بلدیاتی الیکشن اور جمہوریت

سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن جنوری میں ہوں گے۔سپریم کورٹ نے نے الیکشن کمیشن کا...

سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن جنوری میں ہوں گے۔سپریم کورٹ نے نے الیکشن کمیشن کا خط درخواست میں بدل دیا۔چلیے کچھ تو مہلت ملی۔

قبل ازیں بلدیاتی الیکشن ملتوی کرانے کے لیے قومی اسمبلی میں سب نے مل کر ایک اور قرارداد منظور کرلی، تمام جماعتوں کا متفقہ طور پرکہنا تھاکہ اتنی کم مدت میں الیکشن کا انعقاد ناممکن ہے کیونکہ اگر جلد بازی میں الیکشن کرائے گئے تو یہ آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جمہوریت کے دعوے داروں کا اب بھی کہنا ہے کہ اگر اتنی عجلت میں الیکشن کرائے گئے تو الیکشن کی وجہ سے جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اور اس کی وجہ سے شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخاب کے نظریے کو ٹھیس پہنچے گی اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کی اپنی دکھ بھری کہانی ہے کہ مختصر مدت میں الیکشن کی تیاری ناممکن بات ہے بیلٹ پیپرکی چھپائی، افسران کی ٹریننگ وغیرہ کا بندوبست نہیں ہوسکتا بلکہ ناممکن ہے کیونکہ اگر سات لاکھ بیلٹ پیپر بھی روزانہ چھاپے گئے جب بھی ملک بھر کے لیے چھپائی ناممکن ہے ان تمام باتوں سے قطع نظر اصل بات یہ ہے کہ ہماری صوبائی حکومتیں بہت لیت ولعل سے کام لے رہی ہیں ان کا قطعی ارادہ نظر نہیں آتا کہ وہ الیکشن کروانے میں سنجیدہ ہیں۔

جمہوری روایات کی علم بردار پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالہ دور میں بلدیاتی الیکشن نہیں کرواسکی بلکہ سندھ میں بلدیاتی نظام کا دوہرا نظام متعارف کروا کر ایک الگ سیاپا ڈلوا چکی ہے جس کی باز گشت باقی ہے جس پر سندھ کے قوم پرستوں نے واویلا مچا کر اور ہڑتالیں کرکے اپنے موقف کو بیان کیا تھا حالانکہ اگر دیکھا جائے تو بلدیاتی نظام جمہوری طرز عمل کی بنیاد ہوتا ہے اور اسی طریقے سے مقامی سطح پر اختیارات کی تفویض کرکے عمومی مسائل کا فوری اور دیرپا حل نکالا جاتا ہے لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہمارے سیاست دان راگ تو جمہوریت کا الاپتے ہیں لیکن عوامی مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں اور عوامی سطح پر اختیارات کی تقسیم کے سخت خلاف نظر آتے ہیں ۔


اسی لیے ان سیاست دانوں کی اکثریت بلدیاتی نظام کو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور اپنے آمرانہ فیصلوں کو عوام پر تھوپے جانے کے لیے استعمال کرنے کے نظریے پر عمل پیرا ہے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کے بیشتر شہر بربادی کا ماتم کرتے نظر آرہے ہیں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور ابلتے ہوئے گٹر اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہیں سڑکیں آثار قدیمہ سے تعلق رکھتی ہیں تو اسٹریٹ لائٹ بجلی کی دہائی دے رہی ہیں ۔گلی گلی کچرا کنڈی بن چکی ہے کیونکہ عوام کے نمایندے تو اسمبلیوں میں بیٹھے دوسری لایعنی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں انھیں عوام کے مسائل سے کیا دل چسپی ہوسکتی ہے بلکہ وہ تو قراردادیں منظور کرکے اس آفت ناگہانی کو ٹالنے کی فکر میں ہیں۔ (ن) لیگ کا تو وہ حال ہے کہ سر منڈواتے ہی اولے پڑ گئے کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمیشہ جمہوری حکومتوں نے ہی منتخب بلدیاتی نظام کی اہمیت سے انکار کیا ہے اور وجہ وہی ہے کہ اس نظام کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کے اختیارات میں کمی آرہی تھی۔

اس لیے پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں ناظمین کے اس موثر نظام کے خلاف اندرون خانہ سازشوں کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے دور حکومت میں تو اس نظام کو نہ لانے میں کامیاب رہے کیونکہ اس نظام کے ذریعے خواتین، اقلیتوں، مزدوروں، کسانوں کی نمایندگی سے پس ماندہ طبقات کو احساس تحفظ حاصل ہوتا تھا بلکہ اختیارات کی تقسیم سے علاقے کے لوگوں کے درمیان ہی نمایندے کی موجودگی سے منتخب نمایندوں میں احساس ذمے داری پیدا ہوتا تھا۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے منتخب نمایندوں کے پاس پہنچ سکتے تھے کیونکہ نمایندے بھی ان ہی طبقات ان ہی برادریوں ان ہی لوگوں میں سے تھے تو ان کو بخوبی ادراک تھا کس حد تک مسائل جائز ہیں اور کس طرح ان کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ جن جن علاقوں میں ان نمایندوں کی وجہ سے حالات بہتر ہورہے تھے تو وہاں کی موروثی اور خاندانی حکمرانی کے دعویداروں کے لیے خطرات بڑھ رہے تھے کہ متوسط طبقے کی سیاست میں بالادستی نہ بڑھ جائے اس سے پہلے یہ مرض عام ہو اس کو جڑ سے ہی اکھاڑ دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری مگر عدلیہ کے حکم نے ان ایوانوں میں تھرتھلی مچا دی اب مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے کوششیں کی جارہی ہیں کہ یہ بلا ٹلی رہے۔

اس میں ہی سب کا فائدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی باتوں پر سب ایک ہوجاتے ہیں۔ بلدیاتی نظام کے مخالفین کہتے ہیں کہ اس سے کرپشن کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلدیاتی نظام میں بہت ساری خرابیاں ہوسکتی ہیں مگر اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ عوام کے نمایندے عوام کی دسترس میں ہوتے ہیں اور جس وقت لوگوں کو ضرورت پڑتی ہے وہ ناظمین، کونسلرز میں سے کسی سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ جس کی بنا پر صوبائی حکومتیں ناظمین کی مخالف ہیں وہ یہ ہے کہ ناظمین صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں نہیں ہوتے ان کو پریشرائز کرنا مشکل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی نظام کی مخالفت کی جارہی ہے۔ سندھ ہو یا پنجاب، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخواہ وہاں عوام کی نظر میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کی وجہ سے سیاسی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے عوام اپنے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے حکومتوں سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں۔

وفاقی حکومت کی 4 مہینے کی کارکردگی اظہر من الشمس ہے اس لیے بلوچستان کے سردار ہوں یا پنجاب کے خادم اعلیٰ، سندھ کے جیالے ہوں یا سونامی کے حامی سب کمشنری نظام کی حمایت میں سب کچھ کھل کر حمایت کر رہے ہیں تو کچھ درپردہ، مگر موقف سب کا وہی ہے کہ اقتدار نچلی سطح پر منتقل نہ کیا جائے کیونکہ کمشنری نظام میں کمشنر کو قابو کرنا ان حکومتوں کے لیے آسان ہے یہی جمہوریت کے ٹھیکیداروں کی آمرانہ سوچ ہے جو بلدیاتی الیکشن کو رکوانیکے لیے کوشاں ہیں کیونکہ ابھی تو بقول ان کے حلقہ بندیوں کا کام بھی باقی ہے۔ سیاسی ضرورتوں کے لیے نئی حلقہ بندیوں کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگر الیکشن مقررہ تاریخوں پر نہ ہوسکے تو دیر سے ہی سہی، مگر الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ الیکشن منعقد کروائے۔ شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کو ممکن بناکر اختیارات کو نچلی سطح پر تقسیم کیا جائے تاکہ علاقے کے حقیقی نمایندے اپنے اپنے علاقوں کی درستگی کے لیے کام کرسکیں۔
Load Next Story