آئوٹ ٹرن پروموشن پانیوالوں کاترقی سے محروم ڈی ایس پی پرتشدد

عمرخطاب اور مظہرمشوانی کے ایما پراہلکاروں کا مقصوداحمد پرحملہ ،کپڑے پھاڑدیے

کراچی،سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے والے ڈی ایس پی کوجھگڑے کے بعد باہر لایا جارہا ہے (فوٹو : آن لائن / ایکسپریس )

سندھ پولیس میں آئوٹ آف ٹرن پروموشنز کی وجہ سے افسران کے تعلقات میں تلخی پیداہوگئی ہے اور یہ صورتحال انتہائی خطرناک رخ اختیارکرچکی ہے ۔

صورتحال کی سنگینی کا اظہار پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں آئوٹ آف ٹرن پروموشنز کے مقدمے کی سماعت کے بعد دیکھنے میں آیا، جب آئوٹ آف ٹرن ترقی پانے والے اور ترقی سے محروم افسران کے درمیان تصادم ہوگیا، آئوٹ آف ٹرن پروموشن پانے والے افسران کے ایماء پر ترقی سے محروم افسر ڈی ایس پی مقصود احمد کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

تفصیلات کے مطابق ڈی ایس پی مقصود احمد نے سندھ پولیس میں آئوٹ آف ٹرن پروموشنز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئوٹ آف ٹرن پروموشنز کے خلاف متعدد احکامات جاری کرچکی ہیں ، ڈی ایس پی مقصود احمد نے عدالت کو بتایا کہ راجہ عمر خطاب اور مظہر مشوانی سمیت متعدد پولیس افسران اس سے 10/15سال جونیئر ہیں۔

لیکن اب اس سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں لیکن یہ افسران اتنے طاقتور ہیں کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود بڑی اور اہم پوسٹوں پر تعینات ہیں ، پیر کو بھی سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت کے اندر آئوٹ آف ٹرن پروموشن پانے والے افسران اپنی دلیری اور شجاعت کے قصے عدالت کو سنانے کی کوشش کرتے رہے اور درخواست گزار مقصود احمد پر طنز کرتے رہے ۔

عدالتی کارروائی ختم ہونے کے بعد بھی راجہ عمر خطاب اور مظہر مشوانی نے ڈی ایس پی مقصود احمد کو عدالت میں بولنے پر سرزنش کی اور ان کا مذاق اڑایا ، ان افسران کے ایما پر کچھ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے ڈی ایس پی مقصود احمد پر حملہ بھی کر دیا اور اس کے کپڑے پھاڑ دیے ،اس موقع پر چیف سیکریٹری سندھ راجہ عباس کی گاڑی بھی سپریم کورٹ کی عمارت سے نکل رہی تھی ۔


اس صورتحال میں ڈی ایس پی مقصود احمد خود کو بچانے کے لیے وہاں سے بھاگے اور اپنی سرکاری گاڑی سے اسلحہ نکال لیا ، ڈی ایس پی مقصود احمد کے ہاتھ میں اسلحہ دیکھ کر بہادری کی داستانیں سنانے والے ایس پی راجہ عمر خطاب اور مظہر مشوانی سمیت دیگر پولیس افسران دوڑیں لگاتے ہوئے سپریم کورٹ کے عقبی حصے کی جانب بھاگے۔

تاہم اس موقع پر خرم وارث اور دیگر افسران نے درمیان پڑ کر بیچ بچاؤ کرادیا اور یوں آئوٹ آف ٹرن پروموشنز پانے والے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری سے نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔ علاوہ ازیں ڈی ایس پی مقصود احمد نے آرام باغ تھانے میں پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی درخواست جمع کرادی ، پولیس نے درخواست جمع کرلی ہے۔

جبکہ فوری طور پر مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے،ایس ڈی پی او آرام باغ ڈی ایس پی علی آصف نے ایکسپریس کو بتایا کہ ڈی ایس پی مقصود کی جانب سے درخواست موصول ہوگئی ہے جس کا جائزہ لیا جارہا ہے اور قانون کے مطابق درخواست پر کارروائی کی جائے گی ۔

انھوں نے بتایا کہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پولیس افسران راجہ عمر خطاب ، فاروق اعوان اور مظہر مشوانی سمیت 4 افسران کے سیکیورٹی گارڈز نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور اسلحہ لہرا کر دھمکیاں دیں ، ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے ۔ڈی ایس پی مقصود کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے دوران ان سے چھینی گئی سرکاری ایس ایم جی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی عمارت کے قریب جھاڑیوں سے مل گئی ۔

پراسرار طور پر غائب اور مل جانے والی ایس ایم جی کو آرام باغ پولیس نے اپنے قبضے میں لے لیا۔

 
Load Next Story