صرف 2153 افراد دنیا کی 45 ارب آبادی کی مجموعی دولت سے زیادہ امیر
اوکسفیم رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایک فیصد افراد مجموعی طور پر 7 ارب افراد سے زیادہ دولت رکھتے ہیں
پوری دنیا میں دولت کی عدم تقسیم خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے اس وقت 2153 ارب پتی افراد کے پاس دنیا کے ساڑھے چار ارب افراد کی مجموعی دولت سے زیادہ اثاثے موجود ہیں۔
بین الاقوامی فلاحی تنظیم آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں عالمی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ بالخصوص انتہائی غریب اور کم معاوضے پر کام کرنے والی خواتین، بوڑھوں اور بچوں کا بوجھ کم کرنے کی پالیسیاں بنائیں، تنظیم نے امیروں پر مزید ٹیکس لگانے اور غریبوں بالخصوص بچوں کی خوراک اور صحت پر خرچ کرنے کی سفارشات کی ہیں۔
سوئزرلینڈ کے شہر ڈاووس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم سے قبل یہ رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کے چیدہ نکات چونکادینے والے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ:
1 : دنیا کے ایک فیصد انتہائی امیر ترین لوگوں کے پاس 6 ارب 90 کروڑ افراد کی دولت سے زیادہ مجموعی اثاثے اور دولت موجود ہے۔
2 : ان میں سے 2153 ارب پتی افراد کے پاس 4 ارب 60 کروڑ آبادی کی مجموعی دولت سے زائد مالیت کے اثاثے ہیں۔
3 : ان میں سے صرف 22 امیر ترین افراد کے پاس افریقا میں رہنے والی تمام خواتین کی آمدنی سے زائد دولت موجود ہے۔
4 : گزشتہ عشرے میں دنیا میں دولت مندوں کی تعداد دگنی ہوچکی ہے۔
اوکسفام کی 63 صفحے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں امیر اور غریب افراد کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے۔ رپورٹ کا مرکزی پہلو یہ ہے کہ امیر ترین افراد کی فہرست میں بھی مردوں کی ہی اکثریت ہے جس کی بنا پر رپورٹ میں اس صنفی امتیاز کو ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین یا تو مفت میں یا پھر بہت کم معاوضے پر عالمی مارکیٹ میں کام کررہی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے ملک میں اپنے بچوں کی کفالت کررہی ہیں جو حقیقت میں حکومت کا فرض ہے۔ اس صنفی امتیاز سے خواتین بدحالی کی شکار ہیں جبکہ پیسہ چند امیروں کی جیب میں جارہا ہے۔ پھر بوڑھوں کی کفالت بڑھنے سے خواتین پر مزید بوجھ بڑھے گا اور عدم مسابقت بھی بڑھے گی۔
اوکسفیم نے عالمی سربراہوں پر زور دے کر کہا ہے کہ حکومتوں کو قومی کفالت کے منصوبے بنانے ہوں گے۔ اس میں غریبوں کو مفت سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے۔ ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ امیرترین کارپوریشن کو محدود کرنے کے منصوبے بھی بنائیں تاکہ چند ہاتھوں تک دولت کا ارتکاز روکا جاسکے۔
اپنی رپورٹ میں اوکسفیم نے کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ یا کیپٹل نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے کیونکہ اس میں دولت چند ہاتھوں تک سمٹ چکی ہے۔
بین الاقوامی فلاحی تنظیم آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں عالمی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ بالخصوص انتہائی غریب اور کم معاوضے پر کام کرنے والی خواتین، بوڑھوں اور بچوں کا بوجھ کم کرنے کی پالیسیاں بنائیں، تنظیم نے امیروں پر مزید ٹیکس لگانے اور غریبوں بالخصوص بچوں کی خوراک اور صحت پر خرچ کرنے کی سفارشات کی ہیں۔
سوئزرلینڈ کے شہر ڈاووس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم سے قبل یہ رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کے چیدہ نکات چونکادینے والے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ:
1 : دنیا کے ایک فیصد انتہائی امیر ترین لوگوں کے پاس 6 ارب 90 کروڑ افراد کی دولت سے زیادہ مجموعی اثاثے اور دولت موجود ہے۔
2 : ان میں سے 2153 ارب پتی افراد کے پاس 4 ارب 60 کروڑ آبادی کی مجموعی دولت سے زائد مالیت کے اثاثے ہیں۔
3 : ان میں سے صرف 22 امیر ترین افراد کے پاس افریقا میں رہنے والی تمام خواتین کی آمدنی سے زائد دولت موجود ہے۔
4 : گزشتہ عشرے میں دنیا میں دولت مندوں کی تعداد دگنی ہوچکی ہے۔
اوکسفام کی 63 صفحے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں امیر اور غریب افراد کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے۔ رپورٹ کا مرکزی پہلو یہ ہے کہ امیر ترین افراد کی فہرست میں بھی مردوں کی ہی اکثریت ہے جس کی بنا پر رپورٹ میں اس صنفی امتیاز کو ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین یا تو مفت میں یا پھر بہت کم معاوضے پر عالمی مارکیٹ میں کام کررہی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے ملک میں اپنے بچوں کی کفالت کررہی ہیں جو حقیقت میں حکومت کا فرض ہے۔ اس صنفی امتیاز سے خواتین بدحالی کی شکار ہیں جبکہ پیسہ چند امیروں کی جیب میں جارہا ہے۔ پھر بوڑھوں کی کفالت بڑھنے سے خواتین پر مزید بوجھ بڑھے گا اور عدم مسابقت بھی بڑھے گی۔
اوکسفیم نے عالمی سربراہوں پر زور دے کر کہا ہے کہ حکومتوں کو قومی کفالت کے منصوبے بنانے ہوں گے۔ اس میں غریبوں کو مفت سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے۔ ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ امیرترین کارپوریشن کو محدود کرنے کے منصوبے بھی بنائیں تاکہ چند ہاتھوں تک دولت کا ارتکاز روکا جاسکے۔
اپنی رپورٹ میں اوکسفیم نے کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ یا کیپٹل نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے کیونکہ اس میں دولت چند ہاتھوں تک سمٹ چکی ہے۔