اہل وطن کے جذبات کی ترجمانی
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ فوج کے افسروں اورجوانوں نے مادر وطن کے دفاع اوراسے دہشت گردوں سے۔۔۔
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ فوج کے افسروں اورجوانوں نے مادر وطن کے دفاع اوراسے دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں ، انھوں نے کہا کہ بعض رہنمائوںکی طرف سے دیے گئے حالیہ بیانات سے ہمارے فوجی جوانوں کے دل دکھے ہیں ، پوری قوم آپ کی قربانیوںکا اعتراف کرتی ہے' دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوںکا نذرانہ دینے والے شہداء ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ میرے سمیت پوری قوم کو مسلح افواج کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد ہے۔ان جذبات و خیالات کا اظہار انھوں نے منگل کو پاک فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا دورہ کرتے اور مادر وطن کے لیے جانوںکا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا۔وزیراعظم کے اس دورہ اور ان کے ارشادات کے ساتھ ہی اس ناخوشگوار اور دلآزار بحث کو جو میڈیا اور سیاسی حلقوں میں تند وتیز بیانات کی شکل اختیار کرگئی ہے اب قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں بند ہو جانا چاہیے، وزیراعظم نے ہر محب وطن پاکستانی کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔
دشمنان پاکستان کی تو یہی کوشش اور خواہش ہے کہ قوم میں تقسیم در تقسیم کا عمل تیز ہو تاکہ ان کے مذموم عزائم اور باطل مقاصد کے حصول کی راہ کی ہر رکاوٹ دور ہونے میں انھیں خود سے کچھ نہ کرنا پڑے۔اس حقیقت سے کسی کو اختلاف نہیں کہ فوج قومی ریاست کی داخلی سلامتی اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف دفاع کا اہم ستون ہے جب کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، کسی بھی مہذب ملک میں کوئی جمہوری حکومت اپنی مسلح افواج کے وقار، پیشہ ورانہ کردار، اور جنگ و امن کی حالت میں اس کی قومی خدمات پر سرشاریت کے ساتھ احترام و عقیدت کے پھول نچھاور کرتی ہے ،یہی وہ پیغام ہے جسے وزیراعظم نے قوم کے سامنے پیش کیا کہ فوج کے افسر اور جوان ہمارے ''کل '' کے لیے اپنا '' آج''قربان کر رہے ہیں اور یہ غازی اورشہید ہمارے محسن ہیں ، قوم اپنے محسنوںکوکبھی فراموش نہیںکرے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کے نئے تصورات کے عملی اطلاق ، جمہوری سیاست میں ابھرنے والی توانا آوازوں اور شدید رد عمل اور اختلافی نقطہ نظر سے پیدا شدہ صورتحال سیاسی رہنماؤں ، مذہبی اکابرین ، میڈیا اور سول سوسائٹی سے خاصی سنجیدگی ، متانت ، رواداری اور تدبر کا تقاضہ کرتی ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ہمہ وقت ''ہاٹ نیوز'' کی تلاش رہتی ہے جو اس کی کمرشل ضرورت اور پیشہ صحافت کی جبلت ہے مگر کسی سیاست دان کو بولنے سے پہلے کئی بار سوچنا چاہیے کہ کہیں ہونٹوں نکلی کوٹھوں نہ چڑھ جائے۔
چنانچہ اک ذرا غیرجذباتی اور سنسنی خیزی سے ماورا سیاسی کلچر اپنی جڑ پکڑ لے تو یقیناً صورتحال بدلے گی۔تاہم ارباب اختیار کو قومی امور میں حاضر دماغی اورقوت فیصلہ کے سنگ میل قائم کرنا چاہئیں، اہم واقعات پر خاموشی اور مصلحتوں کا زمانہ لد گیا، ہر دم چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ وقت خطے میں تبدیلیوںکی نوید دے رہا ہے، بلوچستان توجہ مانگتا ہے،طالبان سے نمٹنے کے لیے عزم وحوصلہ پیدا کیجیے، اسی طرح ہی قوم دہشت گردی ، معاشی عدم مساوات اور سیاسی بے یقینی کے برمودہ ٹرائینگل سے بچ نکل سکتی ہے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے کا حسن رواداری اور حسن کلام سے ہے، سیاست اور ڈپلومیٹ کے درمیان بڑا فرق صرف نو کمنٹس کا ہے جو ہزار وضاحتوں سے آدمی کو بچا لیتا ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات میںآرمی چیف نے جماعت اسلامی کے امیرمنورحسن کے حالیہ بیان سے متعلق فوج میں پائے جانے والے ردعمل سے وزیر اعظم کوآگاہ کیا۔اس کے بعد وزیراعظم کا بیان صلح صفائی کے لیے کافی و شافی سمجھا جانا چاہیے ۔شہید ہونے یا نہ ہونے کی بحث کا یہ موقع نہیں، ملک بڑے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے ۔ حکومتی اور ریاستی ارباب اختیارکا امتحان و آزمائش ٹھوس عمل اور نتائج دینے میں پنہاں ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم کا یہ کہنا کہ حکومت پاکستان کی معاشی اور اقتصادی ترقی کے لیے کوشاں ہے اور بہت جلد پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ترقی یافتہ ریاست کی حیثیت سے پہچانا جائے گا نوید صبح ہے۔مرحلہ اب تزویراتی و ملکی سالمیت کے امور میں سیاسی اور عسکری قیادت کے آن بورڈ ہونے کا ہے تاکہ اتفاق رائے مستقل ہو اور قومی ترقی وخوشحالی کے سفر میں کوئی بیرونی طاقت حائل نہ ہوسکے۔ یہ انداز نظر درست ہے کہ جب تک دیرینہ حل طلب مسائل حل نہیں ہونگے خطے میں پائیدار امن کا قیام ناممکن ہے۔ قومی جمہوری سیاست ارتقا پذیر ہے لیکن دہشت گردی،معاشی عدم استحکام،غربت ومہنگائی اور میرٹ کے قتل سمیت امن وامان کی ناگفتہ بہ حالت نے قومی نفسیات پر بڑے گہرے اور ناقابل بیان اثرات مرتب کیے ہیں، عوام ایک نہیں کئی سر والے بحرانوں میں خود کو گرفتار دیکھ رہے ہیں، بیانات جاری کرنا سیاست دان کی مجبوری ہے مگر اہل سیاست ملک کو درپیش مسائل کے حل میں جمہوری حکومت کی رہنمائی بھی کریں جب کہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں مصروف سیکیورٹی فورسز کو بھی جمہوری قوتوں، دینی و مذہبی جماعتوں اور پوری سول سوسائٹی کے عملی اشتراک کی ضرورت ہے، مضبوط دفاع کے ساتھ ساتھ مضبوط معیشت بھی ضروری ہے اس کے بغیرناقابل تسخیردفاع کا تصوربھی نہیںکیا جا سکتا ۔
دشمنان پاکستان کی تو یہی کوشش اور خواہش ہے کہ قوم میں تقسیم در تقسیم کا عمل تیز ہو تاکہ ان کے مذموم عزائم اور باطل مقاصد کے حصول کی راہ کی ہر رکاوٹ دور ہونے میں انھیں خود سے کچھ نہ کرنا پڑے۔اس حقیقت سے کسی کو اختلاف نہیں کہ فوج قومی ریاست کی داخلی سلامتی اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف دفاع کا اہم ستون ہے جب کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، کسی بھی مہذب ملک میں کوئی جمہوری حکومت اپنی مسلح افواج کے وقار، پیشہ ورانہ کردار، اور جنگ و امن کی حالت میں اس کی قومی خدمات پر سرشاریت کے ساتھ احترام و عقیدت کے پھول نچھاور کرتی ہے ،یہی وہ پیغام ہے جسے وزیراعظم نے قوم کے سامنے پیش کیا کہ فوج کے افسر اور جوان ہمارے ''کل '' کے لیے اپنا '' آج''قربان کر رہے ہیں اور یہ غازی اورشہید ہمارے محسن ہیں ، قوم اپنے محسنوںکوکبھی فراموش نہیںکرے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کے نئے تصورات کے عملی اطلاق ، جمہوری سیاست میں ابھرنے والی توانا آوازوں اور شدید رد عمل اور اختلافی نقطہ نظر سے پیدا شدہ صورتحال سیاسی رہنماؤں ، مذہبی اکابرین ، میڈیا اور سول سوسائٹی سے خاصی سنجیدگی ، متانت ، رواداری اور تدبر کا تقاضہ کرتی ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ہمہ وقت ''ہاٹ نیوز'' کی تلاش رہتی ہے جو اس کی کمرشل ضرورت اور پیشہ صحافت کی جبلت ہے مگر کسی سیاست دان کو بولنے سے پہلے کئی بار سوچنا چاہیے کہ کہیں ہونٹوں نکلی کوٹھوں نہ چڑھ جائے۔
چنانچہ اک ذرا غیرجذباتی اور سنسنی خیزی سے ماورا سیاسی کلچر اپنی جڑ پکڑ لے تو یقیناً صورتحال بدلے گی۔تاہم ارباب اختیار کو قومی امور میں حاضر دماغی اورقوت فیصلہ کے سنگ میل قائم کرنا چاہئیں، اہم واقعات پر خاموشی اور مصلحتوں کا زمانہ لد گیا، ہر دم چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ وقت خطے میں تبدیلیوںکی نوید دے رہا ہے، بلوچستان توجہ مانگتا ہے،طالبان سے نمٹنے کے لیے عزم وحوصلہ پیدا کیجیے، اسی طرح ہی قوم دہشت گردی ، معاشی عدم مساوات اور سیاسی بے یقینی کے برمودہ ٹرائینگل سے بچ نکل سکتی ہے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے کا حسن رواداری اور حسن کلام سے ہے، سیاست اور ڈپلومیٹ کے درمیان بڑا فرق صرف نو کمنٹس کا ہے جو ہزار وضاحتوں سے آدمی کو بچا لیتا ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات میںآرمی چیف نے جماعت اسلامی کے امیرمنورحسن کے حالیہ بیان سے متعلق فوج میں پائے جانے والے ردعمل سے وزیر اعظم کوآگاہ کیا۔اس کے بعد وزیراعظم کا بیان صلح صفائی کے لیے کافی و شافی سمجھا جانا چاہیے ۔شہید ہونے یا نہ ہونے کی بحث کا یہ موقع نہیں، ملک بڑے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے ۔ حکومتی اور ریاستی ارباب اختیارکا امتحان و آزمائش ٹھوس عمل اور نتائج دینے میں پنہاں ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم کا یہ کہنا کہ حکومت پاکستان کی معاشی اور اقتصادی ترقی کے لیے کوشاں ہے اور بہت جلد پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ترقی یافتہ ریاست کی حیثیت سے پہچانا جائے گا نوید صبح ہے۔مرحلہ اب تزویراتی و ملکی سالمیت کے امور میں سیاسی اور عسکری قیادت کے آن بورڈ ہونے کا ہے تاکہ اتفاق رائے مستقل ہو اور قومی ترقی وخوشحالی کے سفر میں کوئی بیرونی طاقت حائل نہ ہوسکے۔ یہ انداز نظر درست ہے کہ جب تک دیرینہ حل طلب مسائل حل نہیں ہونگے خطے میں پائیدار امن کا قیام ناممکن ہے۔ قومی جمہوری سیاست ارتقا پذیر ہے لیکن دہشت گردی،معاشی عدم استحکام،غربت ومہنگائی اور میرٹ کے قتل سمیت امن وامان کی ناگفتہ بہ حالت نے قومی نفسیات پر بڑے گہرے اور ناقابل بیان اثرات مرتب کیے ہیں، عوام ایک نہیں کئی سر والے بحرانوں میں خود کو گرفتار دیکھ رہے ہیں، بیانات جاری کرنا سیاست دان کی مجبوری ہے مگر اہل سیاست ملک کو درپیش مسائل کے حل میں جمہوری حکومت کی رہنمائی بھی کریں جب کہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں مصروف سیکیورٹی فورسز کو بھی جمہوری قوتوں، دینی و مذہبی جماعتوں اور پوری سول سوسائٹی کے عملی اشتراک کی ضرورت ہے، مضبوط دفاع کے ساتھ ساتھ مضبوط معیشت بھی ضروری ہے اس کے بغیرناقابل تسخیردفاع کا تصوربھی نہیںکیا جا سکتا ۔