تو پھر آزادی ہی سہی
فیصلے آسمانوں پر لکھ دیے جاتے ہیں نا چاہتے ہوئے بھی انسان کسی نہ کسی طرح اس کا محرک بن جاتا ہے۔
دہلی کا شاہین باغ پچھلے چالیس دنوں سے زائد بھارتی حکومت کے لیے مسائل میں گھرا بم بنتا جا رہا ہے ، جہاں دسمبر 2019ء سے خواتین اور بچے ایک تعصبانہ ایکٹ کے خلاف دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ شدید سردی اور دیگر رکاوٹیں بھی انھیں اس دھرنے سے نہ روک سکیں۔ یہ ایک کامیاب اور خطرناک دھرنا بھی ثابت ہو سکتا ہے جس کا اندازہ پہلے بھارتی حکومت کو ہرگز نہ تھا۔
ان کے خیال میں 1947ء کے بعد سے ہندوستان کے مسلمان جس طرح سر جھکا کر انتہائی سعادت مندی سے گزارا کر رہے ہیں اور کشمیرکی انفرادی شناخت کو ختم کر کے ہندوستان میں ضم کرنے کے عمل کے بعد سے تو مودی سرکار نے شیر بن کر پوری مسلم اکثریت کو ہڑپ کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ تیار کر رکھا تھا جو ان کی دوسری بار کی حکمرانی کا پرفیکٹ پلان تھا، جس کے تحت مودی نے خود پہلی بار آر ایس ایس جوائن کی تھی۔
ان کے مطابق اب اس خواب کی تعبیرکا وقت آ چکا ہے لیکن سچائی تو یہ ہے کہ فیصلے تو قدرت کے ہی ہوتے ہیں لیکن مودی سرکار کے لیے تو سی اے اے اور این آر سی ایکٹ لاگو کر کے شرافت کے لبادے میں بدمعاشی سے مسلمانوں کی جائیدادیں ہتھیا کر انھیں اس طرح بے دخل کریں کہ نہ ان کے پاس سر چھپانے کو چھت رہے اور نہ ہی روزی روٹی کے لیے کاروبار، اور بیس کروڑ کی آبادی روہنگیا مسلمانوں کی مانند دنیا بھر میں خزاں کے سوکھے پتوں کی مانند ڈولتے اپنی مظلومیت کی داستانیں رقم کرتے چلے اور سب بس افسوس صد افسوس ہی کرتے رہے۔
این آر سی قانون کے تحت وہ لوگ جنھوں نے مختلف ممالک جن میں پاکستان ، افغانستان ، بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لی خاص کر آسام جو سرحدی علاقہ اس طرح کے لوگوں کا خاص مقام ہے ، اس کو 2013-14ء میں لاگو کیا گیا تھا۔ امیت شا جو مودی کے نہایت قریبی ساتھی اور اسلام مخالف دوستی میں بہت آگے تک کی پلاننگ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس قانون کو آسام سے آگے پورے انڈیا میں 2021ء تک لاگو کر دیا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے خواب کے تحت کھل کر مسلمانوں کے خلاف یوں حملہ کیا گیا کہ یہ پابندی صرف مسلمانوں پر لاگو کی جائے۔ جب کہ ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور جین مت کے ماننے والے اس تعصبانہ پالیسی سے مبرا ہیں۔ یعنی 2014ء سے پہلے بھارت میں قیام کرنے والے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس سٹیزن شپ (CAA) کو گیارہ دسمبر 2019ء میں بھارت کی پارلیمنٹ میں پاس کر دیا گیا۔ پہلی بار بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے خلاف کھل کر ایسا تعصبانہ ایکٹ پاس کیا گیا۔
بی جے پی سرکار کو شاید مسلمانوں کے اس قدر شدید احتجاج کا اندازہ نہ تھا کہ جس نے پورے ہندوستان میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ، دہلی کی جامعہ میں دہشت گردی کی حرکتوں نے بھی خود انتہا پسند ہندوؤں اور سرکارکی ملی بھگت کارروائی کی قلعی کھول دی جسے ترقی پسند اور روشن خیال ہندوؤں کی جانب سے ناپسند کیا گیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس طرح کشمیر کے ساتھ سلوک کیا گیا اسے اب پورے بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ آزمانے کی کارروائی کی شروعات ہو چکی ہے جس کا اندازہ بھارت کے بیس کروڑ مسلمانوں کو بخوبی ہے وہ جان چکے ہیں کہ یہ حکومت اپنے تعصبانہ عمل میں اس حد تک آگے نکل چکی ہے کہ اگر اس بار ان کے حکم اور دباؤ میں آ کر سر جھکا دیا گیا تو پھر آیندہ وقتوں میں اس جھکے ہوئے سر کو کٹنے میں مودی سرکار دیر نہیں کرے گی کیونکہ وہ اس این آر سی اور سی اے اے قانون کے تحت لوگوں کو مختلف طرح کے خوف ناک ٹرائلز سے گزرنا ہو گا سے خوب واقف ہے۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ نوے کی دہائی میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لہٰذا جو کچھ بھارت کے مسلمان اپنے بچاؤ اور حفاظت کے لیے کر رہے ہیں وہ ایک فطری عمل ہے، جب کہ دنیا بھر میں مودی سرکار کے اس تعصبانہ رویے کی مذمت ہونی چاہیے جو نہیں ہو رہی۔
شرجیل امام ایک ہندوستانی مسلمان نوجوان ہے جس کے خلاف آسام میں کیس درج کیا گیا ہے یہ بغاوت کا مقدمہ اس کی اس تقریر پر کیا جا رہا ہے جو اس نے شاہین باغ میں لوگوں کے درمیان کی جس میں اس نے آسام اور نارتھ ایسٹ انڈیا کو بھارت سے الگ کرنے کی بات کی۔ بقول بی جے پی کے وزیر کے شرجیل امام کی اس تقریر کے درمیان آزادی اور اللہ اکبر کے نعرے لگتے رہے، آسام کے وزیر ہیمانات بسواس نے اسی تقریر کو بنیاد بنا کر کیس درج کرایا۔
نعرے لگ رہے ہیں ،آزادی کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس کی وجہ مسلمان نہیں بلکہ خود مودی سرکار اور ان کے پر تعصب ساتھی ہیں جو بھارت میں ہندوازم کا خواب دیکھتے دیکھتے بوڑھے ہو چکے ہیں۔ یوگی اننت ناگ شاہین باغ کے اس احتجاج پر اس قدر پھڑک رہے ہیں کہ وہ کھلم کھلا الزام تراشنے پر اتر آئے ہیں۔
ان کے خیال میں مسلمان اپنی خواتین اور بچوں کو آگے رکھ کر کوئی کھیل کر رہے ہیں جب کہ مودی سرکار اپنے مختلف بیانات میں مسلمانوں کے لیے جس قدر گری ہوئی زبان استعمال کرتی رہی ہے اس سے یہی تاثر مل رہا تھا کہ انھوں نے بھارت کے بیس بائیس کروڑ مسلمانوں کو چیونٹی سمجھ کر اپنے پیروں تلے روندنے کا پروگرام بنا رکھا تھا جو اب خود ان کے گلے پڑتا نظر آ رہا ہے۔ پہلا پتھر خود مودی نے پھینکا لیکن شیشے کا گھروندا نہ تھا جو کرچی کرچی ہو جاتا، آج بھارت بھر میں مسلمان ایک ہی زبان بول رہے ہیں، آزادی اور اپنے تحفظ کا احساس خود پر تعصب جنونی لوگوں نے انھیں دلایا۔
فیصلے آسمانوں پر لکھ دیے جاتے ہیں نا چاہتے ہوئے بھی انسان کسی نہ کسی طرح اس کا محرک بن جاتا ہے، کب، کیوں اور کیسے اس کا اختیار بندوں کے پاس نہیں ہے۔ بس یقین اس بات پر رکھیے کہ ہمارے پیروں تلے جو زمین ہے ہماری تو وہ بھی نہیں ہے پھر بڑی بڑی باتوں دعوؤں کا فائدہ؟ خدا ہم سب کو نیک ہدایت دے۔ (آمین)
ان کے خیال میں 1947ء کے بعد سے ہندوستان کے مسلمان جس طرح سر جھکا کر انتہائی سعادت مندی سے گزارا کر رہے ہیں اور کشمیرکی انفرادی شناخت کو ختم کر کے ہندوستان میں ضم کرنے کے عمل کے بعد سے تو مودی سرکار نے شیر بن کر پوری مسلم اکثریت کو ہڑپ کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ تیار کر رکھا تھا جو ان کی دوسری بار کی حکمرانی کا پرفیکٹ پلان تھا، جس کے تحت مودی نے خود پہلی بار آر ایس ایس جوائن کی تھی۔
ان کے مطابق اب اس خواب کی تعبیرکا وقت آ چکا ہے لیکن سچائی تو یہ ہے کہ فیصلے تو قدرت کے ہی ہوتے ہیں لیکن مودی سرکار کے لیے تو سی اے اے اور این آر سی ایکٹ لاگو کر کے شرافت کے لبادے میں بدمعاشی سے مسلمانوں کی جائیدادیں ہتھیا کر انھیں اس طرح بے دخل کریں کہ نہ ان کے پاس سر چھپانے کو چھت رہے اور نہ ہی روزی روٹی کے لیے کاروبار، اور بیس کروڑ کی آبادی روہنگیا مسلمانوں کی مانند دنیا بھر میں خزاں کے سوکھے پتوں کی مانند ڈولتے اپنی مظلومیت کی داستانیں رقم کرتے چلے اور سب بس افسوس صد افسوس ہی کرتے رہے۔
این آر سی قانون کے تحت وہ لوگ جنھوں نے مختلف ممالک جن میں پاکستان ، افغانستان ، بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لی خاص کر آسام جو سرحدی علاقہ اس طرح کے لوگوں کا خاص مقام ہے ، اس کو 2013-14ء میں لاگو کیا گیا تھا۔ امیت شا جو مودی کے نہایت قریبی ساتھی اور اسلام مخالف دوستی میں بہت آگے تک کی پلاننگ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس قانون کو آسام سے آگے پورے انڈیا میں 2021ء تک لاگو کر دیا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے خواب کے تحت کھل کر مسلمانوں کے خلاف یوں حملہ کیا گیا کہ یہ پابندی صرف مسلمانوں پر لاگو کی جائے۔ جب کہ ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور جین مت کے ماننے والے اس تعصبانہ پالیسی سے مبرا ہیں۔ یعنی 2014ء سے پہلے بھارت میں قیام کرنے والے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس سٹیزن شپ (CAA) کو گیارہ دسمبر 2019ء میں بھارت کی پارلیمنٹ میں پاس کر دیا گیا۔ پہلی بار بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے خلاف کھل کر ایسا تعصبانہ ایکٹ پاس کیا گیا۔
بی جے پی سرکار کو شاید مسلمانوں کے اس قدر شدید احتجاج کا اندازہ نہ تھا کہ جس نے پورے ہندوستان میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ، دہلی کی جامعہ میں دہشت گردی کی حرکتوں نے بھی خود انتہا پسند ہندوؤں اور سرکارکی ملی بھگت کارروائی کی قلعی کھول دی جسے ترقی پسند اور روشن خیال ہندوؤں کی جانب سے ناپسند کیا گیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس طرح کشمیر کے ساتھ سلوک کیا گیا اسے اب پورے بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ آزمانے کی کارروائی کی شروعات ہو چکی ہے جس کا اندازہ بھارت کے بیس کروڑ مسلمانوں کو بخوبی ہے وہ جان چکے ہیں کہ یہ حکومت اپنے تعصبانہ عمل میں اس حد تک آگے نکل چکی ہے کہ اگر اس بار ان کے حکم اور دباؤ میں آ کر سر جھکا دیا گیا تو پھر آیندہ وقتوں میں اس جھکے ہوئے سر کو کٹنے میں مودی سرکار دیر نہیں کرے گی کیونکہ وہ اس این آر سی اور سی اے اے قانون کے تحت لوگوں کو مختلف طرح کے خوف ناک ٹرائلز سے گزرنا ہو گا سے خوب واقف ہے۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ نوے کی دہائی میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لہٰذا جو کچھ بھارت کے مسلمان اپنے بچاؤ اور حفاظت کے لیے کر رہے ہیں وہ ایک فطری عمل ہے، جب کہ دنیا بھر میں مودی سرکار کے اس تعصبانہ رویے کی مذمت ہونی چاہیے جو نہیں ہو رہی۔
شرجیل امام ایک ہندوستانی مسلمان نوجوان ہے جس کے خلاف آسام میں کیس درج کیا گیا ہے یہ بغاوت کا مقدمہ اس کی اس تقریر پر کیا جا رہا ہے جو اس نے شاہین باغ میں لوگوں کے درمیان کی جس میں اس نے آسام اور نارتھ ایسٹ انڈیا کو بھارت سے الگ کرنے کی بات کی۔ بقول بی جے پی کے وزیر کے شرجیل امام کی اس تقریر کے درمیان آزادی اور اللہ اکبر کے نعرے لگتے رہے، آسام کے وزیر ہیمانات بسواس نے اسی تقریر کو بنیاد بنا کر کیس درج کرایا۔
نعرے لگ رہے ہیں ،آزادی کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس کی وجہ مسلمان نہیں بلکہ خود مودی سرکار اور ان کے پر تعصب ساتھی ہیں جو بھارت میں ہندوازم کا خواب دیکھتے دیکھتے بوڑھے ہو چکے ہیں۔ یوگی اننت ناگ شاہین باغ کے اس احتجاج پر اس قدر پھڑک رہے ہیں کہ وہ کھلم کھلا الزام تراشنے پر اتر آئے ہیں۔
ان کے خیال میں مسلمان اپنی خواتین اور بچوں کو آگے رکھ کر کوئی کھیل کر رہے ہیں جب کہ مودی سرکار اپنے مختلف بیانات میں مسلمانوں کے لیے جس قدر گری ہوئی زبان استعمال کرتی رہی ہے اس سے یہی تاثر مل رہا تھا کہ انھوں نے بھارت کے بیس بائیس کروڑ مسلمانوں کو چیونٹی سمجھ کر اپنے پیروں تلے روندنے کا پروگرام بنا رکھا تھا جو اب خود ان کے گلے پڑتا نظر آ رہا ہے۔ پہلا پتھر خود مودی نے پھینکا لیکن شیشے کا گھروندا نہ تھا جو کرچی کرچی ہو جاتا، آج بھارت بھر میں مسلمان ایک ہی زبان بول رہے ہیں، آزادی اور اپنے تحفظ کا احساس خود پر تعصب جنونی لوگوں نے انھیں دلایا۔
فیصلے آسمانوں پر لکھ دیے جاتے ہیں نا چاہتے ہوئے بھی انسان کسی نہ کسی طرح اس کا محرک بن جاتا ہے، کب، کیوں اور کیسے اس کا اختیار بندوں کے پاس نہیں ہے۔ بس یقین اس بات پر رکھیے کہ ہمارے پیروں تلے جو زمین ہے ہماری تو وہ بھی نہیں ہے پھر بڑی بڑی باتوں دعوؤں کا فائدہ؟ خدا ہم سب کو نیک ہدایت دے۔ (آمین)