پاک بھارت تعلقات عدم کشیدگی پر اتفاق
دشمنی نہیں دوستی کا راستہ ہی پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید پیدا کرسکتا ہے کیونکہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔۔۔
دشمنی نہیں دوستی کا راستہ ہی پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید پیدا کرسکتا ہے کیونکہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو کافی حد تک اس حقیقت کا ادراک ہوگیا ہے کہ ڈیڑھ ارب انسانوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے بات چیت کا راستہ امن ودوستی کے قیام میں معاون ثابت ہوگا ۔ اسی تناظر میں منگل کو پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے نئی دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مکالمے کا عمل ہی دو متضاد آراء رکھنے والے افراد یا ممالک کے درمیان گلے شکوے دور کرکے بقا ،سلامتی اور امن کا باعث بنتا ہے ۔اس ملاقات میں کنٹرول لائن پرکشیدگی، دوطرفہ تجارت بڑھانے کے امور پر بھی بات چیت کی گئی جب کہ پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات میں طے کیے گئے امور پر پیش رفت کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت گزشتہ چھ دہائیوں میں اچھے پڑوسی ثابت نہیں ہوئے تین جنگوں سے وابستہ تلخ یادیں بھی ہیں اور دونوں ممالک میں انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے افراد اور سیاسی جماعتوں کی کمی نہیں ہے جو امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کسی بھی انتہا پر جاکر کارروائیاں کرتے ہیں اورایک دوسرے کی جانب بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں ۔
جب وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنے روشن خیال وژن اور نئے عالمی تناظر میں بھارت سے دوستی اور باہمی دوستانہ تعلقات اور تجارت کے فروغ کی خواہش کو عملی روپ دینے کا اعلان کیا تو ملک میں شدت پسند جماعتوں اورگروہوں کا شور بلند ہوا، اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر اچانک کشیدگی شروع کردی گئی،ادھر بھارت میں ایسے عناصر باز نہ آئے یہاں تک کہا گیا کہ بھارتی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات نہ کریں ۔لیکن یہ ملاقات ہوکر رہی ۔اگر اس پس منظر کو ذہن میں رکھا جائے تو حالیہ ملاقات ایک بڑا بریک تھرو کہی جاسکتی ہے ۔ ملاقات کے بعد میڈیا کو بریفنگ کے بعد جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق دونوں ممالک نے لائن آف کنٹرول پر سیزفائر معاہدے پر عمل کرنے پر اتفاق کیا ہے، پاک، بھارت ڈی جی ایم اوز کی ملاقات جلد ہونے کی نوید بھی سنائی گئی ہے ۔ بلاشبہ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر دونوں ممالک کے حق میں ہے، کیونکہ دونوں طرف توپیں گولے برسا رہی ہوں تو ایسے میں بھلا مکالمے کا عمل کیسے آگے بڑھ سکتا ہے ۔
تنازعات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا دونوں ممالک کی قیادت کے فہم وتدبر کا امتحان ہے، کیونکہ الزام تراشیاں بھی دلوں میں فرق لاتی ہیں ۔دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا تنازع کشمیر ہے،دونوں اس پر جنگیں بھی لڑ چکے ہیں لیکن نتیجہ لاحاصل ہی رہا،سوائے بربادی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ جب برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ امن کا راستہ اختیارکرسکتے ہیں، چین اور بھارت اپنی دشمنی اور جنگ کو بھول کر باہمی تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں ، جب روس جیسی سپرپاور اپنے حصے بخرے ہونے کے بعد یورپ اور امریکا سے اپنے تعلقات کو ایک نئی جہت دے سکتی ہے تو پھر ڈیڑھ ارب انسانوں کی غربت ، بے روزگاری اور معاشی ، اقتصادی مسائل کو امن کی راہ پر چل کر پاکستان اور بھارت کیونکر دور نہیں کرسکتے۔ نفرت سے محبت کا سفر کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی ضد بھارت کو چھوڑنا پڑے گی ۔ مذاکرات کے ذریعے وادی کشمیر میں امن قائم ہوسکتا ہے اس سلسلے میں کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے سربراہ سید علی گیلانی نے مذاکراتی عمل میں شمولیت پر مشروط رضامندی ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت کشمیر کو متنازعہ خطہ تسلیم کرے تو نتیجہ خیز بات چیت ہوسکتی ہے،کشمیریوں پر کوئی حل تھوپا نہیں جا سکتا، مسئلے کا حل کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے کر نکالا جائے۔
بلاشبہ کشمیریوں کو ان کا حق ملے گا تو وہ عسکری جدوجہد کی راہ بھی ترک کردیں گے اور بھارت بھی اندرونی طور پر مستحکم ہوگا اور کشمیر میں سات لاکھ سے زائد فوج کی تعیناتی اور بھاری اخراجات سے بھی اسے نجات ملے گی ۔مسئلہ کشمیر دراصل کشمیری عوام کی خواہشات کے عین مطابق حل کیا جانا چاہیے نہ کہ دونوں ممالک اپنی اپنی چودھراہٹ کے چکر میں ان کے بنیادی حق آزادی سے محروم رکھنے کا سبب بنیں۔پاکستان اور بھارت دو آزاد خودمختارممالک ہیں انھیں ایک دوسرے کے وجود ،سلامتی اور آزادی کے احترام کی سوچ کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو بتدریج آگے بڑھانا ہوگا۔ ملاقات میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا یہ موقف صائب ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تمام دو طرفہ مسائل کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔
بلاشبہ ان مذاکرات کا عمل بتدریج آگے بڑھنے سے اسے دونوں ممالک میں بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوگی اور شدت پسند گروہوں کی ایک نہ چل سکے گی ۔ دنیا بدل رہی ہے ، جب عوام دیوار برلن گرا کر مشرقی اور مغربی جرمنی کو ایک ہوتا دیکھ سکتے ہیں یورپ اپنی جنگیں بھول کر یورپی یونین اور ایک کرنسی پر متفق ہوسکتے ہیں تو آخر پاکستان اور بھارت اچھے ہمسائے بن کر دنیا کے نقشے پر کیوں نہیں اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ۔ مذہبی عصبیت اور جنگی جنون کو ترک کر کے لسانی اور ثقافتی رشتوں میں صدیوں سے جڑی قومیں امن کی راہ پر چل کر خوشحالی وترقی کی نئی منازل کو پاسکتی ہیں اور دنیا میں امن وآشتی اور ترقی کی روشن مثال اور نمونہ بن سکتی ہے یہی وقت کی ضرورت اور پکار ہے ۔
جب وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنے روشن خیال وژن اور نئے عالمی تناظر میں بھارت سے دوستی اور باہمی دوستانہ تعلقات اور تجارت کے فروغ کی خواہش کو عملی روپ دینے کا اعلان کیا تو ملک میں شدت پسند جماعتوں اورگروہوں کا شور بلند ہوا، اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر اچانک کشیدگی شروع کردی گئی،ادھر بھارت میں ایسے عناصر باز نہ آئے یہاں تک کہا گیا کہ بھارتی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات نہ کریں ۔لیکن یہ ملاقات ہوکر رہی ۔اگر اس پس منظر کو ذہن میں رکھا جائے تو حالیہ ملاقات ایک بڑا بریک تھرو کہی جاسکتی ہے ۔ ملاقات کے بعد میڈیا کو بریفنگ کے بعد جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق دونوں ممالک نے لائن آف کنٹرول پر سیزفائر معاہدے پر عمل کرنے پر اتفاق کیا ہے، پاک، بھارت ڈی جی ایم اوز کی ملاقات جلد ہونے کی نوید بھی سنائی گئی ہے ۔ بلاشبہ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر دونوں ممالک کے حق میں ہے، کیونکہ دونوں طرف توپیں گولے برسا رہی ہوں تو ایسے میں بھلا مکالمے کا عمل کیسے آگے بڑھ سکتا ہے ۔
تنازعات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا دونوں ممالک کی قیادت کے فہم وتدبر کا امتحان ہے، کیونکہ الزام تراشیاں بھی دلوں میں فرق لاتی ہیں ۔دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا تنازع کشمیر ہے،دونوں اس پر جنگیں بھی لڑ چکے ہیں لیکن نتیجہ لاحاصل ہی رہا،سوائے بربادی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ جب برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ امن کا راستہ اختیارکرسکتے ہیں، چین اور بھارت اپنی دشمنی اور جنگ کو بھول کر باہمی تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں ، جب روس جیسی سپرپاور اپنے حصے بخرے ہونے کے بعد یورپ اور امریکا سے اپنے تعلقات کو ایک نئی جہت دے سکتی ہے تو پھر ڈیڑھ ارب انسانوں کی غربت ، بے روزگاری اور معاشی ، اقتصادی مسائل کو امن کی راہ پر چل کر پاکستان اور بھارت کیونکر دور نہیں کرسکتے۔ نفرت سے محبت کا سفر کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی ضد بھارت کو چھوڑنا پڑے گی ۔ مذاکرات کے ذریعے وادی کشمیر میں امن قائم ہوسکتا ہے اس سلسلے میں کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے سربراہ سید علی گیلانی نے مذاکراتی عمل میں شمولیت پر مشروط رضامندی ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت کشمیر کو متنازعہ خطہ تسلیم کرے تو نتیجہ خیز بات چیت ہوسکتی ہے،کشمیریوں پر کوئی حل تھوپا نہیں جا سکتا، مسئلے کا حل کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے کر نکالا جائے۔
بلاشبہ کشمیریوں کو ان کا حق ملے گا تو وہ عسکری جدوجہد کی راہ بھی ترک کردیں گے اور بھارت بھی اندرونی طور پر مستحکم ہوگا اور کشمیر میں سات لاکھ سے زائد فوج کی تعیناتی اور بھاری اخراجات سے بھی اسے نجات ملے گی ۔مسئلہ کشمیر دراصل کشمیری عوام کی خواہشات کے عین مطابق حل کیا جانا چاہیے نہ کہ دونوں ممالک اپنی اپنی چودھراہٹ کے چکر میں ان کے بنیادی حق آزادی سے محروم رکھنے کا سبب بنیں۔پاکستان اور بھارت دو آزاد خودمختارممالک ہیں انھیں ایک دوسرے کے وجود ،سلامتی اور آزادی کے احترام کی سوچ کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو بتدریج آگے بڑھانا ہوگا۔ ملاقات میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا یہ موقف صائب ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تمام دو طرفہ مسائل کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔
بلاشبہ ان مذاکرات کا عمل بتدریج آگے بڑھنے سے اسے دونوں ممالک میں بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوگی اور شدت پسند گروہوں کی ایک نہ چل سکے گی ۔ دنیا بدل رہی ہے ، جب عوام دیوار برلن گرا کر مشرقی اور مغربی جرمنی کو ایک ہوتا دیکھ سکتے ہیں یورپ اپنی جنگیں بھول کر یورپی یونین اور ایک کرنسی پر متفق ہوسکتے ہیں تو آخر پاکستان اور بھارت اچھے ہمسائے بن کر دنیا کے نقشے پر کیوں نہیں اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ۔ مذہبی عصبیت اور جنگی جنون کو ترک کر کے لسانی اور ثقافتی رشتوں میں صدیوں سے جڑی قومیں امن کی راہ پر چل کر خوشحالی وترقی کی نئی منازل کو پاسکتی ہیں اور دنیا میں امن وآشتی اور ترقی کی روشن مثال اور نمونہ بن سکتی ہے یہی وقت کی ضرورت اور پکار ہے ۔