موسمیاتی تبدیلیاں عالمی معیشت کے لیے خطرہ
ہمیں ایسی توانائی استعمال کرنی چاہیے جس کو از سرنو دوبارہ استعمال کیا جا سکے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے ماہرین نے قرار دیا ہے کہ طویل مدتی بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلی سے عالمی معیشت کے لیے زبردست خطرہ پیدا ہو رہا ہے ۔ گلوبل رسک پرسیپشن سروے میں بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی بھی انسانوں کے علاوہ دیگر جانداروں کی صحت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
اس سروے کے مطابق اس خطرے کی نشاندہی کرنے والی تمام علامات میں موسمیاتی تبدیلیاں اولین نمبر پر ہیں جن کے اثرات میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی درجہ بندی کے مطابق دنیا کے مختلف خطوں میں اس خطرے میں درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے شارٹ ٹرم رسک یعنی کم مدتی خطرات بھی موجود ہیں۔
نوجوان پیشہ ور افراد اس خطرے کو زیادہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور وہ ماحولیاتی، سماجیات اور گورنرننس پر کارپوریٹ توجہ دینے کے حق میں ہیں جس سے عالمی پیداوار، سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔ تاہم اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ پانچ اقسام کے خطرات زیادہ نمایاں ہیں۔ ان سب کا تعلق بھی ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ہی ہے۔
مذکورہ ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر تمام عوامل سے سے کہیں زیادہ شدید ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالیہ پانچ برسوں میں ان تمام معاملات میں زیادہ شدت پیدا ہوتی رہی اور یہ زیادہ عالمی حدت کی عکاسی کرتا ہے۔ ریکارزڈ کے مطابق یہ صورت حال ماحولیات کے بارے میں ایک ایمرجنسی نافذ کرنے کا تقاضہ کرتی ہے کیونکہ اس معاملے میں جتنی زیادہ غفلت کی جائے گی اس کا نتیجہ اتنا ہی خراب برآمد ہو گا۔
بتایا گیا ہے کہ سوشل اور پولیٹیکل ٹینشن اور جیولوجیکل اثرات بھی حالات پر منفی اثرات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ دریں اثناء انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف فنانس نے اس حوالے سے ایک الگ رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ساری صورت حال اس قدر گھمبیر ہو گئی ہے جس کے سدباب کے لیے بھرپور طریقہ سے چہار اطراف سے کارروائیوں کی ضرورت ہے اور اگر پورے عزم کے ساتھ حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جائے تو کامیابی یقینی ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ہمیں ایسی توانائی استعمال کرنی چاہیے جس کو از سرنو دوبارہ استعمال کیا جا سکے ،گویا فوصل فیول انرجی جو ہم پچھلے کافی عرصہ سے پٹرول اور ڈیزل کے طور پر استعمال کر کے عملی طور پر ضایع کر رہے ہیں اس کے بجائے ونڈانرجی یا شمسی توانائی کا استعمال اپنے معمول میں شامل کر لیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ہمارے توانائی کے ذرایع کے استعمال میں اضافہ ہو جائے گا بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی واقع ہو جائے گی، گویا اس ایک مثبت اقدام سے دوہرے فوائد حاصل کیے جا سکیں گے۔
بہرحال ماحولیاتی تبدیلیاں اورماحولیاتی آلودگی کی تباہ کاریاں بتدریج ظاہر ہورہی ہیں۔انسان کی ہوس زر،قبضہ گیری اور اپنے سے کمزورکو غلام بنانے کی جبلت اورفطرت کے اصولوں کے برعکس اقدامات نے کرہ ارض کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
اس سروے کے مطابق اس خطرے کی نشاندہی کرنے والی تمام علامات میں موسمیاتی تبدیلیاں اولین نمبر پر ہیں جن کے اثرات میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی درجہ بندی کے مطابق دنیا کے مختلف خطوں میں اس خطرے میں درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے شارٹ ٹرم رسک یعنی کم مدتی خطرات بھی موجود ہیں۔
نوجوان پیشہ ور افراد اس خطرے کو زیادہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور وہ ماحولیاتی، سماجیات اور گورنرننس پر کارپوریٹ توجہ دینے کے حق میں ہیں جس سے عالمی پیداوار، سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔ تاہم اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ پانچ اقسام کے خطرات زیادہ نمایاں ہیں۔ ان سب کا تعلق بھی ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ہی ہے۔
مذکورہ ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر تمام عوامل سے سے کہیں زیادہ شدید ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالیہ پانچ برسوں میں ان تمام معاملات میں زیادہ شدت پیدا ہوتی رہی اور یہ زیادہ عالمی حدت کی عکاسی کرتا ہے۔ ریکارزڈ کے مطابق یہ صورت حال ماحولیات کے بارے میں ایک ایمرجنسی نافذ کرنے کا تقاضہ کرتی ہے کیونکہ اس معاملے میں جتنی زیادہ غفلت کی جائے گی اس کا نتیجہ اتنا ہی خراب برآمد ہو گا۔
بتایا گیا ہے کہ سوشل اور پولیٹیکل ٹینشن اور جیولوجیکل اثرات بھی حالات پر منفی اثرات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ دریں اثناء انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف فنانس نے اس حوالے سے ایک الگ رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ساری صورت حال اس قدر گھمبیر ہو گئی ہے جس کے سدباب کے لیے بھرپور طریقہ سے چہار اطراف سے کارروائیوں کی ضرورت ہے اور اگر پورے عزم کے ساتھ حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جائے تو کامیابی یقینی ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ہمیں ایسی توانائی استعمال کرنی چاہیے جس کو از سرنو دوبارہ استعمال کیا جا سکے ،گویا فوصل فیول انرجی جو ہم پچھلے کافی عرصہ سے پٹرول اور ڈیزل کے طور پر استعمال کر کے عملی طور پر ضایع کر رہے ہیں اس کے بجائے ونڈانرجی یا شمسی توانائی کا استعمال اپنے معمول میں شامل کر لیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ہمارے توانائی کے ذرایع کے استعمال میں اضافہ ہو جائے گا بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی واقع ہو جائے گی، گویا اس ایک مثبت اقدام سے دوہرے فوائد حاصل کیے جا سکیں گے۔
بہرحال ماحولیاتی تبدیلیاں اورماحولیاتی آلودگی کی تباہ کاریاں بتدریج ظاہر ہورہی ہیں۔انسان کی ہوس زر،قبضہ گیری اور اپنے سے کمزورکو غلام بنانے کی جبلت اورفطرت کے اصولوں کے برعکس اقدامات نے کرہ ارض کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔