کون صحیح کون غلط
18 جنوری 1985کو سوڈانی حکومت معروف ادیب، سیاست دان اور جید اسلامی اسکالر محمود محمد طہٰ کو پھانسی چڑھانے والی تھی۔
18 جنوری 1985 جمعہ کی صبح سوڈانی حکومت معروف ادیب، سیاست دان اور جید اسلامی اسکالر محمود محمد طہٰ کو پھانسی چڑھانے والی تھی۔ یہ سوڈانی دانشور شمال مشرقی افریقہ کے اس ملک کو انتہاپسند شریعت سے آزاد کرانا چاہتا تھا، سوڈان کے آمر جعفر نمیری نے ایک روز قبل محمود محمد طہٰ کی موت کے پروانے پر دستخط کردیے تھے۔ یہ سزائے موت سعودی عرب کے انتہائی طاقتور مذہبی رہنما شیخ عبداﷲ بن باز کے فتوے کی بنیاد پر دی جا رہی تھی۔ جیسے ہی بندھے ہاتھوں اور سر پر چڑھے غلاف کے ساتھ طہٰ تختہ دار کی سیڑھیاں چڑھے، ہزاروں اسلام پسندوں نے جنہیں بسوں میں بھر کر جیل لایا گیا تھا، پرجوش نعرے لگانا شروع کردیے، یہ سب اخوان المسلمون کے ارکان تھے۔ یہ جماعت 1983 میں سوڈان میں شرعی قوانین نافذ کرنے کی ذمے دار تھی۔
طہٰ جس نے اخوان المسلمون کی بالادستی والے نظریے کی غیر اسلامی فطرت اور اس کے دیوالیہ پن کا بھانڈا پھوڑا تھا کو اب ہمیشہ کے لیے خاموش کیا جارہا تھا۔ طہٰ کے گلے میں پھندا ڈالنے سے پہلے ان کے سر سے ٹوپ اتارا گیا، طہٰ نے زیر لب مسکراتے ہوئے ہجوم کی طرف دیکھا۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ طہٰ جلاد کے سامنے گئے تو ان کی آنکھوں میں بغاوت کی چمک تھی، وہ کسی خوف کے بغیر انتہاپسند اسلام پسندوں کے ہجوم کی طرف دیکھتے رہے۔ اس کے بعد طہٰ کے چہرے پر ٹوپ دوبارہ چڑھا دیا گیا، جیسے ہی جلاد نے طہٰ کی گردن کے گرد پھندا سخت کیا، اخوان المسلمون کے کارکنوں نے جذباتی انداز میں اﷲ اکبر، اﷲ اکبر کے نعرے لگانا شروع کردیے۔ پھر پھانسی گھاٹ کے تختے کھینچ دیے گئے، طہٰ کا جسم تھوڑی دیر کے لیے پھڑکا اور پھر جان ان کے جسد خاکی سے نکل گئی۔ ان کی لاش اس نرم ہوا میں بے جان لٹکی ہوئی تھی ۔
کافر قرار دیے جانے والے محمود محمد طہٰ کچھ بھی ہوسکتے تھے لیکن کافر بہرحال نہیں تھے۔ سوڈان کو اسلامی ریاست میں تبدیل نہ کرنے کے لیے ان کے دلائل کی جڑیں اسلامی روایات، حدیث نبوی ﷺ اور قرآنی تعلیمات میں پیوستہ تھیں۔ محمود محمد طہٰ کا جرم کیا تھا؟ اسلامی معیار کے مطابق وہ ایک نیکوکار مسلمان تھے اور اسلام کی ریاست میں رہ رہے تھے، تاہم ان کی یہ اسلام کی ریاست دراصل اسلامی ریاست سے متصادم ہوگئی۔ طہٰ اسلامی ریاست کی مخالفت کے نتائج سے آگاہ تھے، انھیں معلوم تھا کہ ایک ہزار سال سے زیادہ اسلامی تاریخ میں اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں، آمروں، بادشاہوں اور ملوکیت کے نشہ میں دھت حکمرانوں نے جب بھی اسلام کے نام پر دیومالائی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ طہٰ جیسے قابل احترام مسلمانوں کو اسلام پسند ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر اپنی جان یا آزادی سے ہاتھ دھونا پڑے، ان کے سر حکومتوں نے یا پھر اسلام پسندوں نے اسلام کے عظیم نام پر قلم کر ڈالے اور اسلام کے نام پر دھبہ لگایا۔
علما مسلمانوں کو ذہن نشین کراتے چلے آئے ہیں کہ دنیا بھر میں اسلام پھیلانے کا مشن کسی اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ، کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جن پر عمل کرنا مومن کے لیے انتہائی ضروری ہے، مذہبی طبقے دنیا بھر میں ناکامی کے بعد اب پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس ایجنڈے پر بڑی تیزی کے ساتھ کام کیا جارہا ہے اور انھیں اس سلسلے میں ابتدائی کامیابی بھی حاصل ہوگئی ہے۔ سید منور حسن کا تازہ ترین بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان کے بیان کو اگر باریک بینی سے اور پاکستان کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ان کا ایجنڈہ خودبخود بے نقاب ہوجاتا ہے۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں اچھی طرح سے جان چکی ہیں کہ وہ کبھی ووٹ کی طاقت سے اقتدار حاصل نہیں کرسکتیں، صرف طاقت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوسکتی ہیں اور وہ طاقت صرف طالبان کے پاس ہے انھیں اس بات کا بھی اچھی طرح سے احساس ہے کہ پاکستان کی جمہوری سیاسی جماعتیں کمزور ہوئی ہیں۔ اس وقت فوج وہ واحد ادارہ ہے جو مضبوط و مستحکم اور غیر متنازعہ ہے اور ان کے عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
لہٰذا اب وہ ان کو متنازعہ بناکر ان کا مورال ختم کرنا چاہتے ہیں، جو بغاوت کے زمرے میں آتی ہے ۔بلاشبہ ملک کو درپیش خطرناک چیلنجز میں اس قسم کی فکر انارکی پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں،اس سے عوام میں ذہنی انتشار جنم لیتا ہے اور دہشت گردی کی پیداشدہ فضا اس نوعیت کی فکری افراتفری کی نمو کے لیے بے حد سازگار ہوتی ہے چنانچہ اس سے بچنے کے لیے ان عفریتوں سے نمٹنے میں کوئی دیر نہیں لگانی چاہیے، ملک میں انتہا پسندی اور مذہبی جماعتوں کو فروغ سلسلہ وار آمریت کی وجہ سے حاصل ہوا۔ چونکہ آمریت کے چاروں ادوار میں مذہبی جماعتوں کو کام کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی اوربعض کو ملکی و غیر ملکی امداد بھی حاصل ہورہی تھی، جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مضبوط سے مضبوط ترکرتے چلے گئے۔ اور ملک کی جمہوری سیاسی جماعتوں کو چونکہ کام کرنے کی آزادی حاصل نہ تھی اس لیے نہ تو ملک میں جمہوری کلچر فروغ پاسکا اور نہ ہی جمہوری رویے معاشرے میں پنپ سکے۔ ملک کے چپے چپے میں جمہوری جماعتوں کے دفاتر کھلنے کے بجائے بند ہوتے چلے گئے اور ان کی جگہ مذہبی جماعتوں کے دفاتر اور مدرسے کھلنا شروع ہوگئے اور ان کی آڑ میں وہ اپنا ایجنڈہ آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے چلے گئے۔
دوسری اہم خرابی یہ ہوئی کہ عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف بھرپور توجہ نہ دی گئی، جس کی وجہ سے عوام بدحال اور ملکی معاملات سے لاتعلق ہوتے چلے گئے۔ تیسری اہم خرابی تعلیمی نصاب کا رجعت پرست ہونا اورتعلیم کا مادری زبان میں نہ ہونا تھا۔ غربت، بدحالی کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو مدرسوں میں پڑھانے پر مجبور ہوگئے، جہاں کھانا پینا بھی مفت ملتا تھا۔ سید منور حسن کے بیان کے بعد سب کو اچھی طرح سے احساس ہوجانا چاہیے کہ اسلامی انتہاپسند کس حد تک جاسکتے ہیں، لہٰذا پاکستان کو انتہا پسندوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے تمام جمہوری جماعتوں کو دلیری، بہادری، جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر، متحد ہو کر، عوام کو اپنے ساتھ ملا کر، حکومت کے شانہ بشانہ عملی کوششوں کے لیے تیار ہوجانا چاہیے، اسی میں سب کی بقا ہے، ورنہ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
طہٰ جس نے اخوان المسلمون کی بالادستی والے نظریے کی غیر اسلامی فطرت اور اس کے دیوالیہ پن کا بھانڈا پھوڑا تھا کو اب ہمیشہ کے لیے خاموش کیا جارہا تھا۔ طہٰ کے گلے میں پھندا ڈالنے سے پہلے ان کے سر سے ٹوپ اتارا گیا، طہٰ نے زیر لب مسکراتے ہوئے ہجوم کی طرف دیکھا۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ طہٰ جلاد کے سامنے گئے تو ان کی آنکھوں میں بغاوت کی چمک تھی، وہ کسی خوف کے بغیر انتہاپسند اسلام پسندوں کے ہجوم کی طرف دیکھتے رہے۔ اس کے بعد طہٰ کے چہرے پر ٹوپ دوبارہ چڑھا دیا گیا، جیسے ہی جلاد نے طہٰ کی گردن کے گرد پھندا سخت کیا، اخوان المسلمون کے کارکنوں نے جذباتی انداز میں اﷲ اکبر، اﷲ اکبر کے نعرے لگانا شروع کردیے۔ پھر پھانسی گھاٹ کے تختے کھینچ دیے گئے، طہٰ کا جسم تھوڑی دیر کے لیے پھڑکا اور پھر جان ان کے جسد خاکی سے نکل گئی۔ ان کی لاش اس نرم ہوا میں بے جان لٹکی ہوئی تھی ۔
کافر قرار دیے جانے والے محمود محمد طہٰ کچھ بھی ہوسکتے تھے لیکن کافر بہرحال نہیں تھے۔ سوڈان کو اسلامی ریاست میں تبدیل نہ کرنے کے لیے ان کے دلائل کی جڑیں اسلامی روایات، حدیث نبوی ﷺ اور قرآنی تعلیمات میں پیوستہ تھیں۔ محمود محمد طہٰ کا جرم کیا تھا؟ اسلامی معیار کے مطابق وہ ایک نیکوکار مسلمان تھے اور اسلام کی ریاست میں رہ رہے تھے، تاہم ان کی یہ اسلام کی ریاست دراصل اسلامی ریاست سے متصادم ہوگئی۔ طہٰ اسلامی ریاست کی مخالفت کے نتائج سے آگاہ تھے، انھیں معلوم تھا کہ ایک ہزار سال سے زیادہ اسلامی تاریخ میں اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں، آمروں، بادشاہوں اور ملوکیت کے نشہ میں دھت حکمرانوں نے جب بھی اسلام کے نام پر دیومالائی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ طہٰ جیسے قابل احترام مسلمانوں کو اسلام پسند ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر اپنی جان یا آزادی سے ہاتھ دھونا پڑے، ان کے سر حکومتوں نے یا پھر اسلام پسندوں نے اسلام کے عظیم نام پر قلم کر ڈالے اور اسلام کے نام پر دھبہ لگایا۔
علما مسلمانوں کو ذہن نشین کراتے چلے آئے ہیں کہ دنیا بھر میں اسلام پھیلانے کا مشن کسی اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ، کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جن پر عمل کرنا مومن کے لیے انتہائی ضروری ہے، مذہبی طبقے دنیا بھر میں ناکامی کے بعد اب پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس ایجنڈے پر بڑی تیزی کے ساتھ کام کیا جارہا ہے اور انھیں اس سلسلے میں ابتدائی کامیابی بھی حاصل ہوگئی ہے۔ سید منور حسن کا تازہ ترین بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان کے بیان کو اگر باریک بینی سے اور پاکستان کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ان کا ایجنڈہ خودبخود بے نقاب ہوجاتا ہے۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں اچھی طرح سے جان چکی ہیں کہ وہ کبھی ووٹ کی طاقت سے اقتدار حاصل نہیں کرسکتیں، صرف طاقت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوسکتی ہیں اور وہ طاقت صرف طالبان کے پاس ہے انھیں اس بات کا بھی اچھی طرح سے احساس ہے کہ پاکستان کی جمہوری سیاسی جماعتیں کمزور ہوئی ہیں۔ اس وقت فوج وہ واحد ادارہ ہے جو مضبوط و مستحکم اور غیر متنازعہ ہے اور ان کے عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
لہٰذا اب وہ ان کو متنازعہ بناکر ان کا مورال ختم کرنا چاہتے ہیں، جو بغاوت کے زمرے میں آتی ہے ۔بلاشبہ ملک کو درپیش خطرناک چیلنجز میں اس قسم کی فکر انارکی پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں،اس سے عوام میں ذہنی انتشار جنم لیتا ہے اور دہشت گردی کی پیداشدہ فضا اس نوعیت کی فکری افراتفری کی نمو کے لیے بے حد سازگار ہوتی ہے چنانچہ اس سے بچنے کے لیے ان عفریتوں سے نمٹنے میں کوئی دیر نہیں لگانی چاہیے، ملک میں انتہا پسندی اور مذہبی جماعتوں کو فروغ سلسلہ وار آمریت کی وجہ سے حاصل ہوا۔ چونکہ آمریت کے چاروں ادوار میں مذہبی جماعتوں کو کام کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی اوربعض کو ملکی و غیر ملکی امداد بھی حاصل ہورہی تھی، جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مضبوط سے مضبوط ترکرتے چلے گئے۔ اور ملک کی جمہوری سیاسی جماعتوں کو چونکہ کام کرنے کی آزادی حاصل نہ تھی اس لیے نہ تو ملک میں جمہوری کلچر فروغ پاسکا اور نہ ہی جمہوری رویے معاشرے میں پنپ سکے۔ ملک کے چپے چپے میں جمہوری جماعتوں کے دفاتر کھلنے کے بجائے بند ہوتے چلے گئے اور ان کی جگہ مذہبی جماعتوں کے دفاتر اور مدرسے کھلنا شروع ہوگئے اور ان کی آڑ میں وہ اپنا ایجنڈہ آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے چلے گئے۔
دوسری اہم خرابی یہ ہوئی کہ عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف بھرپور توجہ نہ دی گئی، جس کی وجہ سے عوام بدحال اور ملکی معاملات سے لاتعلق ہوتے چلے گئے۔ تیسری اہم خرابی تعلیمی نصاب کا رجعت پرست ہونا اورتعلیم کا مادری زبان میں نہ ہونا تھا۔ غربت، بدحالی کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو مدرسوں میں پڑھانے پر مجبور ہوگئے، جہاں کھانا پینا بھی مفت ملتا تھا۔ سید منور حسن کے بیان کے بعد سب کو اچھی طرح سے احساس ہوجانا چاہیے کہ اسلامی انتہاپسند کس حد تک جاسکتے ہیں، لہٰذا پاکستان کو انتہا پسندوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے تمام جمہوری جماعتوں کو دلیری، بہادری، جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر، متحد ہو کر، عوام کو اپنے ساتھ ملا کر، حکومت کے شانہ بشانہ عملی کوششوں کے لیے تیار ہوجانا چاہیے، اسی میں سب کی بقا ہے، ورنہ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔