عمران خان نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے
خان صاحب نے یہ بھی بتا دیا کہ انہیں سب معلوم ہے کہ وزیر اعلی بننے کی سازش کون کون کر رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار قسمت کے بہت دھنی ہیں کہ جب بھی ان کی کشتی ''تبدیلی''کے بھنور میں ڈوبنے لگتی ہے تب وزیر اعظم عمران خان سپر ہیرو کی طرح انہیں بچانے پہنچ جاتے ہیں۔
اس سے قبل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں میاں نواز شریف کو قسمت کا دھنی یعنی ''LUCKY ''کہا جاتا تھا کہ جب بھی حالات ایسے بن جاتے کہ میاں صاحب کے بچنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی تب اچانک سے کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا کہ میاں صاحب پر چھائے تمام سیاہ بادل چھٹ جاتے لیکن آخر کار ایک روز ان کی قسمت بھی ساتھ چھوڑ گئی تھی۔
گزشتہ دو ، تین ہفتوں سے یہ یقین ہو چلا تھا کہ سردار عثمان بزدار کی رخصتی کا وقت آن پہنچا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ لیگ (ق) ہے کیونکہ آج تک مسلم لیگ (ق) کو سردارعثمان بزدار کا ''محافظ'' سمجھا جاتا تھا لیکن جب یہ خبریں جن میں کچھ نہ کچھ صداقت محسوس ہوتی ہے تیزی سے گردش کرنے لگیں کہ مسلم لیگ(ن) نے پنجاب کی وزارت اعلی چوہدر ی پرویز الہی کو دینے کیلئے ان کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے تو تحریک انصاف میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور وزیر صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال سمیت کئی صوبائی وزراء اور چند اراکین اسمبلی نے بھی شیروانیاں سلائی کروانے کا ارادہ کر لیا جس کی وجہ سے صورتحال پیچیدہ ہوتی چلی گئی جبکہ تحریک انصاف کے اندر بننے والے فارورڈ بلاک نے مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ بنا دیا تب اچانک عمران خان بھرپور ''جلالی'' روپ میں نمودار ہوئے اور انہوں نے دورہ لاہور کے دوران کابینہ ارکان اور تحریک انصاف کی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ جب تک عمران خان وزیر اعظم ہے تب تک سردار عثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب رہیں گے۔
خان صاحب نے یہ بھی بتا دیا کہ انہیں سب معلوم ہے کہ وزیر اعلی بننے کی سازش کون کون کر رہا ہے لیکن سب جان لیں کہ اگر عثمان بزدار کو تبدیل کیا گیا تو نیا وزیر اعلی 20 دن بھی نہیں چل پائے گا اور اسے بھی ہٹا دیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا اپنے وسیم اکرم پلس کیلئے ''عشق'' ڈھکا چھپا نہیں ہے کیونکہ گزشتہ سترہ ، اٹھارہ ماہ کے دوران پنجاب حکومت کی''کارکردگی'' نے پنجابیوں کی تو چیخیں نکلوا دی ہیں لیکن کپتان اپنے کھلاڑی سے خوش بھی ہیں اور عثمان بزدار کی آخری دفاعی لائن اور آہنی ڈھال بنے ہوئے ہیں۔عمران خان نے شاید سردار عثمان بزدار کواپنی''انا'' کا معاملہ بنا لیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے اند ر سے اٹھنے والے شدید ترین اعتراضات اور اپوزیشن و میڈیا کی تنقید کے باوجود وہ پنجاب میں تبدیلی لانے پر رضامند نہیں ہیں جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو یہ یقین دلادیا گیا ہے اگر بزدار تبدیل ہوئے تو وزارت عظمی بھی نہیں بچے گی، اس یقین میں ــ''روحانی وجدان'' کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے۔خیبر پختونخوا میں عاطف خان اور شہرام ترکئی کو فارغ کر دینے کے فوری بعد عمران خان کے اعلان بزدارکے بعد تحریک انصاف کے اندر موجود امیدواروں کو تو شاید بریک لگ جائے لیکن اتحادی جماعت کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
تحریک انصاف کے اندر وزارت اعلی پنجاب کے سب سے مضبوط امیدوار عبدالعلیم خان تصور کیئے جاتے تھے لیکن اس وقت علیم خان پنجاب حکومت کے معاملات سے بالکل لاتعلق ہیں اور نہ ہی وہ وزارت اعلی کی سازشی دوڑ میں شامل ہیں، علیم خان نے تو عمران خان کے پرزور اصرار پر دوبارہ سینئر وزیر بننے سے بھی معذرت کر لی ہے۔ پنجاب کے وزیر صنعت میاں اسلم اقبال 25 جولائی2018 کی شب سے ہی وزیر اعلی پنجاب کے امیدوار ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے بہت مضبوط لابنگ مہم بھی جاری رکھی ہوئی ہے ۔
صحافتی شخصیت، معروف رئیل اسٹیٹ ٹائیکون سمیت ہر ممکن شخصیت کے ذریعے کوشش کی گئی ہے لیکن نہ تو عمران خان انہیں اس عہدے کیلئے قبول کرتے ہیں اور نا ہی مقتدر حلقوں کی جانب سے ''کلیئرنس'' ملی ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے دورہ لاہور کے دوران پارٹی کے اندر سے وزیر اعلیٰ کے امیدواروں کے بارے میں گفتگو کی، اس کا مخاطب غیر اعلانیہ طور پر میاں اسلم اقبال، راجہ یاسر ہمایوں وغیرہ ہی تھے۔ عمران خان اپنا سب کچھ داو پر لگا کر سردار عثمان بزدار کا دفاع کر رہے ہیں، ایسے میں سردار صاحب کو بھی اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے عملی طور پر اقدامات کرنا ہوں گے، صرف فیاض الحسن چوہان یا حکومتی ترجمانوں کے کہنے سے کارکردگی بہتر نہیں ہو گی۔ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج کیا گل کھلا رہی ہے اور اس کا کتنا فائدہ اور کتنا نقصان حکومت کو ہو رہا ہے یہ سبھی کو معلوم ہے ماسوائے خود حکومت کے۔
پنجاب کی وزارت اعلی میں تبدیلی کے معاملے پر مسلم لیگ(ن) اور(ق) میں رابطوں نے عمران خان کو بھی خفا کردیا ہے جبکہ سردار عثمان بزدار کی بھی ق لیگ بارے سوچ تبدیل ہو رہی ہے بالخصوص ایک قومی روزنامہ میں شائع کروائی جانے والی خبر ''پنجاب میں ق لیگ نے عملی طور پر وزارت اعلی سنبھال لی''کو تحریک انصاف نے اپنے خلاف سیاسی اعلان جنگ تصور کیا ہے۔ بعض باخبر افراد کے مطابق وزیر اعظم کے حالیہ دورہ لاہور سے ایک روز قبل ق لیگ کی دو اہم شخصیات وزیر اعلی سے ملاقات کیلئے ایوان وزیر اعلی آئیں لیکن گھنٹوں انتظار کے بعد بھی ان کو شرف ملاقات نہیں بخشا گیا جس کے بعد مذکورہ شخصیات خاموشی سے واپس چلی گئیں جبکہ اگلے روز وزیر اعظم نے لاہور میں اراکین اسمبلی سے ملاقات میں ق لیگ کو مدعو نہیں کیا۔
یہ امر تشویشناک ہے کہ منظم طریقہ سے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ سب کو علم ہے کہ نومبر سے قبل پنجاب میں چیف سیکرٹری کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ایک افسر (جسے اب او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے) انتظامی معاملات میں باا ختیار تھا جبکہ ایوان وزیر اعلیٰ کی جانب سے تقرر وتبادلوں کی منڈی لگی رہتی تھی ، ریکارڈ تعداد میں ہونے والے تبادلوں نے پوری انتظامی مشینری کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔
نومبر میں عمران خان نے اپنی پسند کی نئی بیوروکریٹک ٹیم پنجاب میں تعینات کی ہے جسے با اختیار بھی بنایا ہے اور یہی وجہ تنازعہ ہے کہ سیاستدانوں کو بیوروکریسی کا با اختیار ہونا ہضم نہیں ہو رہا۔اراکین اسمبلی قانون ساز ہوتے ہیں ان کا احترام بیوروکریسی پر واجب ہے اور افسروں کو چاہییے کہ انہیں عزت اور پروٹوکول فراہم کریں لیکن افسر بیچارہ کیا کرے کہ ان کے دفتر میں آنے والے ہر رکن اسمبلی کے ہاتھ میں ٹرانسفر پوسٹنگ کی سفارش کیلئے ایک پرچی ہوتی ہے۔
رولز آف بزنس میں بہت واضح ہے کہ کسی وزیر یا رکن اسمبلی کو محکمہ میں تقرر وتبادلے بارے کوئی اختیار نہیں ہے لیکن ہمارے اراکین اسمبلی کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق تقرروتبادلے کیئے جائیں۔ بہت سے تقرر وتبادلوں کی سفارش انتخابی حلقہ میں ووٹ بنک کی وجہ سے کی جاتی ہے لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ بہت سی پرکشش سیٹوں پر ٹرانسفر پوسٹنگ کی سفارش کے پیچھے مالی مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔
اس سے قبل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں میاں نواز شریف کو قسمت کا دھنی یعنی ''LUCKY ''کہا جاتا تھا کہ جب بھی حالات ایسے بن جاتے کہ میاں صاحب کے بچنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی تب اچانک سے کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا کہ میاں صاحب پر چھائے تمام سیاہ بادل چھٹ جاتے لیکن آخر کار ایک روز ان کی قسمت بھی ساتھ چھوڑ گئی تھی۔
گزشتہ دو ، تین ہفتوں سے یہ یقین ہو چلا تھا کہ سردار عثمان بزدار کی رخصتی کا وقت آن پہنچا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ لیگ (ق) ہے کیونکہ آج تک مسلم لیگ (ق) کو سردارعثمان بزدار کا ''محافظ'' سمجھا جاتا تھا لیکن جب یہ خبریں جن میں کچھ نہ کچھ صداقت محسوس ہوتی ہے تیزی سے گردش کرنے لگیں کہ مسلم لیگ(ن) نے پنجاب کی وزارت اعلی چوہدر ی پرویز الہی کو دینے کیلئے ان کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے تو تحریک انصاف میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور وزیر صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال سمیت کئی صوبائی وزراء اور چند اراکین اسمبلی نے بھی شیروانیاں سلائی کروانے کا ارادہ کر لیا جس کی وجہ سے صورتحال پیچیدہ ہوتی چلی گئی جبکہ تحریک انصاف کے اندر بننے والے فارورڈ بلاک نے مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ بنا دیا تب اچانک عمران خان بھرپور ''جلالی'' روپ میں نمودار ہوئے اور انہوں نے دورہ لاہور کے دوران کابینہ ارکان اور تحریک انصاف کی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ جب تک عمران خان وزیر اعظم ہے تب تک سردار عثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب رہیں گے۔
خان صاحب نے یہ بھی بتا دیا کہ انہیں سب معلوم ہے کہ وزیر اعلی بننے کی سازش کون کون کر رہا ہے لیکن سب جان لیں کہ اگر عثمان بزدار کو تبدیل کیا گیا تو نیا وزیر اعلی 20 دن بھی نہیں چل پائے گا اور اسے بھی ہٹا دیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا اپنے وسیم اکرم پلس کیلئے ''عشق'' ڈھکا چھپا نہیں ہے کیونکہ گزشتہ سترہ ، اٹھارہ ماہ کے دوران پنجاب حکومت کی''کارکردگی'' نے پنجابیوں کی تو چیخیں نکلوا دی ہیں لیکن کپتان اپنے کھلاڑی سے خوش بھی ہیں اور عثمان بزدار کی آخری دفاعی لائن اور آہنی ڈھال بنے ہوئے ہیں۔عمران خان نے شاید سردار عثمان بزدار کواپنی''انا'' کا معاملہ بنا لیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے اند ر سے اٹھنے والے شدید ترین اعتراضات اور اپوزیشن و میڈیا کی تنقید کے باوجود وہ پنجاب میں تبدیلی لانے پر رضامند نہیں ہیں جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو یہ یقین دلادیا گیا ہے اگر بزدار تبدیل ہوئے تو وزارت عظمی بھی نہیں بچے گی، اس یقین میں ــ''روحانی وجدان'' کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے۔خیبر پختونخوا میں عاطف خان اور شہرام ترکئی کو فارغ کر دینے کے فوری بعد عمران خان کے اعلان بزدارکے بعد تحریک انصاف کے اندر موجود امیدواروں کو تو شاید بریک لگ جائے لیکن اتحادی جماعت کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
تحریک انصاف کے اندر وزارت اعلی پنجاب کے سب سے مضبوط امیدوار عبدالعلیم خان تصور کیئے جاتے تھے لیکن اس وقت علیم خان پنجاب حکومت کے معاملات سے بالکل لاتعلق ہیں اور نہ ہی وہ وزارت اعلی کی سازشی دوڑ میں شامل ہیں، علیم خان نے تو عمران خان کے پرزور اصرار پر دوبارہ سینئر وزیر بننے سے بھی معذرت کر لی ہے۔ پنجاب کے وزیر صنعت میاں اسلم اقبال 25 جولائی2018 کی شب سے ہی وزیر اعلی پنجاب کے امیدوار ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے بہت مضبوط لابنگ مہم بھی جاری رکھی ہوئی ہے ۔
صحافتی شخصیت، معروف رئیل اسٹیٹ ٹائیکون سمیت ہر ممکن شخصیت کے ذریعے کوشش کی گئی ہے لیکن نہ تو عمران خان انہیں اس عہدے کیلئے قبول کرتے ہیں اور نا ہی مقتدر حلقوں کی جانب سے ''کلیئرنس'' ملی ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے دورہ لاہور کے دوران پارٹی کے اندر سے وزیر اعلیٰ کے امیدواروں کے بارے میں گفتگو کی، اس کا مخاطب غیر اعلانیہ طور پر میاں اسلم اقبال، راجہ یاسر ہمایوں وغیرہ ہی تھے۔ عمران خان اپنا سب کچھ داو پر لگا کر سردار عثمان بزدار کا دفاع کر رہے ہیں، ایسے میں سردار صاحب کو بھی اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے عملی طور پر اقدامات کرنا ہوں گے، صرف فیاض الحسن چوہان یا حکومتی ترجمانوں کے کہنے سے کارکردگی بہتر نہیں ہو گی۔ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج کیا گل کھلا رہی ہے اور اس کا کتنا فائدہ اور کتنا نقصان حکومت کو ہو رہا ہے یہ سبھی کو معلوم ہے ماسوائے خود حکومت کے۔
پنجاب کی وزارت اعلی میں تبدیلی کے معاملے پر مسلم لیگ(ن) اور(ق) میں رابطوں نے عمران خان کو بھی خفا کردیا ہے جبکہ سردار عثمان بزدار کی بھی ق لیگ بارے سوچ تبدیل ہو رہی ہے بالخصوص ایک قومی روزنامہ میں شائع کروائی جانے والی خبر ''پنجاب میں ق لیگ نے عملی طور پر وزارت اعلی سنبھال لی''کو تحریک انصاف نے اپنے خلاف سیاسی اعلان جنگ تصور کیا ہے۔ بعض باخبر افراد کے مطابق وزیر اعظم کے حالیہ دورہ لاہور سے ایک روز قبل ق لیگ کی دو اہم شخصیات وزیر اعلی سے ملاقات کیلئے ایوان وزیر اعلی آئیں لیکن گھنٹوں انتظار کے بعد بھی ان کو شرف ملاقات نہیں بخشا گیا جس کے بعد مذکورہ شخصیات خاموشی سے واپس چلی گئیں جبکہ اگلے روز وزیر اعظم نے لاہور میں اراکین اسمبلی سے ملاقات میں ق لیگ کو مدعو نہیں کیا۔
یہ امر تشویشناک ہے کہ منظم طریقہ سے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ سب کو علم ہے کہ نومبر سے قبل پنجاب میں چیف سیکرٹری کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ایک افسر (جسے اب او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے) انتظامی معاملات میں باا ختیار تھا جبکہ ایوان وزیر اعلیٰ کی جانب سے تقرر وتبادلوں کی منڈی لگی رہتی تھی ، ریکارڈ تعداد میں ہونے والے تبادلوں نے پوری انتظامی مشینری کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔
نومبر میں عمران خان نے اپنی پسند کی نئی بیوروکریٹک ٹیم پنجاب میں تعینات کی ہے جسے با اختیار بھی بنایا ہے اور یہی وجہ تنازعہ ہے کہ سیاستدانوں کو بیوروکریسی کا با اختیار ہونا ہضم نہیں ہو رہا۔اراکین اسمبلی قانون ساز ہوتے ہیں ان کا احترام بیوروکریسی پر واجب ہے اور افسروں کو چاہییے کہ انہیں عزت اور پروٹوکول فراہم کریں لیکن افسر بیچارہ کیا کرے کہ ان کے دفتر میں آنے والے ہر رکن اسمبلی کے ہاتھ میں ٹرانسفر پوسٹنگ کی سفارش کیلئے ایک پرچی ہوتی ہے۔
رولز آف بزنس میں بہت واضح ہے کہ کسی وزیر یا رکن اسمبلی کو محکمہ میں تقرر وتبادلے بارے کوئی اختیار نہیں ہے لیکن ہمارے اراکین اسمبلی کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق تقرروتبادلے کیئے جائیں۔ بہت سے تقرر وتبادلوں کی سفارش انتخابی حلقہ میں ووٹ بنک کی وجہ سے کی جاتی ہے لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ بہت سی پرکشش سیٹوں پر ٹرانسفر پوسٹنگ کی سفارش کے پیچھے مالی مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔