پاکستانی خواتین کو زیادہ کام پر انتہائی کم اُجرت ملتی ہے آکسفیم
معیشت پر دولت مند اشرافیہ کا قبضہ جو بڑے پیمانے پر دولت اور طاقت جمع کر رہی ہے
پاکستان میں بسنے والی خواتین کو جہاں معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے اس کے ساتھ ساتھ کئی گھنٹوں کام کرنے کے باوجود کام کا صحیح معاوضہ بھی نہیں ملتا۔
ایک سروے کے مطابق پاکستانی خواتین کارکن جوکم سے کم اجرت 638 برسوں میں کماتی ہیں وہی اجرت ایک قومی بینک کا سی ای او ایک سال میں کماتا ہے۔ پاکستان کی معیشت پر ایسی دولت مند اشرافیہ کا قبضہ ہے جو بڑے پیمانے پر دولت اور طاقت جمع کررہی ہے۔ اربوں خواتین اور لڑکیاں بڑھتی عدم مساوات کا سامنا کرتے ہوئے گھنٹوں دوسروں کی مفت دیکھ بھال کرتی ہیں۔ غریب خواتین کارکنان نہ صرف اپنے خاندانی اور قومی معیشت میں بلکہ قدرتی ماحولیات میں بھی اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔
عالمی تنظیم آکسفیم نے غیر مساوی اور بلا معاوضہ کام کرنے کے حوالے سے ''ٹائم ٹو کیئر''کے عنوان سے ایک رپورٹ پیش جاری کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر دن امیر اور غریب کے مابین فاصلہ بڑھتا جارہا ہے جس سے غریب خصوصاً خواتین اور لڑکیوں پر مزید معاشی بوجھ پڑتا ہے۔دوسروں کو کھانا کھلانا ، کھانا پکانا ، صفائی ستھرائی ، پانی لانا اور لکڑیاں جمع کرنا روزانہ کے اہم کام ہیں۔نگہداشت کے کام کی بھاری اورغیر مساوی ذمہ داری صنفی اور معاشی عدم مساوات کو برقرار رکھتی ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستانی خواتین کارکن جوکم سے کم اجرت 638 برسوں میں کماتی ہیں وہی اجرت ایک قومی بینک کا سی ای او ایک سال میں کماتا ہے۔ پاکستان کی معیشت پر ایسی دولت مند اشرافیہ کا قبضہ ہے جو بڑے پیمانے پر دولت اور طاقت جمع کررہی ہے۔ اربوں خواتین اور لڑکیاں بڑھتی عدم مساوات کا سامنا کرتے ہوئے گھنٹوں دوسروں کی مفت دیکھ بھال کرتی ہیں۔ غریب خواتین کارکنان نہ صرف اپنے خاندانی اور قومی معیشت میں بلکہ قدرتی ماحولیات میں بھی اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔
عالمی تنظیم آکسفیم نے غیر مساوی اور بلا معاوضہ کام کرنے کے حوالے سے ''ٹائم ٹو کیئر''کے عنوان سے ایک رپورٹ پیش جاری کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر دن امیر اور غریب کے مابین فاصلہ بڑھتا جارہا ہے جس سے غریب خصوصاً خواتین اور لڑکیوں پر مزید معاشی بوجھ پڑتا ہے۔دوسروں کو کھانا کھلانا ، کھانا پکانا ، صفائی ستھرائی ، پانی لانا اور لکڑیاں جمع کرنا روزانہ کے اہم کام ہیں۔نگہداشت کے کام کی بھاری اورغیر مساوی ذمہ داری صنفی اور معاشی عدم مساوات کو برقرار رکھتی ہے۔