کچھ کھلاڑی کچھ اناڑی
نئے پاکستان میں صنفی ، سماجی، سیاسی ، سماجی و معاشی تفریق بڑھ چکی ہے، لوگ مایوسی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
قوم کو بتایا یہ گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے قیام کا بنیادی محرک ایک ایسی تحریک کا آغاز ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ایک ایسے معاشرے کے لیے جدو جہد کرسکے جس کی اساس حضرت محمد مصطفیﷺ کا عطا کردہ وہی میثاق مدینہ ہو جس نے اس بے مثال اسلامی ریاست کو تخلیق کیا جو عدل اور سماجی انصاف کے زریں اصولوں پر استوار کی گئی تھی اور جسے تہذیب انسانی کی اولین فلاحی ریاست ہونے کا اعزاز ہے۔
قوم کو بتایا یہ گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اُس عام آدمی کی سیاسی آواز ہوگی جو کسی بھی صنفی و سماجی تخصیص سے بے نیاز اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ایک بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہے۔
قوم کو بتایا یہ گیا تھا کہ تحریک انصاف ایک ایسا ''نیا پاکستان '' بنائے گی جسے اپنے زور بازو پر اعتماد ہو اور جو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر فضائے امن و آشتی میں پنپنا چاہتا ہو۔ باہمی مفید اور ایک دوسرے کی حاکمیت اعلیٰ کے احترام پر مبنی دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ قوم کو بتایا یہ گیا تھا کہ انھیں پچاس لاکھ گھر ملیں گے، ایک کروڑ نوکریاں ملیں گی، پیٹرول 46روپے فی لٹر دستیاب ہوگا،حکومت سادگی کا کلچر اپنائے گی،وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنایا جائے گا، گورنر ہائوس میں لائبریری بنے گی، ڈالر 80 روپے کا ہوگا،صوبہ جنوبی پنجاب بنے گا۔دولت چند ہاتھوں تک محدود نہیں رہنے دی جائے گی،کشکول ٹوٹ جائے گا اور پاکستان خود انحصاری کی شاہراہ عظیم پر چل دوڑے گا، مبینہ ریاست مدینہ میں کوئی شخص بھوکا نہیں سوئے گا۔قوم کو بتایا یہ گیا تھا کہ اس قوم کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہے، مبینہ ریاست مدینہ کا کوئی وزیر غلط کام میں ملوث پایا گیا تو اسے بھی سزا ملے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کو عنان اقتدار سنبھالے کم و بیش18ماہ گزرگئے، ریاست مدینہ میں لوگ عدل و انصاف کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن کسی جگہ یہ چڑیا ان کے ہاتھ نہیں لگی۔ ریاست مدینہ کا جو خاکہ پیش کرتے تبدیلی سرکار کی زبان نہ تھکتی تھی ، اس کی کہیں جھلک تک دکھائی نہ دی، اﷲ کریم کا شکر ہے اب تبدیلی سرکار کی زبان پر اس مقدس ریاست کا تذکرہ بتدریج کم ہوتا چلا جارہا ہے۔
نئے پاکستان میں صنفی ، سماجی، سیاسی ، سماجی و معاشی تفریق بڑھ چکی ہے، لوگ مایوسی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ نئے پاکستان میںبھی ہمارا انحصار آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں پر ہے، ان اداروں نے ہمارے پورے معاشی نظام پر اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں اور انھی کی دی ہوئی معاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر لوگوں کا جینا حرام کیا جارہا ہے۔
نئے پاکستان میں بھی ہمسایوں سے تعلقات معمول پر آنے کا نام نہیں لے رہے، نئے پاکستان میںلوگ پچاس لاکھ گھر تلاش کرنے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور تبدیلی سرکار کی جانب سے انھیں پیغام ملتا ہے کہ ''سکون صرف قبر میں ہے''۔ تبدیلی سرکار نے ایک کروڑ نوکریاں تو نہیں دیں البتہ لاکھوں لوگوں سے ان کی نوکریاں چھین کر انھیں بے روزگار ضرور کردیا ہے۔اسلام میں سونامردوں کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے لیکن تبدیلی سرکار نے پاکستان میں عورتوں کے لیے اسے ''حرام '' قرار دے دیا ہے، جب ایک لاکھ روپے فی تولہ ملے گا تو کون غریب آدمی اپنی بہو ،بیٹیوں کو شادی کا تحفہ دے سکے گا۔ سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے تو عام آدمی کا سونا بھی حرام کرکے رکھ دیا ہے۔
تبدیلی سرکار کے دعوئوں کے مطابق ابھی تک وزیر اعظم ہائوس بطور وزیر اعظم ہائوس ہی استعمال ہو رہا ہے، گورنر ہائوس میں گورنر صاحب برا جمان ہیں، نہ کوئی یونیورسٹی بنی اور نہ ہی کوئی لائبریری۔ یہ ہے نیا پاکستان،جہاں ٹائٹل کے سوا کچھ نہیں بدلا۔ہاں ! ... کچھ بدلا ہے تو وزیروں کے مزاج بدلے ہیں،اداروں پر حملوں کے انداز بدلے ہیں، تبدیلی سرکار کے کچھ وزراء پوری قوت سے اپنی پوزیشن کا ناصرف اظہار کر رہے ہیں بلکہ فائدہ بھی اٹھارہے ہیں۔ کوئی شادی بیاہ کی تقریبات میں صحافیوں کی دہلائی کر دیتا ہے تو کوئی خون عطیہ کرنے کا ڈھونگ رچاتا ہے، کوئی پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر زبانی حملوں سے اپوزیشن کو بلڈوز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی ٹی وی ٹاک شو میں بوٹ رکھ کرحساس اداروں کا تمسخر اڑاتا ہے۔
جی ہاں! ...یہ ہیں شہر قائد سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا ، جن کی کوالیفکیشن یہ ہے کہ انھوں نے شعبہ تنازعات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ وفاقی کابینہ میں شاید ہی اتنا ہونہار کوئی وزیر ہو جتنا موصوف ہیں۔ موصوف آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر ہونے والے ایک ٹاک شو میں فوجی بوٹ ساتھ لے گئے ، دوران گفتگو تھیلے سے بوٹ نکال کر میز پر رکھ دیا اور لنگوٹ کس کے اپوزیشن پر چڑھ دوڑے۔ موصوف نے یہ بل اسمبلی میں آنے سے پہلے کہیں ایک ٹاک شو میں پیش گوئی فرما دی تھی کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر اپوزیشن جماعتوں سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیںکیونکہ جب بل اسمبلی میں آئے گا تو یہ جماعتیں بیٹھ کر نہیں بلکہ لیٹ کر اس کی حمایت کریںگی۔
جب بل اسمبلی میں آیا تو خلاف توقع پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے غیر مشروط طور پر حمایت کی اور اسمبلی سے بل پاس کرانے میں پیش پیش رہیں۔ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن)کا عمل وزیر صاحب کی پیش گوئی کے عین مطابق تھا ، ظاہری بات ہے جب پیش گوئی درست ثابت ہوگئی تو ان کا سینہ تو چوڑا ہونا ہی تھا ، موصوف ایک ٹی وی ٹاک شو میں اسی چوڑے سینے معہ ایک عدد فوجی بوٹ پہنچ گئے۔ دوران پروگرام موقع محل دیکھ کر موصوف نے تھیلا کھولا اور ساتھ بیٹھے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے رہنمائوں کی موجودگی میں بوٹ نکال کر رکھ دیا۔ موصوف نے جس انداز سے بوٹ کے فضائل و شمائل پیش کیے اس کے ردعمل میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مہمان احتجاجاً پروگرام ادھورا چھوڑ کر چلے گئے۔ فیصل واوڈا کا عمل ہی ایسا تھا انھوں نے بوٹ والا تھیلا نہیں کھولا بلکہ ایک نیا پنڈورا باکس کھول کر رکھ دیا ، جسے تبدیلی سرکار کے لیے لمحہ موجود تک بند کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
حکومت پاکستان نے خارجہ و داخلی حالات اور سرحدوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اگر جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو اسے حکومتی وزراء اپوزیشن کے لیے طعنہ بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف کوئی پہلے سپہ سالار نہیں ہیں جنھیں مدت ملازمت میں توسیع دی گئی ہے، ان سے قبل بھی ایسا ہوتا رہا ہے ۔قومی مفاد کے اس بڑے اقدام پر اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتیں متحد تھیں تو یہ خوش آئند بات تھی ، اس پر وفاقی وزیر کو یہ حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
کیا انھیں معلوم نہیں کہ ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی مہم پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش ہے، اس سازش کا حصہ بننے والے ناصرف ریاست کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے دشمن کے ایجنڈے کو بھی پورا کر رہے ہیں۔ جمہوریت کی آڑ میں قومی سلامتی کے حساس اداروں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ اس حساس مسئلہ پر ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس پروپیگنڈے کو ناصرف روکنا ہوگا بلکہ اس کے پیچھے کارفرما قوتوں کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا۔
افواج پاکستان کے جذبے ، قربانیاں اور حب الوطنی کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، بلاشبہ اس مہم کا حصہ بننے والے اغیار کے ایجنڈے کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے آگے بڑھا رہے ہیں۔ علاقائی و بین الاقوامی سطح پر آج بھی پاکستان کو چاروں اطراف سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے ، دشمن بھوکے بھیڑیوں کی طرح پاکستان پر نگاہیں جمائے بیٹھا ہے جو پاکستان کو کمزور ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ان قوتوں کے آگے اگر کوئی قوت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہے تووہ پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج ہے لیکن اس حساس ادارے کے خلاف مہم میں اگر کوئی وفاقی وزیر پیش پیش نظر آئے تو اس کے خلاف اعلیٰ سطح کی انکوائری کی ضرورت ہے۔
تبدیلی سرکار کی جانب سے ابھی تک کوئی سنجیدہ ایکشن نظر نہیں آیا، ادھر پوری قوم غم و غصے کی کیفیت میں ہے، سوشل میڈیا اس واقعے کی مذمت میں بھرا پڑا ہے لیکن اب وزیر اعظم عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ کب تک ایسے وزراء کا بوجھ لیے پھریں گے جن کی حرکتوں سے ان کی اپنی ساکھ دائو پر لگ چکی ہے۔
قوم کو بتایا یہ گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اُس عام آدمی کی سیاسی آواز ہوگی جو کسی بھی صنفی و سماجی تخصیص سے بے نیاز اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ایک بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہے۔
قوم کو بتایا یہ گیا تھا کہ تحریک انصاف ایک ایسا ''نیا پاکستان '' بنائے گی جسے اپنے زور بازو پر اعتماد ہو اور جو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر فضائے امن و آشتی میں پنپنا چاہتا ہو۔ باہمی مفید اور ایک دوسرے کی حاکمیت اعلیٰ کے احترام پر مبنی دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ قوم کو بتایا یہ گیا تھا کہ انھیں پچاس لاکھ گھر ملیں گے، ایک کروڑ نوکریاں ملیں گی، پیٹرول 46روپے فی لٹر دستیاب ہوگا،حکومت سادگی کا کلچر اپنائے گی،وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنایا جائے گا، گورنر ہائوس میں لائبریری بنے گی، ڈالر 80 روپے کا ہوگا،صوبہ جنوبی پنجاب بنے گا۔دولت چند ہاتھوں تک محدود نہیں رہنے دی جائے گی،کشکول ٹوٹ جائے گا اور پاکستان خود انحصاری کی شاہراہ عظیم پر چل دوڑے گا، مبینہ ریاست مدینہ میں کوئی شخص بھوکا نہیں سوئے گا۔قوم کو بتایا یہ گیا تھا کہ اس قوم کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہے، مبینہ ریاست مدینہ کا کوئی وزیر غلط کام میں ملوث پایا گیا تو اسے بھی سزا ملے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کو عنان اقتدار سنبھالے کم و بیش18ماہ گزرگئے، ریاست مدینہ میں لوگ عدل و انصاف کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن کسی جگہ یہ چڑیا ان کے ہاتھ نہیں لگی۔ ریاست مدینہ کا جو خاکہ پیش کرتے تبدیلی سرکار کی زبان نہ تھکتی تھی ، اس کی کہیں جھلک تک دکھائی نہ دی، اﷲ کریم کا شکر ہے اب تبدیلی سرکار کی زبان پر اس مقدس ریاست کا تذکرہ بتدریج کم ہوتا چلا جارہا ہے۔
نئے پاکستان میں صنفی ، سماجی، سیاسی ، سماجی و معاشی تفریق بڑھ چکی ہے، لوگ مایوسی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ نئے پاکستان میںبھی ہمارا انحصار آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں پر ہے، ان اداروں نے ہمارے پورے معاشی نظام پر اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں اور انھی کی دی ہوئی معاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر لوگوں کا جینا حرام کیا جارہا ہے۔
نئے پاکستان میں بھی ہمسایوں سے تعلقات معمول پر آنے کا نام نہیں لے رہے، نئے پاکستان میںلوگ پچاس لاکھ گھر تلاش کرنے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور تبدیلی سرکار کی جانب سے انھیں پیغام ملتا ہے کہ ''سکون صرف قبر میں ہے''۔ تبدیلی سرکار نے ایک کروڑ نوکریاں تو نہیں دیں البتہ لاکھوں لوگوں سے ان کی نوکریاں چھین کر انھیں بے روزگار ضرور کردیا ہے۔اسلام میں سونامردوں کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے لیکن تبدیلی سرکار نے پاکستان میں عورتوں کے لیے اسے ''حرام '' قرار دے دیا ہے، جب ایک لاکھ روپے فی تولہ ملے گا تو کون غریب آدمی اپنی بہو ،بیٹیوں کو شادی کا تحفہ دے سکے گا۔ سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے تو عام آدمی کا سونا بھی حرام کرکے رکھ دیا ہے۔
تبدیلی سرکار کے دعوئوں کے مطابق ابھی تک وزیر اعظم ہائوس بطور وزیر اعظم ہائوس ہی استعمال ہو رہا ہے، گورنر ہائوس میں گورنر صاحب برا جمان ہیں، نہ کوئی یونیورسٹی بنی اور نہ ہی کوئی لائبریری۔ یہ ہے نیا پاکستان،جہاں ٹائٹل کے سوا کچھ نہیں بدلا۔ہاں ! ... کچھ بدلا ہے تو وزیروں کے مزاج بدلے ہیں،اداروں پر حملوں کے انداز بدلے ہیں، تبدیلی سرکار کے کچھ وزراء پوری قوت سے اپنی پوزیشن کا ناصرف اظہار کر رہے ہیں بلکہ فائدہ بھی اٹھارہے ہیں۔ کوئی شادی بیاہ کی تقریبات میں صحافیوں کی دہلائی کر دیتا ہے تو کوئی خون عطیہ کرنے کا ڈھونگ رچاتا ہے، کوئی پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر زبانی حملوں سے اپوزیشن کو بلڈوز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی ٹی وی ٹاک شو میں بوٹ رکھ کرحساس اداروں کا تمسخر اڑاتا ہے۔
جی ہاں! ...یہ ہیں شہر قائد سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا ، جن کی کوالیفکیشن یہ ہے کہ انھوں نے شعبہ تنازعات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ وفاقی کابینہ میں شاید ہی اتنا ہونہار کوئی وزیر ہو جتنا موصوف ہیں۔ موصوف آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر ہونے والے ایک ٹاک شو میں فوجی بوٹ ساتھ لے گئے ، دوران گفتگو تھیلے سے بوٹ نکال کر میز پر رکھ دیا اور لنگوٹ کس کے اپوزیشن پر چڑھ دوڑے۔ موصوف نے یہ بل اسمبلی میں آنے سے پہلے کہیں ایک ٹاک شو میں پیش گوئی فرما دی تھی کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر اپوزیشن جماعتوں سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیںکیونکہ جب بل اسمبلی میں آئے گا تو یہ جماعتیں بیٹھ کر نہیں بلکہ لیٹ کر اس کی حمایت کریںگی۔
جب بل اسمبلی میں آیا تو خلاف توقع پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے غیر مشروط طور پر حمایت کی اور اسمبلی سے بل پاس کرانے میں پیش پیش رہیں۔ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن)کا عمل وزیر صاحب کی پیش گوئی کے عین مطابق تھا ، ظاہری بات ہے جب پیش گوئی درست ثابت ہوگئی تو ان کا سینہ تو چوڑا ہونا ہی تھا ، موصوف ایک ٹی وی ٹاک شو میں اسی چوڑے سینے معہ ایک عدد فوجی بوٹ پہنچ گئے۔ دوران پروگرام موقع محل دیکھ کر موصوف نے تھیلا کھولا اور ساتھ بیٹھے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے رہنمائوں کی موجودگی میں بوٹ نکال کر رکھ دیا۔ موصوف نے جس انداز سے بوٹ کے فضائل و شمائل پیش کیے اس کے ردعمل میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مہمان احتجاجاً پروگرام ادھورا چھوڑ کر چلے گئے۔ فیصل واوڈا کا عمل ہی ایسا تھا انھوں نے بوٹ والا تھیلا نہیں کھولا بلکہ ایک نیا پنڈورا باکس کھول کر رکھ دیا ، جسے تبدیلی سرکار کے لیے لمحہ موجود تک بند کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
حکومت پاکستان نے خارجہ و داخلی حالات اور سرحدوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اگر جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو اسے حکومتی وزراء اپوزیشن کے لیے طعنہ بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف کوئی پہلے سپہ سالار نہیں ہیں جنھیں مدت ملازمت میں توسیع دی گئی ہے، ان سے قبل بھی ایسا ہوتا رہا ہے ۔قومی مفاد کے اس بڑے اقدام پر اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتیں متحد تھیں تو یہ خوش آئند بات تھی ، اس پر وفاقی وزیر کو یہ حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
کیا انھیں معلوم نہیں کہ ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی مہم پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش ہے، اس سازش کا حصہ بننے والے ناصرف ریاست کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے دشمن کے ایجنڈے کو بھی پورا کر رہے ہیں۔ جمہوریت کی آڑ میں قومی سلامتی کے حساس اداروں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ اس حساس مسئلہ پر ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس پروپیگنڈے کو ناصرف روکنا ہوگا بلکہ اس کے پیچھے کارفرما قوتوں کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا۔
افواج پاکستان کے جذبے ، قربانیاں اور حب الوطنی کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، بلاشبہ اس مہم کا حصہ بننے والے اغیار کے ایجنڈے کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے آگے بڑھا رہے ہیں۔ علاقائی و بین الاقوامی سطح پر آج بھی پاکستان کو چاروں اطراف سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے ، دشمن بھوکے بھیڑیوں کی طرح پاکستان پر نگاہیں جمائے بیٹھا ہے جو پاکستان کو کمزور ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ان قوتوں کے آگے اگر کوئی قوت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہے تووہ پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج ہے لیکن اس حساس ادارے کے خلاف مہم میں اگر کوئی وفاقی وزیر پیش پیش نظر آئے تو اس کے خلاف اعلیٰ سطح کی انکوائری کی ضرورت ہے۔
تبدیلی سرکار کی جانب سے ابھی تک کوئی سنجیدہ ایکشن نظر نہیں آیا، ادھر پوری قوم غم و غصے کی کیفیت میں ہے، سوشل میڈیا اس واقعے کی مذمت میں بھرا پڑا ہے لیکن اب وزیر اعظم عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ کب تک ایسے وزراء کا بوجھ لیے پھریں گے جن کی حرکتوں سے ان کی اپنی ساکھ دائو پر لگ چکی ہے۔