چیف الیکشن کمشنر سے وابستہ امیدیں

وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ موجودہ انتظامی ڈھانچہ میں الیکشن کمیشن کی ضروریات کو کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے۔

tauceeph@gmail.com

تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن کی سربراہی کے لیے جج کے بجائے ایک بیوروکریٹ پر اتفاق ہوا، تو الیکشن کمیشن مکمل ہوگیا۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے چیف الیکشن کمشنر کے لیے وزیر اعظم کے نام پر اتفاق کیا۔ حکومت نے کمیشن کی سندھ اور بلوچستان کے اراکین کی نشستوں پر حزب اختلاف کی تجاویز کو قبول کر لیا۔

پارلیمانی کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی بار بار ہدایت کی بناء پر یہ فیصلہ کیا کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اس کے اراکین کے تقرر کا معاملہ پارلیمنٹ میں ہی طے ہونا چاہیے۔ حکومت نے اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔

گزشتہ سال جب الیکشن کمیشن کے دو ارکان اپنی تین سالہ مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہوئے تھے تو پارلیمانی کمیٹی دوناموں پر متفق نہیں ہوسکی تھی۔ وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ کے جانشین بننے والے ہیں۔ ان کے مشورہ پر وزیر اعظم نے یک طرفہ طور پر دو نام صدرکو ارسال کیے تھے۔ صدر عارف علوی نے ان دو افراد کو الیکشن کمیشن کے ارکان بنانے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کو آزاد اور خود مختار بنانے کے اصول کے منافی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا نے ان اراکین سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔

وزیر قانون نے چیف الیکشن کمشنرکے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا ، مگر پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدرکے نوٹیفکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ یہ معاملہ دوبارہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اراکین کے تقررکے لیے ایک مخصوص میعاد کا تعین کیا تھا مگر پارلیمنٹ کے قانونی مشیر کی عرض داشت پر اس میعاد میں کئی دفعہ توسیع ہوئی۔ پارلیمانی امورکے وفاقی وزیر نے اپنے مؤقف میں بڑی تبدیلی کی اور یہ مؤقف اختیارکیا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں ہی طے ہونا چاہیے۔ اس معاملہ پر عدالتی ریویو Judicial Review نہیں ہونا چاہیے۔

تحریک انصاف کے ایک وزیرکا یہ مؤقف پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصورکو تقویت دے رہا تھا اور پہلی دفعہ اس حکومت کے کسی وزیرکو پارلیمنٹ کی اہمیت محسوس ہوئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزراء نے ہمیشہ پارلیمنٹ کی اہمیت کوکم کرنے کی کوشش کی۔ اس پالیسی کے تحت سینیٹ کا اجلاس تین ماہ تک نہیں بلایا گیا اور سینیٹ کے اجلاس کے مقررہ ایام کی آئینی شق کی خلاف ورزی ہوئی۔

وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے ایک ٹاک شو میں فوجی بوٹ لا کر اور یہ الزام لگا کر کہ حزب اختلاف نے آرمی ایکٹ کی حمایت '' دباؤ'' پرکی تھی صرف حزب اختلاف ہی کی نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کے اراکین کی بھی توہین کی تھی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصور کو مجروح کیا تھا مگر وزیر اعظم عمران خان نے محض وزیر موصوف پر پندرہ دن ٹاک شو میں شرکت پر پابندی عائد کر کے یہ ثابت کیا تھا کہ یہ معاملہ محض ٹاک شو میں غیر مناسب گفتگو کا ہے ۔ اب الیکشن کمیشن کے مکمل ہونے کے بعد اس کی آزادانہ اور شفاف حیثیت کو بنانے کے لیے چیف الیکشن کمشنر اور اس کے اراکین کا امتحان شروع ہوچلا ہے۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے سامنے تحریک انصاف کی انتخابی مہم کے لیے غیر ملکی امداد کے بارے میں ریفرنس موجود ہے۔


اس طرح کے ریفرنس مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف بھی دائر ہوئے ہیں مگر تحریک انصاف کے بانی رکن کا اپنی جماعت کے خلاف دائر کردہ ریفرنس کئی برسوں سے زیر التواء ہے۔ مختلف وجوہات کی بناء پر ریفرنس کی سماعت ملتوی ہوتی آئی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ سابق چیف الیکشن کمشنر اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اس ریفرنس کو نمٹا دیں۔ اطلاعات کی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اس مطالبے کو دال میں کچھ کالا کے محاورہ سے منسوب کیا تھا مگر اب نئے چیف الیکشن کمشنر متفقہ طور پر اس عہدے پر تعینات ہوئے ہیں۔ اس صورت میں ان کی ذمے داری زیادہ بڑھ گئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر اراکین کو جلد از جلد ان ریفرنس کے بارے میں فیصلے کرنے چاہئیں۔ کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا اس فیصلے سے مطمئن نہ ہونے والے فریق اس معاملہ کو یقینی طور پر اعلیٰ عدالتوں میں لے جائیں گے۔

بہرحال صورتحال کچھ بھی ہو یہ معاملہ اگلے انتخابات سے پہلے طے ہوجانا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کا سب سے اہم فریضہ اگلے انتخابات کو جو 2023ء میں منعقد ہونگے شفاف اور غیر جانبداری سے انعقاد کا ہے۔ پاکستان میں اب تک 1970 سے 11 کے قریب انتخابات منعقد ہوئے ہیں مگر 1970 میں منعقد ہونے والے انتخابات کے سوا تمام انتخابات متنازعہ رہے۔ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم سے پہلے الیکشن کمیشن انتظامی اور مالیاتی طور پر وفاقی حکومت کے زیر نگرانی تھا مگر 18ویں ترمیم کے ذریعہ الیکشن کمیشن انتظامی اور مالیاتی طور پر خودمختار ادارہ بن گیا ہے۔

سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم 2013 کے انتخابات کے دوران اس وقت مداخلت روکنے میں ناکام رہے۔ ایک بااثر شخصیت نے اپنے اختیارات سے تجاوزکرتے ہوئے پرائزیڈنگ اور ریٹرننگ افسران کو ہدایات جاری کیں۔ صدارتی انتخابی کی تاریخ کو یکطرفہ طور پر مسلم لیگ ن کے امیدوار کو فائدہ پہنچانے کے لیے تبدیل کرکے مقررہ تاریخ سے پہلے کردیا تھا۔ 18ویں ترمیم میں الیکشن کمیشن کی خود مختاری تو طے ہوگئی مگر قوائد و ضوابط کی رو سے چیف الیکشن کمشنر اور چاروں اراکین کے اختیارات مساوی ہوگئے تھے۔ جب فخر الدین جی ابراہیم نے اس مداخلت کو روکنے کے لیے فیصلے کا متن تحریرکیا تھا تو کسی رکن نے اس متن پر دستخط نہیں کیے تھے تو فخر الدین بے اختیار ہوگئے۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم انتخابات کے فوری بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے مگر بدقسمتی سے پارلیمنٹ نے ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا جس کی بناء پر معزز چیف الیکشن کمشنر مایوسی کا شکار ہوئے۔

گزشتہ عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید طریقوں کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ پہلی دفعہ ووٹرکو انتخابی فہرست میں اپنے نام کے اندراج کی اطلاع بذریعہ SMSملنے لگی۔ اسی طرح پولنگ اسٹیشن پرکروڑوں روپے سے کیمرے نصب کیے گئے۔ ووٹروں کی تصدیق کے لیے انگوٹھوں کے عکس لینے کی ٹیکنیک استعمال کی گئی۔ پریزائیڈنگ افسروں کو الیکشن کمشنر کے مرکزی کنٹرول روم تک فوری طور پر نتائج بھیجنے کے لیے آر ٹی ایس طریقہ رائج ہوا۔ پریزائیڈنگ افسروں کو اسمارٹ فون کے لیے پیغام بھیجنے کی تربیت دی گئی، مگر انتخاب والے دن نامعلوم قوتوں کی مداخلت سے آر ٹی ایس نظام ناکام ثابت ہوا۔ امیدواروں کے نمایندگان کے دستخطوں کے بغیر فارم 45جمع کیے گئے۔

حزب اختلاف نے انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا یوں پارلیمنٹ نے ایک کمیٹی قائم کردی تھی مگر حکومت کی عدم دلچسپی کی بناء پر یہ کمیٹی اپنے ٹرم آف ریفرنس ہی تیار نہ کرسکی۔ حزب اختلاف انتخابی دھاندلی کے معاملے پر اس طرح سیاست نہ کرسکی جس طرح تحریک انصاف کے قائدین نے گزشتہ انتخابات میں دھاندلیوں کے بارے میں کی تھی مگر الیکشن کمیشن کے سامنے سب سے اہم مسئلہ اگلے انتخابات کے شفاف انعقاد کا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں ''محکمہ زراعت'' اور نامعلوم افراد کا کردار خاصا بڑھ گیا تھا جس کی بناء پر جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طریقے مفلوج ہوگئے تھے۔ انتخابات کے ساتھ الیکشن کمیشن کی ساکھ داؤ پر لگ گئی تھی۔

موجودہ چیف الیکشن کمشنر کا تجربہ ایک بیوروکریٹ کا ہے۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ موجودہ انتظامی ڈھانچہ میں الیکشن کمیشن کی ضروریات کو کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے۔وہ پارلیمنٹ کے سامنے الیکشن کمیشن کے آزاد تشخص کی بحالی اورکارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے متعلقہ قوانین میں تبدیلیوں کے لیے تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پارلیمنٹ کی یہ ذمے داری ہوگی کہ وہ چیف الیکشن کمشنرکی معروضات پر فوری طور پر فیصلہ کرے۔ ریاست کے تمام اداروں کا فرض ہے کہ الیکشن کمیشن کو حقیقی طور پر غیر جانبدار ادارہ بنانے میں تعاون کریں۔ نئے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین سے اس ملک کے باشعور عوام کوکئی امیدیں وابستہ ہیں۔ اب نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ فیصلہ مستقبل کا مؤرخ کرے گا۔
Load Next Story