چین کو متاثر کرنے والا کرونا وائرس امریکا میں تیار ہوا
امریکی ادارے نے کہا ہے کہ 2015ء میں کرونا وائرس کی نئی قسم کسی اور مقصد کے لیے تیار کی گئی تھی
پوری دنیا میں فیس بک پر ایک پوسٹ زیرِ گردش اور زیرِبحث ہے کہ چین میں درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والا کرونا وائرس امریکی تحقیقی ادارے، سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) میں تیار کیا گیا تاہم سی ڈی سی کے ماہرن نے اس پوسٹ کی تردید کی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق 21 جنوری کو فیس بک پر ایک پوسٹ کی گئی تھی جو ہزاروں کی تعداد میں شیئر کی گئی۔ اس پوسٹ میں ایک پیٹنٹ کا حوالہ بھی دیا گیا تھا کہ 2015ء میں امریکی ادارے سی ڈی سی نے کرونا وائرس کی ایک نئی قسم تیار کی ہے اور اس کا پیٹنٹ بنایا تھا۔ اس کے بعد نظریہ سازش کے تحت لکھا گیا کہ یہ وہی تبدیل شدہ وائرس ہے جس نے چینی شہرووہان میں تباہی مچائی اور درجنوں افراد اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
یہ پڑھیں :چین کے پُراسرار وائرس کا یورپ میں بھی داخل ہونے کا قوی امکان
فیس بک پوسٹ کا مقصد یہ تھا کہ امریکی ادارے نے تجربہ گاہ میں جان بوجھ کر وائرس کو مزید خطرناک بنایا اور اسے چین میں چھوڑ دیا ہے یا پھر سی ڈی سی نے منافع کمانے کے لیے یہ وائرس مزید تبدیل کیا ہے۔
اس کے جواب میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں کرونا وائرس کے ماہر رالف بیرک نے کہا ہے کہ 'وہ پیٹنٹ 2003ء میں تباہی پھیلانے والے SARS-CoV کے متعلق تھی جو ووہان میں پھیلنے والے وائرس سے 25 فیصد تک مختلف ہے، اس کا مقصد 2003ء کے اس سارس وائرس کو سمجھنا تھا جس سے چین میں 700 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے'۔؎
ضرور پڑھیں :کرونا وائرس ہے کیا؟ 10 بنیادی سوالات کے جوابات
اس سے قبل خود چینی حکام بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ووہان میں نمونیا کی وجہ بننے والا وائرس بالکل نیا ہے جسے ایک الگ نام دیا گیا ہے اور یہ کسی بھی طرح سیویئر ریسپائریٹری اکیوٹ وائرس یا سارس کی طرح نہیں ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق 21 جنوری کو فیس بک پر ایک پوسٹ کی گئی تھی جو ہزاروں کی تعداد میں شیئر کی گئی۔ اس پوسٹ میں ایک پیٹنٹ کا حوالہ بھی دیا گیا تھا کہ 2015ء میں امریکی ادارے سی ڈی سی نے کرونا وائرس کی ایک نئی قسم تیار کی ہے اور اس کا پیٹنٹ بنایا تھا۔ اس کے بعد نظریہ سازش کے تحت لکھا گیا کہ یہ وہی تبدیل شدہ وائرس ہے جس نے چینی شہرووہان میں تباہی مچائی اور درجنوں افراد اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
یہ پڑھیں :چین کے پُراسرار وائرس کا یورپ میں بھی داخل ہونے کا قوی امکان
فیس بک پوسٹ کا مقصد یہ تھا کہ امریکی ادارے نے تجربہ گاہ میں جان بوجھ کر وائرس کو مزید خطرناک بنایا اور اسے چین میں چھوڑ دیا ہے یا پھر سی ڈی سی نے منافع کمانے کے لیے یہ وائرس مزید تبدیل کیا ہے۔
اس کے جواب میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں کرونا وائرس کے ماہر رالف بیرک نے کہا ہے کہ 'وہ پیٹنٹ 2003ء میں تباہی پھیلانے والے SARS-CoV کے متعلق تھی جو ووہان میں پھیلنے والے وائرس سے 25 فیصد تک مختلف ہے، اس کا مقصد 2003ء کے اس سارس وائرس کو سمجھنا تھا جس سے چین میں 700 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے'۔؎
ضرور پڑھیں :کرونا وائرس ہے کیا؟ 10 بنیادی سوالات کے جوابات
اس سے قبل خود چینی حکام بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ووہان میں نمونیا کی وجہ بننے والا وائرس بالکل نیا ہے جسے ایک الگ نام دیا گیا ہے اور یہ کسی بھی طرح سیویئر ریسپائریٹری اکیوٹ وائرس یا سارس کی طرح نہیں ہے۔