Kusköy ترکی کا منفرد گاؤں

گاؤں’’ پونٹک‘‘ کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ ہر لحاظ سے یہ گاؤں ترکی کے دیگر پہاڑی دیہات کی طرح ہے۔

اس گاؤں کی ایک بات اسے سب سے منفرد بناتی ہے۔ اور وہ ہے یہاں کے لوگوں کا ’ سیٹی کی زبان‘ میں گفتگو کرنا۔ فوٹو : فائل

Kusköy ترکی کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو '' پونٹک'' کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ ہر لحاظ سے یہ گاؤں ترکی کے دیگر پہاڑی دیہات کی طرح ہے۔

یہاں کے لوگوں کا رہن سہن، بودوباش، فصلیں، مویشی، آب و ہوا سب دوسرے دیہات ہی کے مانند ہے مگر اس گاؤں کی ایک بات اسے سب سے منفرد بناتی ہے۔ اور وہ ہے یہاں کے لوگوں کا ' سیٹی کی زبان' میں گفتگو کرنا۔ یہ باقاعدہ کوئی زبان نہیں ہے بلکہ اسے بولی کہا جاسکتا ہے جو اس گاؤں کے لوگوں نے چار صدی قبل اپنی ضرورت کے تحت ایجاد کی تھی۔

وہ اس زبان کو '' پرندوں کی زبان'' یا ''kus dili'' کہتے ہیں کیوں کہ یہ Kusköy میں ایجاد کی گئی تھی جس کا مطلب بھی ''پرندوں کا گاؤں'' ہے۔ پونٹک کا پہاڑی سلسلہ بہت ناہموار ہے جہاں مختصر فاصلے کا سفر طے کرنا بھی بعض اوقات بہت دشوار ہوتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اگر ایک دوسرے سے کوئی بات کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی تو وہ بڑی مشکل میں پڑجاتے تھے، کیوں کہ پوری قوت سے چلّا کر بھی وہ اپنی آواز مطلوبہ فرد تک پہنچانے میں ناکام رہتے تھے اور چل کر جانے اور آنے میں بہت وقت صرف ہوجاتا تھا۔ اسی لیے انھیں ایک ایسے ذریعے کی ضرورت محسوس ہوئی جس سے کام لیتے ہوئے وہ طویل فاصلے تک بہ آسانی ابلاغ کرسکیں۔




یہ لوگ پرندوں کی چہچہاہٹ سے بہت متاثر تھے، چناں چہ انھوں نے ترکی زبان کے ارکان کلمہ ( syllables )سیٹی کی آواز میں ادا کرنے شروع کیے۔ یہ طریقہ بہت مؤثر ثابت ہوا اور اس میں چلّانے یا مطلوبہ فرد تک چل کر جانے کے مقابلے میں توانائی کا خرچ بھی بہت کم تھا۔ چناں چہ بہت جلد گاؤں کے لوگ سیٹی کی زبان میں اپنا مقصد ایک دوسرے تک پہنچانے میں کام یاب ہوگئے۔ وہ سیٹی کی زبان میں ایک دوسرے کو مہمانوں کی آمد سے آگاہ کرتے ہیں، مدد طلب کرتے ہیں اور چائے کی دعوت دیتے ہیں۔ تاہم طویل بات چیت بھی کی جاسکتی ہے۔ سیٹی کی زبان کی رینج ایک کلومیٹر تک ہوتی ہے۔

یعنی ایک کلومیٹر کے دائرے میں موجود افراد ایک دوسرے کے ساتھ اس ذریعے سے ابلاغ کرسکتے ہیں۔ اگر فاصلہ اس سے زیادہ ہو تو پھر درمیان والے افراد پیغام آگے تک پہنچادیتے ہیں۔



Kusköy کے لوگ 1986ء میں بجلی آنے تک آس پاس کے علاقوں سے بالکل الگ تھلگ رہے۔ بجلی کی آمد نے اس گاؤں کا رابطہ دیگر علاقوں سے بھی جوڑ دیا، جس کے بعد نئی نسل ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے کے فوائد سے واقف ہوکر اپنے بزرگوں کو چھوڑ کر ان علاقوں میں منتقل ہوتی چلی گئی۔ اب چوں کہ ان سب کے پاس موبائل فون موجود ہیں، اس لیے یہ زبان دم توڑ رہی ہے۔ تاہم '' برڈ لینگویج ایسوسی ایشن'' سیٹی کی زبان کی بقا کے لیے بھرپور کوششیں کررہی ہے۔ یہ ایسوسی ایشن پچھلے پندرہ برسوں سے سیٹی کی زبان میں بات چیت کرنے کے سالانہ مقابلے کا انعقاد بھی کررہی ہے جس میں دوہزار کے لگ بھگ لوگ حصہ لیتے ہیں۔
Load Next Story