بُک شیلف

اردو طنزومزاح نگاری کی تاریخ ابراہیم جلیس کا تذکرہ کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔

محسنِ انسانیت رسولِ اکرم ﷺ کی شان میں لاتعداد کتابیں لکھی جاچکی ہیں، مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ فوٹو: فائل

WASHINGTON:
ابراہیم جلیس، انسان اور قلم کار
مرتبین: ڈاکٹر جمال نقوی، شہریار جلیس
ناشر:ادارہ تزئینِ دانش، کراچی
صفحات:102،قیمت:300 روپے



اردو طنزومزاح نگاری کی تاریخ ابراہیم جلیس کا تذکرہ کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ چالیس کروڑ بھکاری، تکونا دیس، چور بازار، کچھ غمِ جاناں کچھ غم دوراں، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا اور ہنسے اور پھنسے سمیت ان کی تخلیقات انھیں اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ادب کے ساتھ صحافتی جہت بھی ان کا اہم حوالہ ہے۔ بہ طور صحافی انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ زیرتبصرہ کتاب اردو ادب وصحافت کی اس گراں قدر شخصیت کو خراج عقیدت ہے، جسے ابراہیم جلیس کی برسی کے موقع پر شایع کیا گیا۔ یہ کتاب ادب اور صحافت سے متعلق مختلف شخصیات کے ابراہیم جلیس پر لکھی گئی تحریروں کا مجموعہ ہے۔

ان شخصیات میں علامہ نیاز فتح پوری، ڈاکٹر جمیل جالبی، امر جلیل، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، پروفیسر سحر انصاری، افضل صدیقی، حمایت علی شاعر، ڈاکٹر جمال نقوی اور دیگر شامل ہیں، جنھوں نے اپنے مضامین میں ابراہیم جلیس کی شخصی خصوصیات اور ان کے فنی محاسن کا احاطہ کیا ہے۔ ان مضامین کے علاوہ اس کتاب میں کی تحریر کا عکس اور ان کی زندگی کی جھلک دکھلاتی مختلف تصاویر بھی شامل ہیں۔

ابراہیم جلیس فن اور شخصیت
مرتبین: پروفیسر مہ جبیں شہریار، طیبہ جلیس، شاہنواز جلیس
ناشر: زین پبلی کیشنز، کراچی
صفحات:224،قیمت:200روپے



زیرتبصرہ کتاب بھی ابراہیم جلیس پر لکھے گئے مضامین اور ان کی کچھ تحریروں کا مجموعہ ہے، جسے ''شخصیت اور تاثرات''،''فن اور شخصیت''،''تبصرہ اور تجزیہ'' اور ''تحریریں'' کے زیرعنوان مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں ابنِ انشا، شوکت صدیقی، احمد ندیم قاسمی، مالک رام، پروفیسرمنظور حسین شور، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، حمید کاشمیری اور دیگر اہم قلم کے مضامین شامل ہیں، جنھوں نے اپنی تحریروں میں ابراہیم جلیس کی فنی جہتوں اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ ابراہیم جلیس کی آخری تحریر کے علاوہ ان کے افسانے ''زرد چہرے''،''آدم خور'' اور ''ماں'' کے ساتھ ان کی فکاہیہ تحریر ''آہ وہ پٹائی'' بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔


M.JINNAH LEADERSHIP PATTERN
مصنف: ڈاکٹر شہلا کاظمی
ناشر: قائداعظم اکادمی، کراچی،صفحات:419 ،قیمت:800روپے



تاریخِ عالم میں قائداعظم محمد علی جناح کو یہ منفرد مقام حاصل ہے کہ انھوں نے محض سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایک نیا ملک قائم کردکھایا۔ ایک ایسا ملک جس کا پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ اگرچہ بہت سے عوامل پاکستان کے قیام کی بنیاد بنے، مگر قائد اعظم کی قیادت اور کاوشوں کو اس ضمن میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

آج جب کہ ہم اُس جرأت مند، بہ اصول، دیانت دار اور صاحب بصیرت قیادت سے محروم ہیں، جس کی خصوصیات کو علامہ اقبال نے اپنے شعر؎نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوزیہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے، میں سمودیا ہے، ایسے میں بانی پاکستان کی قائدانہ صلاحیتوں اور ان کے طرزسیاست کا گہرائی سے جائزہ اور تجزیہ بہت ضروری ہوجاتا ہے، لیکن اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔ اس کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر شہلا کاظمی مبارک باد اور ستائش کی مستحق ہیں کہ انھوں نے اس اہم موضوع کو چُنا اور تحقیق وجستجو کے دق کردینے والے مراحل سے گزر کر قائداعظم کی قیادت کے اوصاف اور ان کی سیاسی جدوجہد کے خدوخال اور خصوصیات سے ہمیں آگاہی کا موقع فراہم کیا ہے۔

یہ کتاب دراصل ڈاکٹر شہلاکاظمی کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، جس پر انھیں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی سند ملی۔ ڈاکٹر شہلا کاظمی نے اپنے اس مقالے میں بچپن سے وفات تک قائداعظم کی پوری زندگی کا پوری تفصیل سے اور ان عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے جائزہ لیا ہے، جنھیں قائد کی شخصیت خاص طور پر ان کے قائدانہ کردار کی تعمیر میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے مصنفہ نے بابائے قوم کی زندگی کے چند اہم رُخ وہ سامنے لائی ہیں، جن میں نوجوانی کے دور میں ان کی زندگی پر مذہبی اثرات مرتب ہونا، ان کی قیادت میں روایتی اور جدید دونوں طرح کی خصوصیات کا پایا جانا، ان کی راہ نمائی کا منفرد انداز، ان کا اپنے ہم عصر سیاست دانوں سے الگ ہونا، بابائے قوم کی خوش وضعی، روکھا پن کسی کے سامنے نہ جھکنے کی صفت اور اپنے سیاسی کیریر کی ابتدا ہی میں برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہونا، جیسے پہلو شامل ہیں۔

یہ کتاب تحریک پاکستان اور قائداعظم کی حیات اور جدوجہد میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک گراں قدر تصنیف ہے، جسے ہر لائبریری کی زینت ہونا چاہیے۔

وجہِ تخلیقِ کائنات


مصنفہ: آسیہ سحر
ناشر: الجلیس پاکستانی بُکس پبلشنگ سروسز،صفحات:400،قیمت:300روپے
محسنِ انسانیت رسولِ اکرم ﷺ کی شان میں لاتعداد کتابیں لکھی جاچکی ہیں، مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ نبیِ کریم ﷺ کی زندگی اور شخصیت کے اتنے پہلو ہیں اور ان میں اتنی گہرائی اور وسعت ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی احاطہ کرنا ممکن نہیں، بس ہم سیرت پاک اور شانِ رسالت کی بابت شعرونثر کی صورت نذرانے پیش کرکے اپنے لیے دنیاوی اور آخروی اجالے اور رحمت کا سامان کرتے ہیں۔

''وجہِ تخلیقِ کائنات'' بھی نبیِ مکرم ﷺ کی شان و رفعت کے کچھ گوشوں کے بیان پر مبنی کتاب ہے، تاہم مصنفہ نے کچھ دیگر موضوعات کو بھی اپنی تصنیف کا حصہ بنایا ہے۔ اس کتاب کس قدر وسیع موضوعات کو گرفت میں لانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کا اندازہ اس کے ابواب کے عنوانات سے ہوتا ہے، جو یہ ہیں: تخلیقِ کائنات، پیدائش اور پروٹوکول، سرکارِ دو عالم ﷺ کے ذکر کی تعظیم، شانِ مصطفیٰ ﷺ اور قرآنی آیات، معجزاتِ رسول ﷺ، وصال النبی ﷺ، اعترافِ عظمتِ رسول ﷺ، تفکر۔ اس کتاب کا آخری باب ''تفکر'' مسلمانوں کے علمی ورثے، علاماتِ قیامت جیسے موضوعات کو چھوتا ہوا امت مسلمہ کو اپنے محاسبے کی دعوت دیتا ہے۔

مصنفہ کا طرز تحریر بہت دل کش اور رواں ہے، جو قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ خوب صورت پیرائے میں لکھی گئی یہ کتاب بہت سی ایسی معلومات بھی سامنے لاتی ہے جن سے عام قاری واقف نہیں۔
Load Next Story