اسلام آباد میں نصیر الدین حقانی کا قتل
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے بہارہ کہو میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کےبیٹےنصیر...
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے بہارہ کہو میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے بیٹے نصیر الدین حقانی کو قتل کر دیا گیا۔ اخبارات میں شایع ہونے والی تفصیلات کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی رات نصیر الدین حقانی ایک قریبی تندور سے روٹیاں لینے کے لیے آئے۔ وہ جونہی اپنی گاڑی سے اترے' دو نا معلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ وہ موقعے پر ہی دم توڑ گئے۔ نصیرالدین حقانی کی اسلام آباد میں موجودگی اور ان کا قتل بہت سے سوالات کو جنم دینے کا باعث بنا ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ کس حیثیت سے پاکستان کے دارالحکومت میں قیام پذیر تھے؟ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے نام سے اسلام آباد میں کام کر رہے تھے۔
یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ افغان طالبان کا اتنا اہم شخص پاکستان میں بڑی آزادی کے ساتھ کام کر رہا تھا اور ملک کے کسی ادارے کو اس کا پتہ نہیں چلا' اخبارات میں امریکا کے حوالے سے یہ خبر بھی شایع ہوئی ہے کہوہ ' حقانی نیٹ ورک کے لیے فنڈز اکٹھا کرتے تھے اور امریکی وزارت خزانہ نے 22 جولائی 2010 میں ان پر مالی پابندیاں عائد کی تھیں۔ ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نصیر الدین حقانی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ان کو امریکا کے ایما پر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے مروایا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اس واقعے سے بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
پاکستان سے ایسے بہت سے مطلوب افراد پکڑے گئے ہیں جو القاعدہ کے اہم عہدیدار تھے' نصیر الدین حقانی کی موت سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ افغان اور پاکستانی طالبان کے کئی اور افراد بھی ملک کے شہروں میں موجود ہوسکتے ہیں' یہ صورت حال ہماری حکومت اور ایجنسیوں کے لیے ایک چیلنج ہے' پاکستان میں ایسے افراد کی موجودگی جو کسی نہ کسی حوالے سے افغانستان میں جاری جنگ سے جڑے ہوئے ہیں' بہت سی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سے ایسا میکنزم تیار کرنا چاہیے جس کے ذریعے پاکستان کے شہروں یا دیہات میں چھپے ہوئے القاعدہ یا طالبان کے افراد کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جا سکے۔ پاکستان جس قسم کے حالات سے دوچار ہے' ان سے عہدہ برأ ہونے کے لیے حکومت کو جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔
یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ افغان طالبان کا اتنا اہم شخص پاکستان میں بڑی آزادی کے ساتھ کام کر رہا تھا اور ملک کے کسی ادارے کو اس کا پتہ نہیں چلا' اخبارات میں امریکا کے حوالے سے یہ خبر بھی شایع ہوئی ہے کہوہ ' حقانی نیٹ ورک کے لیے فنڈز اکٹھا کرتے تھے اور امریکی وزارت خزانہ نے 22 جولائی 2010 میں ان پر مالی پابندیاں عائد کی تھیں۔ ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نصیر الدین حقانی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ان کو امریکا کے ایما پر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے مروایا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اس واقعے سے بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
پاکستان سے ایسے بہت سے مطلوب افراد پکڑے گئے ہیں جو القاعدہ کے اہم عہدیدار تھے' نصیر الدین حقانی کی موت سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ افغان اور پاکستانی طالبان کے کئی اور افراد بھی ملک کے شہروں میں موجود ہوسکتے ہیں' یہ صورت حال ہماری حکومت اور ایجنسیوں کے لیے ایک چیلنج ہے' پاکستان میں ایسے افراد کی موجودگی جو کسی نہ کسی حوالے سے افغانستان میں جاری جنگ سے جڑے ہوئے ہیں' بہت سی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سے ایسا میکنزم تیار کرنا چاہیے جس کے ذریعے پاکستان کے شہروں یا دیہات میں چھپے ہوئے القاعدہ یا طالبان کے افراد کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جا سکے۔ پاکستان جس قسم کے حالات سے دوچار ہے' ان سے عہدہ برأ ہونے کے لیے حکومت کو جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔