وزیر اعلیٰ اور دو حکومتی رہنماؤں کے خلاف تحریک استحقاق جمع

اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے درمیان سیاسی تناؤکی باتیں ہر زبان پرہیں۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے درمیان سیاسی تناؤکی باتیں ہر زبان پرہیں۔

بلوچستان کی سیاست میں یکدم گرمی پیدا ہوگئی ہے ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی عوام کی نظریں موجودہ سیاسی صورتحال پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ خصوصاً بلوچستان کی برسراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر اختلافات کی باتیں باہر نکل چکی ہیں اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے درمیان سیاسی تناؤکی باتیں ہر زبان پر ہیں۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو میڈیا پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال پر تنقید کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ بعض حکومتی وزراء اور اراکین کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان کے حق میں دفاعی بیانات بھی سامنے آرہے ہیں ایسی صورت میں ایک دوسرے پر تنقید کا یہ سلسلہ اب اپنی آخری حد کو چھو چکا ہے حال ہی میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، پارٹی کے صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی اور سینیٹر سرفراز بگٹی کے الگ الگ بیانات پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنا استحقاق مجروح کرنے سے تعبیر کیا ہے اور اس سلسلے میں اُنہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت تینوں رہنماؤں کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کرا دی ہے۔

اس تحریک استحقاق میں اُنہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل19 کے تحت بحیثیت اسپیکر اور عام شہری مجھے اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے جبکہ اس کے برعکس مقامی اخبارات میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور احمد بلیدی اور سینیٹر سرفراز بگٹی کی جانب سے میرے خلاف الگ الگ بیانات شائع ہوئے ہیں جن سے بحیثیت اسپیکر نہ صرف میرا بلکہ پورے ایوان کا استحقاق مجروع ہوا ہے لہٰذا بلوچستان اسمبلی کے قواعد و انضباط کار مجریہ 1974ء کے قاعدہ 60 الف کے تحت یہ معاملہ استحقاق کمیٹی کے حوالے کیا جائے۔

جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک استحقاق قاعدہ56 بلوچستان اسمبلی کے قواعد وانضباط مجریہ1956ء کے تحت جمع کرائی گئی ہے جس میں اُن کا یہ موقف ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے گذشتہ روز اپنے ایک اخباری بیان میں بحثیت اسپیکر اُن کے خلاف بیان میں یہ کہا ہے کہ ''وہ ایک جذباتی شخص ہیں اور جذبات میں آکر بہت ساری باتیں کر جاتے ہیں اس لئے وہ میری باتوں کو اہمیت نہیں دیتے'' جس سے ان کا استحقاق مجروع ہوا ہے۔آئینی و قانونی ماہرین اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے جو تحاریک استحقاق جمع کروائی ہیں وہ استحقاق بنتا بھی ہے کہ نہیں کیونکہ کسی بھی اسپیکر کی طرف سے اخباری بیانات کو بنیاد بنا کراستحقاق مجروح ہونے کی یہ تحاریک بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔


سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے درمیان سیاسی جنگ گذشتہ ایک ماہ پہلے اُس وقت شروع ہوئی جب اسپیکر بلوچستان اسمبلی کوئٹہ میں اچانک طبیعت خراب ہونے پر سول ہسپتال میں داخل ہوئے اور اُنہوں نے طبی سہولیات کے فقدان پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا طبیعت کی بحالی کے بعد اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو گورنر بلوچستان امان اﷲ یاسین زئی کے بیرون ملک دورے کے باعث قائم مقام گورنر مقرر ہوئے تو اُنہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے لاہور میں ایک شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے جہاز مانگا تو وزیراعلیٰ کی مصروفیات کے باعث جہاز فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی گئی جس پر اُنہوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور بعد ازاں وزیراعلیٰ بلوچستان کو ایک انٹرویو میں تنقید کا نشانہ بنایا اوردن بدن یہ صورتحال بگڑتی چلی گئی تنقید کے اس سلسلے پر حکومت کے بعض وزراء اور ترجمان بلوچستان حکومت بھی وزیراعلیٰ کے دفاع کیلئے میدان میں کود پڑے۔ ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال اور اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کے درمیان مفاہمت کیلئے بعض اطراف سے کوششیں بھی کی گئیں لیکن اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے تواتر سے آنے والے بیانات نے معاملے کو سلجھانے کے بجائے مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ جبکہ اب بھی بعض اطراف سے معاملے کو بہتری کی جانب لے جانے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں جس سے اُمید کی جاتی ہے کہ معاملے میں بہتری آجائے گی لیکن دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی اس سیاسی لڑائی میں متحدہ اپوزیشن نے بھی موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حصہ لینا شروع کردیا ہے۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجوکا یہ دعویٰ ہے کہ ان کی برسراقتدار جماعت بی اے پی کے بعض ناراض ایم پی ایز اور اپوزیشن ارکان کے ساتھ رابطے ہیں اور وہ باآسانی جام حکومت گرا سکتے ہیں۔

اسی طرح متحدہ اپوزیشن کی جانب سے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر قدوس بزنجو بی اے پی کے10 اراکین لے آئیں تو اپوزیشن جماعتیں جام حکومت کے خلاف اپنا جمہوری حق ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے جس کی بلوچستان اسمبلی کے65 کے ایوان میں اس وقت تعداد23 ہے اور اسے جام حکومت کو گرانے کیلئے10 اراکین کی ضرورت ہے اگر قدوس بزنجو جو دعویٰ کر رہے ہیں وہ بی اے پی کے ان ناراض اراکین کو جام حکومت کے خلاف میدان میں لے آتے ہیں تو صورتحال وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف جاتی ہے جبکہ وزیراعلیٰ جام کمال اور ان کے دیگر قریبی ساتھیوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کی پوزیشن مستحکم ہے اور وزیراعلیٰ جام کمال مضبوط ہیں قدوس بزنجو جو دعوے کررہے ہیں اُس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور ان کے ساتھ بی اے پی کا ایک آدھ کے علاوہ کوئی بھی رکن نہیں ہے؟۔

ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے بجائے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئندہ چند روز میں پیش ہو سکتی ہے جس کیلئے برسراقتدار جماعت بی اے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے سرجوڑ لئے ہیں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بی اے پی کے جام کمال سے ناراض وزیر بلدیات سردار محمد صالح بھوتانی کو بھی راضی کر لیا گیا ہے جنہوں نے گذشتہ دنوں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی جو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور ان درمیان معاملات طے ہونے کا واضح عندیہ ہے۔ کیونکہ اس سے قبل وہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ اور کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کر رہے تھے۔

ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انہی دنوں میں صوبائی کابینہ میں توسیع اوراتحادی جماعت کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند اور بی اے پی کے مٹھا خان کاکڑ کو شامل کرنے کے اقدام نے بھی وزیراعلیٰ جام کمال کی حکومت کو مضبوط کیا ہے اور شمولیت کے بعد اتحادی جماعت تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی بھرپور حمایت اور انہیں ہر پلیٹ فارم پر ان کا ساتھ دینے کا اعلان بھی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے بڑی دانشمندی سے اپنی صف بندی کرکے نہ صرف اپنی اتحادی جماعتوں کو ایک پیج پر کھڑا کردیا ہے بلکہ اپنی حکومت کو مزید مضبوط کر لیا ہے۔
Load Next Story