خبردار میڈیا سے دور رہیں

وزیراعظم اکثر میڈیا سے ناراض رہتے ہیں اور وفاقی وزرا صحافیوں اور اینکر پرسنز سے نالاں ہیں

وزیراعظم نے مشورہ دیا ہے کہ عوام اخبار پڑھیں نہ ٹاک شوز دیکھیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ (فوٹو: فائل)

ہماری شامت اعمال کی وجہ سے اللہ نے ہم پر ایسے حکمران مسلط کردیے ہیں جو ملک و قوم تو کیا، اپنے بارے میں بھی کم ہی سوچتے ہیں۔ کوئی حرکت کرتے ہوئے یا بیان داغتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہماری اس حرکت یا گفتگو سے ملک و قوم کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا۔ ملک و قوم کو تو چھوڑیے، یہ تو اپنے بارے میں بھی نہیں سوچتے کہ ان کی یہ حرکت ہماری خود ان کی ذات کےلیے کتنی نقصان دہ ثابت ہوگی اور اس کے نتیجے میں کتنی تنقید ہوسکتی ہے؟ وزیراعظم سمیت تمام وزرا کا یہی حال ہے۔

آئے روز وزرا ایسے بیانات داغتے رہتے ہیں جن سے قوم پریشان اور دنیا محظوظ ہوتی ہے۔ ایک وزیر کہتا ہے عوام نے نومبر دسمبر میں روٹی زیادہ کھائی ہے اس لیے آٹے کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ دوسرا وزیر کہتا ہے روٹی کی قیمت نہیں بڑھانے دیں گے، چاہے وزن کم کرلو۔ ایسی عجیب و غریب منطق اور غیر سنجیدگی و غیر ذمے داری آپ کو دنیا میں کہیں سننے کو نہیں ملے گی۔ اب وزیراعظم صاحب نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ عوام اخبار پڑھیں نہ ٹاک شوز دیکھیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔

بات تو نہایت بے تکی ہے لیکن کہی انہوں نے اپنے مفاد میں ہے۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ میڈیا ہی وہ ذریعہ ہے جو عوام تک نہ صرف مفید معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ حکومت کی نااہلیوں سے بھی نقاب اٹھاتا ہے۔ اب گھر بیٹھے عوام خود تو ہر واقعہ سے آگاہ نہیں ہوسکتے، لہٰذا میڈیا ہی وہ ذریعہ ہے جو عوام تک خبریں پہنچاتا ہے اور عوام میں شعور بیدار کرتا ہے۔

عوام تک حقیقت کو پہنچانا میڈیا کی اہم ترین ذمے داری ہے جسے ہمارا ملکی میڈیا بخوبی انجام دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم اکثر میڈیا سے ناراض رہتے ہیں اور وفاقی وزرا صحافیوں اور اینکر پرسنز سے نالاں ہیں۔ ان کا بس چلے تو میڈیا پر پابندی عائد کردیں۔ بس ایک ہی چینل ہو جو ہر وقت حکومت کی تعریف میں رطب اللسان رہے۔ حکومت سیاہ کرے یا سفید، وہ عوام کو بہلاتا رہے۔

وزیراعظم صاحب کا بس نہیں چلا کہ وہ میڈیا پر پابندی لگادیں، تو وہ عوام کو مفت مشورہ دیتے ہوئے دل کی بات زبان پر لے ہی آئے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر عوام ان کی بات مان لیں اور میڈیا سے دور رہیں تو ان کی نااہلیوں اور نالائقیوں پر پردہ پڑا رہے گا اور عوام ان کی تمام حرکات سے بے خبر رہیں گے۔ جس سے انہیں کھل کر من مانی کا موقع میسر آئے گا۔ حقیقت یہی ہے کہ عوام نے تو ان پر بہت زیادہ اعتماد کرکے ووٹ دیے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے عوام سے وعدے ہی اتنے زیادہ کیے تھے کہ عوام کو ان سے بہتر شخص جو ان کے مفاد کےلیے کام کرے، دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ عوام کو اتنے سبز باغ دکھانے کے بعد جب وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو انہوں نے اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہ کیا اور قوم سے جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ کہتے ہیں معیشت درست سمت جارہی ہے۔ حالانکہ دن بدن غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑتے جارہے ہیں۔ کاروبار تباہ ہورہے ہیں، سرمایہ کاری میں کمی آرہی ہے۔

کرپشن کی حالت یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگیا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ملک کا دس سال سے کم ہوتا کرپشن انڈیکس 33 سے بڑھ کر 32 ہوگیا ہے اور عالمی رینکنگ میں 117 سے 120 تک کمی ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ کی سفارشات میں بھی صحافیوں کو تحفظ دینے کا کہا گیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم عوام کو صحافیوں سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔


پی ٹی آئی حکومت نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ حالانکہ انہی رپورٹوں کی بنا پر گزشتہ ادوار میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اس وقت کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ انہیں برملا کرپٹ، چور اور ڈاکو جیسے القابات سے پکارتے رہے ہیں۔ اب جب اسی ادارے کی رپورٹ ان کے خلاف آئی تو انہیں اس ادارے کی شفافیت میں شک ہونے لگا ہے۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشل پاکستان کے سربراہ کو 'ن لیگ' نے نوازا اور انہوں نے ن لیگ کو پذیرائی بخشی۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر نوازنے اور پذیرائی بخشنے کی بات درست ہے تو آپ کو 'ن لیگ' کے دور میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حکومت مخالف رپورٹوں پر دھواں دار تقریریں کرنے کا موقع کیسے ملا؟

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے میڈیا کی تنقید کا سامنا ہے مگر وہ غیر جانبدار ہوکر جائزہ لیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ تمام حکومتوں کو ہی غلط پالیسیوں پر میڈیا کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میڈیا کو آپ کی حکومت سے کوئی خاص دشمنی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کے دور حکومت میں حکومتی اراکین زیادہ غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرکے میڈیا کو تنقید کا زیادہ موقع فراہم کررہے ہیں۔ شاید نہ چاہتے ہوئے بھی آئے روز ان سے ایسی حرکات سرزد ہوجاتی ہیں جو ان کےلیے جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں۔ جب میڈیا پر یہ حرکات خبروں کی زینت بنتی ہیں اور ان پر تنقید ہوتی ہے تو وزرا اپنی اصلاح کرنے کے بجائے میڈیا پر تنقید شروع کردیتے ہیں۔

ظاہر ہے حکومت کے عجیب و غریب بیانات اور حرکات میڈیا کے ذریعے ہی عوام تک پہنچتی ہیں اور میڈیا ہی عوام کو ان کے منتخب نمائندوں کا اصل چہرہ دکھاتا ہے۔ اس لیے وزیراعظم نے عوام کو میڈیا سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔ اخبارات پڑھنے اور ٹاک شوز دیکھنے کا تذکرہ خصوصیات کے ساتھ کیا ہے۔ کیونکہ عوام تک خبریں زیادہ تر اخبارات کے ذریعے پہنچتی ہیں، جبکہ ٹاک شوز میں ان خبروں پر تبصرہ ہوتا ہے اور ماہرین حکومت کی کارکردگی پر اپنی آرا دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں جبکہ حکومت کی کارکردگی بالکل صفر ہے تو ایسی صورت میں ٹاک شوز میں حکومت پر ماہرین کی طرف سے کڑی تنقید ہوتی ہے جس سے حکومت پریشان رہتی ہے۔

اس تنقید سے بچنے کا طریقہ یہ بھی تو ہے کہ آپ اپنی کارکردگی بہتر بنالیں تاکہ عوام نتائج دیکھیں تو میڈیا بھی آپ پر تنقید نہیں کرے گا۔ لیکن انہوں نے تنقید سے بچنے کےلیے شارٹ کٹ استعمال کرنے کی کوشش کی کہ میڈیا سے ہی دور رہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی شعور کی کمی ہے۔ اب میڈیا کی وجہ سے جو تھوڑا بہت شعور عوام میں آرہا ہے، وزیراعظم اس اہم ترین ذریعے کا ہی سدباب کرنا چاہتے ہیں کہ نہ عوام میں شعور بیدار ہو اور نہ ہی حکومتی پالیسیوں پر تنقید ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story