ملکۂ سبا اوراس کی سورج پرست قوم

بلقیس کا ذکر زلیخا کی طرح قرآن حکیم میں بغیر نام لیے آیا ہے۔

مؤرخین نے سبا کو ایک قوم تسلیم کیا ہے۔ فوٹو : فائل

ملکۂ سبا جس کا نام بلقیس تھا نہایت خوب صورت اور ذہین تھی۔ اس کے والد کا نام شراجیل بن مالک تھا۔

بعض نے اس کا نام الہد ہاد بن شراجیل بھی لکھا ہے۔ یہ یمن کا بادشاہ تھا۔ سرکاری مذہب یا عقیدہ سورج کی پوجا تھا، جو عوام الناس نے بھی اختیار کیا ہو ا تھا۔ باپ کی موت کے بعد بلقیس نے عنان حکومت سنبھالی۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے نہایت سر سبز تھا دائیں اور بائیں جہاں بھی نظر اٹھتی لہلہاتے کھیت اور باغات نظر آتے تھے۔ یہ زمانہ حضرت سلیمان ؑ کی نبوت کا تھا۔

بلقیس کا ذکر زلیخا کی طرح قرآن حکیم میں بغیر نام لیے آیا ہے۔ یہ ذکر اگر چہ بہت مختصر ہے مگر جامع ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے ترجمہ''ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ہدہد آموجود ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک ایسی چیز معلوم ہوئی ہے جس کی آپ کو خبر نہیں اور میں آپ کے پاس (شہر ) سبا سے ایک خبر یقینی لایا ہوں۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو ان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے اور ہر چیز اسے میسر ہے اور ا س کا ایک بڑا تخت ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم خدا کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کر تے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال آراستہ کر دکھائے ہیں اور ان کو راستے سے روک رکھا ہے پس وہ راستے پر نہیں آتے ۔

(نہیں جانتے) کہ خدا کو جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کردیتا اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے کیوں سجدہ نہ کریں۔ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (سلیمان نے) کہا ہم دیکھیں گے تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔ یہ میرا خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ ملکہ نے کہا کہ دربار والو! میری طرف ایک نامۂ گرامی ڈالا گیا ہے، وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور (مضمون یہ ہے) کہ شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ مجھ سے سر کشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ کہنے لگی کہ اے اہل دربار! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو جب تک تم حاضر نہ ہو میں کسی کام کا فیصلہ نہیں کروںگی۔ وہ بولے ہم بڑے زور آور اور جنگجو ہیں اور آپ کو حکم دینے کا اختیار ہے۔

آپ سوچ لیجیے کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتی ہیں۔ اس نے کہا جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کردیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کردیا کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کریں گے اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔ جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے تحفے سے تم ہی خوش ہوتے ہوگے۔ ان کے پاس واپس جاؤ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر حملہ کریں گے جن کے مقابلے کی ان میں طاقت نہ ہوگی اور ان کو وہاں سے بے عزت کرکے نکال دیں گے اور وہ ذلیل ہوں گے۔'' (سورہ النمل آیات 20تا37)

قرآن حکیم میں سبا، قوم سبا یا علاقہ سبا کے نام سے جو اشارات دیے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم یا علاقے کے متعلق دوسرے تاریخی ذرائع یا دینی کتب سے فراہم ہوئی ہیں۔

سبا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا بھی نام تھا جیسے قوم لوط، قوم ثمود، قوم لدّا، قوم نمرود اور فراعنۂ مصر وغیرہ وغیرہ۔ سبا ایک شہر کا بھی نام تھا جو موجودہ مملکت یمن کے دارالحکومت صنعاء سے (اس وقت) تین دن (3) کے فاصلے پر تھا۔ یہ شہر مارب یمن کے نام سے بھی معروف ہے۔ بیت المقدس سے مارب کا فاصلہ ڈیڑھ ہزار میل دور ہے (فتح القدیر)

تاریخ کی رو سے سبا جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ امام احمد بن جنبلؒؒ، ابن جریر، ابن حاتم، ابن عبدالبر اور ترمذی نے آنحضور ؐ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کے ایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے یہ قبیلے پیدا ہوئے (۱)کندہ (۲)حمیر(۳) ازدر(۴)اشعرین(۵) مذجج (۶)انمار اسکی دو شاخیں خثعم اوربجیلہ (۷) عاملہ(۸) جذام(۹) لخم اور غسان ان میں سے کچھ اقوام آج بھی مملکت سعودی عرب میں آباد ہیں۔

ملکہ سبا کا یہ قصہ بائبل کے عہد عتیق و جدید اور یہودی روایات میں مختلف طریقوں سے آیا ہے۔ سلاطین میں لکھا ہے ترجمہ ''اور جب سبا کی ملکہ نے خداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے اور وہ بہت بڑے جلو کے ساتھ یروشلم میں آئی جب وہ سلیمان ؑ کے پاس پہنچی تو اس نے ان سب باتوں کے بارے میں جو اس کے دل میں تھیں۔

اس سے گفتگو کی سلیمان ؑ نے ان سب کا جواب دیا اور جب سبا کی ملکہ نے سلیمان ؑ کی ساری حکمت اور اس محل کو جو اس نے بنایا تھا اور اس کے دسترخوان کی نعمتوں اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کی حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور ساقیوں اور اس سیڑھی کو جس سے وہ خدا وند کے گھر جایا کرتا تھا دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے تیرے کاموں اور تیری حکمت (نبوت) کے بارے میں اپنے ملک میں سنی تھی۔ یقین نہ کیا جب تک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا اور مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا، کیوںکہ تیری حکمت اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے۔ خوش نصیب ہیں تیرے لوگ اور خوش نصیب ہیں تیرے یہ ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے ہیں اور تیری حکمت سنتے ہیں۔ خداوند تیرا خدا مبارک ہو جو تجھ سے ایسا خوشنود ہوا کہ تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا اور اس نے بادشاہ کو ایک سو بیس120قنطار سونا اور مصالح کا بہت بڑا انبار دیا اور جواہرات بھی دیے اور جیسے مصالح سبا کی ملکہ نے سلیمانؑ کو دیے پھر کبھی ایسی بہتات کے ساتھ نہ آئے اور سلیمان ؑ بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشاق ہوئی اور جو کچھ اس نے مانگا دیا پھر وہ اپنے ملازموں سمیت اپنی مملکت کو لوٹ گئی۔ (کتاب مقدس باب10آیات 1تا13)


ایک اور مقام پر لکھا ہے: تیما کے قافلے دیکھتے رہے، سبا کے کارواں ان کے انتظار میں رہے (ایوب باب6آیت19) اس سے کیا فائدہ کہ سبا سے لُبان اور دور دور سے (ملک) لوگ میرے حضور لائے جاتے ہیں۔ (یرمیاہ باب6آیت20) سبا اور رعماہ کے سود اگر تیرے ساتھ سوداگری کرتے تھے وہ ہر قسم کے نفیس مسالے اور ہر طرح کے قیمتی پتھر اور سونا تیرے بازاروں میں لاکر خرید و فروخت کرتے تھے۔ حزان اور کنہ اور عدن اور سبا کے سوداگر اور اسکور اور کلمد کے باشندے تیرے ساتھ سود اگری کرتے تھے۔ (حزقی ایل باب 27آیات 23-22) آخر میں زبور کے کلمات دیکھیے:''وہ فدیہ دے کر ان کی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائے گا اور ان کا خون اس کی نظر میں بیش قیمت ہوگا۔ وہ جیتے رہیں گے اور سبا کا سونا اس کو دیا جا ئے گا لوگ برابر اس کے حق میں دعا کریں گے وہ دن بھر اسے دعا دیں گے۔ '' (زبور باب72آیت14-15)

مؤرخین نے سبا کو ایک قوم تسلیم کیا ہے۔ یونان اور روم کے تاریخ دانوں نے اور ایک علم جغرافیہ کے ماہر تھیو فراسٹس نے بھی288؁ق م اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ قوم یمن میں آباد تھی اور اس کے عروج کا زمانہ گیارہ سو قبل مسیح ہے۔ اس کا شہرہ حضرت داؤد ؑ کی نبوت کے وقت سے ہی پھیلا ہوا تھا۔ آغاز میں یہ قوم سورج پرست تھی لیکن بعد میں نہ جانے کب سے اس میں بت پرستی کا غلبہ آگیا۔ اگرچہ ان کی ملکہ نے حضرت سلیمان ؑ 965 سے936ق م کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا اور اس کی رعایا کی غالب اکثریت بھی اس کے ساتھ مسلمان ہوگئی تھی۔



آثارقدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں یمن سے تین ہزار کتبات برآمد ہوئے ہیں جو اس قوم کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں، مثلاً 650 ق م یہاں کے بادشاہ کا لقب مکرب تھا جو مقرب کا ہم معنی تھا۔ یہ کاہن بادشاہ کہلاتے تھے اور ان کا اس وقت پایۂ تخت صرواح تھا جس کے معنی بادشاہ ہیں۔ یہی لفظ آج بھی کئی ملکوں میں رائج ہے جس کے معنی یہ بتائے جاتے ہیں کہ حکومت میں مذہب کے بجائے سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب آگیا ہے۔ اس وقت کے ملوک نے اپنا دارالحکومت صرواح کو چھوڑ کر مارب کو اپنا لیا اور اسے ترقی کی اعلیٰ منازل تک پہنچادیا۔ یہ مقام صنعاء سے60 میل کی دوری پر مشرق کی جانب واقع ہے، جو سطح سمندر سے تین ہزار نو سوفٹ بلند ہے۔

115ق م کے بعد سے اس خطے پر حمیر غالب آگئے۔ انہوں نے مارب کو اجاڑ کرریدان کو پایۂ تخت بنایا جو بعد میں ظفار شہر کے نام سے مشہور ہوا۔ آج کل موجودہ شہر قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصور نہیں کرسکتا کہ یہ اسی قوم کی یادگار ہے۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصے کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت یا یمنات کا استعمال ہوا رفتہ رفتہ بعد میں پورا علاقہ یمنت سے یمن ہوگیا۔

300ء؁ کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور قوم سبا کی تباہی کا دور ہے اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی مداخلت کا زور ہوا جس کی بنا پر ان کی معیشت برباد ہوگئی زراعت نے دم توڑ دیا۔ 340ء؁ سے378ء؁ تک حبشیوں نے یمن کی حالت اور بھی تباہ کردی۔ اس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے، ترجمہ ''آخر کا ر ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا۔'' (سبا آیت16) لکھا ہے کہ اس سیلاب کی وجہ سے جو آبادی منتشر ہوگئی تھی وہ پھر آج تک مجتمع نہ ہوسکی۔ آبپاشی اور زراعت کا جو نظام درہم برہم ہوا وہ اب تک بحال نہ ہو سکا۔

523ء؁ میں یمن پر یہودی حکومت قائم ہوگئی۔ یہودی بادشاہ ذوالنواس نے بخران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن حکیم میں اصحاب الاخدود کے نام سے کیا گیا ہے۔ فرمایا ترجمہ''خندقوں والے ہلاک کئے گئے۔ ''(بروج آیت14) ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ایمان لانے والوں کو آگ کے بڑے گڑھوں میں یعنی خندقوں میں پھینکا تھا جن کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ528ء؁ میں پیش آیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد نجاشیوں نے یمن پر حملہ کرکے ذوالنواس اور اس کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔

یمن کے ایک حبشی وائسرائے ابرہہ نے کعبے کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کے لیے570ء؁ میں آنحضور ؐ کی پیدائش سے چند روز قبل مکہ معظمہ پر حملہ کردیا۔ ابرہہ کی فوج پر وہ تباہی آئی جس کا ذکرقرآن حکیم میں اصحاب الفیل کے نام سے آیا ہے، ترجمہ ''کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا، ان کے مکر کو بے کار نہیں کردیا اور ان پر پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ بھیج دیے جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔ پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔''(سورۂ فیل) اس واقعے کی تفصیل سورۂ فیل کی تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔

یمن سے شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم ہوتی جا رہی تھیں۔ انہی حدود میں ان کے تجارتی قافلے سفر کیا کرتے تھے۔ ایک ہزار برس تک یہ قوم مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ان کی بندرگاہوں میں چین کا ریشم انڈونیشیا اور مالابار کے گرم مسالے، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام، بندر اور شتر مرغ کے پَر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے، جہاں سے روم اور یونان تک یہ مال روانہ کیا جاتا تھا۔

خود ان کے علاقے میں لوبان، عود، عنبر اور مشک پیدا ہوتے تھے، غرض ہر خوشبودار شے یہاں کی پیداوار تھی، جسے مصر، شام، روم یونان ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ اسٹرابو لکھتا ہے کہ یہ لوگ سونے اور چاندی کے ظروف استعمال کرتے تھے۔ ان کے مکانوں کی چھت اور درودیوار پر ہاتھی کے دانت لگے ہوتے تھے۔ پلینی کہتا ہے کہ ''روم اور فارس کی دولت ان کی طرف بَہی جا رہی تھی۔'' یہ لوگ جلانے کی لکڑی کے بجائے صندل اور دار چینی استعمال کرتے تھے۔ یہ اس وقت دنیا کی مال دار ترین قوم تھی، جس کا انجام نہایت ہی درد ناک ہوا۔ روئے زمین پر آج ایک بھی سبائی قوم کا فرد نہیں ملتا۔
Load Next Story