روانگی یا التوا دیکھیے کیا ہو

نئے سال کی آمد آمد ہے، جنوری دروازے پر کھڑی دستک دے رہی ہے کہ میں 2014 ہوں اور ان ہی دنوںہم امریکی افغانستان سے ...

anisbaqar@hotmail.com

نئے سال کی آمد آمد ہے، جنوری دروازے پر کھڑی دستک دے رہی ہے کہ میں 2014 ہوں اور ان ہی دنوںہم امریکی افغانستان سے نکلنے کی تیاری میں مصروف ہیں، سامان باندھ رہے ہیں مگر جن راستوں سے چل کر ہم یہاں آئے ہیں وہاں خلفشار برپا ہے۔ کچھ چاہتے ہیں کہ ہم آسانی سے چلے جائیں جب کہ کچھ ہماری روانگی میں خلل ڈال رہے ہیں، ہمیں جانا تو ہے کیا دیر کیا سویر۔ ان کی بدنظمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں کچھ اور دنوں قیام کا بہانہ مل جائے گا، ویسے بھی ہم کون سا مکمل انخلا کرنے جارہے تھے۔ عذر لنگ تو پاکستان کے حکمراں مہیا کر رہے ہیں۔ کچھ یہی خیالات ہیں امریکی مدبروں کے۔ گزشتہ کئی کالموں میں پاکستان کے حکمرانوں کا تذکرہ کیا جاچکا ہے کہ جب وہ امریکا کو للکارتے ہیں تو وہ دراصل امریکا کو مخاطب نہیں کرتے بلکہ وہ پاکستانی قوم سے مخاطب ہوتے ہیں، ان کو جاہل اور ان کے حافظے کوکمزور سمجھتے ہوئے مخاطب ہوتے ہیں۔ زیادہ عرصے کی بات نہیں، بمشکل 8 دس دن ہوئے جب ہمارے ملک کے ایک حکومتی عہدے دار نے فرمایا تھا کہ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ تو اب کہاں گئی وہ نظر ثانی، بس ختم ہوئی وہ کہانی، رات گئی بات گئی، بلکہ اب تو کچھ عجیب و غریب ہونے کو ہے، پرائیویٹائزیشن کمیشن کے حوالے ملک کے اثاثے نیلام کیے جانے والے ہیں۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں وزارت خارجہ کا قلمدان وزیر اعظم کے پاس ہے، لہٰذا ایک وزیر کے بجائے تین تین مشیران تمام فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ڈرون حملوں کا شور مچا کر اور طالبان سے مذاکرات پر اے پی سی بلاکر عوام کو کنفیوز اور مایوس کرنا مقصود تھا، سو اس میں کامیابی حاصل ہوئی اور قوم جو بظاہر ایک نکتے پر متحد تھی ایک ڈرون حملے کے بعد ایسی منقسم ہوئی کہ شہادت کا مفہوم اور اس کا مطلب بھی تبدیل ہوکر رہ گیا، جس کو علامہ اقبال نے کچھ یوں فرمایا ہے:

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا


ہر ایک کا شہید الگ، اس کی نکتہ دانی بھی، ہر ایک کی الگ وضاحت ہے، اسی لیے ہر مکتبہ فکر نے شہادت کی اپنی تشریح کر رکھی ہے۔ اے پی سی آخر کار اس نہج پر آن پہنچی کہ جماعت اسلامی جو اسٹیبلشمنٹ کا اہم نظریاتی ستون تھا وہ الگ ہوگیا۔ جماعت اسلامی نے جب مشرقی پاکستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا ایک طرف پاک افواج دوسری جانب مکتی باہنی نبرد آزما تھے تو جماعت اسلامی پاک فوج کے ہمراہ ہم رکاب تھی،بھارت سے 1994 میں آنے والے بہاریوں کو اپنا ہمنوا بنایا اور جماعت اسلامی نے اس جنگ میں ان کو استعمال کیا گوکہ ترقی پسند گروپ اس کے خلاف تھے مگر جماعت اسلامی نے فوج کی حمایت میں پارٹی کو جھونک دیا اور مشرقی پاکستان میں اس جماعت کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ مظالم کی آنچ ان پر بھی آئی اور آج بھی بنگلہ دیش میں اس پارٹی پر عتاب نازل ہے ۔ یہ رفاقت کیوں ختم ہوئی، محض اس لیے کہ پارٹی نے صحیح تجزیہ نہ کیا کہ مستقبل میں کیا ہونے کو ہے ؟ اے پی سی نے نہ کوئی اپنا ہوم ورک کیا تھا کہ اس کانفرنس میں کیا دینا ہوگا اور کیا لینا ہوگا۔

کیا کچھ مطالبات ماننے ہوں گے اور کیا کچھ منوانا ہوگا، اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ حالت ابہام میں لین دین کیا معنی، نہ خریدار کو معلوم کیا خریدنا ہے، نہ بیچنے والے کو معلوم کس بھاؤ دینا ہے۔ اعتماد کا فقدان دونوں طرف تھا۔ اس کی اصل وجہ ہم امریکا کے ساتھی وار آن ٹیرر میں ہیں، لہٰذا اب گفتگو ایک ایسی کروٹ لے چکی ہے جہاں معاملات پاکستان کی مذہبی پارٹیوں کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن صاحب تمام حکومتوں میں حصہ دار رہے ہیں اور دو طرفہ گفتگو کے اہم رکن ان پر طالبان بالکل اعتماد نہیں کرتے۔ رہ گیا جماعت اسلامی کا تو ان کی نظریاتی اساس ہے ہم اختلاف کریں یا اتفاق، طالبان کی خاطر جماعت نے شہری ووٹ بینک کا خطرہ مول لیا، لہٰذا اس کی دل برداشتگی یقینی تھی۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت اسلامی طالبان کو ملک کے اندر موجود مختلف فقہی اکائیوں کو ہدف بنانے سے نہ روک سکی جب کہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی مسالک کی تفریق کو اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے یہ روایت میں مشہور شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی سے رقم کر رہا ہوں جو ان کے جوانی کے دوست تھے۔

زمانہ طالب علمی میں منور حسن صاحب سے 8 اکتوبر 1968 کو آدم جی سائنس کالج میں ملاقات ہوئی، جب این ایس ایف نے ایوب خان کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا عزم کیا، ان دنوں میں این ایس ایف کا جنرل سیکریٹری تھا تو معاملات کا اندازہ اشتراک عمل پر ہوا کہ منور حسن کا موقف سخت گیر تھا، خصوصاً نصاب تعلیم کے مسئلے پر اور جلوسوں میں نعروں پر ۔ سرخ ہے اور سبز ہے کے نعرے نہیں لگیں گے۔ بہرصورت ان دنوں جوانی تھی مگر لچک تھی، مگر آج لچک نظر نہیں آتی۔ چلیے یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے مگر کوئی فکر تو ہے جس کو وہ اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، منور حسن ڈرون حملے کو ہی تمام معاملات کا قاتل سمجھتے ہیں۔ درحقیقت ان کے ساتھ جو لیڈران ہم رکاب تھے ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بغیر کسی فائدے کے کام نہیں کرتے، ہر عمل کے پس پشت ان کا مفاد موجود ہوتا ہے مثلاً زرداری حکومت کو جمہوریت کا اعلیٰ دور کہا جاتا ہے، پاکستان کا نمایاں دور جس میں میونسپل انتخابات نہ ہوئے، بلدیاتی افراتفری ہوتی رہی اور اس کے وزیر موصوف بھی موجود تھے۔ اس حکومت نے جس نے پنجاب سے سب سے زیادہ سیٹیں لیں مگر وہ بھی سپریم کورٹ کی ہدایات پر بلدیاتی انتخابات کرانے پر بمشکل آمادہ ہوئے اور پنجاب کے ارباب اختیار بھی غیر سیاسی انتخاب کرانا چاہتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کا احوال کچھ اور نرالا ہے، 20 نومبر سے نیٹو سپلائی کو بند کرنے کو کہا ہے محض کہنا ہی تو ہے، معلوم نہیں یہ بھی ان سے پوچھ کر تو نہیں جیساکہ ڈرون حملے تاکہ ووٹ بینک اور مضبوط ہو اور اسی کو بہانہ بناکر کچھ اور کچھ روز امریکا کو طعام و قیام کا موقع ملے اور کے پی میں پی ٹی آئی کو مزید قدم جمانے کا موقع ملے مگر اس وقت طالبان کی قیادت سخت گیر ہے اور مرکزیت پر یقین رکھتی ہے، تمام فیصلے غور و فکر کے بعد کیے جاتے ہیں جب کہ پاکستانی سیاست دان جو خود کو اسٹیک ہولڈر کہتے ہیں تفکر سے خالی اور اجتماعی لائن آف ایکشن سے دور ہیں۔ اس لیے مستقبل قریب میں طالبان سے گفتگو کے وقت کا تعین ممکن نہیں۔ اب گفتگو کے لیے وقت طالبان مقرر کریں گے ۔ دراصل امریکی افواج کی روانگی کے بعد سیاسی مطلع صاف ہوگا تو صورت حال واضح ہوگی مگر یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان کے معاشی اور سیاسی اہداف آئی ایم ایف کے تابع ہیں۔ رہ گیا امریکی افواج کی روانگی کا تو حالات یہ بتا رہے ہیں کہ اس میں کچھ التوا نظر آتا ہے اور بصارت کا اہم کردار بھی نمایاں۔
Load Next Story