تو پہلے مرنا ہوگا

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کے مشکل مالی حالات کی وجہ سے بھی عوام کی مشکلات کا بخوبی ادراک ہے

گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کراچی کے نواحی علاقے میں خود کو جلا کر زندگی کی مشکلات سے نجات پا جانے والے 35 سالہ شخص کے گھر گئے۔ مرحوم کی بیوہ سے تعزیت کا اظہار اور یتیم ہو جانے والے تین بچوں کے سروں پر شفقت یا سیاسی مجبوری کا ہاتھ رکھا اور امدادی چیک دینے کے علاوہ متاثرہ خاندان کے لیے گھر دلانے کا بھی یقین دلایا۔

اندرون سندھ سے تعلق اور کراچی میں رہائش پذیر شخص نے سخت سردی میں گرم کپڑوں کی فرمائش پوری کرنے میں ناکام رہنے پر خود کو جلا کر خود کشی کر لی تھی اور مرنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان کے نام ایک لکھی ہوئی تحریر اپنے ورثا میں چھوڑ کر خودکشی کرنے کی مجبوری بیان کی تھی۔

اس مجبور شخص کی ہلاکت کی خبر میڈیا پر آئی تو اربوں اور کروڑوں پتی لاتعداد سرمایہ داروں کے شہر والوں کو اس اندوہناک خبر کا پتا چلا کہ سخت سردی کے موسم میں ایک غریب کے تین بچوں کو گرم کپڑے میسر نہ آسکے تھے جس کے لیے انھوں نے اپنے غریب باپ سے فرمائش کی تھی جو اپنی غربت کے باعث پوری نہ کرسکا۔ بچوں کے بار بار کہنے پر باپ پہلے تو انھیں دلاسے دیتا رہا اور اپنے بچوں سے وعدہ پورا نہ کرسکا اور شرمندگی کے مارے اس نے خود کو جلا کر دنیا چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور مزید وعدوں کی بجائے اس نے مر جانے کو ترجیح دی اور یہ نہ سوچا کہ وہ تو جل کر مر جائے گا اور اس کے بعد اس کے بیوی بچوں کا کیا ہوگا؟ اورکیا اس کا جلا ہوا جسم اس کے بچوں کو سردی میں حرارت فراہم کرسکے گا۔ لگتا ہے کہ متوفی نے مرنے میں عافیت سمجھی اور جان سے چلا گیا اور اپنے غریب پسماندگان کا خیال تک نہیں کیا۔

غربت کا شکار یہ شخص اگر ایسا نہ کرتا اور وزیر اعظم عمران خان کی طرح قوم کو ''گھبرانا نہیں ہے'' جیسے مزید دلاسے دے سکتا تو سردیوں نے ختم تو ہو ہی جانا تھا ، جس کے بعد اس کے بچوں کو گرم کپڑوں کی حاجت ہی نہ رہتی۔ متوفی کے پڑوس میں رہنے والوں کو خیال نہیں آیا ہوگا ورنہ کوئی تو اس کی مدد کرتا۔ جل جانے والے شخص کا پڑوس بھی اس جیسا غریب ہی ہوگا جو خود ہی مشکل سے گزارا کر رہا ہوگا تو اس کے بچوں کو گرم کپڑے کون دیتا کیونکہ انھیں تو خود بھی گرم کپڑوں کی ضرورت ہوگی اور انھوں نے پہلے اپنی ضرورت پوری کی ہوگی۔

موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد صرف پٹرول ہی نہیں بلکہ گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ریکارڈ قائم کیے گئے ہیں اور ہر حکومت میں پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہی مہنگائی کا سبب بنتے آئے ہیں اور مہنگائی کی یہ شہ رگ ہمیشہ سے وفاقی حکومت کے کنٹرول میں رہی ہے۔ سالوں قبل سالانہ بجٹ کے موقع پر ہی ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا تھا مگر اب کئی سالوں سے حکومت نے مختلف اداروں کے ذریعے قیمتوں میں آئے دن اضافے کا اصول اپنا رکھا ہے۔


پٹرولیم مصنوعات کے نرخ عالمی نرخوں کے تحت مقرر اور تبدیل کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر ہوتا یہ آیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ عالمی سطح پر کم ہوں تو ملک میں کم نہیں کیے جاتے اور مہینہ گزرنے پر معمولی کمی کی جاتی ہے اور اگر عالمی سطح پر نرخوں میں اضافہ ہو تو نرخ فوری طور پر بڑھا دیے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں عوام کو ریلیف نہیں دیا جاتا۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کے مشکل مالی حالات کی وجہ سے بھی عوام کی مشکلات کا بخوبی ادراک ہے۔ یہ بات کہنے کی حد تک ہی درست ہے کیونکہ ملک کے عوام ٹی وی چینلز کے سروے کے دوران حکومت پر انتہائی برہم ہیں اور اس کا ذمے دار بھی صرف اور صرف عمران خان کو قرار دے رہے ہیں کیونکہ وزیر اعظم بننے سے قبل انھوں نے پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھنے کا ذمے دار برسر اقتدار وزیر اعظموں کو قرار دیا کرتے تھے اور بجلی کے بل جلا کر عوام سے ایسے بل جمع نہ کرانے کی تلقین کیا کرتے تھے اور نواز شریف اور آصف زرداری کو چور اور ڈاکو قرار دیا کرتے تھے۔

موجودہ وزیر اعظم کے دور میں جب دعوے کیے جاتے ہیں کہ حکمران کرپٹ نہیں ہیں اور کرپشن کم ہوئی ہے۔ میرٹ پر ملازمتیں دی جا رہی ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے ایک رکن قومی اسمبلی راجن پور کے ریاض مزاری نے قومی اسمبلی کے ایوان میں الزام لگایا کہ ان کے علاقے میں 21 ملازمتیں ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ رشوت پر دی گئی ہیں جن کی وہ فہرست پیش کرسکتے ہیں۔ اس الزام پر اسپیکر قومی اسمبلی نے تحقیقات اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ علاوہ ازیںبعض وزراء پر یہ الزام بھی لگایا جاچکا ہے کہ انھوں نے میرٹ کی بجائے اپنے حلقے کے لوگوں کو زیادہ ملازمتیں دی ہیں تاکہ حلقے میں اپنے ووٹ بینک میں اضافے ہوسکے۔

عمران خان سابقہ حکومتوں پر اپنے لوگوں کو نوازنے کے لیے ضرورت سے زیادہ وزیر، مشیر اور معاونین خصوصی رکھ کر قومی خزانے پر غیر ضروری بوجھ ڈالنے کے الزامات لگایا کرتے تھے اور اب یہی الزام اپوزیشن وزیر اعظم پر لگا رہی ہے جن کی بہت بڑی کابینہ میں منتخب افراد کی بجائے غیر منتخب افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی وزرا کے برابر مراعات اور تنخواہیں لے رہے ہیں اور ایک معاون خصوصی کی تنخواہ تقریباً پانچ لاکھ روپے اور ہاؤس رینٹ تک ایک لاکھ روپے ماہانہ دیا جا رہا ہے جب کہ ملک میں کم سے کم تنخواہ صرف 17 ہزار تک ماہانہ ہے۔ ملک میں مہنگائی میں جتنا اضافہ ہوتا ہے، اتنی تنخواہیں نہیں بڑھائی جاتیں جس کی وجہ سے غربت انتہائی نچلی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ ملک میں سبزیوں، پھلوں اور اجناس کی مہنگائی کا نیا ریکارڈ بھی موجودہ حکومت میں قائم ہوا ہے۔ ماضی کی کسی بھی حکومت میں مہنگائی اور بے روزگاری کبھی اتنی شدید نہیں ہوئی اور ڈالرکبھی اتنی اونچی سطح تک گیا نہ کبھی روپے کی ویلیو اتنی کم ہوئی جتنی موجودہ حکومت کے دور میں ہوئی ہے۔

ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ خودکشیوں کی تعداد میں انتہائی تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں تقریباً دس لاکھ افراد بے روزگار کیے گئے ہیں اور نئی ملازمتیں میسر نہیں۔ اگر صنعتوں میں روزگار ہوتا تو بے روزگاری نہ بڑھتی۔ ملک کا ہر کاروباری شخص موجودہ صورتحال سے پریشان، کاروبار ٹھپ اور صورتحال سے ہر شخص متاثر ہوا ہے مگر پھر بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے مگر نہ گھبرانے کی مدت کوئی نہیں بتا رہا۔

تحریک انصاف کے سابق صدر اور بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ لوگوں کی آمدنی تو بجلی اور گیس کے مہنگے بلوں کی ادائیگی میں پوری ہو جاتی ہے اور کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا تو عوام اب حکومت کے قائم کردہ لنگر خانوں میں جاکر کھائیں سرکاری سرایوں میں رہ کر زندگی بسر کریں ان کے پاس متبادل راستہ نہیں ہے۔ بے روزگاری کے باعث اب ملک کی مساجد میں امام کے سلام پھیرتے ہی کوئی نہ کوئی کھڑا ہو کر اپنی مجبوری بیان کرکے نمازیوں سے مدد طلب کرتا ہے اور بعض دفعہ تو مسجدوں کے اندر کئی کئی ضرورت مند کھڑے ہو جاتے ہیں ، جو راشن نہ ہونے سے گھر میں بھوک، پیسے نہ ہونے کے باعث دواؤں کی خریداری، کرایہ دار کرائے کی ادائیگی، مقروض قرض کی ادائیگی اور اپنی مجبوریاں بیان کرتے ہیں جن کی آواز بڑی مساجد میں تمام نمازیوں تک نہیں پہنچتی تو حکمرانوں تک کیسے پہنچے گی جو خوشامدیوں کے نرغے میں خود مہنگائی بڑھانے میں مصروف ہیں اور مہنگائی تسلیم کرکے عوام پر احسان ضرور کر رہے ہیں۔

کراچی میں بچوں کو گرم کپڑے نہ دلا سکنے والے کی قبر کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ضلع میرپورخاص کے چھوٹے شہر ڈگری میں ایک باربر کے خود کو جلا لینے کی خبر بھی میڈیا میں آگئی۔ تین معصوم بچوں کے اس بے روزگار باپ نے بھوک سے تنگ آکر خود کو جلا لیا تھا اور 80 فیصد جسم جل جانے کے بعد کراچی کے سرکاری اسپتال میں دم توڑا تو خیراتی ایمبولینس میں اس کی لاش ڈگری لائی گئی جہاں کہرام مچا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ گورنر سندھ اب اس کی تعزیت کے لیے جاتے ہیں کہ نہیں۔
Load Next Story