ہم جئے جانے کو ملتوی کیے جا رہے ہیں
آپ کو اور آ پ کے رشتوں کو آپ کے آج کی ضرورت ہے خدارا انھیں مایوس نہ کریں۔ آج کے ہر لمحے میں جیو۔
ہوسکتا ہے آپ یہ سن کر ہکا بکا رہ جائیں کہ ہم سب اپنی زندگی کو جئے جانے کے بجائے اسے ملتوی پہ ملتوی کیے جا رہے ہیں۔ ہم آج کو چھوڑ کر ایسے کل کے انتظار میں ہیں جسے کبھی نہیں آنا ہے۔
آئیں ! پہلے آرتھر گورڈن کی اپنی ذاتی کہانی جس کا عنوان The Turn of the Tides ہے کو سنتے ہیں ۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا آیا جب ہر چیز جامد اور بے مزہ ہوچکی تھی ، زندگی میں اس کا جوش وجذبہ ماند پڑگیا اور بحیثیت لکھاری کے اسے اپنی تخلیقات فضول نظر آنے لگیں اور یہ صورتحال دن بدن بدتر ہوتی جا رہی تھی بالاخر اس نے ڈاکٹر سے مدد لینے کا سوچا جب ڈاکٹرکو طبعی طور پر کوئی نقص نظر نہ آیا تو اس نے آرتھر سے کہا کہ کیا وہ اس کا مشورہ صرف ایک دن کے لیے مانے گا، جب آرتھر نے رضامندی کااظہار کیا۔ تو ڈاکٹر بولا کہ ''کل کا دن تم ایسی جگہ پرگزارو کہ جہاں ایک بچے کی حیثیت سے تم سب سے زیادہ خوش ہوتے تھے'' وہ اپنا کھانا لے جاسکتا تھا لیکن نہ تو اسے کسی سے بات کرنے کی اجازت تھی اور نہ ہی کچھ پڑھنے، لکھنے یاریڈیو وغیرہ سننے کی ، پھر اس نے چار نسخے لکھے اور اسے کہا پہلا دن کے نو بجے کھولنا دوسر ا بارہ بجے تیسرا تین بجے اور چوتھا چھ بجے شام ، '' کیا تم سنجیدہ ہو ؟'' آرتھر نے پوچھا ''جب تمہیں میری فیس کا بل ملے گا تو پھر تم مجھے غیر سنجیدہ نہیں سمجھو گے'' اس کا جواب تھا لہذا اگلے دن آرتھر ساحل پر چلاگیاجب اس نے پہلا نسخہ کھولا تو اس پر لکھا تھا ''غور سے سنو '' اس نے سوچا کہ ڈاکٹر شاید پاگل ہوگیا ہے وہ تین گھنٹے کیسے صرف سن سکتا ہے لیکن اس نے ڈاکٹر کا مشورہ ماننے کا وعدہ کر لیا ہوا تھا لہذا وہ سننے لگا۔
اس نے سمندر اور پرندوں کی عام آوازیں سننا شروع کر دیں کچھ دیر کے بعد اسے کچھ اور آوازیں بھی سنائی دینے لگیں جوکہ اسے پہلے نہیں آ رہی تھیں وہ جیسے جیسے سنتا گیا، اسے تمام باتیں یاد آنے لگیں جو بحیثیت ایک بچے کے اس نے سمندر سے سیکھی تھی صبر، عزت اور چیزوں کے ایک دوسرے پر انحصارکی اہمیت ۔ وہ آوازوں اور خاموشی کو سنتا رہا اور اس کے اندر ایک سکون سا پیدا ہونا شروع ہوگیا۔
دوپہر بارہ بجے اس نے دوسری پرچی کھولی اور اسے پڑھا، لکھا تھا '' ماضی میں جانے کی کوشش کرو'' ماضی میں کسی چیز کو یاد کرنے کی کوشش کروں، اس نے حیران ہوکر سوچا شاید یہ بچپن کو یا شاید اچھے دنوں کی یادوں کو۔ اس نے اپنی ماضی کے بارے میں سوچا اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بارے میں سوچا اور اس نے کوشش کی کہ انھیں تمام تفصیل کے ساتھ صحیح صحیح یاد کرے اور یہ سب یاد کرنے کے دوران اسے اپنے اندر ایک گرم جوشی پیدا ہوتی محسوس ہوئی۔
تین بجے اس نے تیسری پرچی کھولی لیکن یہ پرچی ذرا مختلف تھی لکھا تھا '' اپنی نیتوں کا تجزیہ کرو'' شروع میں تو اس نے دفاعی انداز اختیارکیا۔ اس نے سوچا وہ کیا چاہتا تھا ''کامیابی، مانے جانا، تحفظ '' اور اس نے اس کو سب صحیح ثابت کر لیا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ یہ باتیں تو خاص نہیں ہیں اور شاید اسی سوچ میں اس کی جمود شدہ صورتحال کا جواب بھی تھا۔ اس نے اپنی نیتوں کے بارے میں گہرائی سے سوچنا شروع کیا اس نے اپنی پرانی خوشیوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور آخر اس کو جواب مل گیا '' ایک لمحے میں '' اس نے لکھا '' اگر بندے کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو پھرکچھ بھی صحیح نہیں ہوسکتا۔ ''
جب چھ بجے فائنل پرچی کوکھولا اور اس پر عمل کرنے میں زیادہ دیر نہیں کی'' اپنے تفکرات کو ریت پر لکھو '' اس پر لکھا تھا وہ ریت پر جھکا اور اس نے ایک ٹوٹی ہوئی سیپی کی مدد سے ریت پر کئی الفاظ لکھے پھر وہ مڑا اور پیچھے کی طرف چلنے لگا۔ اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اسے معلوم تھا کہ ابھی سمندر کی موج سب اپنے ساتھ بہا لے جائے گی۔
یہ صرف آرتھرگورڈن کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہم سب کی کہانی بھی یہ ہی ہے۔ ہم سب کامیابی، مانے جانا، تحفظ حاصل کرنے کی جنگ میں ایسے مصروف ہیں کہ جینا بھی بھول چکے ہیں، ہم اپنے زندہ رہنے کا واحد مقصدکامیابی، مانے جانا ، تحفظ کے علاوہ اورکچھ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ آج جو ہزاروں خوشیاں ہمارے ارد گرد ہماری منتظر ہیں ہم انھیں مسلسل مایوس کر رہے ہیں ، ہم جینے کو ملتوی پر ملتوی کے جارہے ہیں کل کے انتظار میں، حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے 30سال پہلے رومی شاعر ہوریس نے کہاتھا ''انسانی فطرت کا سب سے بڑا المیہ جو میں جانتا ہوں ، یہ ہے کہ ہم سب زندہ رہنے کو ملتوی کرتے رہتے ہیں اپنی کھڑکیوں سے باہر جوگلاب کے پھول کھل رہے ہیں ، ہم آج ان سے لطف اندوز ہونے کے بجائے گلابوں کے کسی باغ کے متعلق خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم اس قدر احمق کیوں ہیں ، اس قدر المناک حد تک احمق ! زندگی ہر دن اور ہر لمحے کے نسیج میں رہنے میں ہے۔
یاد رکھیں، زندگی صرف آج ہے ہوسکتا کل کبھی بھی آپ کی زندگی میں نہ آئے۔ آپ کو اور آ پ کے رشتوں کو آپ کے آج کی ضرورت ہے خدارا انھیں مایوس نہ کریں۔ آج کے ہر لمحے میں جیو۔
حضرت عیسیٰ نے کہا تھا '' کل کی کوئی فکر نہ کرو'' قدیمی رومی اس حقیقت کو جان چکے تھے ان کا قول تھا ''دن کا لطف اٹھائو ''اگر کامیابی ، مانے جانا ، تحفظ کی ہی صرف زندگی میں اہمیت ہوتی تو آرتھر یہ چیزیں حاصل کرنے کے بعد اسے اپنی زندگی میں یہ محسوس نہ ہوتا کہ اس کی زندگی میں ہر چیز جامد اور بے مزہ ہوچکی ہے ۔ اس لیے آج کی خوشیوں کو روٹھنے سے پہلے آج ہی تھام لیں آج جم کی جیئیں اپنے لیے اور اپنے رشتوں کے لیے کیونکہ کل نے کبھی نہیں آنا ہے۔
آئیں ! پہلے آرتھر گورڈن کی اپنی ذاتی کہانی جس کا عنوان The Turn of the Tides ہے کو سنتے ہیں ۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا آیا جب ہر چیز جامد اور بے مزہ ہوچکی تھی ، زندگی میں اس کا جوش وجذبہ ماند پڑگیا اور بحیثیت لکھاری کے اسے اپنی تخلیقات فضول نظر آنے لگیں اور یہ صورتحال دن بدن بدتر ہوتی جا رہی تھی بالاخر اس نے ڈاکٹر سے مدد لینے کا سوچا جب ڈاکٹرکو طبعی طور پر کوئی نقص نظر نہ آیا تو اس نے آرتھر سے کہا کہ کیا وہ اس کا مشورہ صرف ایک دن کے لیے مانے گا، جب آرتھر نے رضامندی کااظہار کیا۔ تو ڈاکٹر بولا کہ ''کل کا دن تم ایسی جگہ پرگزارو کہ جہاں ایک بچے کی حیثیت سے تم سب سے زیادہ خوش ہوتے تھے'' وہ اپنا کھانا لے جاسکتا تھا لیکن نہ تو اسے کسی سے بات کرنے کی اجازت تھی اور نہ ہی کچھ پڑھنے، لکھنے یاریڈیو وغیرہ سننے کی ، پھر اس نے چار نسخے لکھے اور اسے کہا پہلا دن کے نو بجے کھولنا دوسر ا بارہ بجے تیسرا تین بجے اور چوتھا چھ بجے شام ، '' کیا تم سنجیدہ ہو ؟'' آرتھر نے پوچھا ''جب تمہیں میری فیس کا بل ملے گا تو پھر تم مجھے غیر سنجیدہ نہیں سمجھو گے'' اس کا جواب تھا لہذا اگلے دن آرتھر ساحل پر چلاگیاجب اس نے پہلا نسخہ کھولا تو اس پر لکھا تھا ''غور سے سنو '' اس نے سوچا کہ ڈاکٹر شاید پاگل ہوگیا ہے وہ تین گھنٹے کیسے صرف سن سکتا ہے لیکن اس نے ڈاکٹر کا مشورہ ماننے کا وعدہ کر لیا ہوا تھا لہذا وہ سننے لگا۔
اس نے سمندر اور پرندوں کی عام آوازیں سننا شروع کر دیں کچھ دیر کے بعد اسے کچھ اور آوازیں بھی سنائی دینے لگیں جوکہ اسے پہلے نہیں آ رہی تھیں وہ جیسے جیسے سنتا گیا، اسے تمام باتیں یاد آنے لگیں جو بحیثیت ایک بچے کے اس نے سمندر سے سیکھی تھی صبر، عزت اور چیزوں کے ایک دوسرے پر انحصارکی اہمیت ۔ وہ آوازوں اور خاموشی کو سنتا رہا اور اس کے اندر ایک سکون سا پیدا ہونا شروع ہوگیا۔
دوپہر بارہ بجے اس نے دوسری پرچی کھولی اور اسے پڑھا، لکھا تھا '' ماضی میں جانے کی کوشش کرو'' ماضی میں کسی چیز کو یاد کرنے کی کوشش کروں، اس نے حیران ہوکر سوچا شاید یہ بچپن کو یا شاید اچھے دنوں کی یادوں کو۔ اس نے اپنی ماضی کے بارے میں سوچا اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بارے میں سوچا اور اس نے کوشش کی کہ انھیں تمام تفصیل کے ساتھ صحیح صحیح یاد کرے اور یہ سب یاد کرنے کے دوران اسے اپنے اندر ایک گرم جوشی پیدا ہوتی محسوس ہوئی۔
تین بجے اس نے تیسری پرچی کھولی لیکن یہ پرچی ذرا مختلف تھی لکھا تھا '' اپنی نیتوں کا تجزیہ کرو'' شروع میں تو اس نے دفاعی انداز اختیارکیا۔ اس نے سوچا وہ کیا چاہتا تھا ''کامیابی، مانے جانا، تحفظ '' اور اس نے اس کو سب صحیح ثابت کر لیا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ یہ باتیں تو خاص نہیں ہیں اور شاید اسی سوچ میں اس کی جمود شدہ صورتحال کا جواب بھی تھا۔ اس نے اپنی نیتوں کے بارے میں گہرائی سے سوچنا شروع کیا اس نے اپنی پرانی خوشیوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور آخر اس کو جواب مل گیا '' ایک لمحے میں '' اس نے لکھا '' اگر بندے کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو پھرکچھ بھی صحیح نہیں ہوسکتا۔ ''
جب چھ بجے فائنل پرچی کوکھولا اور اس پر عمل کرنے میں زیادہ دیر نہیں کی'' اپنے تفکرات کو ریت پر لکھو '' اس پر لکھا تھا وہ ریت پر جھکا اور اس نے ایک ٹوٹی ہوئی سیپی کی مدد سے ریت پر کئی الفاظ لکھے پھر وہ مڑا اور پیچھے کی طرف چلنے لگا۔ اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اسے معلوم تھا کہ ابھی سمندر کی موج سب اپنے ساتھ بہا لے جائے گی۔
یہ صرف آرتھرگورڈن کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہم سب کی کہانی بھی یہ ہی ہے۔ ہم سب کامیابی، مانے جانا، تحفظ حاصل کرنے کی جنگ میں ایسے مصروف ہیں کہ جینا بھی بھول چکے ہیں، ہم اپنے زندہ رہنے کا واحد مقصدکامیابی، مانے جانا ، تحفظ کے علاوہ اورکچھ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ آج جو ہزاروں خوشیاں ہمارے ارد گرد ہماری منتظر ہیں ہم انھیں مسلسل مایوس کر رہے ہیں ، ہم جینے کو ملتوی پر ملتوی کے جارہے ہیں کل کے انتظار میں، حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے 30سال پہلے رومی شاعر ہوریس نے کہاتھا ''انسانی فطرت کا سب سے بڑا المیہ جو میں جانتا ہوں ، یہ ہے کہ ہم سب زندہ رہنے کو ملتوی کرتے رہتے ہیں اپنی کھڑکیوں سے باہر جوگلاب کے پھول کھل رہے ہیں ، ہم آج ان سے لطف اندوز ہونے کے بجائے گلابوں کے کسی باغ کے متعلق خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم اس قدر احمق کیوں ہیں ، اس قدر المناک حد تک احمق ! زندگی ہر دن اور ہر لمحے کے نسیج میں رہنے میں ہے۔
یاد رکھیں، زندگی صرف آج ہے ہوسکتا کل کبھی بھی آپ کی زندگی میں نہ آئے۔ آپ کو اور آ پ کے رشتوں کو آپ کے آج کی ضرورت ہے خدارا انھیں مایوس نہ کریں۔ آج کے ہر لمحے میں جیو۔
حضرت عیسیٰ نے کہا تھا '' کل کی کوئی فکر نہ کرو'' قدیمی رومی اس حقیقت کو جان چکے تھے ان کا قول تھا ''دن کا لطف اٹھائو ''اگر کامیابی ، مانے جانا ، تحفظ کی ہی صرف زندگی میں اہمیت ہوتی تو آرتھر یہ چیزیں حاصل کرنے کے بعد اسے اپنی زندگی میں یہ محسوس نہ ہوتا کہ اس کی زندگی میں ہر چیز جامد اور بے مزہ ہوچکی ہے ۔ اس لیے آج کی خوشیوں کو روٹھنے سے پہلے آج ہی تھام لیں آج جم کی جیئیں اپنے لیے اور اپنے رشتوں کے لیے کیونکہ کل نے کبھی نہیں آنا ہے۔