سیاسی بیانات پر بحث کی بجائے قومی یکجہتی کی ضرورت

پوری پاکستانی قوم ایک طویل عرصہ سے شدت پسندی کی راہ پر چلنے والوں کے ساتھ نبردآزما ہے۔

جماعت اسلامی جیسی اہم سیاسی جماعت کے قائد کا اس وقت پر اس بحث میں اُلجھنا ایک بہت بڑا سوال ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم محمد نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ابھی امریکی ڈرون حملے اور اس کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد کے اثرات سے سنبھلنے کی کوشش ہی کر رہی تھی کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر پروفیسر منور حسن کے محض ایک بیان نے کسی امریکی ڈرون حملے سے کم نقصان نہ کیا۔

اس بحث میں الجھنے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ کون شہید ہے اور کون نہیں کیونکہ خطے کے معروضی حالات کے پیش نظر پیش آنے والے واقعات کوئی ایک دو دن کی پیداوار نہیں۔ پوری پاکستانی قوم ایک طویل عرصہ سے شدت پسندی کی راہ پر چلنے والوں کے ساتھ نبردآزما ہے اور یہاں جس نے جس کو شہید تسلیم کرنا ہے وہ کر چکا ہے اور جس نے نہیں کرنا اس سے تسلیم نہیں کرایا جا سکتا مگر جماعت اسلامی جیسی اہم سیاسی جماعت کے قائد کا اس وقت پر اس بحث میں اُلجھنا ایک بہت بڑا سوال ہے۔ پروفیسر منور حسن کے منہ سے ادا ہو جانے والے الفاظ اب اتنے اہم نہیں رہے جتنا اہم ان کا اپنے الفاظ پہ ڈٹے رہنا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے احتجاجی بیان کو پوری قوم نے اس کی اصل روح سے قبول کیا کہ پوری پاکستانی قوم پاک فوج کی خدمات اور قربانیوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آئی ایس پی آر نے بیک ڈور چینل استعمال کرتے ہوئے کیا جماعت اسلامی والوں کو اپنا متنازعہ بیان واپس لینے کی کوشش نہ کی اگر کی ہے تو پھر جماعت اسلامی کی جانب سے مثبت جواب نہ ملنے کی صورت میں ہی پاک فوج کو اپنے ترجمان کی جانب سے ایسا بیان جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آئی ایس پی آر تک بات جانے سے پہلے ہماری عسکری قیادت نے حکومتِ وقت کے ذمہ داران سے رابطہ کرکے پروفیسر منور حسن کے بیان کا نوٹس لینے کا کیوں نہ کہا۔ حکومت نوٹس نہ بھی لیتی محض جوابی بیان ہی داغ دیتی جیسا کہ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ جی ایچ کیو کے بعد ان کے وزیراطلاعات و ترجمان سینیٹر پرویز رشید زحمت فرما رہے ہیں کہ آئی ایس پی آر کا بیان پاکستان کے ہر شہری کے دل کی ترجمانی ہے۔ یہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے اور آئی ایس پی آر کی وضاحت سیاست میں مداخلت نہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دو روز قبل اگر ہمارے حکومتی زعماء اور ان کے رفقائے کار نیند سے جاگ جاتے اور جماعت اسلامی کے امیر کے متنازعہ اور زیر تبصرہ بیان کے سامنے خود پاکستان کے ہر شہری کے دل کی آواز بن کر کھڑے ہو جاتے، اب بھی پرویز رشید اور ان کی پارٹی کھڑی وہاں ہی ہے جہاں انہیں کھڑا ہونا تھا مگر اب وہ آئی ایس پی آر کے اصولی موقف کو سپورٹ کرنے کے لیے کھڑے ہیں۔ دو تہائی اکثریت زدہ بھاری مینڈیٹ کی حامل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پاکستان کے ہر شہری کے دل کی آواز سننے اور سمجھنے کے لیے اگر کہیں اور سے مشورہ نما ہدایات کا انتظار کرنا ہے تو عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ انہوں نے کہیں 11 مئی کے عام انتخابات میں کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر دیا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے غلط وقت پرمتنازعہ بیان داغنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ قوم کو بھی معلوم ہو گیا کہ کون سی سیاسی جماعت اور کون سا سیاسی لیڈر دہشت گردی اورانتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور ان ملک و عوام دشمن سرگرمیوں میں ملوث عناصر کا مقابلہ کرنے والی پاک فوج اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے لیے کس لیڈر اور سیاسی جماعت کے اکابرین کے دلوں کی دھڑکنیں کس رفتار سے دھڑکتی ہیں۔ کہنے والے تو ہماری عدالتِ عظمیٰ کو بھی از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر انہیں خبر ہو کہ از خود نوٹس از خود ہوتا ہے وہ کسی کے کہنے پر آتا ہے اور نہ کسی کو بتا کے آتا ہے۔ اس حساس معاملے پر علماء کرام، صحافی حضرات اور دانشوران قوم کو بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے کیونکہ قومی غیرت کے معاملات ان کے ٹیلی ویژن پروگراموں کی ریٹنگ سے کہیں مقدس اور اہم ہیں۔




ہمارے وطن کی سرحدوں اور موجودہ حالات میں ہماری جان و مال تک کی محافظ پاک فوج کو باہر کے دشمنوں کا مقابلہ پورے اطمینان سے کرنے دینا چاہیے اور یوں ہی ممکن ہے جب پوری قوم یک زبان اور یک جان ہو کر پاک فوج کی قیادت اور ایک ایک سپاہی کو یہ یقین دلا دے کہ انہیں اندرون ملک سے کوئی خطرہ نہیں، ہمارے کسی رہنما کی زبان سے نکلنے والے چند ناپسندیدہ الفاظ اور فقرے محض ایک دانست اور غلطی تھی۔ اور بہتر ہو گا اگر پروفیسر منور حسن از خود صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے وضاحت فرما دیں ، اگر ان کی وضاحت پاکستانی قوم کے لیے قابل قبول نہ ہو تو وہ اپنا بیان واپس لے لیں، ان کی انا پاکستانی قوم کی انا سے بڑی تو کسی صورت نہیں۔ وہ اس قوم کے ہی تو لیڈر ہیں اسی میں ان کی عزت اور قوم کا وقار ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے بغیر کوئی لگی لپٹی رکھتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ طالبان سے ہمارے مذاکراتی رابطے ٹوٹ چکے ہیں۔ اس حوالے سے بھی متعدد آراء سامنے آتی رہی ہیں کہ طالبان سے امن مذاکرات کے حوالے سے ہماری وزارت داخلہ کے کتنے مضبوط اور موثر رابطے تھے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ سکیورٹی وجوہات کی بناء پر حکومتی مذاکرات کاروں کے نام منظرِ عام پر نہیں لائے جا سکتے مگر حکومتی زعماء کے بیانات، حرکات اور ارادوں سے تخمینے لگانے والوں کو کون روکے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ پہلے حکومت کے رابطے تھے یا نہیں اب تو وزیر داخلہ نے صاف صاف بتا دیا کہ رابطے ٹوٹ چکے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ امن کی خواہش اور امید رکھنے والی قوم ایک بار پھر بیچ منجدھار کھڑی ہے اور مسیحا کی منتظر ہے۔ ووٹ تو اس قوم نے میاں نواز شریف کو دیے ہیں یا عمران خان کو اب ذمہ داری بھی ان کی بنتی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور بے سمت قوم کو امن کی منزل تک پہنچا کے دم لیں۔ عمران خان نے بھی چند روز قبل بڑے زور شور سے اعلان کیا تھا کہ اگر امریکہ نے ڈرون حملے بند کرنے کا اعلان نہ کیا تو وہ 20 نومبر سے نیٹو سپلائی بزور بازو بند کر دیں گے، اب شاید کچھ زمینی حقائق ان کے گوش گزارے گئے ہیں اور وہ ایک روز کی علامتی ہڑتال کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے احتجاج کی اس نوعیت کو بھی برضا و رغبت قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان بسم اللہ کریں۔ دیکھنا یہ ہے کہ 20 نومبر کے روز پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں نیٹو سپلائی کی بندش کے لیے اعلان کردہ تحریک انصاف کی ہڑتال کو ایک پارٹی کا سیاسی شو سمجھتے ہوئے خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دیتے ہیں یا اسے اہم قومی ضرورت سمجھتے ہوئے خود بھی عمران خان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے نوجوانوں کے لیے اعلان کردہ قرضوں کی سکیم اور کم آمدنی والے افراد کے لیے ہاؤسنگ سکیم اس حکومت کا پہلا عوامی تحفہ ثابت ہو گا۔ 5 ماہ کے صبر آزما انتظار کے بعد بالآخر ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دو اچھی سکیمیں پیش کیں جن کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کرتے ہوئے زور دے کر کہا ہے کہ ان منصوبوں میں کسی قسم کی سیاسی و انتظامی مداخلت برداشت نہ کی جائے گی ، قرض لینے والوں کے نام اور ان کے ذمہ واجب الادا قرض کی تفصیلات ویب سائٹ پر رکھی جائیں گی اور وزیراعظم اپنے اعلان کے مطابق خود ان پروگراموں کی نگرانی کریں گے، خدا کرے ایسا ہی ہو کیونکہ یہی وقت کی ضرورت ہے۔
Load Next Story