بین الاقوامی دہشت گردی کے ملزم سپریم کورٹ سے بھی بری
7 مئی 2002 کو شیرٹن ہوٹل بم دھماکے میں11فرانسیسی انجینئرہلاک ہوئے تھے
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میںبین لاقوامی دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات شیرٹن بم دھماکے میںسزائے موت سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کافیصلہ برقرار رکھا اور سرکار کی اپیل مسترد کردی۔
جسٹس انورظہیر جمالی، جسٹس آصف سعیدکھوسہ اورجسٹس مشیرعالم پر مشتمل لارجربینچ نے ریمارکس دیے کہ انٹرنیشل معاملات کاحوالہ دے کرانصاف کے ہاتھ نہیں باندھے جاسکتے۔ حکومت کی اپیل میں سپریم کورٹ سے سندھ ہائیکورٹ کافیصلہ کاالعدم قراردینے اورملزمان کی سزائے موت بحال کرنے کی استدعاکی گئی تھی۔ 7مئی 2002کو شیرٹن ہوٹل میں ہونیوالے بم دھماکے میں آگسٹاسب میرین تیار کرنیوالے 11فرانسیسی انجنیئرزاور 2پاکستانی ہلاک جبکہ 23 زخمی ہوگئے تھے۔ زخمی ہونے والوںمیں 10فرانسیسی شامل ہیں۔ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 30جون 2003کو ملزمان کوسزائے موت کاحکم سنایا تھا۔ ملزمان نے سزاکیخلاف سندھ ہائیکورٹ میںاپیل دائرکی جس پرعدالت عالیہ نے طرفین کے وکلاکے دلائل سننے کے بعد ملزمان کوبری کرنے کاحکم دیاتھا۔
ملزمان کی جانب سے پیش ہونیوالے وکلامحمد فاروق ایڈووکیٹ اوردیگرنے موقف اختیار کیا تھاکہ گواہوںکے بیانات میں واضح تضاد موجودہے جبکہ ملزمان کااعترافی بیان بھی رضاکارانہ نہیں تھا بلکہ اس بیان کے لیے دبائوڈالا گیا۔ ملزمان 8دسمبر 2002کو گرفتارہوئے جبکہ یہ بیان جون2003 میںریکارڈ کیاگیا۔ اسی طرح تفتیشی ادارے کئی ماہ تک کوئی ملزم گرفتار کرسکے اورنہ شواہدجمع کرسکے۔ محمدفاروق ایڈووکیٹ نے موقف اختیارکیا کہ استغاثہ نے جو دھماکاخیز موادان ملزمان سے برآمدکرنے کا دعویٰ کیاہے وہ ہرکوئی حاصل کرسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں عدالت عالیہ کے فیصلے کے خلاف سرکار کی اپیل کی سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ کے فل بینچ نے اپیل مسترد کرتے ہوئے ہائیکورٹ کافیصلہ برقراررکھا۔
پیر کو پیش ہونے والے قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل نے موقف اختیار کیاکہ خصوصی عدالت نے ملزمان کو بم بلاسٹ کے منصوبہ ساز کے طور پر ٹھوس شواہد کی بنیاد پر سزا دی تھی۔ بینچ کے استفسار پر کہ ماتحت عدالت میں کیا ثبوت پیش کیے گئے تھے، سرکاری وکیل نے جواب دیاکہ ظفراقبال نامی عینی گواہ کو عدالت میں پیش کیاگیاتھا جس نے ملزمان کو واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی کے قریب دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ ملزم آصف ظہیر نے عدالت کے روبرو اعتراف جرم کیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل معاملہ ہے اس لیے ملک کو بدنامی سے بچانے کے لیے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردے کر ملزمان کو سزاسنائی جائے۔ فاضل بینچ نے آبزروکیا کہ بین الاقوامی اہمیت کے حوالے دینے کے بجائے تفتیش اور تحقیق کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔
جسٹس انورظہیر جمالی، جسٹس آصف سعیدکھوسہ اورجسٹس مشیرعالم پر مشتمل لارجربینچ نے ریمارکس دیے کہ انٹرنیشل معاملات کاحوالہ دے کرانصاف کے ہاتھ نہیں باندھے جاسکتے۔ حکومت کی اپیل میں سپریم کورٹ سے سندھ ہائیکورٹ کافیصلہ کاالعدم قراردینے اورملزمان کی سزائے موت بحال کرنے کی استدعاکی گئی تھی۔ 7مئی 2002کو شیرٹن ہوٹل میں ہونیوالے بم دھماکے میں آگسٹاسب میرین تیار کرنیوالے 11فرانسیسی انجنیئرزاور 2پاکستانی ہلاک جبکہ 23 زخمی ہوگئے تھے۔ زخمی ہونے والوںمیں 10فرانسیسی شامل ہیں۔ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 30جون 2003کو ملزمان کوسزائے موت کاحکم سنایا تھا۔ ملزمان نے سزاکیخلاف سندھ ہائیکورٹ میںاپیل دائرکی جس پرعدالت عالیہ نے طرفین کے وکلاکے دلائل سننے کے بعد ملزمان کوبری کرنے کاحکم دیاتھا۔
ملزمان کی جانب سے پیش ہونیوالے وکلامحمد فاروق ایڈووکیٹ اوردیگرنے موقف اختیار کیا تھاکہ گواہوںکے بیانات میں واضح تضاد موجودہے جبکہ ملزمان کااعترافی بیان بھی رضاکارانہ نہیں تھا بلکہ اس بیان کے لیے دبائوڈالا گیا۔ ملزمان 8دسمبر 2002کو گرفتارہوئے جبکہ یہ بیان جون2003 میںریکارڈ کیاگیا۔ اسی طرح تفتیشی ادارے کئی ماہ تک کوئی ملزم گرفتار کرسکے اورنہ شواہدجمع کرسکے۔ محمدفاروق ایڈووکیٹ نے موقف اختیارکیا کہ استغاثہ نے جو دھماکاخیز موادان ملزمان سے برآمدکرنے کا دعویٰ کیاہے وہ ہرکوئی حاصل کرسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں عدالت عالیہ کے فیصلے کے خلاف سرکار کی اپیل کی سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ کے فل بینچ نے اپیل مسترد کرتے ہوئے ہائیکورٹ کافیصلہ برقراررکھا۔
پیر کو پیش ہونے والے قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل نے موقف اختیار کیاکہ خصوصی عدالت نے ملزمان کو بم بلاسٹ کے منصوبہ ساز کے طور پر ٹھوس شواہد کی بنیاد پر سزا دی تھی۔ بینچ کے استفسار پر کہ ماتحت عدالت میں کیا ثبوت پیش کیے گئے تھے، سرکاری وکیل نے جواب دیاکہ ظفراقبال نامی عینی گواہ کو عدالت میں پیش کیاگیاتھا جس نے ملزمان کو واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی کے قریب دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ ملزم آصف ظہیر نے عدالت کے روبرو اعتراف جرم کیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل معاملہ ہے اس لیے ملک کو بدنامی سے بچانے کے لیے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردے کر ملزمان کو سزاسنائی جائے۔ فاضل بینچ نے آبزروکیا کہ بین الاقوامی اہمیت کے حوالے دینے کے بجائے تفتیش اور تحقیق کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔