انفرادیت پسندی

معاشرتی تانے بانے کو برباد کرنے والا یہ رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے

معاشرتی تانے بانے کو برباد کرنے والا یہ رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے

''انفرادیت یا معاشرے سے علیحدگی خودکشی کے مانند لغو ہے'' دورحاضر میں انفرادیت کا منفی تصور کسی وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔

مندرجہ بالا قول اس صورتحال پر درست صادر ہوتا ہے۔ نفسا نفسی کے اس عالم کو دیکھ کر روز حشر کا گمان گزرتا ہے کہ جہاں ہر شخص اپنی ذات کے حوالے سے فکر مند ہو۔ مگر یہ چھوٹی سی قیامت کیسے آئی اس کی وجوہات کافی طویل ہیں۔ انفرادیت پسندی کا رجحان تیزی سے انسانی معاشرے کی جڑوں میں سرائیت کررہا ہے جس کے نتائج کبھی بے حسی تو کبھی سفاکی کی صورت دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر ہی کسی مفکر نے کہہ رکھا ہے ''انفرادیت کبھی کبھی کمزوری بھی بن سکتی ہے'' آج اگر دنیا کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو اس قول کا عملی ثبوت امت مسلمہ کی حالت زار دیکھ کر ملتا ہے۔

جہاں تفرقہ میں پڑ کر سب ایک دوسرے پر سبقت لینے کی جستجو میں بکھر گئے ہیں اور دشمن کے لیے فتح کی امید مخالف کی کمزوری سے بڑھ کر بھلا کیا ہوسکتی ہے۔ معاشرے انفرادیت کے خطوط پر نہیں بلکہ اجتماعیت کی اساس پر استوار کیے جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام مخلوقات پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گروہوں میں تقسیم شدہ ہیں، مل جل کر رہنے کا نظریہ رائج العام ہے۔ ہاتھی ہوں، زور آور شیر یا ننھی منی چیونٹیاں سب مل جل کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اجتماعت کا یہ نظریہ انہیں انفرادیت کے خطرناک نتائج سے بچاتا ہے جو اکیلئے رہ جانے والے لمبے چوڑے ہاتھی کو بھی شیروں کے جھنڈ کا شکار ہونے سے نہیں بچا پاتا۔

بالکل اسی طرح کی مثال انسانی معاشرے کی ہے۔ فطری و اسلامی نقہ نظر سے دیکھا جائے تو انسان کی جبلت میں گروہوں میں یعنی مل جل کر رہنے کو شامل کردیا گیا۔ اگر اللہ پاک کو انسان کے اندر انفرادیت کا خمیر ہی ڈالنا مقصود ہوتا تو وہ آدم کے لیے ہوا کو نہ بناتا۔ تفرقہ میں پڑنے سے نہ روکتا، جسد واحد کی طرح متحد ہونے کی مثالیں نہ ملتیں۔ صلہ رحمی اور رحم دلی کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہ ہوتی۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ انسان اپنے فطری چلن سے ہٹ کر چلنے کی کوشش میں لگا ہے جس سے پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔

ایک فرد کی زندگی سے لے کر پورے معاشرے کی مثالیں چیخ چیخ کر اس کا ثبوت دیتی ہیں۔ بھلا کیسے، وہ ایسے کہ کوئی بھی فرد صرف اور صرف اپنی ہی بھلائی چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس کی ذات ہی کل کا درجہ رکھتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ رشتے جوکہ دنیا میں سب سے زیادہ مخلص تصور کیے جاتے ہیں ان میں بھی گراوٹ آنے لگی ہے جوکہ ایک خطرناک بات ہے۔ رشتوں کا تقدس پامال ہوجائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ جہاں مادیت پرستی کا ملمع سب پر چڑھ چکا ہو وہاں رشتوں ناطوں کی کوئی اہمیت بھلا کیونکر رہ سکتی ہے۔ پہلے پہل تو مغربی معاشروں کی بات ہوا کرتی تھی مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو انفرادیت پسندی کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس رجحان کو پھیلانے میں جدید ٹیکنالوجی خصوصاً سوشل میڈیا کا استعمال قابل ذکر ہے۔ حال ہی میں چند ایسے انکشافات ہوئے ہیں جن کے بعد یہ جاننا بے انتہا مشکل ہوگیا ہے کہ آخر دنیا کس طرف جارہی ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا۔

اس ضمن میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ تیزی سے خود پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان ناصرف معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہا ہے بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بن رہا ہے۔ سیلفی کا نام تو سب نے سن رکھا ہوگا اور آج کے دور میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے سیلفی نہ لے رکھی ہو۔ سیلفی کا رجحان اس قدر تیزی سے پروان چڑھا مگر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آخر سیلفی لینے کا مقصد کیا ہے۔ سن 2000ء کے ابتدائی برسوں میں فروغ پانے والے سیلفی رجحان کی داغ بیل 19 ویں صدی کے آخر میں روبرٹ کارنیلس نامی ایک صورت گرد کیمیادان نے ڈالی۔ جب سادہ بلیک اینڈ وائٹ کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے اپنی تصویر بنائی۔ سیلفی کے اس رجحان نے لاکھوں جانیں لے لیں مگر لوگوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ اس فضول شوق سے خودنمائی کے پیچھے اپنی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ نئی دہلی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ 2011ء سے 2017ء کے درمیان 259 افراد سیلفی کی خاطر موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔

پاکستان میں بیسیوں افراد اس سیلفی کے شوق میں جان کی بازی ہار گئے۔ ایسے خطرناک واقعات یوں تو ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ باقی لوگ عبرت حاصل کرنے کے بجائے مزید ایسی حرکات میں مگن رہورہے ہیں۔ ایک وحشت ناک روایت جوکہ مغربی ممالک میں پرون چڑھ رہی ہے اور مستقبل قریب میں باقاعدہ ایک ثقافت کا روپ دھار لینے کی پیشن گوئی بھی کی جارہی ہے وہ ہے ''سولو کلچر'' (Solo Culture) اکیلے زندگی گزارنا۔ ایک وقت تھا جب تنہا زندگی گزارنے والوں کو ترحم بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی تنہائی پر افسوس کا اظہار کیا جاتا تھا اور یہ بھی نہیں کہ وہ تنہا بالکل ہی تنہا زندگی بسر کررہا ہوتا یا ہوتی تھی۔

عموماً وہ کسی نہ کسی رشتے میں بندھے ہوتے یا پھر مشترکہ خاندان کے بجائے الگ گھر میں رہ رہے ہوتے جوکہ ایک رسم بھی رہی مگر اب الگ تنہا رہنے کا یہ رواج خطرناک صورت اختیار کررہا ہے۔ وہ یوں کہ سنگل لوگ اب بناکسی رشتے ناطے کے بالکل تنہا رہنے لگے ہیں۔ جاپان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں Solo Culture تیزی سے پھیلا رہا ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق جاپان میں تنہا لوگوں کی تعداد تقریباً نصف آبادی پر محیط ہے جوکہ 2030ء تک تا عمر تنہا زندگی بسر کرنے والے افراد کے 25 فیصد اضافے کی پیش گوئی کرتی ہے۔




گزشتہ برس جاپان میں صرف 941,000 بچوں کی پیدائش ہوئی جوکہ 1899ء سے لے کر اب تک کی کم ترین شرح پیدائش کو ظاہر کرتی ہے۔ اس وقت بھی جاپان میں بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ جاپان میں ایسے تنہائی پسند اکیلے افراد کے لیے ایک خاص لفظ ''Ohitorisama'' استعمال کیا جاتا ہے اور ''Herbivore men'' ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو نہ ہی شادی کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی گرل فرینڈ رکھتے ہیں۔ 41 برس کی می اوکو ان افراد میں سے ہیں جوکہ شادی کی بجائے اکیلا رہنے کو پسند کرتی ہیں اور اکیلے بار میں شراب پینے کو ترجیح دیتی ہیں۔ بہت سے لوگ یا تو شادی کرتے نہیں اور اگر کرتے ہیں تو تنہا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے جاپان میں ''Ohitorisama'' کی مارکیٹ ساؤتھ کوریا کی مارکیٹ سے زیادہ بڑی ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

سویڈن کی جانب نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تنہا رہنے والے افراد کی 47 فیصد آبادی اکیلے گھروں میں رہائش پذیر ہے جس کی ایک وجہ لوگوں کا فلاحی ریاست میں بآسانی اکیلے رہنے کا نظام اور صنفی برابری ہے۔ اکیلا رہنے کو مسترد کرنے کے بجائے اسے معاشرتی طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ پنگھوڑے سے قبر تک تنہا رہنے کا دور دور نہیں۔ کینیڈا بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا۔ تقریباً 30 فیصد آبادی اکیلا رہنے کو ترجیح دینے والوں کی ہے۔ زیادہ تر پروفیشنل افراد فیملی کے بجائے تنہا زندگی بسر کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ سوشیالوجی کے ایک پروفیسر کے مطابق لوگ اکیلے رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ 60 سے 70 فیصد افراد اسے درست سمجھتے ہیں۔ کینیڈا کے باراور کافی شاپ یہاں تک کے کتب خانوں میں بھی لوگ تنہا رہنا پسندکرتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ اپنی تنہا زندگی سے خوش بھی دکھائی دیتے ہیں۔

یہی حال ساؤتھ کوریا کا بھی ہے، پچھلے دس برسوں میں وہاں تنہا زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ 2020ء میں یہ اپنے عروج پر ہوگا۔ دوسرے ممالک کی طرح یہ رواج اعلیٰ طرز زندگی کی چاہ کے مرہون منت ہے چونکہ زیادہ تر نوجوان اپنی پروفیشنل لائف کو ترجیح دیتے ہیں اور یا تو شادی کرتے ہی نہیں یا کرتے بھی ہیں تو بڑی عمر میں اور بچے پیدا کرنے کا رجحان نہیں رکھتے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہاں آمدن ایک فرد کی ضرویات پوری کرنے کے قابل ہے اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ساؤتھ کورین کمپنیوں نے ایک فرد کے لیے اشیاء جیسے کہ فرنیچر، آلات اور دیگر اشیاء ضروریات تیار کرنا شروع کردی ہیں۔

عام طور پر اکیلے لوگ ان جگہوں پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں اچھی نوکری اور رہائش کی جگہ مل سکے۔ مگر اس طرز زندگی کے حوالے سے اہل فکر تشویش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اور تمام لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ اکیلے زندگی گزارنے کے اس رواج سے متاثر مت ہوں۔ ان کے مطابق درحقیقت لوگ پیسے اور سیکس کے انتشار کا شکار ہیں۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے مرد و عورت بالترتیب 30 سے 40 اور 60 سے 70 فیصد غربت کی گورکھ دھندا میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اگر آپ نے برازیل کے حوالے سے یہ بات سن رکھی ہے کہ وہاں اکیلی عورت مرد کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے تو وہ بات اب پرانی ہوگئی ہے۔ آج کے دور میں برازیلن مرد ہوں یا عورت وہ اکیلے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ وسیع پیمانے پر نظر آنے والی تبدیلی اپنے پیچھے تیزی سے بڑھتی معیشت، شہری آبادیاں اور خواتین میں شادی کا منفی رجحان جیسی اہم وجوہات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ریڈی میڈ کھانوں کو ترجیح دینا بھی اسی کی ایک کڑی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں سیلز پر 1.2 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اسی لیے سنگل افراد کے لیے زیادہ چیزوں کو متعارف کروایا جاتا ہے۔ خاندان کے ساتھ لگاؤ کو اب قابل قبول نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں تک کہ اب تنہا سفر کرنے اور سیاحت کرنے کے لیے مختلف ٹریول ایجنسیوں نے کام شروع کردیا ہے۔ یہ ساری صورتحال جہاں انفرادیت پسندی کے بڑھتے رجحان کی جانب اشارہ کرتی ہیں وہیں لمحہ فکریہ بھی ہیں۔

حال ہی میں ایک مشہور کھانا آن لائن ڈیلیور کرنے والی ایپ نے سنگل ڈبل کے نام سے آفر متعارف کروائی جسے لوگوں نے بنا کسی تنقیدی نقطہ نظر کے قبول کرلیا مگر بادی النظر دیکھا جائے تو یہ سب خطرناک علامات ہیں جوکہ ہمارے معاشرے میں بھی Solo Culture کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ انفرادیت پسندی اس وقت تک کوئی بری چیز نہیں جب تک وہ معاشرے اور افراد کے لیے خطرے کا باعث نہ ہو۔ مگر دور حاضر کی صورت حال دیکھی جائے تو خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوتی ہے کہ کہیں پاکستانی معاشرے کو تنکا تنکا کرنے کی یہ سازش انفرادیت پسندی کی تہذیب کا لبادہ اوڑھے کامیاب نہ ہوجائے۔

وقت کی ضرورت یہ ہے کہ معاشرے میں اخوت، بھائی چارے اور صلح رحمی کے جذبات کو فروغ دیا جائے اور انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کے ملی جذبات کو فروغ دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خداناخواستہ ہمیں بھی ایک بے حس معاشرے میں جینا پڑے گا جوکہ کسی صورت انسانی معاشرے کہلانے کے لائق نہ ہوگا۔ چین، جاچان اور دوسرے ممالک اپنے معاشروں میں ایسی خوفناک تبدیلیوں سے آگاہ ہوتے ہوئے زیادہ سے زیادہ امیی گرانٹس Immigrants کو اپنے ممالک میں دعوت دے رہے ہیں مگر سوچنا آپ نے ہے کہ کیا ہمیں ایسے مشینی معاشرے چاہئیں۔
Load Next Story