نابغہ روزگار قتیل شفائی دوسرا اور آخری حصہ
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی<br />
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
PESHAWAR:
ہمارے ممدوح کا اصل نام محمد اورنگزیب تھا لیکن انھیں شہرت عام اور بقائے دوام ان کے تخلص اور قلمی نام ''قتیل شفائی'' سے ہی حاصل ہوئی، جس کے نتیجے میں دنیا انھیں محمد اورنگزیب کے نام سے جاننے کے بجائے قتیل شفائی کے نام سے پہچانتی اور مانتی ہے۔ یہ قلمی نام انھوں نے 1938 میں اختیار کیا تھا جس نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچا کر لافانی بنا دیا ہے۔
قتیل صاحب نے مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شاعری میں تو خوب پیروی کی لیکن تخلص کی تبدیلی میں ان کی تقلید سے صریحاً انحراف کیا۔ مرزا غالب کو شاعری سے زیادہ اپنے آبا کے پیشہ سپہ گری پر ناز تھا حالانکہ انھیں تمام شہرت ان کی شاعری ہی کی بدولت حاصل ہوئی۔ قتیل شفائی کا گھرانہ ایک عام سے تاجرکا گھرانہ تھا، جس میں دور پرے کا بھی کوئی شخص شاعرانہ ذوق توکجا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، مگر قتیل شفائی صاحب اس بات کے معترف رہے۔ شاعری نے ہی ان کے گھرکا چولہا بھی گرم رکھا اور اسی نے ہی ان کا نام بھی روشن کیا۔
1935 میں ان کے والد کی وفات کے بعد جب گھر کی کفالت کا بار ان کے کاندھوں پر آن پڑا تو حالات کے جبر کے تحت قتیل صاحب کو اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے کھیلوں کے سامان کی فروخت کا کاروبار شروع کرنا پڑا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ جس کے بعد انھوں نے راولپنڈی شہر کا رخ کیا جہاں وہ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی سے منسلک ہوگئے لیکن ناکامی نے یہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ انجام کار 1946 میں وہ لاہور سے 1936 سے شایع ہونے والے ماہانہ ''ادب لطیف'' کے مدیر نذیر احمد کے اصرار پر اس ادبی رسالے کے نائب مدیر کے طور پر وابستہ ہوگئے بالآخر انھوں نے 1947 میں بہ حیثیت نغمہ نگار لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کرلی۔ گویا ''پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا'' فلمی دنیا انھیں بہت راس آئی اور بس پھر تا حیات وہ اس کے ہوکر رہ گئے۔
ہمارے ساتھ ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس کے لیے انٹرویو کے موقعے پر آف دی ریکارڈ غیر رسمی بے تکلف گفتگو کے دوران قتیل شفائی نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ وہ اس بات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں گے کہ الیکٹرانک میڈیا سے نشر کیے جانے والے فلمی نغموں کی رائلٹی کی ادائیگی کا کوئی معقول نظام رائج نہیں جو نغمہ نگار، گلوکار اور سنگیت کار کے ساتھ سراسر حق تلفی اور ظلم ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے برملا اور برجستہ اپنا یہ مشہور شعر پرزور انداز میں پڑھا:
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
جب ہماری ترقی کے بعد ہمیں حیدرآباد میں ریڈیو پاکستان کا اسٹیشن ڈائریکٹر تعینات کیا گیا تو گویا سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے۔ اس وقت صوبہ سندھ میں لسانی محاذ آرائی کی وجہ سے حیدرآباد شہر میں بھی کشیدگی اپنے عروج پر تھی جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سندھی زبان کی اپنی مادری و قومی زبان اردو کی طرح بے لوث خدمت اور آبیاری کرنے والے عظیم شاعر، ادیب، دانشور اور تعصب سے ناآشنا ریڈیو پاکستان، حیدرآباد کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر، جناب الیاس عشقی کو قاسم آباد سے نقل مکانی کرکے لطیف آباد میں مقیم ہونے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔ ہمارا مسئلہ بھی یہی تھا کہ لفظ تعصب ہماری ڈکشنری میں کبھی بھی شامل نہیں رہا۔ چنانچہ ہماری مشکل یہ تھی کہ بقول شاعر:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
مگر دنیا انسان دوست اور امن و آشتی پسند دوستوں سے چونکہ کبھی خالی نہیں رہی اس لیے ہم نے اپنے ہم خیال اور مخلص دوستوں کے تعاون سے شہر حیدرآباد کی فضا کو خوشگوار اور پرامن بنانے کا قصد کیا اور کمشنر حیدرآباد جناب عبدالغفار سومرو، وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی جی الانہ، سرگرم رکن فاران کلب حیدرآباد جناب نذر محمد قریشی، انجینئر و سماجی کارکن کے تعاون سے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے زیر سایہ کل پاکستان عظیم الشان بین الصوبائی اور کل لسانی محفل مشاعرے کا دیال داس کلب حیدرآباد میں انعقاد کیا جس کے مہمان خصوصی جنرل (ر) معین الدین حیدر، گورنر سندھ اور صدر مشاعرہ محترم قتیل شفائی صاحب تھے۔
اس خاکسار کی دعوت پر قتیل صاحب نے نہایت عنایت و شفقت کے ساتھ لبیک کہا اور یوں ہمیں اپنے ممدوح کے ساتھ چند یادگار گھڑیاں گزارنے کا بہانہ اور سنہری موقع میسر آیا۔ اس وقت ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ قتیل شفائی سے یہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہوگی۔ اس مختصر سے قیام کے دوران نہ صرف بہت سی دل کی باتیں بھی ہوئیں اور قتیل صاحب کی زندگی اور شخصیت کے بہت سے گوشے بھی وا ہوئے۔ قتیل بہت ہشاش بشاش اور صحت مند تھے۔ خوش مزاجی، سادگی، ملنساری، پابندی سے ورزش اور کوئی غم نہ پالنا ان کی صحت اور طویل عمری کا راز تھا۔ شان بے نیازی ان کی شخصیت کا بنیادی وصف تھا۔ سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر قتیل کی عظیم شخصیت کی ترجمانی و عکاسی کرتا ہے:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
قتیل صاحب ہو بہ ہو ایسے ہی تھے۔ خلیق و شفیق، مرنجان مرنج اور درویش صفت۔ ان سے ملاقات میرا گرانقدر سرمایہ حیات ہے۔ قتیل صاحب نے اپنی علمی اور فلمی شاعری سے ادبی اور فلمی دنیا میں ایک دھوم مچا دی۔ انھیں خواص و عوام میں یکساں پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے دنیائے سخن میں اپنا ایک انوکھا اور منفرد مقام پیدا کیا۔ وہ اپنے اسلوب اور لب و لہجے کی بنا پر اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے علمی اور فلمی دنیا کو ایک نئے انداز اور آہنگ سے روشناس کرایا جو حسن بیان اور غنائیت کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ نغمگی اور موسیقیت ان کے کلام کا جوہر خاص اور اصل روح ہے جو سننے والے کے دل کو موہ لیتی ہے۔
دھن چونکہ ان کی شاعری کے خمیر میں شامل ہوتی ہے اس لیے کمپوزر کو ان کے تخلیق کیے ہوئے نغموں کی طرز بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ گلوکار یا گلوکارہ کی سریلی آواز سونے پر سہاگہ کا کام کرتی ہے۔ نئے کلام کو دو آتشہ بنا دیتی ہے۔ چنانچہ اقبال بانو جیسی سریلی گلوکارہ کی آواز نے ان کے کلام کو چار چاند لگا دیے جس میں ''الفت کی نئی منزل کو چلا'' ، ''پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ'' اور ''حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں'' جیسے جادو بھرے سدا بہار شاہکار شامل ہیں جنھوں نے نہ صرف پاکستان میں دھوم مچا دی بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کردیے اور لتا منگیشکر جیسی نابغہ روزگار گلوکارہ کو بھی خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور کردیا۔
قتیل شفائی کی شاعری شعری محاسن سے معمور اور انداز بیاں کی نزاکتوں سے بھرپور ہے جسے بار بار سننے اور پڑھنے کے بعد بھی تشنگی میں کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ انگریزی کے ممتاز شاعر جون کیٹس نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ: "A thing of beauty is a joy ever" ترجمہ: ایک حسن کا شاہکار سدا بہار مسرت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔'' مثال کے طور پر قتیل صاحب کے یہ لازوال اشعار ملاحظہ فرمائیں اور داد پر داد دیتے چلے جائیں:
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
٭٭
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے تِرا نام مرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی ایک قادرالکلام شاعر تھے جنھیں صرف غزل گوئی اور نغمہ نگاری ہی پر نہیں بلکہ دیگر اصناف سخن مثلاً دوہا نگاری، نظم گوئی، قطعہ نگاری اور مزاحیہ شاعری پر بھی یکساں عبور حاصل تھا۔ نمونے یا تبرک کے طور پر درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں اور داد دے کر خراج تحسین پیش کریں:
مزاحیہ کلام
پولیس
اب پولیس بیٹھ جا وہاں جاکر
سارا فتنہ جہاں سے اٹھتا ہے
چرس کی بُو تجھے بتا دے گی
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
٭٭
قطعہ
بڑا متصف ہے امریکا اسے اللہ خوش رکھے
بزعم خویش وہ سب کو برابر پیار دیتا ہے
کسی کو حملہ کرنے کے لیے دیتا ہے میزائل
کسی کو ان سے بچنے کے لیے راڈار دیتا ہے
ہمارے ممدوح کا اصل نام محمد اورنگزیب تھا لیکن انھیں شہرت عام اور بقائے دوام ان کے تخلص اور قلمی نام ''قتیل شفائی'' سے ہی حاصل ہوئی، جس کے نتیجے میں دنیا انھیں محمد اورنگزیب کے نام سے جاننے کے بجائے قتیل شفائی کے نام سے پہچانتی اور مانتی ہے۔ یہ قلمی نام انھوں نے 1938 میں اختیار کیا تھا جس نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچا کر لافانی بنا دیا ہے۔
قتیل صاحب نے مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شاعری میں تو خوب پیروی کی لیکن تخلص کی تبدیلی میں ان کی تقلید سے صریحاً انحراف کیا۔ مرزا غالب کو شاعری سے زیادہ اپنے آبا کے پیشہ سپہ گری پر ناز تھا حالانکہ انھیں تمام شہرت ان کی شاعری ہی کی بدولت حاصل ہوئی۔ قتیل شفائی کا گھرانہ ایک عام سے تاجرکا گھرانہ تھا، جس میں دور پرے کا بھی کوئی شخص شاعرانہ ذوق توکجا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، مگر قتیل شفائی صاحب اس بات کے معترف رہے۔ شاعری نے ہی ان کے گھرکا چولہا بھی گرم رکھا اور اسی نے ہی ان کا نام بھی روشن کیا۔
1935 میں ان کے والد کی وفات کے بعد جب گھر کی کفالت کا بار ان کے کاندھوں پر آن پڑا تو حالات کے جبر کے تحت قتیل صاحب کو اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے کھیلوں کے سامان کی فروخت کا کاروبار شروع کرنا پڑا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ جس کے بعد انھوں نے راولپنڈی شہر کا رخ کیا جہاں وہ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی سے منسلک ہوگئے لیکن ناکامی نے یہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ انجام کار 1946 میں وہ لاہور سے 1936 سے شایع ہونے والے ماہانہ ''ادب لطیف'' کے مدیر نذیر احمد کے اصرار پر اس ادبی رسالے کے نائب مدیر کے طور پر وابستہ ہوگئے بالآخر انھوں نے 1947 میں بہ حیثیت نغمہ نگار لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کرلی۔ گویا ''پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا'' فلمی دنیا انھیں بہت راس آئی اور بس پھر تا حیات وہ اس کے ہوکر رہ گئے۔
ہمارے ساتھ ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس کے لیے انٹرویو کے موقعے پر آف دی ریکارڈ غیر رسمی بے تکلف گفتگو کے دوران قتیل شفائی نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ وہ اس بات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں گے کہ الیکٹرانک میڈیا سے نشر کیے جانے والے فلمی نغموں کی رائلٹی کی ادائیگی کا کوئی معقول نظام رائج نہیں جو نغمہ نگار، گلوکار اور سنگیت کار کے ساتھ سراسر حق تلفی اور ظلم ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے برملا اور برجستہ اپنا یہ مشہور شعر پرزور انداز میں پڑھا:
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
جب ہماری ترقی کے بعد ہمیں حیدرآباد میں ریڈیو پاکستان کا اسٹیشن ڈائریکٹر تعینات کیا گیا تو گویا سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے۔ اس وقت صوبہ سندھ میں لسانی محاذ آرائی کی وجہ سے حیدرآباد شہر میں بھی کشیدگی اپنے عروج پر تھی جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سندھی زبان کی اپنی مادری و قومی زبان اردو کی طرح بے لوث خدمت اور آبیاری کرنے والے عظیم شاعر، ادیب، دانشور اور تعصب سے ناآشنا ریڈیو پاکستان، حیدرآباد کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر، جناب الیاس عشقی کو قاسم آباد سے نقل مکانی کرکے لطیف آباد میں مقیم ہونے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔ ہمارا مسئلہ بھی یہی تھا کہ لفظ تعصب ہماری ڈکشنری میں کبھی بھی شامل نہیں رہا۔ چنانچہ ہماری مشکل یہ تھی کہ بقول شاعر:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
مگر دنیا انسان دوست اور امن و آشتی پسند دوستوں سے چونکہ کبھی خالی نہیں رہی اس لیے ہم نے اپنے ہم خیال اور مخلص دوستوں کے تعاون سے شہر حیدرآباد کی فضا کو خوشگوار اور پرامن بنانے کا قصد کیا اور کمشنر حیدرآباد جناب عبدالغفار سومرو، وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی جی الانہ، سرگرم رکن فاران کلب حیدرآباد جناب نذر محمد قریشی، انجینئر و سماجی کارکن کے تعاون سے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے زیر سایہ کل پاکستان عظیم الشان بین الصوبائی اور کل لسانی محفل مشاعرے کا دیال داس کلب حیدرآباد میں انعقاد کیا جس کے مہمان خصوصی جنرل (ر) معین الدین حیدر، گورنر سندھ اور صدر مشاعرہ محترم قتیل شفائی صاحب تھے۔
اس خاکسار کی دعوت پر قتیل صاحب نے نہایت عنایت و شفقت کے ساتھ لبیک کہا اور یوں ہمیں اپنے ممدوح کے ساتھ چند یادگار گھڑیاں گزارنے کا بہانہ اور سنہری موقع میسر آیا۔ اس وقت ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ قتیل شفائی سے یہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہوگی۔ اس مختصر سے قیام کے دوران نہ صرف بہت سی دل کی باتیں بھی ہوئیں اور قتیل صاحب کی زندگی اور شخصیت کے بہت سے گوشے بھی وا ہوئے۔ قتیل بہت ہشاش بشاش اور صحت مند تھے۔ خوش مزاجی، سادگی، ملنساری، پابندی سے ورزش اور کوئی غم نہ پالنا ان کی صحت اور طویل عمری کا راز تھا۔ شان بے نیازی ان کی شخصیت کا بنیادی وصف تھا۔ سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر قتیل کی عظیم شخصیت کی ترجمانی و عکاسی کرتا ہے:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
قتیل صاحب ہو بہ ہو ایسے ہی تھے۔ خلیق و شفیق، مرنجان مرنج اور درویش صفت۔ ان سے ملاقات میرا گرانقدر سرمایہ حیات ہے۔ قتیل صاحب نے اپنی علمی اور فلمی شاعری سے ادبی اور فلمی دنیا میں ایک دھوم مچا دی۔ انھیں خواص و عوام میں یکساں پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے دنیائے سخن میں اپنا ایک انوکھا اور منفرد مقام پیدا کیا۔ وہ اپنے اسلوب اور لب و لہجے کی بنا پر اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے علمی اور فلمی دنیا کو ایک نئے انداز اور آہنگ سے روشناس کرایا جو حسن بیان اور غنائیت کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ نغمگی اور موسیقیت ان کے کلام کا جوہر خاص اور اصل روح ہے جو سننے والے کے دل کو موہ لیتی ہے۔
دھن چونکہ ان کی شاعری کے خمیر میں شامل ہوتی ہے اس لیے کمپوزر کو ان کے تخلیق کیے ہوئے نغموں کی طرز بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ گلوکار یا گلوکارہ کی سریلی آواز سونے پر سہاگہ کا کام کرتی ہے۔ نئے کلام کو دو آتشہ بنا دیتی ہے۔ چنانچہ اقبال بانو جیسی سریلی گلوکارہ کی آواز نے ان کے کلام کو چار چاند لگا دیے جس میں ''الفت کی نئی منزل کو چلا'' ، ''پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ'' اور ''حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں'' جیسے جادو بھرے سدا بہار شاہکار شامل ہیں جنھوں نے نہ صرف پاکستان میں دھوم مچا دی بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کردیے اور لتا منگیشکر جیسی نابغہ روزگار گلوکارہ کو بھی خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور کردیا۔
قتیل شفائی کی شاعری شعری محاسن سے معمور اور انداز بیاں کی نزاکتوں سے بھرپور ہے جسے بار بار سننے اور پڑھنے کے بعد بھی تشنگی میں کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ انگریزی کے ممتاز شاعر جون کیٹس نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ: "A thing of beauty is a joy ever" ترجمہ: ایک حسن کا شاہکار سدا بہار مسرت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔'' مثال کے طور پر قتیل صاحب کے یہ لازوال اشعار ملاحظہ فرمائیں اور داد پر داد دیتے چلے جائیں:
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
٭٭
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے تِرا نام مرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی ایک قادرالکلام شاعر تھے جنھیں صرف غزل گوئی اور نغمہ نگاری ہی پر نہیں بلکہ دیگر اصناف سخن مثلاً دوہا نگاری، نظم گوئی، قطعہ نگاری اور مزاحیہ شاعری پر بھی یکساں عبور حاصل تھا۔ نمونے یا تبرک کے طور پر درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں اور داد دے کر خراج تحسین پیش کریں:
مزاحیہ کلام
پولیس
اب پولیس بیٹھ جا وہاں جاکر
سارا فتنہ جہاں سے اٹھتا ہے
چرس کی بُو تجھے بتا دے گی
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
٭٭
قطعہ
بڑا متصف ہے امریکا اسے اللہ خوش رکھے
بزعم خویش وہ سب کو برابر پیار دیتا ہے
کسی کو حملہ کرنے کے لیے دیتا ہے میزائل
کسی کو ان سے بچنے کے لیے راڈار دیتا ہے