بلدیاتی الیکشن سے قبل صوبائی وزیر بلدیات کا استعفیٰ
اویس مظفرکے استعفیٰ کے بعد الیکشن کمیشن نے 27 نومبر کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے شیڈول کا اعلان کردیا۔
سندھ کی سیاسی صورت حال میں گزشتہ ہفتہ اس وقت ڈرامائی صورتحال پیدا ہوئی، جب سندھ کابینہ کے انتہائی متحرک رکن سید اویس مظفر نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔
ان کے پاس بلدیات کا ایک انتہائی اہم قلمدان تھا۔ اگرچہ ان کے پاس دیگر قلمدان بھی تھے لیکن محکمہ بلدیات میں انہوں نے انقلاب برپا کردیا تھا۔ ان کے استعفیٰ کے بعد اتفاق سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 27 نومبر کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے شیڈول کا اعلان کردیا۔ اس صورت حال نے صوبے میں عجیب وغریب صورتحال پیدا کردی۔ یہ دونوں واقعات توقع کے برعکس تھے۔ سندھ کی حکومت اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہی ہے ۔
سید اویس مظفر سندھ کابینہ کے وہ واحد رکن تھے، جن کی کارکردگی کی صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے عہدیداروں اور سندھ کابینہ کے ارکان کے ساتھ منعقدہ اجلاسوں میں نہ صرف تعریف کی بلکہ ان کی کارکردگی کو دیگر وزراء کے لئے قابل تقلید قرار دیا۔ ایک مرحلے پر انہیں چھ قلمدان سونپے گئے تھے، جن میں بلدیات اور صحت کے اہم قلمدانوں سمیت ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ، دیہی ترقی، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور اسپیشل ڈویلپمنٹ کے قلمدان شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت کے دوران سندھ میں خصوصاً گڈ گورننس کا سوال بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد جب پورے ملک میں پیپلز پارٹی کو نشستیں نہیں ملیں اور سندھ میں دوبارہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر انہوں نے سندھ کے عوام کو گڈ گورننس نہ دی تو یہاں پیپلز پارٹی کے لئے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ جب سید اویس مظفر نے صوبائی وزیر کی حیثیت سے اپنی زبردست سرگرمی شروع کی تو نہ صرف پیپلز پارٹی کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت متحرک ہوگئی ہے بلکہ سندھ کے عوام بھی یہ محسوس کرنے لگے کہ لوگوں کی پہلے سے زیادہ خدمت کے لئے سنجیدہ ہوگئی ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے ایوان صدر اسلام آباد میں سندھ کابینہ کے ساتھ اجلاس اور بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلز پارٹی سندھ کے عہدیداروں کے ساتھ منعقدہ اجلاس میں سید اویس مظفر کی کارکردگی کی نہ صرف بہت زیادہ تعریف کی بلکہ دیگر وزراء سے بھی کہا کہ وہ سید اویس مظفر کی طرح کام کریں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کو بری لگی ہو۔
سید اویس مظفر نے محکمہ صحت اور محکمہ بلدیات میں خاص طور پر کایا پلٹ دی۔ ان محکموں میں نہ صرف کام کی رفتار تیز ہوگئی بلکہ ان محکموں پر بعض حلقوں کا طویل عرصے سے قائم تسلط بھی ختم ہوگیا اور یہ محکمے نئے انداز میں کام کرنے لگے۔ محکمہ صحت نے مختصر عرصے میں سندھ اسمبلی سے چھ نئے قوانین منظور کرائے، جن کے ذریعہ محکمہ صحت کی نہ صرف ازسر نو تنظیم ہوگی بلکہ محکمہ کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی اور صحت سے متعلق بعض اہم ایشوز بھی حل ہو جائیں گے، جو ترقی یافتہ ملکوں میں پہلے ہی حل ہو چکے ہیں لیکن پاکستان ان معاملات میں بہت پیچھے تھا۔
ان قوانین میں ایچ آئی وی ایڈز کے کنٹرول اور علاج کا بل، نوزائیدہ بچوں کی اسکریننگ کا بل، سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے قیام کا بل اور دیگر بلز شامل تھے۔ اس کے بعد سید اویس مظفر نے صحت کا قلمدان چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اتنی زیادہ ذمہ داریوں سے وہ انصاف نہیں کرسکیں گے۔ محکمہ بلدیات پر انہوں نے خصوصی توجہ دی اور کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس مافیا اور ریتی بجری مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ مافیا گروہوں نے ان کیخلاف بڑے پیمانے پر کام شروع کردیا۔ یہ سارے عوامل جمع ہوتے گئے اورایک مرحلے پر وہی ہوا، جو پاکستانی معاشرے میں ہوتا ہے کہ کام کرنے والا آدمی زیادہ دیر نہیں چل سکتا ہے۔ سید اویس مظفر نے وزارت سے ہی بالآخر استعفیٰ دے دیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سندھ میں 27 نومبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا شیڈول جاری کیا گیا لیکن سندھ کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق نظر آئیں کہ اس شیڈول کے مطابق انتخابات کا منصفانہ، شفاف اور آزادانہ انعقاد ممکن نہیں۔ اس حوالے سے سندھ اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کرلی، جس میں ان مشکلات کا ذکر کیا گیا، جن کی وجہ سے 27 نومبر کو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ انتخابات کی تاریخ 7 دسمبر مقرر کی ہے، لیکن اس تاریخ پر بھی سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ اس کے لئے سندھ اسمبلی میں ارکان نے جن مشکلات کی نشاندہی کی، وہ حقیقی ہیں۔ اس لئے انہوں نے آئندہ مارچ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں نئی حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن 13 نومبر کو ہوگا جبکہ 12 نومبر کو نامزدگی فارمز جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔
امیدواروں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کس حلقے کے امیدوار ہیں۔ حلقہ بندیوں کیخلاف اعتراضات کی سماعت میں بھی وقت لگے گا۔ سندھ میں نئی ووٹر لسٹوں کا کام بھی ابھی باقی ہے۔ اس کے لئے بھی مناسب وقت درکار ہوگا۔ ارکان سندھ اسمبلی کے اس مؤقف میں وزن ہے کہ اگر جلد بازی میں انتخابات ہوئے تو نہ صرف تاریخ کی بدترین بدانتظامی ہوگی بلکہ انتخابی عمل پر بھی عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ اگر سپریم کورٹ نے 7 دسمبر کے فیصلے پر بھی نظر ثانی نہ کی تو سندھ حکومت، عوام اور امیدوار شدید مشکلات کا شکار ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صورت حال سے سندھ حکومت کس طرح نبرد آزاد ہوتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے چکر میں صوبے میں دیگر تمام امور خوفناک تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔
ان کے پاس بلدیات کا ایک انتہائی اہم قلمدان تھا۔ اگرچہ ان کے پاس دیگر قلمدان بھی تھے لیکن محکمہ بلدیات میں انہوں نے انقلاب برپا کردیا تھا۔ ان کے استعفیٰ کے بعد اتفاق سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 27 نومبر کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے شیڈول کا اعلان کردیا۔ اس صورت حال نے صوبے میں عجیب وغریب صورتحال پیدا کردی۔ یہ دونوں واقعات توقع کے برعکس تھے۔ سندھ کی حکومت اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہی ہے ۔
سید اویس مظفر سندھ کابینہ کے وہ واحد رکن تھے، جن کی کارکردگی کی صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے عہدیداروں اور سندھ کابینہ کے ارکان کے ساتھ منعقدہ اجلاسوں میں نہ صرف تعریف کی بلکہ ان کی کارکردگی کو دیگر وزراء کے لئے قابل تقلید قرار دیا۔ ایک مرحلے پر انہیں چھ قلمدان سونپے گئے تھے، جن میں بلدیات اور صحت کے اہم قلمدانوں سمیت ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ، دیہی ترقی، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور اسپیشل ڈویلپمنٹ کے قلمدان شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت کے دوران سندھ میں خصوصاً گڈ گورننس کا سوال بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد جب پورے ملک میں پیپلز پارٹی کو نشستیں نہیں ملیں اور سندھ میں دوبارہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر انہوں نے سندھ کے عوام کو گڈ گورننس نہ دی تو یہاں پیپلز پارٹی کے لئے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ جب سید اویس مظفر نے صوبائی وزیر کی حیثیت سے اپنی زبردست سرگرمی شروع کی تو نہ صرف پیپلز پارٹی کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت متحرک ہوگئی ہے بلکہ سندھ کے عوام بھی یہ محسوس کرنے لگے کہ لوگوں کی پہلے سے زیادہ خدمت کے لئے سنجیدہ ہوگئی ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے ایوان صدر اسلام آباد میں سندھ کابینہ کے ساتھ اجلاس اور بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلز پارٹی سندھ کے عہدیداروں کے ساتھ منعقدہ اجلاس میں سید اویس مظفر کی کارکردگی کی نہ صرف بہت زیادہ تعریف کی بلکہ دیگر وزراء سے بھی کہا کہ وہ سید اویس مظفر کی طرح کام کریں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کو بری لگی ہو۔
سید اویس مظفر نے محکمہ صحت اور محکمہ بلدیات میں خاص طور پر کایا پلٹ دی۔ ان محکموں میں نہ صرف کام کی رفتار تیز ہوگئی بلکہ ان محکموں پر بعض حلقوں کا طویل عرصے سے قائم تسلط بھی ختم ہوگیا اور یہ محکمے نئے انداز میں کام کرنے لگے۔ محکمہ صحت نے مختصر عرصے میں سندھ اسمبلی سے چھ نئے قوانین منظور کرائے، جن کے ذریعہ محکمہ صحت کی نہ صرف ازسر نو تنظیم ہوگی بلکہ محکمہ کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی اور صحت سے متعلق بعض اہم ایشوز بھی حل ہو جائیں گے، جو ترقی یافتہ ملکوں میں پہلے ہی حل ہو چکے ہیں لیکن پاکستان ان معاملات میں بہت پیچھے تھا۔
ان قوانین میں ایچ آئی وی ایڈز کے کنٹرول اور علاج کا بل، نوزائیدہ بچوں کی اسکریننگ کا بل، سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے قیام کا بل اور دیگر بلز شامل تھے۔ اس کے بعد سید اویس مظفر نے صحت کا قلمدان چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اتنی زیادہ ذمہ داریوں سے وہ انصاف نہیں کرسکیں گے۔ محکمہ بلدیات پر انہوں نے خصوصی توجہ دی اور کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس مافیا اور ریتی بجری مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ مافیا گروہوں نے ان کیخلاف بڑے پیمانے پر کام شروع کردیا۔ یہ سارے عوامل جمع ہوتے گئے اورایک مرحلے پر وہی ہوا، جو پاکستانی معاشرے میں ہوتا ہے کہ کام کرنے والا آدمی زیادہ دیر نہیں چل سکتا ہے۔ سید اویس مظفر نے وزارت سے ہی بالآخر استعفیٰ دے دیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سندھ میں 27 نومبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا شیڈول جاری کیا گیا لیکن سندھ کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق نظر آئیں کہ اس شیڈول کے مطابق انتخابات کا منصفانہ، شفاف اور آزادانہ انعقاد ممکن نہیں۔ اس حوالے سے سندھ اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کرلی، جس میں ان مشکلات کا ذکر کیا گیا، جن کی وجہ سے 27 نومبر کو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ انتخابات کی تاریخ 7 دسمبر مقرر کی ہے، لیکن اس تاریخ پر بھی سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ اس کے لئے سندھ اسمبلی میں ارکان نے جن مشکلات کی نشاندہی کی، وہ حقیقی ہیں۔ اس لئے انہوں نے آئندہ مارچ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں نئی حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن 13 نومبر کو ہوگا جبکہ 12 نومبر کو نامزدگی فارمز جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔
امیدواروں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کس حلقے کے امیدوار ہیں۔ حلقہ بندیوں کیخلاف اعتراضات کی سماعت میں بھی وقت لگے گا۔ سندھ میں نئی ووٹر لسٹوں کا کام بھی ابھی باقی ہے۔ اس کے لئے بھی مناسب وقت درکار ہوگا۔ ارکان سندھ اسمبلی کے اس مؤقف میں وزن ہے کہ اگر جلد بازی میں انتخابات ہوئے تو نہ صرف تاریخ کی بدترین بدانتظامی ہوگی بلکہ انتخابی عمل پر بھی عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ اگر سپریم کورٹ نے 7 دسمبر کے فیصلے پر بھی نظر ثانی نہ کی تو سندھ حکومت، عوام اور امیدوار شدید مشکلات کا شکار ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صورت حال سے سندھ حکومت کس طرح نبرد آزاد ہوتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے چکر میں صوبے میں دیگر تمام امور خوفناک تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔