پاکستانی میدانوں کی رونق بھارتی آنکھوں میں کھٹکنے لگی
رنگ میں بھنگ ڈالنے کیلیے رواں برس ایشیا کپ میں ٹیم بھیجنے سے صاف انکار کر دیا
پاکستانی میدانوں کی رونق بھارتی آنکھوں میں کھٹکنے لگی،رنگ میں بھنگ ڈالنے کیلیے رواں برس ایشیا کپ میں ٹیم بھیجنے سے صاف انکار کر دیا۔
پاکستان کو رواں سال ستمبر میں ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنا ہے، ایونٹ اکتوبر میں آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈکپ کی تیاریوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، بنگلہ دیش کیخلاف سیریز کا معاملہ ہوا میں معلق رہنے کے بعد بھارت سے تعلق رکھنے والے آئی سی سی کے چیئرمین ششانک منوہر کی معاونت سے 3 حصوں میں منقسم شیڈول طے پایا تو کئی حلقوں سے ڈیل کی خبریں گردش میں رہیں۔
سابق کپتان راشد لطیف نے قیاس ظاہر کیا کہ شاید سیریز کے عوض ایشاکپ کی میزبانی بنگلہ دیش کو سونپ دی جائے،اس سے پاکستان آنے سے مسلسل انکاری بھارتی ٹیم کو بھی کسی نیوٹرل وینیو پر ایکشن میں آنے کا موقع مل جائے گا،بنگلہ دیشی بورڈ کے صدر نظم الحسن کی گفتگو سے بھی اشارے ملے کہ ایشیا کپ پاکستان میں نہ ہوا تو وہ میزبانی کیلیے تیار ہیں۔
بعد ازاں پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے ڈیل کے تاثر کو مسترد کر دیا، ان کا ایک بیان سامنے آیا کہ بھارتی ٹیم ایشیا کپ میں شرکت کیلیے نہیں آتی تو انھیں بھی حق حاصل ہوگا کہ اپنی ٹیم کو وہاں شیڈول ورلڈکپ2021 میں شرکت کیلیے بھجوانے کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں،اگرچہ پی سی بی کی جانب سے اس موقف کی وضاحت بھی پیش کردی گئی تھی لیکن بھارتی ٹیم کی پاکستان میں ہونے والے میچز میں شرکت پر بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے، اس سے قبل دونوں ملکوں میں کشیدگی کے سبب پاکستانی کرکٹرز کوویزا اور سیکیورٹی مسائل کے پیش نظر بی سی سی آئی کو ایشیا کپ 2018 کی میزبانی یواے ای میں کرنا پڑی تھی۔
گذشتہ روز بھارتی اخبار ''ٹائمز آف انڈیا'' میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق بی سی سی آئی نے پاکستان میں رواں سال ہونے والے ایشیا کپ میں شرکت سے صاف لفظوں میں انکار کردیا۔
ایک بورڈ عہدیدار کا کہنا ہے کہ پاکستان کی میزبانی اور اس کے حقوق پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ایونٹ کا انعقاد کسی نیوٹرل وینیو پر ہونا چاہیے،ہماری ٹیم وہاں نہیں جا سکتی، موجودہ حالات میں کسی کثیر ملکی ٹورنامنٹ کیلیے بھی بلو شرٹس کے دورے کا کوئی امکان نہیں، اگر ایشین کرکٹ کونسل بھارت کے بغیر ہی پاکستان میں ایشیا کپ کرانے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ الگ بات ہوگی،اگر بلو شرٹس نے شرکت کی تو ایونٹ کسی نیوٹرل وینیو پر ہی ہوگا،یہ آپشن پہلے بھی استعمال کیا جاچکا، ایشیا کپ 2018میں بھارت نے اپنے میزبانی حقوق برقرار رکھے لیکن مقابلوں کا انعقاد یواے ای میں کیا،اس میں پاکستان ٹیم نے بھی شرکت کی،اب بھی ایسا کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ زمبابوے،ورلڈ الیون،سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے بعد بنگلہ دیش کی بھی میزبانی کرنے والا پاکستان اب دیگر ٹیموں کے ساتھ کثیر ملکی ٹورنامنٹ کرانے کا خواب دیکھ رہا ہے،پی سی بی کوایشیا کپ 2008کے بعد رواں برس پہلی بار کسی میگا ایونٹ کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوگا۔
پاکستان کو رواں سال ستمبر میں ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنا ہے، ایونٹ اکتوبر میں آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈکپ کی تیاریوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، بنگلہ دیش کیخلاف سیریز کا معاملہ ہوا میں معلق رہنے کے بعد بھارت سے تعلق رکھنے والے آئی سی سی کے چیئرمین ششانک منوہر کی معاونت سے 3 حصوں میں منقسم شیڈول طے پایا تو کئی حلقوں سے ڈیل کی خبریں گردش میں رہیں۔
سابق کپتان راشد لطیف نے قیاس ظاہر کیا کہ شاید سیریز کے عوض ایشاکپ کی میزبانی بنگلہ دیش کو سونپ دی جائے،اس سے پاکستان آنے سے مسلسل انکاری بھارتی ٹیم کو بھی کسی نیوٹرل وینیو پر ایکشن میں آنے کا موقع مل جائے گا،بنگلہ دیشی بورڈ کے صدر نظم الحسن کی گفتگو سے بھی اشارے ملے کہ ایشیا کپ پاکستان میں نہ ہوا تو وہ میزبانی کیلیے تیار ہیں۔
بعد ازاں پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے ڈیل کے تاثر کو مسترد کر دیا، ان کا ایک بیان سامنے آیا کہ بھارتی ٹیم ایشیا کپ میں شرکت کیلیے نہیں آتی تو انھیں بھی حق حاصل ہوگا کہ اپنی ٹیم کو وہاں شیڈول ورلڈکپ2021 میں شرکت کیلیے بھجوانے کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں،اگرچہ پی سی بی کی جانب سے اس موقف کی وضاحت بھی پیش کردی گئی تھی لیکن بھارتی ٹیم کی پاکستان میں ہونے والے میچز میں شرکت پر بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے، اس سے قبل دونوں ملکوں میں کشیدگی کے سبب پاکستانی کرکٹرز کوویزا اور سیکیورٹی مسائل کے پیش نظر بی سی سی آئی کو ایشیا کپ 2018 کی میزبانی یواے ای میں کرنا پڑی تھی۔
گذشتہ روز بھارتی اخبار ''ٹائمز آف انڈیا'' میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق بی سی سی آئی نے پاکستان میں رواں سال ہونے والے ایشیا کپ میں شرکت سے صاف لفظوں میں انکار کردیا۔
ایک بورڈ عہدیدار کا کہنا ہے کہ پاکستان کی میزبانی اور اس کے حقوق پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ایونٹ کا انعقاد کسی نیوٹرل وینیو پر ہونا چاہیے،ہماری ٹیم وہاں نہیں جا سکتی، موجودہ حالات میں کسی کثیر ملکی ٹورنامنٹ کیلیے بھی بلو شرٹس کے دورے کا کوئی امکان نہیں، اگر ایشین کرکٹ کونسل بھارت کے بغیر ہی پاکستان میں ایشیا کپ کرانے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ الگ بات ہوگی،اگر بلو شرٹس نے شرکت کی تو ایونٹ کسی نیوٹرل وینیو پر ہی ہوگا،یہ آپشن پہلے بھی استعمال کیا جاچکا، ایشیا کپ 2018میں بھارت نے اپنے میزبانی حقوق برقرار رکھے لیکن مقابلوں کا انعقاد یواے ای میں کیا،اس میں پاکستان ٹیم نے بھی شرکت کی،اب بھی ایسا کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ زمبابوے،ورلڈ الیون،سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے بعد بنگلہ دیش کی بھی میزبانی کرنے والا پاکستان اب دیگر ٹیموں کے ساتھ کثیر ملکی ٹورنامنٹ کرانے کا خواب دیکھ رہا ہے،پی سی بی کوایشیا کپ 2008کے بعد رواں برس پہلی بار کسی میگا ایونٹ کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوگا۔