ٹنڈو غلام علی گدھوں کی سالانہ منڈی سج گئی سہولتیں ناپید
اعلیٰ نسل کے گدھوں کی قیمت ڈھائی لاکھ روپے تک وصول کی گئی، سامان بھی مہنگا
بدین کے شہر ٹنڈو غلام علی میں امسال بھی گدھا منڈی سجائی گئی جس میں بالائی سندھ اور زیریں سندھ کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں سے بھی بیوپاری مختلف نسلوں کے گدھے فروخت کرنے اور خریدنے کیلیے پہنچے اور تعلقہ ماتلی کی انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے سہولتوں کی عدم دستیابی پر شدید مشکلات کا سامنا بھی کیا۔
گدھا منڈی میں ضلع بدین کے اعلی نسل،اونچی قامت کے سفید گدھوں نے منڈی لوٹ لی جن کے لیے شوقین خریدار ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے تک دے کر انھیں خریدتے نظر آئے، دوسری جانب سخت جان جھنڈ نسل کے سیاہ گدھوںکی قیمت 20ہزار سے 80ہزار روپے تک وصول کی جاتی رہی جبکہ اسی نسل کے بچے گدھے، 2 ہزار سے 12 ہزار روپے میں فروخت ہو رہے تھے۔ منڈی میں بیک وقت 2 ہزار سے زائد گدھے فروخت کیلیے موجود تھیں جن کو ٹھیکیدار نے 5 سو روپے کے بدلے صرف ایک کھونٹا الاٹ کیا تھا جبکہ خریدارسے ٹھیکیدار کے آدمی مزید ایک ہزار روپے وصول کررہے تھے۔
گدھا مالکان نے اپنے گدھوں کو دلچسپ نام بھی دے دیے تھے۔ جن میں اسٹین گن، راکٹ لانچر، کلاشنکوف، ریل کار، جان من، کبوتر، چکور، دلربا، محبوبہ، دیوانی، پیاسی، راجہ، رانی، بادل، برسات، بارش، سندھ سینگھار، سندھ کا راجہ، ڈان، بدمعاش، لٹیرا، ڈاکو، زمانہ خراب اور لاکھ پتی نہایت مہنگے داموں فروخت ہوئے۔ کچھ خریدار تو مطمئن نظر آئے مگر اکثر نے مہنگائی کی شکایت کی۔بیوپاریوں کے مطابق گدھوں کے بناؤ سنگار کے سامان کی قیمتیں بھی خریداروں کے مطابق آسمان کو چھو رہی ہیں۔منڈی میں ایک بھی وٹرنری ڈاکٹر یا وٹرنری کیمپ نہیں تھا اور نہ ہی جانوروں کے لیے مناسب قیمت پر چارے و دیگر کھلانے کی اشیاء کا انتظام تھا۔
گدھا منڈی میں ضلع بدین کے اعلی نسل،اونچی قامت کے سفید گدھوں نے منڈی لوٹ لی جن کے لیے شوقین خریدار ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے تک دے کر انھیں خریدتے نظر آئے، دوسری جانب سخت جان جھنڈ نسل کے سیاہ گدھوںکی قیمت 20ہزار سے 80ہزار روپے تک وصول کی جاتی رہی جبکہ اسی نسل کے بچے گدھے، 2 ہزار سے 12 ہزار روپے میں فروخت ہو رہے تھے۔ منڈی میں بیک وقت 2 ہزار سے زائد گدھے فروخت کیلیے موجود تھیں جن کو ٹھیکیدار نے 5 سو روپے کے بدلے صرف ایک کھونٹا الاٹ کیا تھا جبکہ خریدارسے ٹھیکیدار کے آدمی مزید ایک ہزار روپے وصول کررہے تھے۔
گدھا مالکان نے اپنے گدھوں کو دلچسپ نام بھی دے دیے تھے۔ جن میں اسٹین گن، راکٹ لانچر، کلاشنکوف، ریل کار، جان من، کبوتر، چکور، دلربا، محبوبہ، دیوانی، پیاسی، راجہ، رانی، بادل، برسات، بارش، سندھ سینگھار، سندھ کا راجہ، ڈان، بدمعاش، لٹیرا، ڈاکو، زمانہ خراب اور لاکھ پتی نہایت مہنگے داموں فروخت ہوئے۔ کچھ خریدار تو مطمئن نظر آئے مگر اکثر نے مہنگائی کی شکایت کی۔بیوپاریوں کے مطابق گدھوں کے بناؤ سنگار کے سامان کی قیمتیں بھی خریداروں کے مطابق آسمان کو چھو رہی ہیں۔منڈی میں ایک بھی وٹرنری ڈاکٹر یا وٹرنری کیمپ نہیں تھا اور نہ ہی جانوروں کے لیے مناسب قیمت پر چارے و دیگر کھلانے کی اشیاء کا انتظام تھا۔