سارا پاکستان ہمارا پاکستان
کا احسان ہے قوم پر کہ انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوؤں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے ...
یہ قائد اعظمؒ کا احسان ہے قوم پر کہ انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوؤں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے دو قومی نظریے کے تحت آزادی دلوا کر مسلمانوں کے لیے علیحدہ مسلم ریاست بنوائی، جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ایک آزاد مسلم ریاست میں امن و سکون کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی سال ہی میں قوم بانیان پاکستان سے محروم ہو گئی یعنی قائد اعظمؒ، قائد ملت لیاقت علی خان صاحبؒ کی وفات کے بعد دیگر لیڈران جو قائد اعظمؒ اور قائد ملتؒ کے معاونین تھے وہ بھی ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہو گئے۔ اس کے بعد ہمارے ملک میں لیڈر شپ کا فقدان پیدا ہو گیا۔ چند ایک نامور شخصیات (مثلاً حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر، خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ وغیرہ) سامنے آئیں لیکن وہ ملکی بیڑے کو آگے لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کی طرز سیاست کی بنا پر سیاستدانوں کا مقصد صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنا ہوتا تھا جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی استحکام قائم نہ ہو سکا اور یہی صورت حال آج 66 سال گزر جانے کے باوجود بھی جاری ہے۔
اقتدار حاصل کرنا کسی کا ذاتی مشغلہ یا شوق تو نہیں ہوتا بلکہ جو سیاست میں داخل ہوتا ہے وہ قوم کو اپنے منشور اور سیاست میں آنے کے مقاصد سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں قوم مختلف سیاسی شخصیات کو آزمانے کے لیے الیکشن کے ذریعے منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتی ہے۔ جس کے بعد ہی وہ اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ یہی سلسلہ سالہا سال سے چلا آ رہا ہے اور تاحال جاری ہے۔ دوسری بدقسمتی عوام کی یہ ہے کہ جب ان کے منتخب نمایندے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ عوام سے کیے گئے وعدے و یقین دہانیاں بھول جاتے ہیں۔ عوام کی خدمت کرنا ان کا اولین فرض ہوتا ہے جس سے وہ روگردانی کر جاتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کی جنگ لڑتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور اسے گرا کر خود اقتدار حاصل کرنے یا اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کی جستجو میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ نتیجتاً ملک و قوم تباہی کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔ ملک و قوم کا مستقبل تاریکیوں میں گم ہو جاتا ہے، بجائے اس کے کہ ملک و قوم کا مستقبل روشن ہوتا۔ یہی بنیادی وجوہات تھیں اور اب بھی قائم ہیں جس کی وجہ سے 66 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ملک و قوم پسماندہ ہیں۔
ترقی کی راہیں بھی مسدود ہو گئیں۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی اچھی ایماندار، باصلاحیت اور ملک و قوم کا درد رکھنے والی قیادت مل بھی جائے تو اس کو دو ڈھائی سال سے زیادہ حکومت نہیں کرنے دی جاتی۔ دو ڈھائی سال بعد ہی اس کی طرز حکومت میں کیڑے نکالنا شروع کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے ہر کام میں برائیاں، بدعنوانیاں، کرپشن وغیرہ نظر آنے لگتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک و قوم کو حقیقی قیادت کیسے نصیب ہو گی۔ وہی ہو گا کہ ''نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی''۔ یوں سیاسی دنگل سجتے رہتے ہیں کبھی کوئی جیت جاتا ہے تو کبھی کوئی ہار جاتا ہے۔ ایسے میں عوام بھی مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ انھیں اپنے حقوق ملیں، مسائل حل ہوں، ملک خوشحال ہو تو قوم بھی خوشحال ہو۔ لیکن اس طرف کوئی صاحب اقتدار یا صاحب حزب اختلاف توجہ ہی نہیں دیتا۔ کوئی مجھے بتائے تو کہ یہ ملک کس انداز اور کس ڈھنگ سے چلایا جا رہا ہے۔ ماضی کو دیکھ کر مستقبل کی راہیں کیوں تلاش نہیں کی جاتیں۔
کیا تمہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ تاریخ بھی ماضی کو دہراتی ہے۔ اسی لیے تو انسان اپنے ماضی کو بھلاتا نہیں ہے بلکہ اس سے سبق حاصل کر کے اپنا مستقبل سنوارتا ہے۔ ہمارے سیاستدانو! ہمارے حکمرانو! کیا تم لوگ ملک و قوم کا ماضی بھول گئے ہو، ماضی میں کس طرح ملک و قوم کے مستقبل سے غفلت برتی گئی اور تباہی مچائی گئی۔ کیا اب اس پرآشوب دور میں بھی خواب غفلت سے جاگو گے یا نہیں۔ ملک و قوم کا حال کیا ہو رہا ہے۔ نہ ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اور نہ ہی عوامی مسائل حل ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس ترقی معکوس ہو رہی ہے۔ معیشت تباہ حال ہو گئی ہے۔ عوام کو غربت، مہنگائی، بیروزگاری، امن و امان کی غیر یقینی صورت حال، قتل و غارت گری، دہشت گردی جیسے گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلکہ ان گمبھیر مسائل میں گھرے عوام بدحال ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ دوسری ترقی یافتہ قوموں کو دیکھ کر بھی اپنے ملک کو بھی ان ہی خطوط پر چلانے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں۔
کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے؟ قدرت نے ہمیں قیمتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ مگر ڈھونڈتے کیوں نہیں، انھیں استعمال کرتے کیوں نہیں۔ دوسروں کی امداد پر، قرضوں اور منصوبوں پر کیوں انحصار کرتے ہو۔ خدارا! اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ۔ قدرت نے تمہیں تیسری بار5 سال کے لیے اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ قدرت کے اس تحفے کو ٹھکراؤ مت بلکہ اس کی قدر کرو۔ اس کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ۔ اپنی کارکردگی دکھاؤ۔ قوم کو لالی پاپ دینے کے بجائے کچھ ڈلیور کرنے کی کوشش کرو۔ ورنہ وہی حال تمہارا بھی ہو گا جو تمہاری پیشرو حکومت کا ہوا۔ پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی حالات میں تبدیلی نظر آ رہی ہے، نہ مسائل میں کمی۔ بلکہ اس سے بھی بدتر حالت نظر آ رہی ہے۔ محض بیانات، جھوٹے وعدے، بچکانہ یقین دہانیاں، غیر ملکی دورے، غیر ملکی وفود کے ساتھ فوٹو سیشن، اس کے سوا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔
مالی حالات اس قدر کشیدہ ہیں اور مخدوش ہو چکے ہیں کہ ہمارے ملک کی کرنسی کی قدر عالمی منڈیوں میں دن بہ دن گرتی جا رہی ہے۔ جس کے اثرات سے ہماری معیشت زمین بوس ہو گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روم جل رہا ہے اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا ہے۔ دشمن تمہیں صرف دیکھ نہیں رہے ہیں بلکہ تمہارے ملک کے اندر گھس کر تمہیں تباہ کر رہے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی، قتل و غارت گری کے ذریعے بے گناہ عوام کا خون بہہ رہا ہے۔ عوام چلا رہے ہیں۔ عدالتیں چیخ چیخ کر حالات درست کرنے کی دہائی دے رہی ہیں۔ لیکن اقتدار کے ایوانوں میں چین کی بانسریاں بجائی جا رہی ہیں۔ منتخب ارکان اسمبلی و سینیٹ آپس میں دست و گریباں ہیں ایک دوسرے پر لاتیں، گھونسے چل رہے ہیں، گالم گلوچ ہو رہی ہے، کیا یہی ہے طرز جمہوری حکمرانی۔ ملک و قوم کو دشمنوں کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے۔ اب اس جال سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
یہ حال ہو گیا ہے ملک و قوم کا تو قائد اعظمؒ کے اصل پاکستان کو کون زندہ کر سکتا ہے۔ یہ فطرتاً ناممکن ہے۔ اب تو لٹیروں، منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، ڈاکوؤں، چوروں اور غاصبوں کا راج ہے۔ قوم کے نوجوانو! اٹھو، اقتدار کے ایوانوں کے در و دیوار ہلا دو۔ اب تمہیں ہی اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ اس ملک و قوم کی قسمت بدلنی ہے۔ اٹھو! کمر کسو۔۔۔۔ پھر دیکھو خدا کیا کرتا ہے۔ کیا تم اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہو کہ جو قوم اپنی حالت خود نہیں بدلتی اﷲ تعالیٰ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوانوں کو آگے آنا ہو گا۔ قائد اعظمؒ نے جو شمع روشن کی تھی اب تمہیں اسے پھر سے جلانا ہو گا۔ کیا قائد اعظمؒ نے ہمیں آزادی اس لیے دلوائی کہ ہم ملک و قوم کی تباہی کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں، کان بند کر لیں، ہاتھ پیچھے باندھ لیں، زباں بند کر لیں، ہونٹ سی لیں اور قدم ساکت کر لیں؟ نہیں، نہیں! ہم زندہ دل قوم ہیں۔ '' سارا پاکستان ہمارا پاکستان'' ہے اس کو بچانا ہے، اس کی خدمت کرنا، اس کی ترقی و خوشحالی کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا ہے۔ آج ہم سب مل کر عہد بلکہ تجدید عہد کریں کہ اس ملک کی بقا، سلامتی، امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہا دیں گے۔
اقتدار حاصل کرنا کسی کا ذاتی مشغلہ یا شوق تو نہیں ہوتا بلکہ جو سیاست میں داخل ہوتا ہے وہ قوم کو اپنے منشور اور سیاست میں آنے کے مقاصد سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں قوم مختلف سیاسی شخصیات کو آزمانے کے لیے الیکشن کے ذریعے منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتی ہے۔ جس کے بعد ہی وہ اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ یہی سلسلہ سالہا سال سے چلا آ رہا ہے اور تاحال جاری ہے۔ دوسری بدقسمتی عوام کی یہ ہے کہ جب ان کے منتخب نمایندے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ عوام سے کیے گئے وعدے و یقین دہانیاں بھول جاتے ہیں۔ عوام کی خدمت کرنا ان کا اولین فرض ہوتا ہے جس سے وہ روگردانی کر جاتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کی جنگ لڑتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور اسے گرا کر خود اقتدار حاصل کرنے یا اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کی جستجو میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ نتیجتاً ملک و قوم تباہی کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔ ملک و قوم کا مستقبل تاریکیوں میں گم ہو جاتا ہے، بجائے اس کے کہ ملک و قوم کا مستقبل روشن ہوتا۔ یہی بنیادی وجوہات تھیں اور اب بھی قائم ہیں جس کی وجہ سے 66 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ملک و قوم پسماندہ ہیں۔
ترقی کی راہیں بھی مسدود ہو گئیں۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی اچھی ایماندار، باصلاحیت اور ملک و قوم کا درد رکھنے والی قیادت مل بھی جائے تو اس کو دو ڈھائی سال سے زیادہ حکومت نہیں کرنے دی جاتی۔ دو ڈھائی سال بعد ہی اس کی طرز حکومت میں کیڑے نکالنا شروع کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے ہر کام میں برائیاں، بدعنوانیاں، کرپشن وغیرہ نظر آنے لگتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک و قوم کو حقیقی قیادت کیسے نصیب ہو گی۔ وہی ہو گا کہ ''نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی''۔ یوں سیاسی دنگل سجتے رہتے ہیں کبھی کوئی جیت جاتا ہے تو کبھی کوئی ہار جاتا ہے۔ ایسے میں عوام بھی مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ انھیں اپنے حقوق ملیں، مسائل حل ہوں، ملک خوشحال ہو تو قوم بھی خوشحال ہو۔ لیکن اس طرف کوئی صاحب اقتدار یا صاحب حزب اختلاف توجہ ہی نہیں دیتا۔ کوئی مجھے بتائے تو کہ یہ ملک کس انداز اور کس ڈھنگ سے چلایا جا رہا ہے۔ ماضی کو دیکھ کر مستقبل کی راہیں کیوں تلاش نہیں کی جاتیں۔
کیا تمہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ تاریخ بھی ماضی کو دہراتی ہے۔ اسی لیے تو انسان اپنے ماضی کو بھلاتا نہیں ہے بلکہ اس سے سبق حاصل کر کے اپنا مستقبل سنوارتا ہے۔ ہمارے سیاستدانو! ہمارے حکمرانو! کیا تم لوگ ملک و قوم کا ماضی بھول گئے ہو، ماضی میں کس طرح ملک و قوم کے مستقبل سے غفلت برتی گئی اور تباہی مچائی گئی۔ کیا اب اس پرآشوب دور میں بھی خواب غفلت سے جاگو گے یا نہیں۔ ملک و قوم کا حال کیا ہو رہا ہے۔ نہ ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اور نہ ہی عوامی مسائل حل ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس ترقی معکوس ہو رہی ہے۔ معیشت تباہ حال ہو گئی ہے۔ عوام کو غربت، مہنگائی، بیروزگاری، امن و امان کی غیر یقینی صورت حال، قتل و غارت گری، دہشت گردی جیسے گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلکہ ان گمبھیر مسائل میں گھرے عوام بدحال ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ دوسری ترقی یافتہ قوموں کو دیکھ کر بھی اپنے ملک کو بھی ان ہی خطوط پر چلانے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں۔
کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے؟ قدرت نے ہمیں قیمتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ مگر ڈھونڈتے کیوں نہیں، انھیں استعمال کرتے کیوں نہیں۔ دوسروں کی امداد پر، قرضوں اور منصوبوں پر کیوں انحصار کرتے ہو۔ خدارا! اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ۔ قدرت نے تمہیں تیسری بار5 سال کے لیے اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ قدرت کے اس تحفے کو ٹھکراؤ مت بلکہ اس کی قدر کرو۔ اس کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ۔ اپنی کارکردگی دکھاؤ۔ قوم کو لالی پاپ دینے کے بجائے کچھ ڈلیور کرنے کی کوشش کرو۔ ورنہ وہی حال تمہارا بھی ہو گا جو تمہاری پیشرو حکومت کا ہوا۔ پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی حالات میں تبدیلی نظر آ رہی ہے، نہ مسائل میں کمی۔ بلکہ اس سے بھی بدتر حالت نظر آ رہی ہے۔ محض بیانات، جھوٹے وعدے، بچکانہ یقین دہانیاں، غیر ملکی دورے، غیر ملکی وفود کے ساتھ فوٹو سیشن، اس کے سوا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔
مالی حالات اس قدر کشیدہ ہیں اور مخدوش ہو چکے ہیں کہ ہمارے ملک کی کرنسی کی قدر عالمی منڈیوں میں دن بہ دن گرتی جا رہی ہے۔ جس کے اثرات سے ہماری معیشت زمین بوس ہو گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روم جل رہا ہے اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا ہے۔ دشمن تمہیں صرف دیکھ نہیں رہے ہیں بلکہ تمہارے ملک کے اندر گھس کر تمہیں تباہ کر رہے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی، قتل و غارت گری کے ذریعے بے گناہ عوام کا خون بہہ رہا ہے۔ عوام چلا رہے ہیں۔ عدالتیں چیخ چیخ کر حالات درست کرنے کی دہائی دے رہی ہیں۔ لیکن اقتدار کے ایوانوں میں چین کی بانسریاں بجائی جا رہی ہیں۔ منتخب ارکان اسمبلی و سینیٹ آپس میں دست و گریباں ہیں ایک دوسرے پر لاتیں، گھونسے چل رہے ہیں، گالم گلوچ ہو رہی ہے، کیا یہی ہے طرز جمہوری حکمرانی۔ ملک و قوم کو دشمنوں کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے۔ اب اس جال سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
یہ حال ہو گیا ہے ملک و قوم کا تو قائد اعظمؒ کے اصل پاکستان کو کون زندہ کر سکتا ہے۔ یہ فطرتاً ناممکن ہے۔ اب تو لٹیروں، منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، ڈاکوؤں، چوروں اور غاصبوں کا راج ہے۔ قوم کے نوجوانو! اٹھو، اقتدار کے ایوانوں کے در و دیوار ہلا دو۔ اب تمہیں ہی اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ اس ملک و قوم کی قسمت بدلنی ہے۔ اٹھو! کمر کسو۔۔۔۔ پھر دیکھو خدا کیا کرتا ہے۔ کیا تم اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہو کہ جو قوم اپنی حالت خود نہیں بدلتی اﷲ تعالیٰ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوانوں کو آگے آنا ہو گا۔ قائد اعظمؒ نے جو شمع روشن کی تھی اب تمہیں اسے پھر سے جلانا ہو گا۔ کیا قائد اعظمؒ نے ہمیں آزادی اس لیے دلوائی کہ ہم ملک و قوم کی تباہی کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں، کان بند کر لیں، ہاتھ پیچھے باندھ لیں، زباں بند کر لیں، ہونٹ سی لیں اور قدم ساکت کر لیں؟ نہیں، نہیں! ہم زندہ دل قوم ہیں۔ '' سارا پاکستان ہمارا پاکستان'' ہے اس کو بچانا ہے، اس کی خدمت کرنا، اس کی ترقی و خوشحالی کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا ہے۔ آج ہم سب مل کر عہد بلکہ تجدید عہد کریں کہ اس ملک کی بقا، سلامتی، امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہا دیں گے۔