کپاس کی ڈیوٹی فری درآمد کے فیصلے پر کابینہ اراکین کے شدید تحفظات
مقامی مارکیٹ میں کپاس کے نرخوں پر منفی اثر پڑے گا، کسانوں کی حوصلہ شکنی ہوگی، اراکین
کپاس کی درآمد پر تمام ڈیوٹیوں کے خاتمے پر وفاقی کابینہ کے اراکین شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے مقامی مارکیٹ میں کپاس کے نرخوں پر منفی اثر پڑے گا اورکسانوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی جن میں سے بیشتر پہلے ہی مناسب نفع نہ ملنے کی وجہ سے کپاس کی کاشت ترک کرچکے ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے ٹیکسٹائل مل مالکان کے دباؤ پر حال ہی میں کپاس کی درآمد پر عائد ڈیوٹیاں واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ تمام ٹیکسٹائل یونٹس برآمدات نہیں کرتے مگر وہ برآمدی انڈسٹری کو دی جانے والی رعایتیں حاصل کررہے ہیں۔ وزارت نے نشاندہی کی کہ یہ ٹیکسٹائل یونٹس اپنی مصنوعات تیار کرکے مقامی مارکیٹ میں فروخت کررہے ہیں۔
قبل ازیں وزارت قومی غذائی تحفظ نے اجلاس میں قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے کہا تھا کہ جننگ فیکٹریوں اور کسانوں کے پاس کپاس کے ذخائر پڑے ہوئے ہیں، اس صورتحال میں کپاس کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دینے سے کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب قیمت نہیں مل پائے گی۔
وزارت قومی غذائی تحفظ کے مطابق جننگ فیکٹریوں کے پاس 14 لاکھ گانٹھیں موجود ہیں۔وفاقی کمیٹی برائے زراعت ( ایف سی اے) کے تخمینے کے مطابق موجودہ سیزن میں کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 7 لاکھ گانٹھیں رہے گی۔ کپاس کی 30 لاکھ سے زائد گانٹھیں ہنوز کسانوں کے پاس ہیں۔
ایف بی آر کا موقف تھا کہ کپاس کی ڈیوٹی فری درآمد سے ملک کو 4 ارب روپے کے ریونیو سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ تاہم حکومت نے ان تمام باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کسانوں کو ٹیکسٹائل مل مالکان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے جو کم قیمتوں کی وجہ سے پیداوار کو ابھی تک ہولڈ کیے ہوئے ہیں۔
حالیہ اجلاس کے دوران کابینہ اراکین نے متنبہ کیا کہ ریگولیٹری اور کسٹم ڈیوٹیاں واپس لینے سے مقامی مارکیٹ میں کپاس کی قیمتوں پر منفی اثر پڑے گا جس سے کسانوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جن میں سے بیشتر پہلے ہی کپاس کے بجائے دوسری نفع بخش فصلوں جیسے گنے اورگندم کی کاشت کرنے لگے ہیں۔
ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کابینہ اراکین نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ درآمدی کپاس پر ڈیوٹیوں کے خاتمے کا فیصلہ کچھ عرصے کے لیے مؤخر کردیا جائے تاکہ کسان باقی رہ جانے والی فصل اتار لیں۔ تاہم وزارت ٹیکسٹائل نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے ٹیکسٹائل مل مالکان کے دباؤ پر حال ہی میں کپاس کی درآمد پر عائد ڈیوٹیاں واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ تمام ٹیکسٹائل یونٹس برآمدات نہیں کرتے مگر وہ برآمدی انڈسٹری کو دی جانے والی رعایتیں حاصل کررہے ہیں۔ وزارت نے نشاندہی کی کہ یہ ٹیکسٹائل یونٹس اپنی مصنوعات تیار کرکے مقامی مارکیٹ میں فروخت کررہے ہیں۔
قبل ازیں وزارت قومی غذائی تحفظ نے اجلاس میں قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے کہا تھا کہ جننگ فیکٹریوں اور کسانوں کے پاس کپاس کے ذخائر پڑے ہوئے ہیں، اس صورتحال میں کپاس کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دینے سے کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب قیمت نہیں مل پائے گی۔
وزارت قومی غذائی تحفظ کے مطابق جننگ فیکٹریوں کے پاس 14 لاکھ گانٹھیں موجود ہیں۔وفاقی کمیٹی برائے زراعت ( ایف سی اے) کے تخمینے کے مطابق موجودہ سیزن میں کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 7 لاکھ گانٹھیں رہے گی۔ کپاس کی 30 لاکھ سے زائد گانٹھیں ہنوز کسانوں کے پاس ہیں۔
ایف بی آر کا موقف تھا کہ کپاس کی ڈیوٹی فری درآمد سے ملک کو 4 ارب روپے کے ریونیو سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ تاہم حکومت نے ان تمام باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کسانوں کو ٹیکسٹائل مل مالکان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے جو کم قیمتوں کی وجہ سے پیداوار کو ابھی تک ہولڈ کیے ہوئے ہیں۔
حالیہ اجلاس کے دوران کابینہ اراکین نے متنبہ کیا کہ ریگولیٹری اور کسٹم ڈیوٹیاں واپس لینے سے مقامی مارکیٹ میں کپاس کی قیمتوں پر منفی اثر پڑے گا جس سے کسانوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جن میں سے بیشتر پہلے ہی کپاس کے بجائے دوسری نفع بخش فصلوں جیسے گنے اورگندم کی کاشت کرنے لگے ہیں۔