متبادل شاہراہیں … بلوچستان

کوئٹہ،خضدار،گوادر اور کراچی کو ملک کے اوپری حصوں سے ملانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی۔

شاہراہیں رابطے بڑھانے،نقل و حمل کے ذرایع اور ترقی کا اہم زینہ ہوتی ہیں، برصغیر پاک و ہند میں پچاس سال پہلے تک روڈ نیٹ ورک بڑھانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پہلے گاڑیاں نہیں تھیں۔ آمدورفت کا بڑا ذریعہ مویشی بردار گاڑیاں اور گھوڑے اونٹ تھے۔

شیر شاہ سوری نے اپنے مختصر دورِ حکومت میں پشاور سے کلکتہ ایک ایسی شاہراہ تعمیر کروائی جو آج تک پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے اندر ایک بڑی سڑک کے طور پر کام کر رہی ہے ۔شیر شاہ سوری کے بعد مغلوں اور انگریزوں کے دور میں اس طرح کی کوئی دوسری بڑی کوشش نظر نہیں آتی حالانکہ کھیت کھلیان سے منڈیوں تک کچی پکی سڑکوں میں کچھ اضافہ ہوا۔

آزادی کے بعد گرینڈ ٹرنک روڈ )جی ٹی روڈ (تقریباً پانچ دہائیوں تک راولپنڈی ،لاہور کے درمیان آمد و رفت کا بڑا ذریعہ رہا لیکن آبادی اور ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں بے پناہ اضافے سے یہ بڑی سڑک ناکافی ہوگئی۔اس کے ساتھ ساتھ یہ اہم شاہراہ ہماری سرحدکے ساتھ چل رہی ہے کشمیر ابھی تک ایک متنازعہ علاقہ ہے اگر ہم وقتی طور پر فرض کر لیں کہ خدا نخواستہ ، خدا نخواستہ کشمیر ہم سے چھین لیا جائے تو جی ٹی روڈ ہماری سرحد کے بالکل قریب ہوگی۔آجکل کے چھوٹے ہتھیاروں سے فائر کر کے اسے بلاک کیا جا سکتا ہے۔جہلم شہر سے کوئی دس کلومیٹر پہلے دینہ بس اسٹاپ سے منگلہ ڈیم کشمیر کا فاصلہ کوئی زیادہ نہیں۔سرائے عالمگیر سے کشمیر کی یہ سرحد کوئی دس پندرہ کلومیٹر ہی دور ہے۔

اس لیے یہ اہم شاہراہ دفاعی لحاظ سے بہت محفوظ شاہراہ نہیں۔ایسے میں اسلام آباد لاہور موٹر وے کی تعمیر سے کئی مسائل حل ہوئے اور بیشمار فوائد ملے۔سب سے پہلے تو ہماری یہ پہلی اور بہت ہی اہم موٹر وے سرحد سے خاصی دور ہے جس پر حملہ کر کے سپلائی لائن کو کاٹ دینا آسان نہیں رہا۔ اس کی تعمیر سے وہ علاقے جہاں اسلام آباد اور لاہور سے پہنچنا دشوار اور وقت طلب تھا، اب وہ علاقے کھل گئے ہیں،وہاں پہنچنا اور وہاں سے نکل کر آنا بہت آسان ہے جب کہ وہ علاقے ملکی معیشت اور ترقی میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں۔موٹر وے کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ اس کے چند حصوں پر ہمارے لڑاکا طیارے اتر اور چڑھ سکتے ہیں ،گویا کہ یہ صرف متبادل شاہراہ ہی نہیں بلکہ ایمرجنسی میں کام آنے والے رن وے بھی ہیں۔

سالٹ رینج سے آگے لاہور تک تمام علاقہ انتہائی زرخیز ہے۔اب ان علاقوں کی پیداوار ملک کے طول و عرض میں تیزی سے پہنچ رہی ہیں، یوں اس متبادل شاہراہ نے جی ٹی روڈ پر دباؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کی بچت کے ساتھ سفر کو آرام دہ،محفوظ اور خوشگوار بنا دیا ہے۔

قارئینِ کرام آپ شاید مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ابھی تک کراچی،حیدرآباد،تربت،خضدار ،ژوب اور کوئٹہ سے لاہور،اسلا م آباد، پشاور اور واپس ان مقامات تک سفر بہت تکلیف دہ،لمبا اور وقت طلب ہے۔پاکستان بنے سات دہائیاں ہو چکی ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے طول و عرض میں اتنی عمدہ شاہراہیں تعمیر ہو گئی ہوتیں کہ پاکستانی اپنے ملک کے کسی بھی حصے سے صبح نکل کر شام ڈھلے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے، اس سے رابطے بڑھتے اور معیشت روز افزوں ترقی کرتی۔


اسلام آباد، راولپنڈی سے موٹر وے کے ذریعے لاہور کے لیے نکلیں تو بلکسر سے تلہ گنگ میانوالی روڈ کے ذریعے آپ ایک طرف ڈی آئی خان کے راستے ژوب اور کوئٹہ پہنچ سکتے ہیں۔ مزید آپ میانوالی،مظفر گڑھ کے راستے ملتان پہنچ سکتے ہیں۔ذرا آگے بڑھ کر اسی سڑک سے ڈی جی خان، لورالائی کے راستے کوئٹہ اور ڈی جی خان،کشمور کے راستے ایک طرف کوئٹہ اور دوسری طرف سکھر اور کراچی پہنچ سکتے ہیں۔

کوئٹہ،خضدار،گوادر اور کراچی کو ملک کے اوپری حصوں سے ملانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی۔بلکسر سے نکلنے والی یہ اہم سڑک ابھی تک نہ تو چوڑی کی گئی ہے اور نہ ہی ایسا ہوتا نظر آتا ہے، اب تو ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اس پر سفر خطرناک اوربہت تکلیف دہ ہو چکا ہے۔وزیرِ اعظم صاحب کا آبائی علاقہ چونکہ میانوالی ہے اور وہ اس پر سفر بھی کرتے رہے ہیں اس لیے غالب امکان تھا کہ یہ اہم سڑک ترقی کر کے بڑی شاہراہ بن جائے گی۔ اسے پچھلے سال سالانہ ڈویلپمنٹ پلان میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن ابھی تک یہ سب کچھ کاغذوں سے باہر نہیں آیا۔

میں 2002میں ژوب گیا اور واپسی پر چاہا کہ سڑک کے راستے ڈ ی آئی خان،میانوالی،تلہ گنگ سے اسلام آباد پہنچوں۔مجھے بتایا گیا کہ ژوب سے نکل کر تھوڑے فاصلے پر پکی چھوڑ کچی سڑک بھی ناپید ہو جاتی ہے۔میرا ڈرائیور بگٹی قبیلے سے تھا،اس سے بات کی تو اس نے کہا کہ بات تو ٹھیک ہے لیکن وہ چونکہ راستوں سے واقف ہے اس لیے وہ مجھے ڈی آئی خان پہنچا دے گا۔

اگلے دن صبح ناشتے کے بعد ژوب سے روانہ ہوئے اور کوئی تیس کلومیٹر طے کرنے کے بعد سڑک ختم ہوگئی۔اس کے بعد یہ سفر ایک خطرناک مہم بن گیا۔ ہم نے ایک ندی کو کم و بیش گیارہ مرتبہ عبور کیا۔کیا موجودہ دور میں میں ایسا ہونا چاہیے۔کیا یہDark Agesہیں۔میں جب وزارتِ مواصلات میں ایک بہت سینئر پوزیشن پر تھا تو میں نے ژوب،ڈی آئی خان سڑک کو بنانے کے لیے بہت تگ و دو کی۔ اس کا پی سی ون منظور کروایا اور فنڈز بھی جاری ہونا شروع ہو گئے تھے۔خدا کرے یہ اہم سڑک مکمل ہو گئی ہو اور ڈی آئی خان۔ ژوب سفر جلدی اور باآسانی طے ہونا شروع ہو گیا ہو۔

بلوچستان اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور خوبصورت صوبہ ہے۔ اگر بلوچستان ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا۔اگر بلوچستان خوش حال ہو گا تو پاکستان خوشحال ہو گا،کوئٹہ اور دیگر بلوچستانی شہر ا ور علاقے اگر اسی طرح کُھل جائیں جس طرح موٹر وے بن جانے سے وسطی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں دریائے کابل کے دونوں اطراف و علاقے کھل گئے ہیں تو بلوچستان تعمیر و ترقی کے راستے پر چلنا نہیں بلکہ دوڑنا شروع کر دے گا۔

ہمارے سامنے ایک ٹارگٹ ہو نا چاہیے کہ بلوچستان اور سندھ کے کسی بھی شہر سے دس گھنٹے میں اسلام آباد،پشاور یا بنوں پہنچ سکیں۔جب یہ علاقے کھلیں گے،لوگوں کا آپسی میل جول بڑھے گا۔تعمیر و ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی تو دل و ا ہوں گے۔پاکستان کی تعمیر و ترقی کوئٹہ، تربت اور گوادر کی ترقی اور خوشحالی سے جڑی ہوئی ہے۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی اور گوادر کی بندر گاہ پاکستان کا مستقبل ہے۔گوادر کے لیے میٹھے پانی کی فراہمی پر توجہ مبذول ہونی چاہیے۔

ابھی تک گوادر کو پاکستان کے باقی شہروں سے ملانے کے کام کی رفتار قابلِ ستائش نہیں۔ اور اس میں بہت سی عالمی قوتوں کی گھناؤنی سازش بھی کارفرما ہے لیکن پاکستان اور خاص کر بلوچی عوام کا کام ہے کہ اس کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کریں۔ نیشنلزم کے اژدہا کو پاؤں کی بیڑی نہ بننے دیں۔ موجودہ دور میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں جنھوں نے اپنے دل وا کیے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں متبادل شاہراہیں ترجیحی بنیادوں پر تعمیر ہوں تاکہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ کم سے کم وقت میں او ربآسانی پہنچ سکیں۔میل جول بڑھے۔غلط پروپیگنڈے کا توڑ ہو اور مستقبل کا شاندار نقشہ سب کی آنکھوں کے سامنے آئے۔ ہماری شاہراہیں ہمیں سینٹرل ایشین ریاستوں، ایران، ترکی اور عراق سے جوڑنے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
Load Next Story