مذہبیت روشن خیالی اور مابعد جدیدیت
مذہبیت اور روشن خیالی کے مظاہر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ معاشرتی سطح پر بنیاد پرستانہ مذہبیت اور روشن خیالی...
MIRPURKHAS:
مذہبیت اور روشن خیالی کے مظاہر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ معاشرتی سطح پر بنیاد پرستانہ مذہبیت اور روشن خیالی عقلیت کے ان رجعتی پہلوئوں کو توڑنا لازمی ہو چکا ہے جو قدامت پسندانہ رجحانات کی تبلیغ اور تکثیری سماج کی نفی کرتے ہیں۔ مغربی دنیا میں روشن خیالی کے عقلی اور غیر عقلی رجحانات کی ایک پوری تاریخ موجود ہے، جس میں رجعتی اور انتہاء پسندانہ مذہبیت کی تنقید پیش کی گئی ہے۔ مغربی روشن خیالی شروع ہی مسیحیت کی تنقید سے ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں بنیاد پرستانہ مذہبی رجحانات کی تنقید پیش کرنی ضروری ہے کہ جس سے سماج میں اعتدال پسندانہ رویوں کو فروغ ملے اور دوسری جانب مغرب کے ناکام روشن خیال عقلی پروجیکٹ کے ان انتہاء پسندانہ پہلوئوں کی بھی نفی کرنے کی ضرورت ہے کہ جن کا واحد مقصد انتہاء پسندانہ رجحانات کو پروان محض اس لیے چڑھانا ہے کہ جس سے سرمایہ داروں کے مفادات کو دوام عطا ہو سکے، جب کہ مختلف طبقات کے مابین حقیقی تضادات کو چھپا کر صرف فکری و نظریاتی رجحانات کے مابین پیکار کو دکھانا ہے۔ عہد حاضر میں روشن خیالی کی وہ شکل جو مغرب میں پروان چڑھی اور جس کی تقلید میں نوعِ انسانی کا بے دریغ قتل عام کیا گیا، سے نجات حاصل کرنا بھی انسانیت کی بقا کے لیے لازم ہے۔
مابعد جدیدیت بنیاد پرستانہ مذہبیت اور انتہاء پسندانہ عقلیت کے طالبانی پروجیکٹ کے قائم کردہ تعینات کو توڑتی ہے، نئے راستوں کو کھولتی ہے، مگر مختلف سمت میں نئے راستوں کا تعین نہیں کرتی۔ اور اگر نئے راستے معنوی تعینات کی جانب لے جائیں تو مابعد جدیدیت کے بنیادی فلسفے کی ہی نفی ہو جاتی ہے۔ مابعد جدیدیت تعینات کی نفی کرتی ہے اور تعینات مابعد جدیدیت کی! تعینات کا تعلق نظریے سے زیادہ عملی صورتحال سے ہوتا ہے۔ پسے ہوئے اور استحصال زدہ اور اکثریت کی ترجمانی کرنیوالے خیالات کے اثبات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں پسے ہوئے اور استحصال زدہ طبقات اور مجبور و مقہور اقوام کی نفی نہیں کرانی، بلکہ ان کا اثبات کرانا ہے، مگر اس نکتے پر مابعد جدیدیت ہماری کوئی مدد نہیں کرتی۔ جونہی اثبات قائم ہو گا، یعنی صدیوں سے پسے ہوئے لوگوں کی حقیقی شکل ہمارے سامنے آنے لگے گی تو مابعد جدید فکر کا مرکزی پہلو یعنی نفی کا مقولہ ان کی نفی کر دے گا۔ لہذا تھیوری میں پیش کیے گئے خیالات کو سماجی حقیقت کے مقابل جانچنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت پر دبی ہوئی آوازوں کی ڈی کنسٹرکشن نہیں کرنی کہ جب وہ آوازیں بلند ہو رہی ہوں، بلکہ ان استحصالی سامراجی اور جابر آوازوں کی ڈی کنسٹرکشن کرنی ہے، جو ان دبی ہوئی آوازوں سے اپنا اثبات کرانا چاہتی ہیں۔ ان پر دہشت و بربریت مسلط کرتی ہیں۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ خارجی حقیقت کو تھیوری کے مقابل رکھ کر ڈی کنسٹرکٹ کرنے کی بجائے تھیوری کو سماجی لازمیت کے تقاضوں کے تحت ڈی کنسٹرکٹ کیا جائے۔ اس کے لیے تاریخی مادیت سے اعلیٰ فکری و سائنسی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
مغرب میں عملی سطح پر مابعد جدیدیت کے مرکزی نکتے کی نفی ہو چکی ہے۔ نائن الیون کے بعد وہ خیالات جو صرف ''شعور'' میں موجود تھے، حقیقی تصادم نے ان کے کھوکھلے پن کو عیاں کر دیا۔
امریکی جو بیسویں صدی کے آخر میں 'آئیڈیالوجی کے خاتمے'' کا دعویٰ کر رہے تھے انھیں اپنے سامراجی مفادات کو توسیع دینے کے لیے آئیڈیالوجی کو نہ صرف زندہ کرنا پڑا، بلکہ ریڈیکل اسلام کی ایک مخصوص شکل کو سامنے لانے کے لیے لبرل دانشوروں کو میدان میں لا کھڑا کیا۔ اسلام کو اس سارے عمل کا ذمے دار ٹھہرانے سے لبرل دہشت پسندوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو تو تقویت ملی، مگر اس سے سماجی و سیاسی حقیقت کی تفہیم کا عمل مزید مبہم اور گنجلک نظر آنے لگا۔ سامراجیوں کے توسیع پسندانہ اقدامات، غریب ممالک کے وسائل کو زیر تسلط لانے کے لیے ان پر جنگی بربریت مسلط کرنا اور مذہبی و غیر مذہبی ریاستوں میں فرقہ پرست تنظیموں کو اپنی بربریت کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرنا سامراجیوں کی ترجیحات تھیں۔ تاہم ایسے حالات میں حقیقی مزاحمتی تحریکوں کا احیاء فطری عمل ہوتا ہے۔ روشن خیال عقلیت، بنیاد پرستانہ اسلام سے زیادہ بڑا بیانیہ ہے، یہی وجہ ہے کہ روشن خیال عقلیت پسند جب چاہتے ہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بنیاد پرستانہ اسلام کا استعمال کرتے ہیں، لیکن اسلام پسند روشن خیال عقلیت پسندوں کو کبھی بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ وجہ یہ کہ روشن خیال عقلیت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ روشن خیال عقلیت لبرل جمہوریت کا تحفظ چاہتی ہے۔ مذہبیت کو فاصلے پر رکھتی ہے۔ مغرب میں مابعد جدیدیت نے جب روشن خیالی پروجیکٹ پر حملہ کیا تو مابعد جدید مفکروں کے اذہان میں روشن خیالی کے یہ بنیاد پرستانہ اور دہشت پسندانہ پہلو موجود تھے ۔
سرمایہ دارانہ نظام میں روشن خیال عقلیت پسند ''لبرل جمہوریت'' کو دوام عطا کرنا چاہتے ہیں اور کسی بھی صورت سامراجیت اور مغربیت کی مرکزیت کے تصور سے دست بردار نہیں ہونا چاہتے ۔ ان کے لیے حقیقی انسان وہ نہیں جو تجربی عمل سے گزرتا ہے اور حقائق کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے۔ مغربی انسان کی حیثیت فوق تجربی ہے، وہ خود کو تجربے سے ماورا سمجھتا ہے۔ اس کے پاس سب سے موثر ہتھیار اس کی عقل ہے۔ مغرب کے عقلیت پسند انسان دہشت پسند ہیں۔ ان کی دہشت پسندی کو بیسویں صدی کی غیر انسانی اور سفاکانہ عقلی تاریخ میں بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے۔ دہشت پسند عقلیت کے حامی اس حقیقت کو ایک بار پھر فراموش کر چکے ہیں کہ حقائق کو پسِ پشت ڈالنے والی عقلیت کے پاس مسائل کا حل ہوتا تو اب تک مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ ان عقلیت پسندوں کو اس بات کا ادراک بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عقلیت کا سہارا لینے کی بجائے دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی غرض سے انتہائی خطرناک بم و بارود تیار کر رکھے ہیں۔ وہ پرچار تو ''اخلاقی اقدار'' کا کرتے ہیں مگر گھنائونی نوعیت کے بم تیار کرنا ان کی عقلیت کی شکست کی علامت ہے! وہ اسلامی ملکوں کے بموں کو تو ''اسلامی بم'' کہتے ہیں، مگر اپنے نیوکلیئر اور ہائیڈروجن بموں کو روشن خیال لبرل بم کہنے سے گریزاں ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر انفرادیت، آزادی، مساوات، انصاف جیسی اقدار کی بنیاد پر اپنا مخالف یا دشمن تراش لیا ہے۔ وہ اس کی آڑ میں دوبارہ ''آفاقیت'' کے قضیے کے دعویدار بن گئے ہیں۔ انصاف، انفرادیت، مساوات اور آزادی جیسی اقدار کی بنیاد پر انسان کے مستقبل کو آزاد منڈی کی معیشت اور سرمائے کی حرکت میں دیکھتے ہیں۔ انھوں نے تاریخ سے یہ سبق نہیں سیکھا کہ سرمائے کی مرکزیت قائم کرنے کے تصور میں تباہی ہی مضمر ہے۔
مابعد جدیدیت روشن خیالی پروجیکٹ کی وضع کردہ اقدار کی فوقیتی ترتیب کو چیلنج کرتے ہوئے اسے عقل کا نقص گردانتی ہے۔ ایک آدرش کے طور پر تو اسے دیکھا جا سکتا ہے، مگر اقدار کے مابین اس فوقیتی ترتیب کے دائرے کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب کے کسی بھی مابعد جدید مفکر کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں سے ''استحصال'' کا لفظ تک تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ کیا اس سے ہم یہ سمجھیں کہ سامراجیوں کے ہاتھوں مظلوم طبقات اور پسی ہوئی غریب اقوام کا استحصال نہیں ہو رہا؟ استحصال ہو رہا ہے، مگر اس کا تجزیہ روشن خیال مفکروں کی ترجیح نہیں ہے۔ مابعد جدید مفکرین نے انصاف، جمہوریت اور مساوات کو ڈی کسنسٹرکٹ کیا، جس سے مغرب میں روشن خیال عقلی پروجیکٹ کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ کیا اس سے یہ سوال اٹھایا جائے کہ ہمیں روشن خیالی کی ضرورت نہیں ہے؟ ایسا ہرگز نہیں! ہمیں صرف اس روشن خیالی پروجیکٹ کی از سر نو تنقید پیش کرنی ہے کہ جس میں اقدار کی فوقیتی ترتیب کا قضیہ پیوست تھا۔ یعنی ہمیں مغربی روشن خیالی پروجیکٹ کے ایک مخصوص تصور کی نفی کرنی ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں ایک طرف بنیاد پرستانہ مذہبیت کا غلبہ ہے، جس میں بلاشبہ توسیع پسندانہ سامراجی دہشت کے خلاف مزاحمت میں شدت آئی ہے، جب کہ دوسری طرف طالبانی نوعیت کی روشن خیالی کی ہے، جس کی نظری بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں درکار روشن خیالی کو اس روشن خیالی سے بچانا ضروری ہے کہ جس کی نفی مغرب میں ہو چکی ہے۔ فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے ''سپیکٹر آف مارکس'' میں یہ لکھا تھا کہ خیال پرستی کی تنقید کے لیے اس تجربیت کی ضرورت نہیں جو پھر خیال کی جانب لے جائے، بلکہ اس کی تنقید تاریخی مادیت کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں مابعد جدیدیت کا کوئی بھی مفہوم اس پس منظر کو نظر انداز کر کے نہیں ابھر سکتا۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس کی ڈی کنسٹرکشن میں مابعد جدیدیت کی بھی نفی ہو جاتی ہے۔ پاکستان کے پسے ہوئے اور استحصال زدہ عوام کو جمہوریت، انصاف اور مساوات کی ضرورت ہے، مگر یہ اقدار مغربی روشن خیالی کی پیش کردہ تشریحات سے ماورا ہیں۔ مساوات کا تصور ایسا نہیں ہو گا جو یکسانیت کی جانب لے جائے۔ انصاف کا تصور وہ نہیں جو سرمائے کی مرکزیت اور اس کو دوام عطا کرنے کے تصور سے جنم لے۔ جمہوریت ایسی نہیں کہ جس میں پانچ برس کے بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہو اور پھر اگلے پانچ برس انھی حکمرانوں کے ہاتھوں انصاف، جمہوریت، انفرادیت اور آزادی جیسی اقدار کی مسلسل نفی کو برداشت کیا جائے۔ مابعد جدیدیت صرف نظری سطح پر تعینات کو توڑتی ہے جب کہ عملی سطح پر تعینات کو توڑنے کے لیے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف ایک مستقل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
مذہبیت اور روشن خیالی کے مظاہر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ معاشرتی سطح پر بنیاد پرستانہ مذہبیت اور روشن خیالی عقلیت کے ان رجعتی پہلوئوں کو توڑنا لازمی ہو چکا ہے جو قدامت پسندانہ رجحانات کی تبلیغ اور تکثیری سماج کی نفی کرتے ہیں۔ مغربی دنیا میں روشن خیالی کے عقلی اور غیر عقلی رجحانات کی ایک پوری تاریخ موجود ہے، جس میں رجعتی اور انتہاء پسندانہ مذہبیت کی تنقید پیش کی گئی ہے۔ مغربی روشن خیالی شروع ہی مسیحیت کی تنقید سے ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں بنیاد پرستانہ مذہبی رجحانات کی تنقید پیش کرنی ضروری ہے کہ جس سے سماج میں اعتدال پسندانہ رویوں کو فروغ ملے اور دوسری جانب مغرب کے ناکام روشن خیال عقلی پروجیکٹ کے ان انتہاء پسندانہ پہلوئوں کی بھی نفی کرنے کی ضرورت ہے کہ جن کا واحد مقصد انتہاء پسندانہ رجحانات کو پروان محض اس لیے چڑھانا ہے کہ جس سے سرمایہ داروں کے مفادات کو دوام عطا ہو سکے، جب کہ مختلف طبقات کے مابین حقیقی تضادات کو چھپا کر صرف فکری و نظریاتی رجحانات کے مابین پیکار کو دکھانا ہے۔ عہد حاضر میں روشن خیالی کی وہ شکل جو مغرب میں پروان چڑھی اور جس کی تقلید میں نوعِ انسانی کا بے دریغ قتل عام کیا گیا، سے نجات حاصل کرنا بھی انسانیت کی بقا کے لیے لازم ہے۔
مابعد جدیدیت بنیاد پرستانہ مذہبیت اور انتہاء پسندانہ عقلیت کے طالبانی پروجیکٹ کے قائم کردہ تعینات کو توڑتی ہے، نئے راستوں کو کھولتی ہے، مگر مختلف سمت میں نئے راستوں کا تعین نہیں کرتی۔ اور اگر نئے راستے معنوی تعینات کی جانب لے جائیں تو مابعد جدیدیت کے بنیادی فلسفے کی ہی نفی ہو جاتی ہے۔ مابعد جدیدیت تعینات کی نفی کرتی ہے اور تعینات مابعد جدیدیت کی! تعینات کا تعلق نظریے سے زیادہ عملی صورتحال سے ہوتا ہے۔ پسے ہوئے اور استحصال زدہ اور اکثریت کی ترجمانی کرنیوالے خیالات کے اثبات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں پسے ہوئے اور استحصال زدہ طبقات اور مجبور و مقہور اقوام کی نفی نہیں کرانی، بلکہ ان کا اثبات کرانا ہے، مگر اس نکتے پر مابعد جدیدیت ہماری کوئی مدد نہیں کرتی۔ جونہی اثبات قائم ہو گا، یعنی صدیوں سے پسے ہوئے لوگوں کی حقیقی شکل ہمارے سامنے آنے لگے گی تو مابعد جدید فکر کا مرکزی پہلو یعنی نفی کا مقولہ ان کی نفی کر دے گا۔ لہذا تھیوری میں پیش کیے گئے خیالات کو سماجی حقیقت کے مقابل جانچنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت پر دبی ہوئی آوازوں کی ڈی کنسٹرکشن نہیں کرنی کہ جب وہ آوازیں بلند ہو رہی ہوں، بلکہ ان استحصالی سامراجی اور جابر آوازوں کی ڈی کنسٹرکشن کرنی ہے، جو ان دبی ہوئی آوازوں سے اپنا اثبات کرانا چاہتی ہیں۔ ان پر دہشت و بربریت مسلط کرتی ہیں۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ خارجی حقیقت کو تھیوری کے مقابل رکھ کر ڈی کنسٹرکٹ کرنے کی بجائے تھیوری کو سماجی لازمیت کے تقاضوں کے تحت ڈی کنسٹرکٹ کیا جائے۔ اس کے لیے تاریخی مادیت سے اعلیٰ فکری و سائنسی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
مغرب میں عملی سطح پر مابعد جدیدیت کے مرکزی نکتے کی نفی ہو چکی ہے۔ نائن الیون کے بعد وہ خیالات جو صرف ''شعور'' میں موجود تھے، حقیقی تصادم نے ان کے کھوکھلے پن کو عیاں کر دیا۔
امریکی جو بیسویں صدی کے آخر میں 'آئیڈیالوجی کے خاتمے'' کا دعویٰ کر رہے تھے انھیں اپنے سامراجی مفادات کو توسیع دینے کے لیے آئیڈیالوجی کو نہ صرف زندہ کرنا پڑا، بلکہ ریڈیکل اسلام کی ایک مخصوص شکل کو سامنے لانے کے لیے لبرل دانشوروں کو میدان میں لا کھڑا کیا۔ اسلام کو اس سارے عمل کا ذمے دار ٹھہرانے سے لبرل دہشت پسندوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو تو تقویت ملی، مگر اس سے سماجی و سیاسی حقیقت کی تفہیم کا عمل مزید مبہم اور گنجلک نظر آنے لگا۔ سامراجیوں کے توسیع پسندانہ اقدامات، غریب ممالک کے وسائل کو زیر تسلط لانے کے لیے ان پر جنگی بربریت مسلط کرنا اور مذہبی و غیر مذہبی ریاستوں میں فرقہ پرست تنظیموں کو اپنی بربریت کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرنا سامراجیوں کی ترجیحات تھیں۔ تاہم ایسے حالات میں حقیقی مزاحمتی تحریکوں کا احیاء فطری عمل ہوتا ہے۔ روشن خیال عقلیت، بنیاد پرستانہ اسلام سے زیادہ بڑا بیانیہ ہے، یہی وجہ ہے کہ روشن خیال عقلیت پسند جب چاہتے ہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بنیاد پرستانہ اسلام کا استعمال کرتے ہیں، لیکن اسلام پسند روشن خیال عقلیت پسندوں کو کبھی بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ وجہ یہ کہ روشن خیال عقلیت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ روشن خیال عقلیت لبرل جمہوریت کا تحفظ چاہتی ہے۔ مذہبیت کو فاصلے پر رکھتی ہے۔ مغرب میں مابعد جدیدیت نے جب روشن خیالی پروجیکٹ پر حملہ کیا تو مابعد جدید مفکروں کے اذہان میں روشن خیالی کے یہ بنیاد پرستانہ اور دہشت پسندانہ پہلو موجود تھے ۔
سرمایہ دارانہ نظام میں روشن خیال عقلیت پسند ''لبرل جمہوریت'' کو دوام عطا کرنا چاہتے ہیں اور کسی بھی صورت سامراجیت اور مغربیت کی مرکزیت کے تصور سے دست بردار نہیں ہونا چاہتے ۔ ان کے لیے حقیقی انسان وہ نہیں جو تجربی عمل سے گزرتا ہے اور حقائق کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے۔ مغربی انسان کی حیثیت فوق تجربی ہے، وہ خود کو تجربے سے ماورا سمجھتا ہے۔ اس کے پاس سب سے موثر ہتھیار اس کی عقل ہے۔ مغرب کے عقلیت پسند انسان دہشت پسند ہیں۔ ان کی دہشت پسندی کو بیسویں صدی کی غیر انسانی اور سفاکانہ عقلی تاریخ میں بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے۔ دہشت پسند عقلیت کے حامی اس حقیقت کو ایک بار پھر فراموش کر چکے ہیں کہ حقائق کو پسِ پشت ڈالنے والی عقلیت کے پاس مسائل کا حل ہوتا تو اب تک مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ ان عقلیت پسندوں کو اس بات کا ادراک بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عقلیت کا سہارا لینے کی بجائے دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی غرض سے انتہائی خطرناک بم و بارود تیار کر رکھے ہیں۔ وہ پرچار تو ''اخلاقی اقدار'' کا کرتے ہیں مگر گھنائونی نوعیت کے بم تیار کرنا ان کی عقلیت کی شکست کی علامت ہے! وہ اسلامی ملکوں کے بموں کو تو ''اسلامی بم'' کہتے ہیں، مگر اپنے نیوکلیئر اور ہائیڈروجن بموں کو روشن خیال لبرل بم کہنے سے گریزاں ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر انفرادیت، آزادی، مساوات، انصاف جیسی اقدار کی بنیاد پر اپنا مخالف یا دشمن تراش لیا ہے۔ وہ اس کی آڑ میں دوبارہ ''آفاقیت'' کے قضیے کے دعویدار بن گئے ہیں۔ انصاف، انفرادیت، مساوات اور آزادی جیسی اقدار کی بنیاد پر انسان کے مستقبل کو آزاد منڈی کی معیشت اور سرمائے کی حرکت میں دیکھتے ہیں۔ انھوں نے تاریخ سے یہ سبق نہیں سیکھا کہ سرمائے کی مرکزیت قائم کرنے کے تصور میں تباہی ہی مضمر ہے۔
مابعد جدیدیت روشن خیالی پروجیکٹ کی وضع کردہ اقدار کی فوقیتی ترتیب کو چیلنج کرتے ہوئے اسے عقل کا نقص گردانتی ہے۔ ایک آدرش کے طور پر تو اسے دیکھا جا سکتا ہے، مگر اقدار کے مابین اس فوقیتی ترتیب کے دائرے کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب کے کسی بھی مابعد جدید مفکر کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں سے ''استحصال'' کا لفظ تک تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ کیا اس سے ہم یہ سمجھیں کہ سامراجیوں کے ہاتھوں مظلوم طبقات اور پسی ہوئی غریب اقوام کا استحصال نہیں ہو رہا؟ استحصال ہو رہا ہے، مگر اس کا تجزیہ روشن خیال مفکروں کی ترجیح نہیں ہے۔ مابعد جدید مفکرین نے انصاف، جمہوریت اور مساوات کو ڈی کسنسٹرکٹ کیا، جس سے مغرب میں روشن خیال عقلی پروجیکٹ کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ کیا اس سے یہ سوال اٹھایا جائے کہ ہمیں روشن خیالی کی ضرورت نہیں ہے؟ ایسا ہرگز نہیں! ہمیں صرف اس روشن خیالی پروجیکٹ کی از سر نو تنقید پیش کرنی ہے کہ جس میں اقدار کی فوقیتی ترتیب کا قضیہ پیوست تھا۔ یعنی ہمیں مغربی روشن خیالی پروجیکٹ کے ایک مخصوص تصور کی نفی کرنی ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں ایک طرف بنیاد پرستانہ مذہبیت کا غلبہ ہے، جس میں بلاشبہ توسیع پسندانہ سامراجی دہشت کے خلاف مزاحمت میں شدت آئی ہے، جب کہ دوسری طرف طالبانی نوعیت کی روشن خیالی کی ہے، جس کی نظری بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں درکار روشن خیالی کو اس روشن خیالی سے بچانا ضروری ہے کہ جس کی نفی مغرب میں ہو چکی ہے۔ فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے ''سپیکٹر آف مارکس'' میں یہ لکھا تھا کہ خیال پرستی کی تنقید کے لیے اس تجربیت کی ضرورت نہیں جو پھر خیال کی جانب لے جائے، بلکہ اس کی تنقید تاریخی مادیت کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں مابعد جدیدیت کا کوئی بھی مفہوم اس پس منظر کو نظر انداز کر کے نہیں ابھر سکتا۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس کی ڈی کنسٹرکشن میں مابعد جدیدیت کی بھی نفی ہو جاتی ہے۔ پاکستان کے پسے ہوئے اور استحصال زدہ عوام کو جمہوریت، انصاف اور مساوات کی ضرورت ہے، مگر یہ اقدار مغربی روشن خیالی کی پیش کردہ تشریحات سے ماورا ہیں۔ مساوات کا تصور ایسا نہیں ہو گا جو یکسانیت کی جانب لے جائے۔ انصاف کا تصور وہ نہیں جو سرمائے کی مرکزیت اور اس کو دوام عطا کرنے کے تصور سے جنم لے۔ جمہوریت ایسی نہیں کہ جس میں پانچ برس کے بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہو اور پھر اگلے پانچ برس انھی حکمرانوں کے ہاتھوں انصاف، جمہوریت، انفرادیت اور آزادی جیسی اقدار کی مسلسل نفی کو برداشت کیا جائے۔ مابعد جدیدیت صرف نظری سطح پر تعینات کو توڑتی ہے جب کہ عملی سطح پر تعینات کو توڑنے کے لیے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف ایک مستقل جدوجہد کی ضرورت ہے۔