نئے ضلعے کے قیام کی بازگشت

ضلعی انتظامیہ نے ہدایت لے کر حلقہ بندیوں کا کام مقررہ وقت سے سات روز کی تاخیر سے مکمل کیا۔

ڈپٹی کمشنر حیدرآباد اور ضلعی حلقہ بندی افسر محمد نواز سوہو تک حکم راں جماعت کے علاوہ کسی بھی تنظیم کی رسائی نہ ہوسکی۔ فوٹو: فائل

DIAMER:
بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذاتِ نام زدگی جمع کروانے کا مرحلہ بھی بدنظمی کا شکار رہا۔

کمشنر آفس میں فارم حاصل کرنے کے لیے پہنچنے والے امیدواروں کو فارم کی عدم دست یابی پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کوئی کام بروقت اور ڈھنگ سے نہیں ہوا تو غلط نہ ہو گا۔ پچھلے دنوں ضلعی انتظامیہ نے ہدایت لے کر حلقہ بندیوں کا کام مقررہ وقت سے سات روز کی تاخیر سے مکمل کیا۔ اس کام کے دوران اور تکمیل کے بعد بھی ڈپٹی کمشنر حیدرآباد اور ضلعی حلقہ بندی افسر محمد نواز سوہو تک حکم راں جماعت کے علاوہ کسی بھی تنظیم کی رسائی نہ ہوسکی۔ ان کے دفتر میں رابطہ کرنے پر معلوم ہوتا کہ وہ حلقہ بندیوں سے متعلق مختلف امور پر میٹنگ میں مصروف ہیں۔ اس دوران وہ کراچی بھی جاتے رہے۔ حلقہ بندیوں کی تاریخ گزرنے پر بھی سیاسی راہ نماؤں کو ڈپٹی کمشنر ملے اور نہ ہی نئی حلقہ بندیوں کی فہرستیں یا تفصیلات ملیں تو ان کی پریشانی بڑھ گئی۔

مقررہ تاریخ کے ساتویں روز اور نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات جمع کرانے سے صرف ایک دن پہلے شام پانچ بجے اچانک تمام سیاسی جماعتوں کو معلوم ہوا کہ فہرستیں آویزاںکر دی گئی ہیں۔ ان پر پچاس اعتراضات جمع کرائے گئے، جن میں سے چوبیس متحدہ قومی موومنٹ نے داخل کیے تھے اور ان کی سماعت میں کمشنر حیدرآباد اپنا فیصلہ سنا رہے ہیں۔ حیدرآباد ضلع میں حلقہ بندیوں کے مطابق ضلع کے دو تعلقوں، تعلقہ سٹی حیدرآباد اور تعلقہ لطیف آباد کو حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا ہے، جس میں تعلقہ سٹی کی 20 یونین کونسلوں کو 50 یونین کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تعلقہ لطیف آباد میں17یونین کونسلیں ختم کر کے 44 یونین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ ان تعلقوں میں ایک یونین کمیٹی کے لیے آبادی کی شرح، نو سے پندرہ ہزار رکھی گئی ہے۔

یوں آیندہ تعلقہ سٹی اور تعلقہ لطیف آباد اب بلدیہ اعلی حیدرآباد ہوں گی اور اس میں 94 جنرل یونین کمیٹیاں ہوں گی۔ سابق ضلعی حکومت حیدرآباد میں تعلقہ کا درجہ رکھنے والے علاقے قاسم آباد کو میونسپل کمیٹی قاسم آباد کا درجہ دے کر چار یونین کونسلوں کو ختم کر کے وہاں تین سے پانچ ہزار کی شرح آبادی کے لحاظ سے21 وارڈ بنائے گئے ہیں۔ ضلع کے چوتھے تعلقہ دیہہ ایٹ ٹنڈو جام کو ضلع کونسل کا درجہ دے کر وہاں یونین کونسل کی تعداد 21 کردی گئی ہے، جب کہ تعلقہ دیہی میں شامل ٹنڈو جام یونین کونسل کو میونسپل کمیٹی ٹنڈو جام کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اس میں 9 وارڈ بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح تعلقہ دیہی میں شامل یو سی ہوسڑی کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا ہے، جس میں پانچ وارڈ بنائے گئے ہیں۔

ادھر ضلع حیدرآباد اور نو تشکیل شدہ ضلع سجاول سمیت حیدرآباد ڈویژن میں شامل دس اضلاع میں مجوزہ حلقہ بندیوں پر مجموعی طور پر 316 اعتراضات داخل کرائے گئے۔ ضلع حیدرآباد میں حلقہ بندیوں کی فہرست اس پر اعتراض داخل کرنے کی آخری تاریخ سے صرف ایک روز قبل آویزاں کی گئی، جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور بلدیاتی انتخابات کے دنگل میں اترنے والی شخصیات کو اس کا صحیح طریقے سے جائزہ لینے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اعتراضات کی سماعت تیرہ نومبر تک جاری رہے گی، جس کے بعد حلقہ بندی کی حتمی فہرستیں آویزاں کر دی جائیں گی۔ ڈائریکٹر محکمۂ بلدیات حیدرآباد ڈویژن کے زیرِنگرانی قائم اپیلیٹ سیل میں ہفتے کی شام صرف پانچ بجے تک حلقہ بندیوں پر اعتراضات جمع کیے گئے۔ اس کے بعد وہاں موجود افراد سے بھی اعتراض کی درخواست وصول نہیں کی گئی، جس پر ان کے اور اہل کاروں کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔


دس اضلاع کی حلقہ بندیوں پر اعتراض وصول کرنے کے لیے سیل میں صرف چار اہل کار تھے۔ ان میں سے ایک ہی نے اعتراض وصول کرنے کی ذمہ داری نبھائی، جس کی وجہ سے اس عمل میں کافی وقت لگا۔ ان درخواستوں میں سے بیش تر پر سرکاری مہر لگائے بغیر دستخط کردیے گئے اور اس کی نقل ریسیوڈ لکھ کر لوٹا دی گئی۔ اس پر اعتراض کیا گیا تو درخواست کی نقل پر سرکاری مہر ثبت کر دی گئی۔ اس طرح کئی اعتراضات ضایع ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ سیل نے رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ اپیل داخل کرنے کے لیے شام پانچ بجے تک کا وقت دیا گیا تھا۔ دوسری جانب کنٹونمنٹ بورڈ حیدرآباد کے لیے بورڈ نے چار جنرل حلقوں کو دس وارڈوں میں تقسیم کردیا ہے اور اس سسلے میں حتمی فہرستیں بھی جاری کردی ہیں۔

پچھلے دنوں حیدرآباد میں یہ خبر گردش میں رہی کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے حیدرآباد میں قاسم آباد اور تعلقہ حیدرآباد کی بلدیاتی حدود پر مشتمل نیا ضلع قاسم آباد بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے لیے قاسم آباد سے ہی تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر جام خان شورو نے سندھ حکومت کو تجاویز دے دی ہیں۔ اس سلسلے میں قاسم آباد اور تعلقہ حیدرآباد سے رکن قومی اسمبلی سید امیر علی شاہ جاموٹ کی مکمل حمایت بھی انہیں حاصل ہے، جب کہ سندھ کی دو بڑی قوم پرست تنظیموں سندھ ترقی پسند پارٹی اور قومی عوامی تحریک کی قیادت نے اس پر مزاحمت کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ صوبائی وزیر جام خان شورو کا کہنا ہے کہ قاسم آباد کو ضلع بنانے کے لیے ماضی میں یہاں سے تعلقہ ناظم نور محمد شورو (مرحوم) اپنے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کو تجویز بھیج چکے تھے، جب حیدرآباد میں چار اضلاع بنائے گئے تو یہ مطالبہ زور پکڑ گیا تھا، کیوں کہ یہاں ہر زبان بولنے والا رہتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ صوبائی وزیر کی جانب سے تجویز پر حکومت سندھ نے بھی نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

باخبر ذرایع کے مطابق قاسم آباد کو ضلع بنانے کے لیے پہلے قدم کے طور پر رواں سال اسے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد سے الگ کرکے میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا تھا اور اب قانون کے تحت اسے ضلع کا درجہ دینے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اس پر ممکنہ ردعمل سے پہلے ہی قاسم آباد میں مختلف ناموں سے مجوزہ ضلع کی حمایت میں مظاہرے کرنے کے لیے احکامات بھی دے دیے گئے ہیں۔ اس مطالبے کے حق میں شہری اتحاد قاسم آباد کی جانب سے ایک ریلی بھی نکالی گئی، جس میں پی پی پی کے کارکنان کی بڑی تعداد شریک تھی۔ ریلی کے شرکاء سے اتحاد کے راہ نماؤں میر امجد تالپور، ایاز علی راجپر، عبدالستار کھوسو، امام علی زرداری، فاروق شورو فدا حسین گاہو اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قاسم آباد کی آبادی بڑھ گئی ہے، اس کی ترقی کے لیے اسے ضلع کا درجہ دیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ، صوبائی وزیر بلدیات سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کریں ورنہ سخت احتجاج کیا جائے گا۔

دوسری جانب قومی عوامی تحریک نے حلقہ بندیوں کو مستردکرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت کی نگرانی میں سندھ میں دوبارہ حلقہ بندیاں کی جائیں۔ اس سلسلے میں قومی عوامی تحریک کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس مرکزی نائب صدر عبدالقادر رانٹو کے زیر صدارت پلیجو ہاؤس میں منعقد کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ پی پی پی کی صوبائی حکومت نے غیر منصفانہ طور پر سندھ میں حلقہ بندیاں کی ہیں۔ اس پر کمشنر آفس میں اعتراض بھی داخل کرایا گیا ہے۔

ادھر جماعت اسلامی نے حیدرآباد ضلع کی مزید تقسیم کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت پچھلے پانچ سال میں قاسم آباد کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی اور اب اسے ضلع کا درجہ دے کر عوام کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ ان سے مخلص ہے، جب کہ ارباب غلام رحیم کے دور ِحکومت میں ضلعی تقسیم کو سندھ کی تقسیم قرار دیتی تھی۔ پی پی پی نے اُس وقت وعدہ کیا تھاکہ اقتدار میں آنے کے بعد حیدرآباد کی تاریخی حیثیت بحال کرے گی، لیکن اب خود حیدرآباد کو تقسیم کر رہی ہے۔
Load Next Story