پاک کویت تعلقات …وقت کی ضرورت
پاکستان اورکویت نے تجارت وتوانائی کے شعبوںمیںوسیع تر تعاون پر اتفاق کرتے ہوئے سرمایہ کاری، تحویل مجرمان اور...
پاکستان اورکویت نے تجارت وتوانائی کے شعبوںمیںوسیع تر تعاون پر اتفاق کرتے ہوئے سرمایہ کاری، تحویل مجرمان اور سفارتکاروںکے لیے ویزہ استثنیٰ کے معاہدوں سمیت تعاون کی 4دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔ ہفتے کو وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے ان کے کویتی ہم منصب شیخ جابر مبارک الحمد الصباح نے ایوان وزیراعظم میں ملاقات کی۔وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری کومزید تقویت دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کویت کے ساتھ اپنے برادرانہ قریبی تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات گہرے تاریخی اور مذہبی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور عوام کے درمیان پرجوش خیرسگالی جذبات پائے جاتے ہیں۔ کویتی وزیراعظم نے میاں نوازشریف کو امیر کویت شیخ صباح الاحمد الصباح کی جانب سے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا قابل بھروسہ دوست ہے،کویت کے عوام پاکستانیوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔
کویت پاکستان کا انتہائی اہم مسلم دوست ملک ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گہرے برادرانہ' تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم ہیں۔ اس وقت ہزاروں پاکستانی کویت میں کام کر رہے ہیں اور وہاں سے قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیج رہے ہیں۔ 1991 میں جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو اس وقت پاکستانی فورسز نے بھی کویت کی آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ کویت پر عراقی قبضے کے خاتمے کے بعد پاکستانی آرمی انجینئروں نے وہاں بچھی بارودی سرنگوں کی صفائی میں اہم کردار ادا کیا' کویت کی پاکستان کے لیے برآمدات کا حجم 750 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے جب کہ پاکستان کی برآمدات کا حجم 50 ملین ڈالر کے قریب ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کویت میں ایک لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ 2005 کے زلزلے میں بھی کویت نے پاکستان کی دل کھول کر مدد کی' اس وقت کویت نے تقریباً 100 ملین ڈالر کی مدد فراہم کی۔ 2010 میں پاکستان میں جو بدترین سیلاب آیا تھا' تب کویتی حکومت نے پاکستان کی مدد کے لیے عام افراد سے چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ بہت بڑی بات تھی۔ کویت کی حکومت اس قسم کی سرگرمیوں کی اجازت کم ہی دیتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کویتی حکومت پاکستان کے لیے خاصی ہمدردی رکھتی ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
کویت تیل کی دولت سے مالا مال ہے' پاکستان کی حکومت کو کویتی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں' اگلے روز جو چار معاہدے ہوئے ہیں' ان سے مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید گہرے ہوں گے' موجودہ حالات میں پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی معیشت جس حال میں ہے' یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ امریکا اور یورپ کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا خاصا مشکل کام ہے جب کہ کویت جیسے دوست ملک کو سرمایہ کاری کے لیے راضی کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ پاکستان کویت سے کثیر الجہتی فائدے اٹھا سکتا ہے۔ کویت کو اب بھی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ہنر مند اور غیر ہنر مندوں کی بڑی تعداد بے روز گار ہے۔ اگر پاکستان سے افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ بھیجا جائے تو اس سے پاکستان میں بیروز گاری کم ہو گی اور ملکی معیشت پر بھی اچھے اثرات پڑیں گے۔
کویتی سرمایہ کاروں کے لیے بھی پاکستان میں خاصا پوٹینشل موجود ہے۔ کویت کے سرمایہ کار پاکستان میں توانائی اور بینکنگ سیکٹر میں وسیع سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ٹیلی کمیونیکیشن اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ خصوصاً توانائی کے شعبے میں وسیع مواقعے موجود ہیں جن سے غیر ملکی سرمایہ کار اچھا خاصا منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ امید یہی ہے کہ کویتی سرمایہ کار ان مواقعے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ جہاں تک تحویل مجرمان کا تعلق ہے تو یہ بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں مختلف نوعیت کے جرائم پیشہ مافیاز بھی سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان میں موجود خلفشار سے فائدہ اٹھا کر غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ پاکستان میں جب ان جرائم پیشہ اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا ہے تو یہ یہاں سے فرار ہو کر قریبی خلیجی ممالک میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔
کویت میں بھی مختلف قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باعث بہت سے لوگ پاکستان آ جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تحویل مجرمان کے معاہدے سے جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گردوں کو قانونی کی گرفت میں لانا آسان ہو جائے گا۔ سفارتکاروں کے لیے ویزا استثنا کی سہولت بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کویت اور پاکستان کی حکومتوں نے جن معاہدوں اور تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں' مستقبل میں ان کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ کویت نے عالمی ایشوز پر بھی پاکستان کی حمایت کی ہے۔ مسئلہ کشمیر ہو یا کوئی اور بین الاقوامی ایشو کویتی حکومت نے پاکستان کے مفادات کو ہمیشہ سامنے رکھ کر پالیسی اختیار کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی موقعے پر شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوئے یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور کویت ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ رہے ہیں اور مستقبل میں بھی دونوں ملکوں کی دوستی اور تعاون کا عمل جاری رہے گا۔
کویت پاکستان کا انتہائی اہم مسلم دوست ملک ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گہرے برادرانہ' تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم ہیں۔ اس وقت ہزاروں پاکستانی کویت میں کام کر رہے ہیں اور وہاں سے قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیج رہے ہیں۔ 1991 میں جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو اس وقت پاکستانی فورسز نے بھی کویت کی آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ کویت پر عراقی قبضے کے خاتمے کے بعد پاکستانی آرمی انجینئروں نے وہاں بچھی بارودی سرنگوں کی صفائی میں اہم کردار ادا کیا' کویت کی پاکستان کے لیے برآمدات کا حجم 750 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے جب کہ پاکستان کی برآمدات کا حجم 50 ملین ڈالر کے قریب ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کویت میں ایک لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ 2005 کے زلزلے میں بھی کویت نے پاکستان کی دل کھول کر مدد کی' اس وقت کویت نے تقریباً 100 ملین ڈالر کی مدد فراہم کی۔ 2010 میں پاکستان میں جو بدترین سیلاب آیا تھا' تب کویتی حکومت نے پاکستان کی مدد کے لیے عام افراد سے چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ بہت بڑی بات تھی۔ کویت کی حکومت اس قسم کی سرگرمیوں کی اجازت کم ہی دیتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کویتی حکومت پاکستان کے لیے خاصی ہمدردی رکھتی ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
کویت تیل کی دولت سے مالا مال ہے' پاکستان کی حکومت کو کویتی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں' اگلے روز جو چار معاہدے ہوئے ہیں' ان سے مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید گہرے ہوں گے' موجودہ حالات میں پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی معیشت جس حال میں ہے' یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ امریکا اور یورپ کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا خاصا مشکل کام ہے جب کہ کویت جیسے دوست ملک کو سرمایہ کاری کے لیے راضی کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ پاکستان کویت سے کثیر الجہتی فائدے اٹھا سکتا ہے۔ کویت کو اب بھی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ہنر مند اور غیر ہنر مندوں کی بڑی تعداد بے روز گار ہے۔ اگر پاکستان سے افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ بھیجا جائے تو اس سے پاکستان میں بیروز گاری کم ہو گی اور ملکی معیشت پر بھی اچھے اثرات پڑیں گے۔
کویتی سرمایہ کاروں کے لیے بھی پاکستان میں خاصا پوٹینشل موجود ہے۔ کویت کے سرمایہ کار پاکستان میں توانائی اور بینکنگ سیکٹر میں وسیع سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ٹیلی کمیونیکیشن اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ خصوصاً توانائی کے شعبے میں وسیع مواقعے موجود ہیں جن سے غیر ملکی سرمایہ کار اچھا خاصا منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ امید یہی ہے کہ کویتی سرمایہ کار ان مواقعے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ جہاں تک تحویل مجرمان کا تعلق ہے تو یہ بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں مختلف نوعیت کے جرائم پیشہ مافیاز بھی سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان میں موجود خلفشار سے فائدہ اٹھا کر غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ پاکستان میں جب ان جرائم پیشہ اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا ہے تو یہ یہاں سے فرار ہو کر قریبی خلیجی ممالک میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔
کویت میں بھی مختلف قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باعث بہت سے لوگ پاکستان آ جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تحویل مجرمان کے معاہدے سے جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گردوں کو قانونی کی گرفت میں لانا آسان ہو جائے گا۔ سفارتکاروں کے لیے ویزا استثنا کی سہولت بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کویت اور پاکستان کی حکومتوں نے جن معاہدوں اور تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں' مستقبل میں ان کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ کویت نے عالمی ایشوز پر بھی پاکستان کی حمایت کی ہے۔ مسئلہ کشمیر ہو یا کوئی اور بین الاقوامی ایشو کویتی حکومت نے پاکستان کے مفادات کو ہمیشہ سامنے رکھ کر پالیسی اختیار کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی موقعے پر شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوئے یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور کویت ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ رہے ہیں اور مستقبل میں بھی دونوں ملکوں کی دوستی اور تعاون کا عمل جاری رہے گا۔