پہلے مجھے گولی مارو
یہ بھی اسی کا کمال تھا کہ وہ اپنے دفتر جاتے ہوئے ایک زخمی گدھے کو دیکھتا ہے تو اپنی گاڑی سے اتر جاتا ہے۔
ان دنوں ہم بڑے بڑے عہدیداروں سے یہ دعوے سنتے ہیں کہ وہ پروٹوکول نہیں لیں گے، پھر یہ دیکھا ہے کہ وہ بیس بائیس گاڑیوں کے پروٹوکول میں چلتے ہیں اور انھیں اپنے دعوے یاد نہیں آتے۔ ایسے میں وہ شخص نگاہوں میں گھوم جاتا ہے جو کراچی کا پہلا میئر تھا۔
پروٹوکول لینا تو دورکی بات ہے، یہ بھی اسی کا کمال تھا کہ وہ اپنے دفتر جاتے ہوئے ایک زخمی گدھے کو دیکھتا ہے تو اپنی گاڑی سے اتر جاتا ہے اور اسے جانوروں کے اسپتال لے کر چل پڑتا ہے۔ علی محمد راشدی نے لکھا ہے کہ وہ شخص زخمی گدھے کے ساتھ چلتا رہا اور اس کا ڈرائیور اس کی گاڑی چیونٹی کی رفتار سے چلاتے ہوئے اس کے پیچھے چلتا رہا۔ یہ شخص کراچی کا پہلا میئر تھا اور اس کا نام جمشید نسروان جی رستم جی مہتا تھا۔
سندھ پر ان کے بڑے احسانات ہیں۔ یہ جمشید جی تھے جنھوں نے سندھ کو بمبئی ریذیڈنسی سے الگ کرنے کی تحریک میں حصہ لیا اور یہ بھی وہی تھے جنھوں نے سر لائیڈ کو سکھر بیراج کی تعمیر پر قائل کیا۔
سندھ جب بمبئی ریذیڈنسی سے الگ ہو گیا تو جمشید نے ضلع دادو سے الیکشن میں حصہ لیا اورکامیاب ہوئے۔ وہ سندھ اسمبلی میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ بٹوارے کے بعد جب انھوں نے یہ دیکھا کہ ایک ایماندار، منصف مزاج غیر مسلم سیاسی کارکن کی قومی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں ہے تو انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی۔
13 برس کی عمر کھیلنے کودنے اور مزے اڑانے کی ہوتی ہے لیکن وہ جب 13برس کا تھا تو اس نے ایک قصاب کو دیکھا جو ایک گائے کوگھسیٹتے ہوئے مذبح خانے کی طرف لے جا رہا تھا۔ گائے ڈکراتے ہوئے بے قراری سے رسی تڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جمشید کے سینے پرگھونسا لگا۔ اچھا تو ہماری میز پر گائے، بکری اور مرغی کے جو لذیذ کباب اور پلاؤ ہوتے ہیں وہ ایسے ہی مظلوموں کو ذبح کر کے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ دن تھا جب اس نے گوشت خوری ترک کی اور پھر زندگی بھر دال اور سبزی پرگزارا کیا۔ اس نے ابتدائی تعلیم ایک پارسی اسکول میں لی جس کے بعد کراچی کے بہترین اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ آج بھی این جے وی اسکول کی راہداری میں اس کے قدموں کے نشان ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں ، اسے انسانوں کی خدمت اور اسی حوالے سے سیاست کے خار زار میں قدم رکھنا تھا، ان ہی دنوں یہ ہوا کہ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد ساری دنیا میں مہلک انفلوینزا کی وبا پھیلی۔ لوگ اس کے مریض سے یوں ڈرتے تھے جیسے طاعون کے کسی مریض سے۔ کراچی بھی اس وبا کا شکار ہوا۔ ڈاکٹر کم تھے اور مریض زیادہ، گھر والے بھی تیمار داری سے خوف کھاتے تھے ایسے میں جمشید نے آستین چڑھائی اور بیماروں کی دیکھ ریکھ میں جُٹ گئے یہاں تک کہ لوگ بہ طور خاص ہندو انھیں بھگوان کا روپ سمجھنے لگے جسے موت سے خوف نہیں محسوس ہوتا تھا۔
کبول موٹوانی جو کئی برس تک ان کے سیکریٹری رہے، انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ''جمشید مذہب کے اعتبار سے زرتشتی تھے، لیکن ان کی داخلی اور خارجی زندگی تمام مذاہب کے ظاہری اختلافات سے بلند تھی۔ ان کا سادہ ذاتی فلسفہ محبت، اتحاد اور دوستی کی بنیادوں پر قائم تھا اور اس کا عملی اظہار اپنے ارد گرد کے تمام انسانوں کی خدمت سے ہوتا تھا۔ ان کا فیض، ذات پات اور مذہب کی تخصیص کے بغیر سب لوگوں تک پہنچتا تھا۔ وہ سیکڑوں افراد اور خاندانوں کی متواتر مالی امداد کرتے تھے۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ اپنی دراز سے فہرست بر آمد کرتے، کراچی میں رہنے والے خاندانوں کے نام نقد روپوں کے لفافے بنا کر بھیجتے اورکراچی اور ہندوستان کے باہر کے خاندانوں کو منی آرڈر اور چیک کے ذریعے رقمیں بھیجتے۔ جب میں نے ان کے سیکریٹری کی ذمے داری سنبھالی تو انھوں نے کمال مہربانی سے اس کام کا انتظام میرے سپرد کر دیا اور گویا مجھے بھی اپنی نیکیوں میں حصے دار بنا لیا۔
ہندوستان اور باہر کے اداروں اور تنظیموں کو دی جانے والی رقمیں زیادہ بڑی ہوتی تھیں۔ لگ بھگ 50لاکھ روپے کی۔ یہ تمام سخاوت اس قدر راز داری سے کی جاتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں محض تشکر کے جذبے کے سوا جمشید نے اس کا کوئی مادی نشان نہیں چھوڑا۔ '' وہ 12 برس تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔ حاتم علوی نے شہر کے لیے ان کی کارگزاری کو عمر خیام کے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس نے شہر کو یوں اپنے ہاتھ سے بنایا جیسے کوزہ گر مٹی کو برتتا ہے تا کہ تیار ہونے والا ظرف اس کی آرزو کے مطابق ڈھل سکے۔ سیاست میں تشدد ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ تقسیم سے پہلے کراچی میں ایک ہڑتال ہوئی۔ برطانوی پولیس ہڑتال کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی تھی۔
اس نے ایک بچے کو گرفتار کر لیا اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے گولی چلانے کے درپے تھی۔ جمشید کو اُس واقعے کی خبر ملی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور ہجوم اور پولیس کے بیچ میں کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے پولیس والوں کو للکارا کہ ''کون ہے؟ جو بچے کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر گولی چلانی ہے تو پہلے مجھے گولی مارو پھر تمہاری بندوقوں کا رخ کسی اور کی طرف ہو۔'' وہ ہجوم اور پولیس کے درمیان کھڑے تھے جب کہ بچہ پولیس کی تحویل میں تھا۔ جمشید کی اس للکار پر پولیس کی بندوقوں کا رخ زمین کی طرف ہو گیا۔ جمشید نے بچے کو اس کے باپ اور دوسرے رشتہ داروں کے حوالے کیا، اس کے بعد ہجوم پُر امن طور پر منتشر ہو گیا اور پولیس والے بھی رخصت ہوئے۔ اس واقعے نے کراچی والوں کے دلوں میں جمشید کے لیے محبت اور عقیدت میں بے پناہ اضافہ کیا۔
وہ 1933 میں کراچی کے پہلے میئر منتخب ہوئے اور ایک سالہ میئر شپ کے دوران انھوں نے شہر کو جدید خطوط پر بنایا، سجایا اور سنوارا۔ ان کے عہد میں کراچی کی سڑکیں پانی سے دھلتی تھیں اور دوسرے شہروں کے لوگ اس شہرکے نصیبوں پر رشک کرتے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جب شہر سے جمشید جیسے لوگ اٹھ جائیں گے تو اس کے رہنے والے شہر کے گلی کوچوں کو خون سے نہلائیں گے۔
1947کے فوراً بعد جب لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین نے کراچی کا رخ کیا تو یہ پریشاں حال لوگ گمبھیر مسائل سے دو چار تھے۔ مارچ 1949ء میں حسن حبیب اور کراچی کے دوسرے فکر مند شہریوں نے کراچی سوشل گروپ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کی صدارت جمشید نسروان جی کے سپرد کی۔ انھوں نے اپنی بساط بھر ان لوگوں کی آباد کاری کے لیے کام کیا۔ 1951کے آخری دنوں میں انھوں نے اے کے بروہی کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔
''بروہی! آنے والے چند درجن برسوں میں ہمیں نہ صرف محتاج، ناخواندہ اور سماج دشمن افراد کی ایک بڑی تعداد کا مسئلہ درپیش ہو گا بلکہ اس سے بھی بدتر حالات کا۔ ہمارے سامنے بے شمار ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کی دیکھ بھال کا مسئلہ بھی ہو گا۔ کیونکہ اگر ہم اس زندگی کا مطالعہ کریں جو مہاجر بچے گزارنے پر مجبور ہیں کہ نہ ان کے بدن پر قمیص ہے اور نہ سر پر چھت جو انھیں تیز ہوا، دھوپ اور بارش سے بچا سکے تو ہم یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ نسل جو آج نشوونما کی ابتدائی منزل میں ہے، ہمیں مضبوط، صحت مند اور کار آمد شہری فراہم نہیں کر سکے گی بلکہ اس قسم کے افراد پیدا کرے گی جنھیں آنے والے سماجی نظام کا حصہ بنانا ایک ناممکن کام ہو گا۔ '' اے کے بروہی کا کہنا تھا کہ میں نے اس سے پہلے کبھی جمشید کو اتنے گمبھیر لہجے میں بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔
میں ان کے ملال کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا اور میری زبان گنگ ہو گئی۔ ''کراچی کے بادشاہ'' کی اس دلی کیفیت کا ایک سبب شاید یہ ہو کہ جس قصبے کو انھوں نے ایک جدید اور متحرک شہر میں بدل دیا تھا، اب اس میں جا بجا جھونپڑ پٹیاں تھیں، وہ شہر جس کی فضا میں تر و تازہ اور روح افزا ہوا تیرتی تھی وہاں اب پیشاب کی کھکراند تھی اور وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
کراچی کی اہم سڑکوں پر بعض اہم شخصیات کے شاندار مجسمے نصب تھے۔ اپنے محسنوں کی تعظیم کا ایک انداز، لیکن جیسے ہی کراچی ''دارالسلطنت '' قرار پایا، یہ مجسمے بت پرستی کے زمرے میں آئے چنانچہ کفار اور مشرکین کی یہ شبہیں منظر عام سے فوراً ہٹا دی گئیں۔ کسی کو یاد نہیں رہا کہ لڑکیوں کے اعلیٰ ترین اسکولوں میں سے ایک ماما پارسی گرلز اسکول کی تعمیر میں ایک لاکھ 35 ہزار روپے کی خطیر رقم جمشید نے اپنے والد خان بہادر نسروان جی سے عطیہ کرائی تھی۔
وہ کسی خاص ریاست کو قائم کرنے کے دعویدار نہ تھے، نہ انھیں عوامی خدمت کی کوئی دعویداری تھی لیکن بڑے بوڑھے آج بھی انھیں کراچی کا بادشاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
پروٹوکول لینا تو دورکی بات ہے، یہ بھی اسی کا کمال تھا کہ وہ اپنے دفتر جاتے ہوئے ایک زخمی گدھے کو دیکھتا ہے تو اپنی گاڑی سے اتر جاتا ہے اور اسے جانوروں کے اسپتال لے کر چل پڑتا ہے۔ علی محمد راشدی نے لکھا ہے کہ وہ شخص زخمی گدھے کے ساتھ چلتا رہا اور اس کا ڈرائیور اس کی گاڑی چیونٹی کی رفتار سے چلاتے ہوئے اس کے پیچھے چلتا رہا۔ یہ شخص کراچی کا پہلا میئر تھا اور اس کا نام جمشید نسروان جی رستم جی مہتا تھا۔
سندھ پر ان کے بڑے احسانات ہیں۔ یہ جمشید جی تھے جنھوں نے سندھ کو بمبئی ریذیڈنسی سے الگ کرنے کی تحریک میں حصہ لیا اور یہ بھی وہی تھے جنھوں نے سر لائیڈ کو سکھر بیراج کی تعمیر پر قائل کیا۔
سندھ جب بمبئی ریذیڈنسی سے الگ ہو گیا تو جمشید نے ضلع دادو سے الیکشن میں حصہ لیا اورکامیاب ہوئے۔ وہ سندھ اسمبلی میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ بٹوارے کے بعد جب انھوں نے یہ دیکھا کہ ایک ایماندار، منصف مزاج غیر مسلم سیاسی کارکن کی قومی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں ہے تو انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی۔
13 برس کی عمر کھیلنے کودنے اور مزے اڑانے کی ہوتی ہے لیکن وہ جب 13برس کا تھا تو اس نے ایک قصاب کو دیکھا جو ایک گائے کوگھسیٹتے ہوئے مذبح خانے کی طرف لے جا رہا تھا۔ گائے ڈکراتے ہوئے بے قراری سے رسی تڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جمشید کے سینے پرگھونسا لگا۔ اچھا تو ہماری میز پر گائے، بکری اور مرغی کے جو لذیذ کباب اور پلاؤ ہوتے ہیں وہ ایسے ہی مظلوموں کو ذبح کر کے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ دن تھا جب اس نے گوشت خوری ترک کی اور پھر زندگی بھر دال اور سبزی پرگزارا کیا۔ اس نے ابتدائی تعلیم ایک پارسی اسکول میں لی جس کے بعد کراچی کے بہترین اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ آج بھی این جے وی اسکول کی راہداری میں اس کے قدموں کے نشان ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں ، اسے انسانوں کی خدمت اور اسی حوالے سے سیاست کے خار زار میں قدم رکھنا تھا، ان ہی دنوں یہ ہوا کہ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد ساری دنیا میں مہلک انفلوینزا کی وبا پھیلی۔ لوگ اس کے مریض سے یوں ڈرتے تھے جیسے طاعون کے کسی مریض سے۔ کراچی بھی اس وبا کا شکار ہوا۔ ڈاکٹر کم تھے اور مریض زیادہ، گھر والے بھی تیمار داری سے خوف کھاتے تھے ایسے میں جمشید نے آستین چڑھائی اور بیماروں کی دیکھ ریکھ میں جُٹ گئے یہاں تک کہ لوگ بہ طور خاص ہندو انھیں بھگوان کا روپ سمجھنے لگے جسے موت سے خوف نہیں محسوس ہوتا تھا۔
کبول موٹوانی جو کئی برس تک ان کے سیکریٹری رہے، انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ''جمشید مذہب کے اعتبار سے زرتشتی تھے، لیکن ان کی داخلی اور خارجی زندگی تمام مذاہب کے ظاہری اختلافات سے بلند تھی۔ ان کا سادہ ذاتی فلسفہ محبت، اتحاد اور دوستی کی بنیادوں پر قائم تھا اور اس کا عملی اظہار اپنے ارد گرد کے تمام انسانوں کی خدمت سے ہوتا تھا۔ ان کا فیض، ذات پات اور مذہب کی تخصیص کے بغیر سب لوگوں تک پہنچتا تھا۔ وہ سیکڑوں افراد اور خاندانوں کی متواتر مالی امداد کرتے تھے۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ اپنی دراز سے فہرست بر آمد کرتے، کراچی میں رہنے والے خاندانوں کے نام نقد روپوں کے لفافے بنا کر بھیجتے اورکراچی اور ہندوستان کے باہر کے خاندانوں کو منی آرڈر اور چیک کے ذریعے رقمیں بھیجتے۔ جب میں نے ان کے سیکریٹری کی ذمے داری سنبھالی تو انھوں نے کمال مہربانی سے اس کام کا انتظام میرے سپرد کر دیا اور گویا مجھے بھی اپنی نیکیوں میں حصے دار بنا لیا۔
ہندوستان اور باہر کے اداروں اور تنظیموں کو دی جانے والی رقمیں زیادہ بڑی ہوتی تھیں۔ لگ بھگ 50لاکھ روپے کی۔ یہ تمام سخاوت اس قدر راز داری سے کی جاتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں محض تشکر کے جذبے کے سوا جمشید نے اس کا کوئی مادی نشان نہیں چھوڑا۔ '' وہ 12 برس تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔ حاتم علوی نے شہر کے لیے ان کی کارگزاری کو عمر خیام کے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس نے شہر کو یوں اپنے ہاتھ سے بنایا جیسے کوزہ گر مٹی کو برتتا ہے تا کہ تیار ہونے والا ظرف اس کی آرزو کے مطابق ڈھل سکے۔ سیاست میں تشدد ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ تقسیم سے پہلے کراچی میں ایک ہڑتال ہوئی۔ برطانوی پولیس ہڑتال کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی تھی۔
اس نے ایک بچے کو گرفتار کر لیا اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے گولی چلانے کے درپے تھی۔ جمشید کو اُس واقعے کی خبر ملی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور ہجوم اور پولیس کے بیچ میں کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے پولیس والوں کو للکارا کہ ''کون ہے؟ جو بچے کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر گولی چلانی ہے تو پہلے مجھے گولی مارو پھر تمہاری بندوقوں کا رخ کسی اور کی طرف ہو۔'' وہ ہجوم اور پولیس کے درمیان کھڑے تھے جب کہ بچہ پولیس کی تحویل میں تھا۔ جمشید کی اس للکار پر پولیس کی بندوقوں کا رخ زمین کی طرف ہو گیا۔ جمشید نے بچے کو اس کے باپ اور دوسرے رشتہ داروں کے حوالے کیا، اس کے بعد ہجوم پُر امن طور پر منتشر ہو گیا اور پولیس والے بھی رخصت ہوئے۔ اس واقعے نے کراچی والوں کے دلوں میں جمشید کے لیے محبت اور عقیدت میں بے پناہ اضافہ کیا۔
وہ 1933 میں کراچی کے پہلے میئر منتخب ہوئے اور ایک سالہ میئر شپ کے دوران انھوں نے شہر کو جدید خطوط پر بنایا، سجایا اور سنوارا۔ ان کے عہد میں کراچی کی سڑکیں پانی سے دھلتی تھیں اور دوسرے شہروں کے لوگ اس شہرکے نصیبوں پر رشک کرتے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جب شہر سے جمشید جیسے لوگ اٹھ جائیں گے تو اس کے رہنے والے شہر کے گلی کوچوں کو خون سے نہلائیں گے۔
1947کے فوراً بعد جب لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین نے کراچی کا رخ کیا تو یہ پریشاں حال لوگ گمبھیر مسائل سے دو چار تھے۔ مارچ 1949ء میں حسن حبیب اور کراچی کے دوسرے فکر مند شہریوں نے کراچی سوشل گروپ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کی صدارت جمشید نسروان جی کے سپرد کی۔ انھوں نے اپنی بساط بھر ان لوگوں کی آباد کاری کے لیے کام کیا۔ 1951کے آخری دنوں میں انھوں نے اے کے بروہی کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔
''بروہی! آنے والے چند درجن برسوں میں ہمیں نہ صرف محتاج، ناخواندہ اور سماج دشمن افراد کی ایک بڑی تعداد کا مسئلہ درپیش ہو گا بلکہ اس سے بھی بدتر حالات کا۔ ہمارے سامنے بے شمار ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کی دیکھ بھال کا مسئلہ بھی ہو گا۔ کیونکہ اگر ہم اس زندگی کا مطالعہ کریں جو مہاجر بچے گزارنے پر مجبور ہیں کہ نہ ان کے بدن پر قمیص ہے اور نہ سر پر چھت جو انھیں تیز ہوا، دھوپ اور بارش سے بچا سکے تو ہم یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ نسل جو آج نشوونما کی ابتدائی منزل میں ہے، ہمیں مضبوط، صحت مند اور کار آمد شہری فراہم نہیں کر سکے گی بلکہ اس قسم کے افراد پیدا کرے گی جنھیں آنے والے سماجی نظام کا حصہ بنانا ایک ناممکن کام ہو گا۔ '' اے کے بروہی کا کہنا تھا کہ میں نے اس سے پہلے کبھی جمشید کو اتنے گمبھیر لہجے میں بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔
میں ان کے ملال کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا اور میری زبان گنگ ہو گئی۔ ''کراچی کے بادشاہ'' کی اس دلی کیفیت کا ایک سبب شاید یہ ہو کہ جس قصبے کو انھوں نے ایک جدید اور متحرک شہر میں بدل دیا تھا، اب اس میں جا بجا جھونپڑ پٹیاں تھیں، وہ شہر جس کی فضا میں تر و تازہ اور روح افزا ہوا تیرتی تھی وہاں اب پیشاب کی کھکراند تھی اور وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
کراچی کی اہم سڑکوں پر بعض اہم شخصیات کے شاندار مجسمے نصب تھے۔ اپنے محسنوں کی تعظیم کا ایک انداز، لیکن جیسے ہی کراچی ''دارالسلطنت '' قرار پایا، یہ مجسمے بت پرستی کے زمرے میں آئے چنانچہ کفار اور مشرکین کی یہ شبہیں منظر عام سے فوراً ہٹا دی گئیں۔ کسی کو یاد نہیں رہا کہ لڑکیوں کے اعلیٰ ترین اسکولوں میں سے ایک ماما پارسی گرلز اسکول کی تعمیر میں ایک لاکھ 35 ہزار روپے کی خطیر رقم جمشید نے اپنے والد خان بہادر نسروان جی سے عطیہ کرائی تھی۔
وہ کسی خاص ریاست کو قائم کرنے کے دعویدار نہ تھے، نہ انھیں عوامی خدمت کی کوئی دعویداری تھی لیکن بڑے بوڑھے آج بھی انھیں کراچی کا بادشاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔