عجائب خانہ کے رہواسی
ہمارے وہ یاران من بتائیں کہ اس قدر بحران کا شکار ریاست کو کس طرح غیر سیاسی اور حکومتی معاملات سے دور رکھا جائے؟
ISLAMABAD:
ہم کس دیس کے رہواسی ہیں؟ یہ ہم سمیت بہت سوں کو شاید اب تک نہیں معلوم ، اور معلوم بھی کیونکر ہوکہ جہاں ہمارا مسکن ہے وہاں نہ ریاست ہے نہ حکمرانی نہ قانون اور نہ سماجی اخلاقیات ، لگتا ہے کہ ہم عالم بالا کے کسی ''تھڑے'' پر بیٹھے اور اونگھتے ہوئے اپنی زندگیوں کوگزارنے کا سبب بن رہے ہیں۔
اب یار دوست کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہمہ وقت تنقید کے نشتر لگاتے رہتے ہیں تو ان سے عرض ہے کہ وہ ہمیں ذرا سمجھا دیں کہ ہم بھلا کس طرح ریاستی یا حکومتی رٹ کے گن گائیں جب کہ اقتدار کی سول اور طاقتور اشرافیہ عوای مسائل ، عوام کے دکھ درد ، ان کے علاج معالجہ ، ان کی داد رسی سے بے خبر ، اور عوام کو انصاف دلانے میں مکمل ناکام ہے، بلکہ جب اقتدار کی اشرافیہ عوام کے بجائے اپنے لاؤ لشکر کے مفادات کو تحفظ دینے میں مصروف رہے تو پھر ملک کا نام ''بحرانستان'' ہی پکارا جائے گا ، جہاں ہم ایسے خاک نشیں ''تھڑے'' پر بیٹھے ہی نظر آئیں گے۔ اب یہ الگ قصہ ہے کہ ہمارے یار دوستوں کو ہمارا تھڑے پر بیٹھنا اچھا نہ لگتا ہو یا ان کی ندامت کا باعث ہو، مگر انھیں شاید اس بچے سمیت ''آٹا لیتی ماں'' کا تھڑے پر بے یارومددگار بیٹھنا اچھا لگتا ہے، جس کا بچہ اپنی معصوم نگاہوں سے مدد و طلب کی ''حسرت و یاس'' بنا ہوا ، آج کے تمام قومی اخبارات کا ''مرکزی فوٹو'' بنا دیا گیا ہے۔
فاقوں تک پہنچنے والی عوام کو ''آٹا'' ایسی بنیادی چیز نہ ملنے کا بحران ، بیروزگار ی سے تنگ خودکشی کرتے ہوئے عوام کا بحران ، قانون کے محافظوں کا سائل لڑکی کی عصمت دری کا بحران ، معاشرتی بے راہ روی کا بحران ، قانون سازی میں سازشوں کا بحران ، عوام کے منتخب پارلیمان کو بے توقیر کرنے کا بحران ، بالادست اشرافیہ کی جانب سے پارلیمان اور سینیٹ کے اجلاس نہ بلانے کا بحران ، سیاسی رسہ کشی اور نعرے بازی کا بحران ، ملک پر منڈلاتے بیرونی توسیع پسندانہ بحران ، اندرونی پالیسیوں کی بے سمتی کا بحران ، بیرونی دنیا میں بے توقیر غلامانہ سفارتی پالیسی کا بحران، اب جب اتنے لا تعداد بحران ہم پر ایک نا اہل حکومتی گماشتے لاد دیں تو بھلا ہم خود کو کسی ''تھڑے'' پر بیٹھنے والا سمجھیں تو یار لوگ ہم پر'' ملک دشمنی'' کا لیبل لگا دیتے ہیں یا حب الوطنی سے نا واقف کہہ کر ہمارے سوچنے سمجھنے پر سوالیہ نشان عائد کر دیتے ہیں، اب بھلا ان چار طرف بحرانوں میں گھری عوام اپنی داد و فریاد لے کر جائے تو کس کے پاس اور کیوں ؟ کیونکہ دربار خاص کی '' فریادی گھنٹی'' ہی اتار کر دم درود واسطے بنی گالہ کے ہجرے میں پہنچا دی گئی ہے، جہاں صرف فیصل واوڈا بوٹ سمیت جا سکتے ہیں وگرنہ عام فرد ''کشت'' کرتا ہوا ''با پیادہ'' ہی پہنچ سکے تو پہنچے۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی ہم کالج یونیورسٹیوں کی سیاسی جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے سب صحافی بن جانے والے احباب جن میں حسن منصور، شکیل سلاوٹ ، معین ، ڈاکٹر توصیف ، ناصر آرائیں، معین قریشی ، ارشادچنائے و دیگرکراچی پریس کلب کے ایک گوشے میں ملکی سماجی وسیاسی صورتحال پر یورپ سے آئے ہوئے اپنے صحافی دوست خالد حمیدسے گفتگوکرتے ہوئے ماضی میں سیاسی جدوجہد اور اس میں سیاسی برداشت کے خوبصورت ماحول کا تذکرہ کر رہے تھے، ہم تمام دوست اس بات پر بھی دل برداشتہ تھے کہ سماج سے راہ و رسم بڑھنے اور سماجی قدروں میں لا یعنی پن کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔
سو سماج سے اس لاتعلقی کے رجحان کو کیسے کم ، ختم یا اسے تاریخ سے آگاہی میں تبدیل کیا جائے، تمام احباب اس بات پر متفق نظر آئے کہ آپسی رابطوں کو مستقل بنیاد پر مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے اور گفتگو میں سماجی اور سیاسی محرکات کو زیر بحث لا کر اس بے راہ روی کی کوئی بہتر سمت متعین کرنے کی سبیل نکالنے کی جدوجہد ہر پیمانے پر جاری رکھی جائے اور سماج میں ''سوال اٹھانے'' کے رجحان کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھایا جائے تا کہ نئے سماج کی تشکیل کے سوتے مجموعی طور سے ظاہر ہوں اور ایک سیاسی تحریک کی صورت میں ''عوامی مسائل'' اور عوام سے رابطوں کا سلسلہ طاقتور رشتے میں تبدیل ہو، تا کہ آئے دن کے ''بحرانات'' سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ ہم تمام دوست اس بات پر رنجیدہ بھی تھے کہ ہمارے حکمرانوںکی عوام کش پالیسیوں اور سفارتی آداب سے ناواقف طور طریقوں سے ہمارے''وطن عزیز'' کے متعلق یورپ اور دیگر دنیا میں کوئی بھی مثبت تاثر نہیں جا رہا، سب پر یہ جان کر افسردگی پھیل گئی کہ ہماری ناقص سفارتی پالیسیوں کے سبب وطن کے عام فرد کے متعلق منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں جو کہ ہماری نسل کے لیے انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے۔
گھنٹوں پر محیط اس معلوماتی اور پر مغزگفتگو میں یہ عقدہ بھی کھلا کہ ہماری سفارتی پالیسی میں سفارتی آداب کے ماہرین کے بجائے پسند کے ایسے افراد کی بے تحاشہ بھرتی ہے جن کا تعلق کسی بھی طور سے سفارتی تعلقات کی بلندی ہرگز نہیں بلکہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی لگن ہے اور یورپ و امریکا میں سفارتی آداب کو اس قدر مسخ کیا جاتا ہے کہ ایک عام سا یورپی MPE بھی ملک کے وزیر خارجہ یا اعلیٰ حکام سے ملنے سے گریزاں رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان افراد تک رسائی حاصل کر لی جاتی ہے جو کہ یورپ کے تو ہوں مگر ان کا سرکاری امور میں صرف رسماً عمل دخل ہو، اور یہ طریقہ کار اس وجہ سے روا رکھا جاتا ہے کہ بدلتی دنیا اور ترقی کرتے سماج کی قدروں کے مقابل ریاست کا وہ بیانیہ دیا جائے جس سے کہ ریاست چلانے والے با اثر حضرات یا حکمران خوش ہوں ، یہی وجہ ہوتی ہے کہ یورپ اور دیگر ممالک میں وطن کے سفارتکاروں کی وہ توقیر نہیں ہوتی جو کہ ایک با اثر اور با وقار ریاست کی ہونی چاہیے۔
بیرونی دنیا میں سفارتی آداب کی بات یہیں تک نہیں رک جاتی بلکہ یورپ اور دیگر دنیا کے ممالک میں ان پاکستانی نژاد صحافیوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو اپنے وطن کی حقیقی تصویر جانتے ہیں یا انسانی حقوق و ماحولیات کی چیرہ دستیوں سے واقف ہیں ، اس کا لازمی نتیجہ یورپ اور امریکا کے باخبر حلقوں میں ملکی سفارکاروں یا سفارتی اداروں کے منفی اثرات پڑتے ہیں اور وہ ممالک دیگر ذرائع سے اپنی معلومات اکھٹا کر کے ہمارے سفارتی اکابرین اور وزرا کو لاجواب کر دیتے ہیں ، اس کمزور اور غیر متعلقہ افراد کے ہاتھوں سفارتی معاملات چلانے کے خطرناک نتائج عوام بھگتتے ہیں اور اکثر ہمارا وطن یورپ اور امریکا کی جانب سے مستقل مختلف پابندیوں یا تحفظات کا شکار رہتا ہے، اور اب تو اس ساری درد مند صورتحال کو عوام اور فرد کے علم میں لانے کا یہ ہمارا صحافتی فرض بھی وطن پرستی کے من پسند بیانیے کی آڑ میں باخبر صحافی سے چھینا جا رہا ہے۔
اب ہمارے وہ یاران من بتائیں کہ اس قدر بحران کا شکار ریاست کو کس طرح غیر سیاسی اور حکومتی معاملات سے دور رکھا جائے؟ عوام کو سیاست کی باریکیاں اور ان کی چیرہ دستیاں بتاتا ہی اہل صحافت کا فریضہ ہے جس کا نتیجہ باخبر سماج کی تشکیل ہی ٹہرے گا ، سو ایک بہتر نسل اور روشن خیال سماج کی تعمیر میں ہم سب کو مل کر سیاسی سوچ کے نتیجے میں ان ''بحرانوں'' سے چھٹکارا پانا ہو گا وگرنہ آخر میں عوام ریاست سے لا تعلق ہو کر غدر برپا کرنے کی جانب ہی بڑھیں گے۔
ہم کس دیس کے رہواسی ہیں؟ یہ ہم سمیت بہت سوں کو شاید اب تک نہیں معلوم ، اور معلوم بھی کیونکر ہوکہ جہاں ہمارا مسکن ہے وہاں نہ ریاست ہے نہ حکمرانی نہ قانون اور نہ سماجی اخلاقیات ، لگتا ہے کہ ہم عالم بالا کے کسی ''تھڑے'' پر بیٹھے اور اونگھتے ہوئے اپنی زندگیوں کوگزارنے کا سبب بن رہے ہیں۔
اب یار دوست کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہمہ وقت تنقید کے نشتر لگاتے رہتے ہیں تو ان سے عرض ہے کہ وہ ہمیں ذرا سمجھا دیں کہ ہم بھلا کس طرح ریاستی یا حکومتی رٹ کے گن گائیں جب کہ اقتدار کی سول اور طاقتور اشرافیہ عوای مسائل ، عوام کے دکھ درد ، ان کے علاج معالجہ ، ان کی داد رسی سے بے خبر ، اور عوام کو انصاف دلانے میں مکمل ناکام ہے، بلکہ جب اقتدار کی اشرافیہ عوام کے بجائے اپنے لاؤ لشکر کے مفادات کو تحفظ دینے میں مصروف رہے تو پھر ملک کا نام ''بحرانستان'' ہی پکارا جائے گا ، جہاں ہم ایسے خاک نشیں ''تھڑے'' پر بیٹھے ہی نظر آئیں گے۔ اب یہ الگ قصہ ہے کہ ہمارے یار دوستوں کو ہمارا تھڑے پر بیٹھنا اچھا نہ لگتا ہو یا ان کی ندامت کا باعث ہو، مگر انھیں شاید اس بچے سمیت ''آٹا لیتی ماں'' کا تھڑے پر بے یارومددگار بیٹھنا اچھا لگتا ہے، جس کا بچہ اپنی معصوم نگاہوں سے مدد و طلب کی ''حسرت و یاس'' بنا ہوا ، آج کے تمام قومی اخبارات کا ''مرکزی فوٹو'' بنا دیا گیا ہے۔
فاقوں تک پہنچنے والی عوام کو ''آٹا'' ایسی بنیادی چیز نہ ملنے کا بحران ، بیروزگار ی سے تنگ خودکشی کرتے ہوئے عوام کا بحران ، قانون کے محافظوں کا سائل لڑکی کی عصمت دری کا بحران ، معاشرتی بے راہ روی کا بحران ، قانون سازی میں سازشوں کا بحران ، عوام کے منتخب پارلیمان کو بے توقیر کرنے کا بحران ، بالادست اشرافیہ کی جانب سے پارلیمان اور سینیٹ کے اجلاس نہ بلانے کا بحران ، سیاسی رسہ کشی اور نعرے بازی کا بحران ، ملک پر منڈلاتے بیرونی توسیع پسندانہ بحران ، اندرونی پالیسیوں کی بے سمتی کا بحران ، بیرونی دنیا میں بے توقیر غلامانہ سفارتی پالیسی کا بحران، اب جب اتنے لا تعداد بحران ہم پر ایک نا اہل حکومتی گماشتے لاد دیں تو بھلا ہم خود کو کسی ''تھڑے'' پر بیٹھنے والا سمجھیں تو یار لوگ ہم پر'' ملک دشمنی'' کا لیبل لگا دیتے ہیں یا حب الوطنی سے نا واقف کہہ کر ہمارے سوچنے سمجھنے پر سوالیہ نشان عائد کر دیتے ہیں، اب بھلا ان چار طرف بحرانوں میں گھری عوام اپنی داد و فریاد لے کر جائے تو کس کے پاس اور کیوں ؟ کیونکہ دربار خاص کی '' فریادی گھنٹی'' ہی اتار کر دم درود واسطے بنی گالہ کے ہجرے میں پہنچا دی گئی ہے، جہاں صرف فیصل واوڈا بوٹ سمیت جا سکتے ہیں وگرنہ عام فرد ''کشت'' کرتا ہوا ''با پیادہ'' ہی پہنچ سکے تو پہنچے۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی ہم کالج یونیورسٹیوں کی سیاسی جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے سب صحافی بن جانے والے احباب جن میں حسن منصور، شکیل سلاوٹ ، معین ، ڈاکٹر توصیف ، ناصر آرائیں، معین قریشی ، ارشادچنائے و دیگرکراچی پریس کلب کے ایک گوشے میں ملکی سماجی وسیاسی صورتحال پر یورپ سے آئے ہوئے اپنے صحافی دوست خالد حمیدسے گفتگوکرتے ہوئے ماضی میں سیاسی جدوجہد اور اس میں سیاسی برداشت کے خوبصورت ماحول کا تذکرہ کر رہے تھے، ہم تمام دوست اس بات پر بھی دل برداشتہ تھے کہ سماج سے راہ و رسم بڑھنے اور سماجی قدروں میں لا یعنی پن کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔
سو سماج سے اس لاتعلقی کے رجحان کو کیسے کم ، ختم یا اسے تاریخ سے آگاہی میں تبدیل کیا جائے، تمام احباب اس بات پر متفق نظر آئے کہ آپسی رابطوں کو مستقل بنیاد پر مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے اور گفتگو میں سماجی اور سیاسی محرکات کو زیر بحث لا کر اس بے راہ روی کی کوئی بہتر سمت متعین کرنے کی سبیل نکالنے کی جدوجہد ہر پیمانے پر جاری رکھی جائے اور سماج میں ''سوال اٹھانے'' کے رجحان کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھایا جائے تا کہ نئے سماج کی تشکیل کے سوتے مجموعی طور سے ظاہر ہوں اور ایک سیاسی تحریک کی صورت میں ''عوامی مسائل'' اور عوام سے رابطوں کا سلسلہ طاقتور رشتے میں تبدیل ہو، تا کہ آئے دن کے ''بحرانات'' سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ ہم تمام دوست اس بات پر رنجیدہ بھی تھے کہ ہمارے حکمرانوںکی عوام کش پالیسیوں اور سفارتی آداب سے ناواقف طور طریقوں سے ہمارے''وطن عزیز'' کے متعلق یورپ اور دیگر دنیا میں کوئی بھی مثبت تاثر نہیں جا رہا، سب پر یہ جان کر افسردگی پھیل گئی کہ ہماری ناقص سفارتی پالیسیوں کے سبب وطن کے عام فرد کے متعلق منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں جو کہ ہماری نسل کے لیے انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے۔
گھنٹوں پر محیط اس معلوماتی اور پر مغزگفتگو میں یہ عقدہ بھی کھلا کہ ہماری سفارتی پالیسی میں سفارتی آداب کے ماہرین کے بجائے پسند کے ایسے افراد کی بے تحاشہ بھرتی ہے جن کا تعلق کسی بھی طور سے سفارتی تعلقات کی بلندی ہرگز نہیں بلکہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی لگن ہے اور یورپ و امریکا میں سفارتی آداب کو اس قدر مسخ کیا جاتا ہے کہ ایک عام سا یورپی MPE بھی ملک کے وزیر خارجہ یا اعلیٰ حکام سے ملنے سے گریزاں رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان افراد تک رسائی حاصل کر لی جاتی ہے جو کہ یورپ کے تو ہوں مگر ان کا سرکاری امور میں صرف رسماً عمل دخل ہو، اور یہ طریقہ کار اس وجہ سے روا رکھا جاتا ہے کہ بدلتی دنیا اور ترقی کرتے سماج کی قدروں کے مقابل ریاست کا وہ بیانیہ دیا جائے جس سے کہ ریاست چلانے والے با اثر حضرات یا حکمران خوش ہوں ، یہی وجہ ہوتی ہے کہ یورپ اور دیگر ممالک میں وطن کے سفارتکاروں کی وہ توقیر نہیں ہوتی جو کہ ایک با اثر اور با وقار ریاست کی ہونی چاہیے۔
بیرونی دنیا میں سفارتی آداب کی بات یہیں تک نہیں رک جاتی بلکہ یورپ اور دیگر دنیا کے ممالک میں ان پاکستانی نژاد صحافیوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو اپنے وطن کی حقیقی تصویر جانتے ہیں یا انسانی حقوق و ماحولیات کی چیرہ دستیوں سے واقف ہیں ، اس کا لازمی نتیجہ یورپ اور امریکا کے باخبر حلقوں میں ملکی سفارکاروں یا سفارتی اداروں کے منفی اثرات پڑتے ہیں اور وہ ممالک دیگر ذرائع سے اپنی معلومات اکھٹا کر کے ہمارے سفارتی اکابرین اور وزرا کو لاجواب کر دیتے ہیں ، اس کمزور اور غیر متعلقہ افراد کے ہاتھوں سفارتی معاملات چلانے کے خطرناک نتائج عوام بھگتتے ہیں اور اکثر ہمارا وطن یورپ اور امریکا کی جانب سے مستقل مختلف پابندیوں یا تحفظات کا شکار رہتا ہے، اور اب تو اس ساری درد مند صورتحال کو عوام اور فرد کے علم میں لانے کا یہ ہمارا صحافتی فرض بھی وطن پرستی کے من پسند بیانیے کی آڑ میں باخبر صحافی سے چھینا جا رہا ہے۔
اب ہمارے وہ یاران من بتائیں کہ اس قدر بحران کا شکار ریاست کو کس طرح غیر سیاسی اور حکومتی معاملات سے دور رکھا جائے؟ عوام کو سیاست کی باریکیاں اور ان کی چیرہ دستیاں بتاتا ہی اہل صحافت کا فریضہ ہے جس کا نتیجہ باخبر سماج کی تشکیل ہی ٹہرے گا ، سو ایک بہتر نسل اور روشن خیال سماج کی تعمیر میں ہم سب کو مل کر سیاسی سوچ کے نتیجے میں ان ''بحرانوں'' سے چھٹکارا پانا ہو گا وگرنہ آخر میں عوام ریاست سے لا تعلق ہو کر غدر برپا کرنے کی جانب ہی بڑھیں گے۔