ڈرانے والی بات
یہ اضطراب محض ایک بیزاری نہیں ہوتا بلکہ ایک چین ری ایکشن پیدا کرتا ہے
طے ہوا کہ سردار شیر باز مزاری کو آپ بیتی لکھنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس لیے کہ سردار صاحب بزرگوں اور خوردوں کے بیچ کی ایسی کڑی ہیں جنھیں اُن زمانوں کا حسب نسب بھی معلوم ہے جب اس ملک میں آئین سازی کے نام پر کھلواڑ ہوتے اور نتیجہ مختلف نکلتا اور اُس عہد وسطیٰ کی معلومات بھی پوری ہیں جب قوم جنرل ضیاالحق کے عہد رستا خیز سے بچ کر نکلی اور باہم ایسی دست و گریباں ہوئی کہ آزمائش کے ایک اور گڑھے میں جا گری، ایک ایسی آزمائش جس کے خوابوں سے ہماری جان اب تک نہیں چھوٹی۔ مزاری صاحب کی بیگم نے گھر کا ڈرائنگ روم کسی محنت کش کی طرح یوں آراستہ کیا تھا جسے دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ اسے دیکھیں یا اس میں بس جائیں لیکن مزاری صاحب الگ مزاج کے بزرگ ہیں، وہ اپنے ملاقاتیوں اور دوستوں سے لائبریری میں ملتے ہیں، فرش تا عرش جس میں کتابیں ہوتی ہیں، خوشبو ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر خود مزاری صاحب۔ مزاری کتاب کے عاشق ہیں اور اگر کوئی ان کے عظیم الشان کتب خانے میں دلچسپی لے تو اس سے دلی محبت کرتے ہیں۔
فیضؔ کی کلیات ''سارے سخن ہمارے'' پہلی بار شایع ہوئی تو نقرئی سرورق والا یہ بیش قیمت مجموعہ بہت کم لوگوں کے پاس پہنچ پایا، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اسے پہلی بار مزاری صاحب کے کتب خانے میں دیکھا، اپنے ہاتھوں میں لیا اور وہ بھی فیضؔ صاحب کے دستخط کے ساتھ۔ یہ نادر کتاب میرے ہاتھ میں تھی جب مزاری صاحب گھر کے آنگن سے کتب خانے میں داخل ہوئے، ہم نے تجویز ان کی خدمت میں پیش کی تو مسکرائے، ایک نگاہ اپنے مہمانوں پر ڈالی، تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر میری جانب دیکھتے ہوئے کہا، مجھے منظور ہے، اگر۔۔۔! اتنا کہہ کر وہ لحظہ خاموش ہوئے پھر کہا، اگر یہ کام تم کرو۔ میری لاٹری کھل گئی۔ آنے والے دنوں میں اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے ان کے ساتھ مجھے اتنی ملاقاتوں کا اعزاز حاصل ہوا کہ دوستوں نے رشک کیا۔ یہ سطور لکھتے ہوئے اُس نشست کی یاد آتی ہے جب انھوں نے سیاست اور صحافت کے ایک ایسے مشترک پہلو پر بات کی جس کے اثرات ہم آج بری طرح محسوس کرتے ہیں۔
موضوع تھا کہ یہ جو ہم تادیر اپنا آئین بنانے میں ناکام رہے، اس کی توجیہ اُن کے نزدیک کیا ہے؟ انھوں نے کہا، لڑائی اور اس کی تشہیر۔ وضاحت کی ضرورت پڑ گئی۔ کہنے لگے، تم صحافی ہو، اچھی طرح جانتے ہو کہ اس پیشے کے وظائف یعنی ذمے داریاں کیا ہیں۔ میں نے سر ہلایا، کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایوب کمرے میں داخل ہوا اور بتایا کہ جسٹس دوراب پٹیل تشریف لائے ہیں۔
بات کچھ دیر کے لیے رک گئی اور مزاری صاحب نےWhat a surprizeکہہ کر ان کا خیر مقدم کیا، ان سے مجھے متعارف کرایا اور ان سے معذرت کر کے اپنی نامکمل بات کو مکمل کیا۔ کہا کہ صحافت کا مقصد ہے، اطلاع دینا، وضاحت کرنا، تعلیم دینا اور محظوظ کرنا، مجھے بتاؤ، ان ذمے داریوں میں گریباں گیری کب شامل ہوئی اور کیسے شامل ہوئی؟ پھر کہا کہ اس ملک کے جتنے اور جس قدر بھی مسائل ہیں، ان کی تہہ میں یہی گریباں گیری کارفرما ہے جسے ہماری برادری یعنی سیاست داں شروع کرتی ہے اور تمہاری برادری اسے اُس عروج پر پہنچا دیتی ہے جہاں سے انہدام کی ابتدا ہوتی ہے۔
ہم عجب خود رحمی کے مارے ہوئے لوگ ہیں جو کبھی جان ہی نہیں پائے کہ دانش کی خوشبودار بیل خود ہمارے اپنے آنگن میں بھی مشکبو ہے، اس کے باوجود ہم اسے غیروں میں تلاش کرتے ہیں۔ ریاستی اداروں کی شکست و ریخت کی وجوہات میں رائے عامہ کی اہمیت کے موضوع پر کام کے دوران گزشتہ دنوں کرٹ لینگ اور ان کی اہلیہ گلیڈی اینگل لینگ کے افکار کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ ایک چیز ہوتی ہے ابلاغی اضطراب، انگریزی میں اسےMedia Malaise کہتے ہیں۔ سیاسی چپقلشوں کے دوران جب مختلف کردار اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھالتے ہیں، اس کی کردار کشی کرتے ہیں، انھیں نیچا دکھانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں یا قومی سطح پر مسئلہ کوئی اور ہوتا ہے لیکن اسے مصنوعی طریقے سے دبا کر کوئی نیا موضوع اس پر غالب کر دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں یہ اضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔
یہ اضطراب محض ایک بیزاری نہیں ہوتا بلکہ ایک چین ری ایکشن پیدا کرتا ہے جس کی پہلی زد ریاستی اور آئینی اداروں پر پڑتی ہے اور ان پر عوام کا اعتماد کمزور ہو جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں جب یہ عمل ہوتا ہے تو اس کا فوری اثر انتخابی عمل میں دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ لوگ ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نہیں نکلتے۔ اس کا دوسرا اثر صحافتی ادارے پر مرتب ہوتا ہے جس کے صارفین کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ یہ نظریہ محض ایک خیال نہیں بلکہ رائے عامہ کی سائنس کے ماہرین نے اپنی برسوں کی تحقیقات کے ذریعے اسے فزیکل سائنس کی طرح ثابت کر دیا ہے۔ کاشف عباسی کے شو میں جب ایک چمکتا ہوا جوتا دکھائی دیا تو مجھے لینگ مفکرین سے بڑھ کر مزاری صاحب یاد آئے جنھوں نے ایک زمانہ قبل وہی بات مجھے سمجھائی تھی جس کا ڈنکا آج دنیا بھر میں بج رہا ہے۔
فیصل واوڈا ہوں، فواد چوہدری ہوں، خواہ ٹک ٹاک گرلز ہی کیوں نہ ہوں، یہ سارے کردار اپنے پسندیدہ یا ناپسندیدہ سیاسی کرداروں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں، اس سب کا اثر ان پر بھی پڑے گا اور بہت برا پڑے گا لیکن اس سے پہلے یہ اثر ریاستی اداروں کو متاثر کرے گا اور ایسا متاثر کرے گا جس کی طرف برسوں پہلے سردار شیر بازخان مزاری نے اشارہ کیا تھا۔ سیاست میں اختلافات اور جھگڑے غیر متوقع نہیں ہوتے بلکہ اگر یہ نہ ہوں تو حیرت ہونی چاہیے لیکن اگر یہ معاملہ اپنی فطری حدود سے بڑھ کر اس سطح پر پہنچ جائے جہاں فیصل واوڈا نے اسے اپنی خداداد صلاحیت سے کام لے کر پہنچا دیا ہے تو پھر ڈرنا چاہیے۔
فیضؔ کی کلیات ''سارے سخن ہمارے'' پہلی بار شایع ہوئی تو نقرئی سرورق والا یہ بیش قیمت مجموعہ بہت کم لوگوں کے پاس پہنچ پایا، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اسے پہلی بار مزاری صاحب کے کتب خانے میں دیکھا، اپنے ہاتھوں میں لیا اور وہ بھی فیضؔ صاحب کے دستخط کے ساتھ۔ یہ نادر کتاب میرے ہاتھ میں تھی جب مزاری صاحب گھر کے آنگن سے کتب خانے میں داخل ہوئے، ہم نے تجویز ان کی خدمت میں پیش کی تو مسکرائے، ایک نگاہ اپنے مہمانوں پر ڈالی، تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر میری جانب دیکھتے ہوئے کہا، مجھے منظور ہے، اگر۔۔۔! اتنا کہہ کر وہ لحظہ خاموش ہوئے پھر کہا، اگر یہ کام تم کرو۔ میری لاٹری کھل گئی۔ آنے والے دنوں میں اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے ان کے ساتھ مجھے اتنی ملاقاتوں کا اعزاز حاصل ہوا کہ دوستوں نے رشک کیا۔ یہ سطور لکھتے ہوئے اُس نشست کی یاد آتی ہے جب انھوں نے سیاست اور صحافت کے ایک ایسے مشترک پہلو پر بات کی جس کے اثرات ہم آج بری طرح محسوس کرتے ہیں۔
موضوع تھا کہ یہ جو ہم تادیر اپنا آئین بنانے میں ناکام رہے، اس کی توجیہ اُن کے نزدیک کیا ہے؟ انھوں نے کہا، لڑائی اور اس کی تشہیر۔ وضاحت کی ضرورت پڑ گئی۔ کہنے لگے، تم صحافی ہو، اچھی طرح جانتے ہو کہ اس پیشے کے وظائف یعنی ذمے داریاں کیا ہیں۔ میں نے سر ہلایا، کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایوب کمرے میں داخل ہوا اور بتایا کہ جسٹس دوراب پٹیل تشریف لائے ہیں۔
بات کچھ دیر کے لیے رک گئی اور مزاری صاحب نےWhat a surprizeکہہ کر ان کا خیر مقدم کیا، ان سے مجھے متعارف کرایا اور ان سے معذرت کر کے اپنی نامکمل بات کو مکمل کیا۔ کہا کہ صحافت کا مقصد ہے، اطلاع دینا، وضاحت کرنا، تعلیم دینا اور محظوظ کرنا، مجھے بتاؤ، ان ذمے داریوں میں گریباں گیری کب شامل ہوئی اور کیسے شامل ہوئی؟ پھر کہا کہ اس ملک کے جتنے اور جس قدر بھی مسائل ہیں، ان کی تہہ میں یہی گریباں گیری کارفرما ہے جسے ہماری برادری یعنی سیاست داں شروع کرتی ہے اور تمہاری برادری اسے اُس عروج پر پہنچا دیتی ہے جہاں سے انہدام کی ابتدا ہوتی ہے۔
ہم عجب خود رحمی کے مارے ہوئے لوگ ہیں جو کبھی جان ہی نہیں پائے کہ دانش کی خوشبودار بیل خود ہمارے اپنے آنگن میں بھی مشکبو ہے، اس کے باوجود ہم اسے غیروں میں تلاش کرتے ہیں۔ ریاستی اداروں کی شکست و ریخت کی وجوہات میں رائے عامہ کی اہمیت کے موضوع پر کام کے دوران گزشتہ دنوں کرٹ لینگ اور ان کی اہلیہ گلیڈی اینگل لینگ کے افکار کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ ایک چیز ہوتی ہے ابلاغی اضطراب، انگریزی میں اسےMedia Malaise کہتے ہیں۔ سیاسی چپقلشوں کے دوران جب مختلف کردار اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھالتے ہیں، اس کی کردار کشی کرتے ہیں، انھیں نیچا دکھانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں یا قومی سطح پر مسئلہ کوئی اور ہوتا ہے لیکن اسے مصنوعی طریقے سے دبا کر کوئی نیا موضوع اس پر غالب کر دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں یہ اضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔
یہ اضطراب محض ایک بیزاری نہیں ہوتا بلکہ ایک چین ری ایکشن پیدا کرتا ہے جس کی پہلی زد ریاستی اور آئینی اداروں پر پڑتی ہے اور ان پر عوام کا اعتماد کمزور ہو جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں جب یہ عمل ہوتا ہے تو اس کا فوری اثر انتخابی عمل میں دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ لوگ ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نہیں نکلتے۔ اس کا دوسرا اثر صحافتی ادارے پر مرتب ہوتا ہے جس کے صارفین کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ یہ نظریہ محض ایک خیال نہیں بلکہ رائے عامہ کی سائنس کے ماہرین نے اپنی برسوں کی تحقیقات کے ذریعے اسے فزیکل سائنس کی طرح ثابت کر دیا ہے۔ کاشف عباسی کے شو میں جب ایک چمکتا ہوا جوتا دکھائی دیا تو مجھے لینگ مفکرین سے بڑھ کر مزاری صاحب یاد آئے جنھوں نے ایک زمانہ قبل وہی بات مجھے سمجھائی تھی جس کا ڈنکا آج دنیا بھر میں بج رہا ہے۔
فیصل واوڈا ہوں، فواد چوہدری ہوں، خواہ ٹک ٹاک گرلز ہی کیوں نہ ہوں، یہ سارے کردار اپنے پسندیدہ یا ناپسندیدہ سیاسی کرداروں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں، اس سب کا اثر ان پر بھی پڑے گا اور بہت برا پڑے گا لیکن اس سے پہلے یہ اثر ریاستی اداروں کو متاثر کرے گا اور ایسا متاثر کرے گا جس کی طرف برسوں پہلے سردار شیر بازخان مزاری نے اشارہ کیا تھا۔ سیاست میں اختلافات اور جھگڑے غیر متوقع نہیں ہوتے بلکہ اگر یہ نہ ہوں تو حیرت ہونی چاہیے لیکن اگر یہ معاملہ اپنی فطری حدود سے بڑھ کر اس سطح پر پہنچ جائے جہاں فیصل واوڈا نے اسے اپنی خداداد صلاحیت سے کام لے کر پہنچا دیا ہے تو پھر ڈرنا چاہیے۔