموشی سے گزرگئی حالانکہ اسی دن وہ دلخراش واقعہ پیش آیا جو پاکستان خصوصاً پاک فوج کی تاریخ میں اہم باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن میجر جنرل محمد افتخار خان کی سترہویں برسی تھی۔ٹھیک ستر سال قبل12 دسمبر 1949ء کی شب ان کا ہوائی جہازجنگ شاہی (سندھ) کے نزدیک واقع کاروجبل نامی پہاڑی سلسلے سے ٹکرا گیا تھا۔ اسی حادثے میں بیالیس سالہ میجر جنرل شہید ہوگئے۔
تحریک آزادی کے ممتاز رہنما،قاضی عیسیٰ کے بھائی،قاضی موسی اور بریگیڈیئر شیر خان بھی شہدا میں شامل تھے۔ شہید افتخار خان کو عنقریب پاک فوج کے مقامی کمانڈر انچیف بننے کا اعزاز ملنے والا تھا مگر بظاہر پائلٹ کی کوتاہی سے یہ خوفناک حادثہ پیش آگیا۔ستم ظریفی یہ کہ پاکستان اور پاک افواج کے دشمنوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اس المناک حادثے کو بھی اپنا ہتھیار بنالیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ حادثہ دراصل ایک سازش تھی۔ یہ الزام اسی لیے سامنے لایا گیا تاکہ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرکے اسے بدنام کیا جاسکے۔ اس قسم کی شرانگیز مہم تاحال جاری ہے۔ لہٰذا ضروری ہوچکا کہ حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں اوریوں جعلی خبروں یا ''فیک نیوز''کی مہم کا سدباب ہوسکے۔
افسروں کی شدید کمی
اٹھارہویں صدی میں انگریزوں نے مسلم حکمرانوں سے اقتدار چھینا تھا اسی لیے وہ مسلمانوں پر اعتماد نہ کرتے تھے۔ انہوں نے انتظامیہ اور فوج میں مسلمانوں کو ملازمتیں تو دیں لیکن کبھی اعلیٰ عہدوں پر فائزنہ کیا۔ البتہ برطانوی ہند کی فوج میں ہندو فوجیوں کو بتدریج اعلیٰ عہدے دیئے ۔ فوج میں مسلمان بہ حیثیت عام فوجی ہی بھرتی کیے جاتے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریز حاکموں کو احساس ہوا کہ ہندوستانی فوج میں مسلم افسر بھی ہونے چاہیں۔ تبھی کیڈٹ کالجوں میں مسلمان طلبہ کو بھی داخلہ دیا گیا۔شہید محمد افتخار کے بڑے بھائی، محمد اکبر خان کو ہندوستان میں کمیشن حاصل کرنے والے پہلے مسلم فوجی افسر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے ڈیلے کیڈٹ کالج،اندور میں تعلیم پاکر1 دسمبر 1919ء کو ہندوستانی شاہی فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ دیگر ابتدائی مسلمان فوجی افسروں میں اسکندر مرزا، فیض محمد خان، اشفاق المجید، فضل الرحمن کلّو، محمد افضل جنجوعہ، احمد جان، محمد ایوب خان اور نثار علی خان شامل ہیں۔
1997ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ ابھی ہندوستانی شاہی فوج میں مسلم افسروں کی شمولیت کو محض انیس سال گزرے تھے۔ ان میں سے بہت کم نے میدان جنگ میں حقیقی لڑائیاں لڑی تھیں۔ بیشتر انتظامی نوعیت کے کام کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے، جب ہندوستانی شاہی فوج کی تقسیم عمل میں آئی اور پاک فوج نے جنم لیا تو اس میں افسروں کی شدید کمی تھی۔ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سینئر ترین مسلم فوجی افسر محض بریگیڈئیر تھے اور وہ بھی صرف تین یعنی محمد اکبر خان، این اے ایم (نواب زادہ آغا محمد) رضا اور محمد ایوب خان(ایکٹنگ)۔ ان تینوں کو بھی بریگیڈئیر بنے ایک دو سال ہی ہوئے تھے۔
یہی وجہ ہے، 1947ء میں پاک فوج کے تمام اعلیٰ عہدوں پر مجبوراً انگریز افسر تعینات کرنا پڑے۔ افسوس کہ انگریز آقاؤں نے پاکستانی حکومت کی اس مجبوری و بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔اکتوبر 1947ء میں بھارتی حکومت نے اپنی فوج ریاست جموں و کشمیر میں اتاری اور اس پر قبضہ کرنا چاہا ۔ قائداعظم نے انگریز کمانڈر انچیف پاک فوج، جنرل میسروی کو حکم دیا کہ ریاست میں فوج بھجوا کر سری نگر، بارمولا اور درہ بانہال قبضے میں کرو مگر موصوف نے انکار کردیا۔ جنرل میسروی کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ پاک فوج میں افسر بہت کم ہیں، اسی لیے وہ کشمیر میںدشمن سے نہیں لڑسکتی۔ بھارتی فوج میں افسر بھرے پڑے تھے اور اسلحے سمیت تمام وسائل کی کمی نہ تھی۔ پاکستان میں تو افواج کو نئے سرے سے ابھی کھڑا کیا جارہا تھا کہ جنگ نے آن دبوچا۔افواج پاکستان یقینا مادی وسائل اور افرادی قوت کی شدید کمی کا شکار تھیں، مگر جوانوں میں عزم و ہمت کا سمندر موجزن تھا۔ اگر انہیں موقع ملتا تو ممکن تھا،وہ اپنے زبردست جذبے سے بھارتی فوج کو شکست دے دیتے۔
ایک طرف جنگ چھڑگئی تو دوسری جانب حکومت پاکستان کو اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پاک فوج کے پانچ ڈویژن تشکیل دینے پڑے۔ وہ یہ ہیں: 7 ڈویژن (کمانڈر میجر جنرل فریڈرک جوزف)، 8 ڈویژن (میجر جنرل محمد اکبر خان)، 9 ڈویژن (میجر جنرل نذیر احمد ملک)، 10 ڈویژن (میجر جنرل محمد افتخار خان)، 14 ڈویژن (میجر جنرل محمد ایوب خان)۔ ان ڈویژنوں میں افسروں کی شدید کمی تھی، اسی لیے ہر بٹالین میں افسروں کی روایتی تعداد بارہ سے کم کرکے آٹھ کی گئی۔افسروں، جوانوں، اسلحے اورجنگی تجربے کی زبردست کمی کے باوجود دشمن سے پہلی جنگ لڑتے ہوئے افواج پاکستان نے دلیری و شجاعت کے فقید المثال کارنامے انجام دیئے اور کئی لڑائیوں میں بھارتیوں کے دانت کھٹے کردیئے۔ بھارتی فوج تمام تر برتری اور قوت کے باوجود پوری ریاست جموں و کشمیر ہڑپ نہ کرسکی۔ افواج پاکستان نے کشمیری مجاہدین کے بھرپور تعاون کی بدولت بڑا حصہ آزاد کرالیا۔
یہ پہلی جنگ ایک سال ڈھائی ماہ جاری رہی۔ دشمن آخر زخم چاٹتے معاہدہ جنگ بندی کرنے پر مجبور ہوا۔جیسا کہ بتایا گیا، افواج پاکستان (بری، فضائیہ اور بحریہ) میں افسروں کی شدید کمی تھی، اسی لیے جونئیرافسروں کو تیزی سے ترقیاں دی گئیں تاکہ خالی عہدے پُر ہو سکیں۔ افسر ایک دو سال ہی میں کیپٹن یا میجر سے ترقی کرکے کرنل یا بریگیڈئیر بن گئے جبکہ بعض خوش قسمت میجر جنرل تک بننے میں کامیاب رہے۔ انہی میں محمد افتخار خان بھی شامل تھے۔ اگست 1947ء میں وہ بطور میجر جبکہ قبل ازیں وہ مقامی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر تھے۔ وہ ہندوستانی شاہی فوج کا حصہ تھے۔ جنوری 1948ء میں ایکٹنگ میجر جنرل بن کر لاہور پہنچ گئے تاکہ 10 ڈویژن کی کمان کرسکیں۔
واضح رہے کہ دنیا کی سبھی افواج کے مانند افواج پاکستان میں ترقی یا پروموشن دینے کا نظام کئی پہلوؤں اور امور پر استوار ہے۔ ایک افسر کو ترقی دیتے ہوئے کئی معاملات دیکھے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا وہ میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوا؟ فنون حرب میں کتنی مہارت رکھتا ہے؟ جسمانی طور پر کتنا چست و چالاک ہے؟ ذہنی صلاحیتیں کتنی تیز ہیں؟انتظامی کام کیونکر انجام دیتا ہے؟ وہ کتنا سینئر ہے اور ساتھی و جونیئر اس کے متعلق کیسی رائے رکھتے ہیں؟گویا محض سنیارٹی یا سینئر ہونا پروموشن کا واحد یا بنیادی معیار نہیں۔اکتوبر 1947ء میں آزادی کے صرف دو ماہ بعد افواج پاکستان طاقتور دشمن سے نبرد آزما ہوگئیں۔
تب ایسے مسلمان فوجی افسروں کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی جو جنگی تجربہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تب ان کئی جونیئر افسروں کو پروموشن دیتے ہوئے سینئرز پر ترجیح دی گئی جو میدان جنگ میں لڑنے کا تجربہ اور مہارت رکھتے تھے۔ انہی میں محمد افتخار خان بھی شامل تھے۔ وہ برما اور جاپان میں جنگیں لڑکر گرم و سرد تجربات کی بھٹی سے گزر چکے تھے۔ پھر سرگرم، محنتی، ذہین و فطین اور چست و چالاک فوجی افسر تھے۔ اسی لیے انہیں ترقی دے کر 10 ڈویژن کا کمانڈر بنایا گیا۔ پاکستان دشمن مورخین نے یہ درفطنی چھوڑ دی کہ انہیں بڑے بھائی کی وجہ سے ترقیاں ملتی رہیں۔ افواج پاکستان میں پروموشن کا کڑے نظام دیکھتے ہوئے یہ الزام بے بنیاد لگتا ہے۔ تعلقات اپنی جگہ لیکن افواج پاکستان میں ترقی کے عمل پر وہ شاید ہی اثر انداز ہوتے ہوں۔
انتخاب کا کڑا مرحلہ
جنوری 1949ء میں پہلی پاک بھارت جنگ اختتام کو پہنچی۔ اس دوران اہم عسکری عہدوں پر مقامی افسر تعینات ہوچکے تھے لیکن پاک فوج کی قیادت جنرل میسروی کے بعد ایک اور انگریز جنرل گریسی نے سنبھال لی۔ دوران جنگ انگریز چیفس نے پاکستان نہیں تاج برطانیہ سے وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ درحقیقت ان کی کوتاہی سے بھی ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا حصّہ نہ بن سکی۔ اسی لیے پاک فوج میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ کسی مقامی افسر کو بطور کمانڈر انچیف تعینات کیا جائے۔پاک فوج میں بہ لحاظ سنیارٹی افسروں کو ایک سروس نمبر ملتا ہے جو پی اے نمبر (پاک آرمی) کہلاتا ہے۔
ستر سال قبل سنیارٹی کا پہلو آج کے مقابلے میں زیادہ نمایاں تھا۔ اسی لیے مقامی کمانڈر انچیف کا تعین کرتے ہوئے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کو یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا پڑا۔ تاہم اصل مقابلہ محمد اکبر خان (پی اے1)، این اے ایم رضا (پی اے7)، محمد ایوب خان (پی اے10)، محمد افتخار خان (پی اے 14) اور نذیر احمد ملک (پی اے 15) کے مابین تھا۔ واضح رہے شہید فوجی افسروں، محمد افتخار خان اور شیر خان کو کوئی پی اے نمبر الاٹ نہیں ہوا تھا۔ تاہم محمد افتخار کے کمیشن کی تاریخ (29 اگست 1929ء) کے مطابق ان کا پی اے نمبر 14 بنتا تھا اور نذیر احمد کا پی اے15۔ ویسے آخر الذکر کو پی اے 14 الاٹ ہوا تھا۔
محمد اکبر خان نے کمانڈر انچیف بننے سے معذرت کرلی۔ ان کا استدلال تھا کہ وہ اس عہدے سے وابستہ فرائض کی بجا آوری کے لیے مطلوبہ صلاحیتیں نہیں رکھتے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا کہ انہوں نے اپنی کمی کا اعتراف کیا۔ میجر جنرل نذیر احمد کو گورنر جنرل بھارت، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کمانڈر انچیف بنوانا چاہتے تھے۔ انہوں نے 7 مئی 1947ء کو قائداعظم کے نام خط میں موصوف کی سفارش کی تھی۔ لیکن اس سفارش نے قائداعظم اور وزیراعظم کی نگاہوں میں نذیر احمد کا مرتبہ مشکوک بنا دیا۔ لہٰذا ان کا نام فہرست سے نکل گیا۔ این اے ایم رضا پاک فوج کے پہلے ایڈ جونٹ جنرل تھے۔ تاہم وہ میدان جنگ میں لڑنے یا ڈویژن کی کمان کرنے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے۔
انہوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر حصہ انتظامی نوعیت کے کام کرتے گزارا تھا۔ اسی لیے وہ بھی مقابلے کی دوڑ میں نہیں رہے۔ اب محمد ایوب یا محمد افتخار میں سے کسی ایک کو پہلے مقامی کمانڈر انچیف بننے کا اعزاز ملنا تھا۔ اسی موقع پر ایک دلچسپ تکنیکی نکتہ سامنے آیا۔محمد ایوب تاریخ کمیشن (2 فروری 1928ء) کے لحاظ سے انیس ماہ سینئر تھے۔ لیکن وہ 9 جنوری 1948ء کو ایکٹنگ میجر جنرل بنے جبکہ محمد افتخار کو بتاریخ 1جنوری 1948ء ایکٹنگ میجر جنرل کا عہدہ ملا تھا۔ گویا تازہ پروموشن کے معاملے میں محمد افتخار اپنے ساتھی سے زیادہ سینئر بن گئے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس سنیارٹی نے بھی انہیں کمانڈر انچیف بنانے میںکردار ادا کیا۔
مزید براں محمد ایوب کا 14 ڈویژن مشرقی پاکستان میں تعینات تھا جہاں پہلی پاک بھارت جنگ کے شعلے کم ہی پہنچ سکے۔ لاہور میں واقع محمد افتخار کے 10 ڈویژن کو چوبیس گھنٹے محتاط رہنا پڑا تھا۔ بھارتیوں کے حملے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ۔ لہٰذا جنگ و جدل کے زیادہ تجربے نے بھی کام دکھایا۔یہ مصدقہ حقیقت ہے کہ محمد افتخار خان کو کمانڈر انچیف بنانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ میجر جنرل شیرعلی خان پٹودی (پی اے24)، میجر جنرل شاہد حامد (پی اے27) اور میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا (پی اے649) کو شہید افسر کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔محمد افتخار ہی نہیں محمد ایوب کی پیشہ وارانہ اور نجی زندگی کے متعلق بہت سی باتیں درج بالا جرنیلوں نے اپنی کتب میں بیان کی ہیں۔ یہ پاک فوج کی ابتدائی تاریخ کا اہم ماخذ بھی ہیں۔
شیر علی خان پٹودی ڈیرہ دون کے رائل انڈین ملٹری کالج میں محمد افتخار شہید کے ساتھ زیر تعلیم رہے۔ اوائل 1948ء میں 10 ڈویژن کے پیرابریگیڈ کا کمانڈر بنائے گئے۔ وہ کنوارے تھے، اسی لیے انہوں نے ڈویژن کمانڈر (محمد افتخار) کے گھر قیام کیا۔ دونوں کے مابین قریبی تعلق رہا۔ اکتوبر 1947ء میں پٹودی پاکستان آئے تو محمد ایوب خان کے بریگیڈ میں تعینات رہے۔
وہیں ان کے ایوب خان سے بھی تعلقات ہوگئے۔ پٹودی نے ان حیران کن دنوں کا تذکرہ اپنی انگریزی کتاب''The Story of Soldering and Politics in India and Pakistan'' میں کیا ہے۔شاہد حامد ہندوستانی شاہی فوج کے دستے، 3 کیولری رجمنٹ میں محمد افتخار کے ساتھ رہے۔ وہ ایوب خان سے بھی قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ ایوب خان دور میں ایڈجونٹ جنرل رہے۔ ان کی انگریزی کتاب ''Early Years of Pakistan'' گئے دنوں کا سراغ دیتی ہے۔ عثمان مٹھا نے جونیئر افسر کے طور پر محمد افتخار اور محمد ایوب کے ادوار دیکھے۔ مرحوم کی انگریزی کتاب''Unlikely Beginnings: A Soldier's Life'' ان ادوار کی قیمتی معلومات فراہم کرتی ہے۔ یاد رہے، آپ پاک فوج کے مشہور زمانہ دستے، ایس ایس جی کے بانی کمانڈر ہیں۔ ان کا نعرہ تھا ''اپنی غربت پر ناز کرو۔''
درج بالا کتب کے مطابق میجر جنرل محمد افتخار سرتاپا فوجی تھے۔ خوش مزاج تھے مگر کام کے معاملے میں نہایت سخت۔ عثمان مٹھا نے ازراہ مزاح لکھا ہے کہ وہ ناشتے میں روزانہ بریگیڈیئر یا لیفٹیننٹ کرنل کچا کھا جاتے تھے۔ لیکن فوج میں نظم و ضبط اسی سختی سے بھی جنم لیتا ہے۔ محمد افتخار نے ایک پارسی لڑکی کو مسلمان کرکے شادی کی تھی۔ہندوستانی شاہی فوج میں رہنے کے باعث وہ کسی حد تک مغربی تہذیب میں ڈھل گئے ۔ اسی لیے شاہد حامد نے شکایتاً لکھا کہ وہ مقامی افسروں سے کم ہی ملتے ۔ مگر پٹودی لکھتے ہیں کہ محمد افتخار کم آمیز اور شرمیلے تھے۔
اسی لیے وہ جلد غیروں سے بے تکلف نہ ہوتے۔ اجنبی اس پر انہیں مغرور سمجھ لیتے۔ ایوب خان انہیں عمدہ فوجی افسر مگر مشکل آدمی اور جلد غصے میں آجانے والا سمجھتے تھے۔ پٹودی اور شاہد حامد، دونوں تصدیق کرتے ہیں کہ محمد افتخار خان کو کمانڈر انچیف بنانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ پٹودی لکھتے ہیں، شہید نے انہیں خود بتایا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ان سے رابطہ کرکے یہ اطلاع دی ۔
پٹوڈی مزید بتاتے ہیں کہ ایوب خان نے ان سے رابطہ کرکے شہید سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ وہ نئے کمانڈر انچیف کو اچھی طرح جان سکیں۔ تاہم یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ شاہد حامد نے لکھا ہے کہ یہ کھلا راز تھا، محمد افتخار ہی نئے کمانڈر انچیف ہوں گے اور محمد ایوب ان کے بارے میں جاننے کو متجسس رہتے۔ ایوب خان نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ایک بار وزیراعظم لیاقت علی خان نے سرکٹ ہائوس میں سینئر فوجی افسروں کا اجلاس بلایا۔ اس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک جونیئر افسر بھی کمانڈر انچیف بن سکتا ہے۔ وہ پھر سینئر افسروں سے اس بابت رائے لیتے رہے۔ یہ واقعہ بھی اس حقیقت کا غماز ہے کہ شہید محمد افتخار کو سی اینڈ سی بنانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ لیکن ابھی سرکاری نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا تھا کہ وہ حادثے میں شہید ہوگئے۔
شیر علی پٹودی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ محمد افتخار سیاست دانوں کی اقتدار پانے کے لیے سازشوں اور جوڑ توڑ پر مبنی چالوں کو ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے پھر یہ خیال ظاہر کیا کہ اگر وہ کمانڈر انچیف بنتے تو فوج کو سیاست سے دور رکھتے اور اپنے عہدے کو اقتدار پانے کا ذریعہ نہ بناتے۔ تاہم شاہد حامد نے اپنی کتاب میں یہ لکھا کہ سیاست دانوں کی باہمی لڑائیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ اسی لیے محمد افتخار بھی وہی راہ اختیار کرتے جو بعدازاں محمد ایوب خان کو اپنانا پڑی۔یہ عیاں ہے کہ دونوں افسروں نے محض اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
یہ صرف ایک خیال تھا مگر افواج پاکستان کے دشمن اسے لے اڑے۔ وہ اپنی کتب میں پروپیگنڈا کرنے لگے کہ پاک فوج کے جرنیل ابتدا ہی سے حکومت پر قابض ہونا چاہتے تھے اور جب ایک جرنیل (محمد افتخار) راہ میں رکاوٹ بنے تو انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ گویا طیارے کا تباہ ہونا حادثہ نہیں سازش تھی جو بعض جرنیلوں نے تیارکی۔ یہ سارا افسانہ ہے جس کا سچ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سارے پروپیگنڈے کا مقصد اہل پاکستان میں پاک فوج کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا مگر دشمن اپنی عیارانہ مہم میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
عائشہ جلال کی درفطنی
2014ء میں پاکستانی نژاد امریکی محققہ، عائشہ جلال کی انگریزی کتاب'' The Struggle for Pakistan'' شائع ہوئی۔ اس میں انہوں نے یہ نئی درفطنی چھوڑ دی کہ برطانوی و امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے محمد افتخار کا طیارہ تباہ کیا تاکہ وہ اپنے پسندیدہ جرنیل، ایوب خان کو کمانڈر انچیف بنواسکیں۔ ان محققہ صاحبہ کے تحقیقی معیار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے بریگیڈیئر شیر خان کا لقب ''جنرل طارق'' لکھا ہے۔ حالانکہ یہ بریگیڈیئر اکبر خان (پی اے25) کا لقب تھا جو محاذ کشمیر پر بہت متحرک رہے تھے اور بعدازاں راولپنڈی سازش کیس والے گروہ کے قائد قرار پائے۔
عائشہ جلال اپنا نرالا دعویٰ کرتے ہوئے بھول گئیں کہ محمد افتخار کے تمام باعتماد ساتھیوں نے لکھا ہے کہ ان کے برطانوی فوجی افسروں سے قریبی تعلقات تھے۔ انہوں نے جون 1949ء میں سیکرٹری دفاع، اسکندر مرزا کے ساتھ امریکا کا دورہ کیا تھا۔12 دسمبر 1949ء کو وہ امپرئیل ڈیفنس کالج برطانیہ جارہے تھے تاکہ ایک سالہ جدید عسکری کورس میں شرکت کرسکیں۔ دراصل شہید محمد افتخار کی پوری توجہ اس امر پر مرکوز تھی کہ نوزائیدہ پاک فوج کو پیشہ ورانہ لحاظ سے بہترین اور کامل آرمی میں ڈھال دیا جائے۔
قومی اور بین الاقوامی امور پر وہ کم ہی توجہ دیتے۔ لہٰذا برطانیہ یا امریکا کے مفادات کو ان سے کیا خطرہ ہوسکتا تھا؟ پاک فوج میں شامل انگریز افسر انہیں ہی بطور کمانڈر انچیف دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ ایک باصلاحیت رہنما تھے۔
یہ بھی مگرحقیقت ہے کہ 1949ء تک برطانوی اور امریکی حکمران طبقے اسلامی ممالک میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر متحرک ہوچکے تھے۔ دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا و برطانیہ اور سویت یونین کے مابین سرد جنگ شروع ہوگئی۔ دونوں گروہ مختلف ممالک میں اپنا اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرنے لگے۔ اس صورت حال میں خصوصاً اسلامی ملک کا کوئی حکمران برطانوی و امریکی ہدایات قبول کرنے سے انکار کرتا یا اپنی آزادانہ پالیسی اختیار کرلیتا تو اسے راستے سے ہٹانے کی خاطر منصوبے بنائے جاتے۔چناں چہ برطانوی و امریکی خفیہ ایجنسیاں 1947ء سے اسلامی ممالک میں سرگرم تھیں۔
1949ء میں اسلامی ملک، البانیہ میں وہ اپنا حکمران لانے کی سعی کرتی رہیں۔ اسی سال شام میں انہوں نے آزادی پسند صدر، شکوری قوتلی کا تختہ الٹ دیا۔ 1951ء میں پاکستانی وزیراعظم، لیاقت علی خان آزادانہ پالیسی بنانے پر شہید کردیئے گئے۔ 1953ء میں سی آئی اے نے ایرانی وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت ختم کرادی۔ یہ حقائق دیکھتے ہوئے یہ تصور جنم لیتا ہے کہ شاید دسمبر 1949ء کے حادثے میں برطانوی و امریکی حکمران طبقے ملوث تھے۔ اگر یہ نظریہ درست ہے تو ان عالمی قوتوں کا نشانہ محمد افتخار نہیں بریگیڈیئر شیر خان ہوں گے۔
شہید شیر خان کو پاک فوج کے پہلے ڈائریکٹر آف ملٹری انٹیلی جنس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ چھ ماہ بعد آپ ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز بنادیئے گئے۔ ان دونوں حیثیتوں سے شہید نے جہاد کشمیر میں سرگرم حصہ لیا جہاں دشمن کے خلاف جنگ جاری تھی۔ اپریل 1948ء سے وہاں بریگیڈیئر اکبر خان کی زیرقیادت انڈپینڈنٹ انفنٹری بریگیڈ 101 متحرک تھا۔ انہی دنوں اسلامی مجاہد اعظم، طارق بن زیاد کے نام پر اکبر خان کو ''جنرل طارق'' کا لقب ملا۔ وہ ایک دلیر اور پُرجوش فوجی افسر تھے۔ شیر خان اور اکبر خان، دونوں کو ایک ہی یونٹ میں کمیشن ملا تھا اور وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔
اواخر 1949ء میں بریگیڈیئر شیر خان کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کمانڈر 7 ڈویژن بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس زمانے میں7 ڈویژن راولپنڈی میں تعینات تھا۔ تب یہ پاک فوج کا اہم ترین ڈویژن تھا کیونکہ اسی نے کشمیر میں بھارتی فوج سے دو دو ہاتھ کیے تھے۔ یہ یقینی ہے کہ اسی تعیناتی نے برطانوی و امریکی حکمران طبقے کے کان کھڑے کردیئے۔ یہ طبقے پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں مزید مہم جوئی سے باز رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا واضح مقصد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مفادات کو تحفظ دینا تھا۔ شیر خان مگر پاکستانی فوجی افسروں کے اس گروہ میں شامل تھے جو مقبوضہ کشمیر میں دشمن کے خلاف عسکری کارروائیاں جاری رکھنے کا خواہش مند تھا۔ یہ فوجی افسر سمجھتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کو صرف بزور ہی آزاد کرانا ممکن ہے۔ لہٰذا شیرخان کمانڈر 7 ڈویژن بنتے تو فوجی افسروں کے اس گروہ کو بہت تقویت مل جاتی۔ برطانوی و امریکی لیکن اس گروہ کو طاقتور بنتا نہیں دیکھ سکتے تھے، اسی لیے شاید شیر خان کو شہید کرنے کی سازش تیار کرلی گئی۔
درج بالا معاملہ مگر محض حالات سے جنم لینے والا تصّور ہے جو غلط ہوسکتا ہے اور درست بھی۔ حادثے کی سرکاری توجیہہ یہ ہے کہ ہوائی جہاز کا پائلٹ کاروجبل سلسلے کی بلندی کا درست اندازہ نہیں لگاسکا، اسی لیے جہاز پہاڑ سے ٹکرا گیا۔ یہ پرانا ڈی سی 3 ڈکوٹا جہاز تھا جو دوسری جنگ عظیم میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوا تھا۔ ہوائی کمپنی، پاک ایئر کی ملکیت تھا۔ اسی کمپنی کا ایک ڈی سی 3 محض سولہ دن قبل وہاڑی کے نزدیک گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ اس حادثے میں اکیس افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 13 دسمبر کے حادثے میں چھبیس لوگ شہید ہوئے۔
ان میں محمد افتخار کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔تصویر کا دوسرا رخ یہ کہ میجر جنرل (ر) سید علی حامد، میجر جنرل شاہد حامد کے فرزند ہیں۔ وہ شہید شیرخان کے ایک قریبی عزیز، بریگیڈیئر زاہد زماں کے دوست ہیں۔ ایک بار زاہد زماں نے سید علی حامد کو بتایا کہ حادثے کے مقام سے کچھ دور پہلے تفتیشی پارٹی کو شہید شیر خان کی فائلیں ملی تھیں۔ اس سے ظاہر ہے، شہید کو احساس ہوگیا تھا کہ طیارہ گرنے والا ہے۔ لہٰذا انہوں نے پہلے ہی اہم سرکاری فائلیں نیچے گرادیں۔ گویا جہاز پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ نہیں ہوا بلکہ وہ پہلے ہی کسی آفت میں مبتلا ہوچکا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہاز میں پھلوں کا ایک برطانوی تاجر بھی سوار تھا۔ ممکن ہے کہ اس نے جہاز میں پھلوں کی پیٹیاں رکھوائی ہوں اورانہی میں بڑی ہوشیاری سے کوئی بم، آتش گیر مادہ یا زہریلی گیس رکھ دی گئی جس نے آخر کار ڈی سی 3 کو تباہ کر ڈالا۔بات مگر یہی کہ یہ محض قیاس ہے۔ممکن ہے پڑوسی ایران میں جاری برطانوی و امریکی سازشوں نے بھی اپنا کردارادا کیا۔
پہلے کمانڈر پر الزمات کی بھرمار
اس پورے حیرت انگیز اور ڈرامائی واقعے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسے مشکوک بناتے ہوئے پاکستان دشمن مورخین نے اگلے کمانڈر انچیف،ایوب خان کے بارے میں بے سروپااور بے بنیاد باتیں گھڑ لیں۔مدعا یہی تھا کہ مرحوم کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو بھی بدنام کیا جا سکے۔مثلاً یہ دعوی کیا گیا کہ سیکرٹری دفاع،اسکندر مرزا کی سفارش وکوششوں سے ایوب خان کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔مگر حقائق یہ دعوی جھٹلا دیتے ہیں۔شہید محمد افتخار کی شہادت کے بعد حکومت دوبارہ موزوں امیدوار تلاش کرنے لگی۔تبھی چار امیدوار سامنے آئے:میجر جنرل اشفاق المجید(پی اے 3)،میجر جنرل این اے ایم رضا،میجر جنرل ایوب خان اور میجر جنرل نثار علی خان(پی اے 11)۔اشفاق المجید آسام سے تعلق رکھنے والے قابل جرنیل تھے اور انگریزوں کے سخت مخالف۔اسی لیے انگریز انھیں ناپسند کرتے۔تاہم آزادی کے بعد بادل نخواستہ انھیں اشفاق المجید کو ترقی دینا پڑی۔نثار علی خان ڈپٹی کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔بعد ازاں پہلے چیف آف جنرل سٹاف بنائے گئے۔
ان امیدواروں میں ایوب خان کو یہ فوقیت حاصل تھی کہ وہ جنوری 1948ء سے ایک ڈویژن کی کمانڈ کر رہے تھے۔بقیہ تینوں امیدوار قیام پاکستان کے بعد بیشتر عرصہ انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔حقیقتاً ایوب خان جنگوں کا زیادہ عسکری تجربہ ومہارت رکھتے تھے۔اسی خوبی نے انھیں نیا کمانڈر انچیف بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔انھوں نے اگلے سال جنوری میں اپنا عہدہ سنبھالا۔یاد رہے، میجر جنرل این ایم رضا لاہور کے مشہور قزلباش خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔یہ خاندان پنجاب میں سیاسی اثرورسوخ کا حامل تھا۔اسی لیے جنرل کے والد مسلم لیگی رہنما اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے قریبی دوست تھے۔اگر تعلقات کی بنا پہ کمانڈر انچیف کا انتخاب ہونا ہوتا تو نواب زادہ آغا محمد رضا کی کامیابی یقینی تھی۔لیکن اس انتخاب میں تجربے،مہارت اور صلاحیتیوں کو ترجیح اول حاصل تھی۔
جنرل ایوب خان کے خلاف یہ پروپیگنڈا بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران بزدلی دکھائی۔یہ معاملہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف ہے۔قصّہ یہ ہے کہ 1944ء میں میجر ایوب خان 19ڈویژن کی ایک بٹالین ،فرسٹ آسام سے منسلک تھے۔اسی سال یہ ڈویژن جاپان سے لڑنے برما پہنچا۔ وہاں انگریز بٹالین کمانڈر لڑائی میں مارا گیا۔ڈویژن کمانڈر،میجر جنرل تھامس ونفورڈ نے ایوب خان کو نیا بٹالین کمانڈر بنا دیا۔تبھی ایوب خان نے رپورٹ دی کہ بٹالین لڑنے کے قابل نہیں۔وہ وافر اسلحے اور افرادی قوت سے محروم تھی۔مگر ڈویژن کمانڈر نے اپنے ماتحت کی رپورٹ کو بزدلی سے تعبیر کیا اور اس کے خلاف ریمارکس لکھ ڈالے۔لہذا ایوب خان کو کمان سے ہٹا دیا گیا۔یہ عیاں ہے،ان کا اصل جرم بٹالین کی حالت زار اجاگر کرنا تھا،بزدلی دکھانا نہیں۔اور اسی شکایت سے انگریز کمانڈر تائو کھا گیا۔
پاک فوج کے دشمنوں نے بھی اس واقعے سے توتے مینا کی کہانیاں بناڈالیں۔بدقسمت ایوب خان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ قائداعظم انھیں ناپسند کرتے تھے۔جب وطن آزاد ہوا تو ایوب خان ایک بریگیڈ کی کمان کرتے وزیرستان میں تھے۔تب صوبہ سرحد سے انگریز فوج کا انخلا جاری تھا۔وہ اسی کے معاملات دیکھ رہے تھے۔انھوں نے اگلے چار ماہ اپنا کام جاری رکھا۔پھر جنوری 1948میں انھیں ایکٹنگ میجر جنرل بنا کر مشرقی پاکستان بھجوایا گیا۔اس زمانے میں قائداعظم ہی بطور گورنر جنرل تمام سول و عسکری امور دیکھتے تھے۔اگر وہ ایوب خان کو ناپسند کرتے تو میجر جنرل جیسے اہم عہدے پر ان کی تقرری نہ فرماتے۔یہی نہیں،جب قائداعظم دورے پر ڈھاکہ گئے تو ایوب خان نے ان کا استقبال کیا تھا۔دراصل بعد میں سیاست دانوں کی باہمی لڑائیوں سے تنگ آ کر ایوب خان نے حکومت سنبھالی تو ان کے دشمنوں نے یہ ہوائی اڑا دی کہ قائد انھیں ناپسند کرتے تھے۔اس دعوی کا مصدقہ ثبوت موجود نہیں۔
اسی طرح یہ دعوی بھی کیا گیا کہ اپنے تعلقات کی بل پہ ایوب خان چند برس میں کمانڈر انچیف بن گئے۔بھارت کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف،فیلڈ مارشل کے ایم کریاپا سے ایوب خان کا موازانہ اس دعوی کا پول بھی کھولتا ہے۔کریاپا بھی آزادی کے وقت ایکٹنگ بریگیڈیئر تھے۔تاہم صرف ایک سال پانچ ماہ بعد انھیں فل جنرل بنا کر جنوری 1949ء میں سی اینڈ سی بنا دیا گیا۔وجہ یہی کہ جب انگریز افسر واپس گئے تو بھارتی فوج میں بھی مقامی افسروں کو تیزی سے ترقیاں ملیں۔بھارت کا دوسرا کمانڈر انچیف،جنرل جدیجا بھی1947ء میں ایکٹنگ بریگیڈیئر تھا۔لیکن اگلے ہی سال وہ لیفٹیننٹ جنرل بن چکا تھا۔جنوری 1953ء میں اگلا سی اینڈ سی بنا۔غرض تیزرفتار ترقیوں کا معاملہ افواج پاکستان تک محدود نہ تھا،اس عمل نے بھارت اور سری لنکا میں بھی جنم لیا ۔امید ہے،درج بالا حقائق سے اہل پاکستان کو اپنی پشتی بان افواج کے خلاف جاری شرانگیز پروپیگنڈے کی حقیقت سمجھنے میں مدد ملے گی۔